Express News:
2025-03-18@05:55:14 GMT

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں میں تقسیم تھا‘ قلات سب سے بڑی ریاست تھی‘ اس کے پاس بلوچستان کا 20 فیصد رقبہ تھا جب کہ باقی 80 فیصد علاقہ خاران‘ بیلا‘ مکران اور برٹش بلوچستان میں تقسیم تھا‘ قلات ریاست 1405 میں بنی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی حدود افغانستان میں قندہار‘ ایران میں بندر عباس اور کرمان تک پھیل گئیں‘ کراچی بھی اس کا حصہ ہوتا تھا‘ اس زمانے میں قلات میں بلوچ اور براہوی دونوں قبائل آباد تھے لہٰذا قلات کو بلوچ براہوی سلطنت کہا جاتا تھا‘ انگریز نے 1876میں کوئٹہ پر قبضہ کیا اور یہاں چھاؤنی بنا لی‘انگریز نے بعدازاں کوئٹہ سے ملحقہ علاقے خان آف قلات سے لیز پر لے لیے اور یوں برٹش بلوچستان وجود میں آ گیا۔

 بلوچستان کا نام اس سے قبل تاریخ میں موجود نہیں تھا‘ انگریز کا فوکس پشتون علاقوں کی طرف تھا لہٰذا وہ افغان سرحد کے ساتھ ساتھ پشتون علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے چلے گئے‘ کوئٹہ کے بعد زیارت اور فورٹ سنڈیمن ان کے بڑے مرکز تھے‘ ڈیرہ بگٹی‘ کوہلو‘ سبی‘ چاغی‘ لورا لائی اور پشین بھی ان میں شامل تھے‘ باقی تمام ریاستیں اور علاقے خودمختار رہے‘ بہرحال 1947میں انگریز نے ہندوستان کی 565 پرنسلی اسٹیٹس کی طرح بلوچستان کی ریاستوں کو بھی دو آپشن دیے‘ بھارت میں شامل ہوجائیں یا پھر پاکستان کے ساتھ مل جائیں‘ برٹش بلوچستان (یعنی کوئٹہ) نے جون 1947میں پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کر دی‘ نواب آف خاران نے لیڈ لی اور یہ پاکستان میں شامل ہو گئے۔

 چند دن بعد ریاست بیلا اور مکران بھی پاکستان میں شامل ہو گئی یوں قلات پیچھے رہ گئی‘ خان آف قلات میر احمد یار خان اپنے سرداروں کو قائل کر رہے تھے لیکن اس میں بہت وقت ضایع ہو گیا‘ اس دوران آل انڈیا ریڈیو نے قلات کے بھارت میں شامل ہونے کی خبر نشر کر دی‘ اس سے افراتفری پھیل گئی‘ خان آف قلات نے قائداعظم سے ملاقات کی اور 30 مارچ 1948 کو پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا‘ اس اعلان میں ان کا خاندان اور دوسرے سرداروں کی رضامندی شامل نہیں تھی چناں چہ میر احمد یار خان کے بھائی پرنس عبدالکریم خان نے بلوچستان نیشنل لبریشن کمیٹی (بی این ایل سی) کے نام سے گوریلا تنظیم بنائی اور بغاوت شروع کر دی۔

 پاکستان نے بی این ایل سی کو کچلنے کے لیے بلوچستان میں فوج داخل کر دی اور اس کے بعد بلوچستان میں کبھی امن قائم نہ ہو سکا‘ اس زمانے میں مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ تھا‘ باقی صوبے چھوٹے تھے چناں چہ الیکشن کی صورت میں مشرقی پاکستان کے ایم این اے زیادہ تعداد میں اسمبلی آ جاتے تھے اور یوں حکومت بنگالیوں کے پاس چلی جاتی تھی اور یہ اسٹیبلشمنٹ کو سوٹ نہیں کرتا تھا چناں چہ سکندر مرزا کے دور میں ون یونٹ بنا دیا گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان ایک صوبہ اور باقی چار صوبے مل کر دوسرا صوبہ بن گئے‘ بلوچستان نے اسے تسلیم نہیں کیا اور یوں یہاں دوسری مرتبہ بغاوت شروع ہو گئی‘ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان نے بلوچستان میں دوسری مرتبہ فوج چڑھا دی‘ قلات پر قبضہ ہو گیا اور خان آف قلات کا محل لوٹ لیا گیا‘ اس کے بعد پے در پے آپریشن ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ نوبت جعفر ایکسپریس پر قبضے تک پہنچ گئی۔

ہمیں آگے بڑھنے سے قبل دو حقیقتوں کا ادراک کرنا ہوگا‘ پہلی حقیقت بلوچستان کی جغرافیائی صورت حال ہے‘ بلوچستان ایک بنجر اور بیابان علاقہ ہے جس کی وجہ سے ماضی میں یہاں کسی بڑی طاقت نے قبضے کی کوشش نہیں کی‘ سکندر اعظم سے لے کر برطانیہ تک کبھی کسی بڑی فوج نے یہاں سے گزرنے کی غلطی نہیں کی‘ اس کی وجہ چارے‘ پانی اور خوراک کی کمی تھی‘ ماضی میں فوجیں گھوڑوں پر سفر کرتی تھیں اور گھوڑوں کو چارہ اور پانی درکار ہوتا تھا اور بلوچستان میں یہ دونوں نہیں تھے لہٰذا بلوچستان کو ماضی میں کسی بڑی یلغار کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ تمام طاقتوں بشمول مغل اور برطانیہ انھیں آزاد تسلیم کرتے رہے اور انھیں ایران اور افغانستان کے بفرزون کی حیثیت سے وظیفہ بھی دیتے رہے اور یہ مجبوری بلوچوں کے ڈی این اے کا حصہ بن چکی ہے۔

یہ جانتے ہیں ہم پر کوئی حملہ آور ہو گا اور نہ مستقل طور پر یہاں رہ سکے گا چناں چہ یہ ہمیشہ دوسروں کی اس کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں‘ دوسری حقیقت ایران کی صفوی حکومت سے لے کر دہلی کے مغلوں اور روس کے زاروں سے لے کر تاج برطانیہ کے نمایندوں تک ماضی کی تمام حکومتیں اور بادشاہ بلوچستان کے سرداروں سے ڈیل کرتے رہے ‘ یہ سرداروں کو دے دلا کر راضی کرلیتے تھے اور یوں بلوچستان ان کے ہاتھ میں رہتا تھا‘ انگریز نے بھی خان آف قلات سے ہزاروں مربع میل کا علاقہ کرائے پر لے رکھا تھا اور یہ انھیں اس کا کرایہ دیتے تھے چناں چہ بڑی طاقتوں اور حکومتوں سے وصولی سرداروں کے ڈی این اے میں شامل ہو گئی ہے۔

 حکومت پاکستان بھی یہ غلطی کرتی رہی‘ اس نے ہر دور میں سرداروں کو ہاتھ میں رکھا‘ یہ کبھی ایک سردار کو اقتدار دے کر دوسروں کو کنٹرول کرتی تھی اور کