اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اہل اسلام ایک خاندان کی مانند ہیں اور قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آپؐ کی ازواج مطہراتؓ امت کی روحانی مائیں ہیں۔ اہل اسلام کی ان عظیم ماؤں نے اپنے اقوال و افعال، عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار سے امّت کی تربیّت کی ہے۔ انھی میں سے ایک عظیم المرتبت، عظیم النسبت اور جلیل القدر ماں جناب سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بھی تھیں۔
آپ کا نام عائشہ بنت ابوبکر صدیقؓ اور والدہ کا نام اُم رومان ہے۔ آپؓ کا لقب صدیقہ اور حمیرا، جب کہ آپؓ کا قرآنی اعزاز ’’اُم المومنین‘‘ ہے۔ اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کا بچپن بہت خوش گوار گزرا۔ چاق و چوبند ہونے کے ساتھ بے پناہ صلاحیتوں نے آپؓ کی شخصیت کو خوب نکھارا۔ علم و ادب سے گہری وابستگی، فطری حاضر جوابی، ذکاوت و ذہانت، مذہبی واقفیت اور غیر معمولی قوّت حافظہ کی وجہ سے آپؓ دیگر اپنی ہم جولیوں سے ممتاز حیثیت رکھتی تھیں۔
آپؓ کی فضیلت و منقبت ہر لمحہ رُو بہ عروج رہی۔ جہاں آنکھ کھولی وہ گھر صداقت کا گہوارہ تھا اور جہاں جا کر ازدواجی زندگی بسر کی وہاں نبوتؐ کا بسیرا تھا۔ حضرت خولہ بنت حکیمؓ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ آپؐ نکاح فرما لیں۔ آپؐ نے پوچھا: کس سے؟ حضرت خولہؓ نے جواب دیا کہ اگر بیوہ سے شادی کے خواہش مند ہیں تو حضرت سودہ بنت زمعہؓ موجود ہیں اور اگر کسی کنواری سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ابُوبکرؓ کی صاحب زادی عائشہؓ موجود ہے۔ آپؐ نے حضرت خولہؓ سے فرمایا کہ چلو تم بات کر دیکھو۔ حضرت خولہؓ سیّدہ ام رومانؓ کے پاس گئیں اور کہا: آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کے لیے پیغام نکاح دیا ہے۔
ام رومانؓ بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ ابُوبکرؓ کا انتظار کر لینا چاہیے۔ سیدنا ابُوبکرؓ تشریف لائے تو انہیں سارا معاملہ بتایا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ محمد ﷺ تو میرے منہ بولے بھائی ہیں، اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہ ان کی بھتیجی ہوئی۔ بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے ؟ حضرت خولہؓ نے آپ ﷺ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے دینی بھائی ہیں، لہذا نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سعادت پر لبّیک کہا۔ چناں چہ آپ ﷺ تشریف لائے اور حضرت ابوبکرؓ نے نکاح کر دیا۔ نکاح کے کچھ عرصے بعد تک آپؓ میکے میں رہیں۔ بالآخر ہجرت کے بعد آپؓ مدینہ طیبہ تشریف لے گئیں اور وہاں آپؓ کی رخصتی ہوئی۔ آپ ﷺ نے امہات المومنینؓ سے جو ازدواجی سلوک کا سبق امت کو دیا ہے، بالخصوص سیّدہ عائشہؓ کے ساتھ نرمی شفقت اور تربیت کا برتاؤ، وہ ہم سب کے لیے قابل عمل نمونہ ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے ازراہ محبت سیدہ عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگانے کو کہا، چناں چہ جب دوڑ لگائی تو اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لیے از خود پیچھے رہ گئے اور سیدہ عائشہ پہلے پہنچ گئیں۔ ایک مرتبہ کسی سفر سے واپسی پر نبی کریمؐ نے پھر دوڑ لگانے کا کہا، اس بار آپؐ مقررہ جگہ تک جلدی پہنچ گئے اور فرمایا یہ ادلے کا بدلہ ہے۔ باہم خوش مزاجی کے ایسے واقعات ہیں کہ اگر ہمارے گھریلو نظام زندگی میں ان کو اپنا لیا جائے تو گھروں میں پروان پاتی رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں اپنی موت آپ مر جائیں اور خوشیوں سے گھر جنّت کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا۔ معلم انسانیت ﷺ نے نُور علم سے جن ہستیوں کو فیض یاب کیا ان میں سیدہ عائشہؓ بھی ہیں۔ آپؐ نے اپنی لاڈلی اور محبوب زوجہ کو دنیا کی سلیقہ مندی، آداب معاشرت، تہذیب و شائستگی سے شناسا بھی کرایا اور کتاب و حکمت اور فقہ و اجتہاد سے بھی آشنا کرایا۔ معاشرتی زندگی میں باہمی برتاؤ کا طریقہ اور نجی زندگی میں فکر آخرت کی دولت بھی عطا فرمائی۔
سیدہ عائشہؓ انتہاء درجے کی عبادت گزار تھیں۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریمؐ جب تہجد کے لیے اٹھتے تو آپؓ بھی اٹھتیں اور نماز تہجد ادا فرماتیں۔ چاشت کی نماز میں کبھی ناغہ نہ کرتیں۔ اکثر روزے سے ہوتیں۔ ایک دفعہ عرفہ کا دن تھا، آپؓ روزے سے تھیں، گرمی اس قدر سخت تھی کہ بار بار سر پر پانی ڈالتیں۔ آپؓ کے بھائی حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا جب اتنی گرمی تھی تو روزہ کیوں رکھا؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں بھلا یوم عرفہ کا روزہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں، جب کہ میں نے نبی کریمؐ سے خود سُنا ہے کہ عرفہ کے روزے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حج کی پابند تھیں، بہت کم ایسا ہوا کہ آپؓ نے حج نہ کیا ہو۔ آپؓ نے کثرت کے ساتھ غلاموں کو آزاد کیا۔ شرح بلوغ المرام میں ہے کہ آپؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ حاجت مندوں کا بہت خیال فرماتیں۔ مالی صدقہ کثرت سے دیتیں۔ فقراء اور مساکین کو بہت نوازتیں۔ ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھتیں۔
فضائل و مناقب:
مستدرک حاکم اور طبقات ابن سعد میں ہے کہ خود سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’نو باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔ خواب میں فرشتے نے آپؐ کے سامنے میری صورت پیش فرمائی، سات سال میں میرے ساتھ اﷲ کے نبیؐ نے نکاح فرمایا، نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی، امہات المومنینؓ میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی، امہات المومنینؓ میں سے صرف میرے بستر پر قرآن کریم نازل ہوتا، مجھے آپؐ کی محبوب ترین بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے، میرے حق میں قرآن کریم کی آیات اتریں، میں نے جبرئیل امینؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، رسول اﷲ ﷺ نے میری گود میں سر رکھے وفات پائی۔‘‘
علمی کمالات:
جامع الترمذی میں حضرت ابُو موسیٰ اشعریؓ کی روایت موجود ہے کہ ہم اصحاب محمد ﷺ کو جب کوئی مشکل بات پیش آ جاتی تو ہم حضرت عائشہؓ سے رجوع کرتے وہ ہماری راہ نمائی فرماتیں۔ مستدرک حاکم میں حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کا فرمان موجود ہے کہ سیدہ عائشہؓ سب سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والی، لوگوں میں زیادہ علم رکھنے والی اور دینی معاملات میں سب سے بہتر رائے دینے والی تھیں۔
امام ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ سے بڑے بڑے صحابہ کرامؓ دین کے بارے میں سوالات کرتے آپؓ ان کو جواب عنایت فرماتیں۔ امام زرقانی نے حاکم و طبرانی سے بہ سند صحیح نقل کیا ہے کہ عروہ بن زیبرؓ فرماتے قرآن، علم میراث، حلال و حرام، فقہ و اجتہاد، شعر و ادب، حکمت و طب، تاریخ عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام سخاویؒ نے فتخ المغیث میں سیدہ عائشہؓ سے مرویات کی تعداد 2210 بتا کر کے آپؓ کو کثیرالروایۃ صحابہؓ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
پاک دامنی کی قرآنی شہادت:
سیدہ عائشہؓ کے زندگی کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جو حوادثات کہلاتے ہیں۔ دشمنان اسلام منافقین نے آپؓ کی عفت پاک دامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عرف عام میں واقعہ افک کہا جاتا ہے، یہ بہت دل خراش سانحہ تھا، کئی دنوں کے صبر و استقلال کے بعد بالآخر اﷲ رب العزت نے آپؓ کی پاک دامنی پر قرآنی مہر ثبت کردی۔ جو کہ قرآن کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
وفات: 58 ہجری رمضان المبارک کی17 تاریخ کو آپؓ سخت بیمار ہوئیں۔ امام ابن سعد نے لکھا ہے کہ کوئی خیریت دریافت کرنے آتا تو فرماتیں کہ اچھی ہوں۔ عیادت کرنے والے بشارتیں سناتے تو جواب میں کہتیں: ’’اے کاش! میں پتھر ہوتی۔ کبھی فرماتیں کہ اے کاش! میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی۔‘‘ نماز وتر کی ادائی کے بعد آپؓ اِس جہاں سے اُس جہاں کو کوچ فرما گئیں۔ سیدنا ابُوہریرہؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا۔ آپؓ کے بھانجوں اور بھتیجوں قاسم بن محمد بن ابُوبکرؓ، عبداﷲ بن عبدالرحمٰن بن ابُوبکرؓ، عبداﷲ بن عتیقؓ، عروہ بن زبیرؓ اور عبداﷲ بن زبیرؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری زوجہ اور امت کے مومنین کی ماں کو لحد میں اتارا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فرمایا کہ حضرت خولہ کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ‘ مغفرت
اللہ تعالی نے رمضان المبارک کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے`اس مہینے میں رحمت‘ مغفرت اور جہنم سے آزادی کو مسلمانوں کے لئے عام کر دیا جاتا ہے اور جو لوگ نیک کام کرتے ہیں وہ فائدے میں رہتے ہیں اور برائی کرنے والے اور دور ہو جاتے ہیں۔
رمضان کا دوسرا عشرہ آپﷺ نے فرمایا مغفرت ہے‘ یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش عام ہو جاتی ہے اور جو لوگ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں اور اپنے گناہوں پر نادم ہوتے ہیں‘ اللہ ان کی مغفرت کر دیتا ہے اور توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے اور اس مبارک مہینے میں تو ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور جو اس مہینے میں بھی مغفرت سے محروم رہ جائے تو بدنصیبی نہیں ہے تو کیا ہے۔آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جائو ‘ حضرت کعب فرماتے ہیں ہم لوگ حاضر ہوگئے جب آپﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین‘ جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین‘ جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین‘ جب آپﷺ خطبے سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے (منبر پر چڑھتے وقت) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے(جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی میں نے کہا آمین‘ پھر جب میں نے دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپﷺ کا ذکر ہوا اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا آمین‘ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں میں نے کہا آمین۔
اس حدیث میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تین بددعائیں کی ہیں اور آپﷺ نے ان تینوں پر آمین فرمائی اور پہلا وہ شخص ہے جو رمضان المبار ک کے مہینے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے اور رمضان کا مہینہ ضائع کر دے اور توبہ نہ کرسکے اور نہ تلاوت تراویح پڑھ سکے تو اس سے بڑا محروم کون ہوگا‘توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
حضرت ابولیلث سرفندی نے تنیبہ الفافلین میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ پانچ باتوں کی وجہ سے قبول ہوئی اور شیطان کی توبہ پانچ باتوں کی وجہ سے رد کر دی گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کے اسباب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اقرار کیا‘ ‘اس پر شرمندہ ہوئے‘ جلدی سے توبہ کی طرف متوجہ ہوئے‘ اپنے نفس کو ملامت کیا‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے اور شیطان کی توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب‘ اپنے گناہ کا اقرار نہ کیا‘ اپنے فعل پر شرمندہ نہ ہوا‘نفس کی ملامت نہ کی (تکبر مانع رہا) ‘ توبہ کرنے میں جلدی نہ کی(بلکہ اللہ کے مقابلے میں اکڑتا رہا)‘اللہ کی رحمت سے مایوس ہوگیا۔
میرے بھائیو!رمضان المبارک کا مقدس مہینہ کہیں چینل دیکھنے میں نہ گزر جائے’ تلاوت ‘توبہ‘ذکر اذکار ‘مراقبہ اس میں وقت لگانے کی کوشش کیجئے رمضان کا دوسرا عشرہ گزر رہا ہے اور یہ خصوصی مغفرت کا عشرہ ہے‘کہیں ایسا نہ ہو کہ مغفرت سے محروم رہ جائیں‘ اللہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو توبہ کرنے کی توفیق نصب فرمائیں۔
روزے کی تعریف‘ شریعت میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے’ پینے اور جماع وغیرہ سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔روزہ کا مقصد‘ روزہ کا مقصد انسان کے نفس کی اصلاح ہے قرآن کریم میں روزہ کے تین مقاصد بیان کئے گئے ہیںتاکہ تم پرہیز گار ہو جائو‘تاکہ تم شکر ادا کرو‘ تاکہ وہ (روزہ دار) نیک راستہ پر لگ جائیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ ’’ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکو ٰۃ روزہ ہے‘‘ (ابن ماجہ) فرمان نبویﷺ ہے کہ ’’اگر لوگوں کو روزہ (رمضان) کے ثواب کی حقیقت معلوم ہو جائے تو یہ تمنا کرنے لگیں کہ سارا سال رمضان ہی ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’ساری عبادتوں کا دروازہ روزہ ہے‘‘ روزہ کی وجہ سے قلب منور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عبادت کی رغبت پیدا ہوتی ہے مگر یہ تب ہے کہ روزہ بھی روزہ ہو۔روزہ دار کو اللہ تعالیٰ ہر دن ایک ایسا وقت عطا فرماتا ہے جس میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں اور یہ وقت افطار کا ہے‘ اللہ کے دربار میں اس وقت کی کیفیت خصوصی مقبولیت رکھتی ہے۔ عین اس لمحے جب روزہ افطار کیا جاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی دعائیں منقول ہیں۔ رمضان المبارک کی آخری رات میں دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ دوزخ سے اتنے آدمیوں کو نجات عطا فرماتا ہے جتنا کہ پورے رمضان میں عطا فرماتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اختتام رمضان پر تمام شہروں میں ایک مراسلہ روانہ فرماتے جس میں لوگوں کو استغفار اور صدقہ فطر کی تاکید کی جاتی کیونکہ صدقہ فطر روزہ دار سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے اور استغفار، روزہ میں واقع ہونے والی کمیوں کے ازالہ کا سبب ہے اور ساتھ یہ تلقین کرتے، لوگو تم بھی اپنے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کی طرح اپنے رب کے حضور ان کلمات سے معافی مانگو۔ ربنا ظلمنا انفسنا و اِن لم تغفِرلنا و ترحمنا لنکونن مِن الخاسِرِین(الاعراف۳۲) ترجمہ : اے ہمارے رب ہم نے اپنی ذاتوں پر ظلم کیا اور اب اگر آپ معاف و رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم گھاٹے والے ہیں۔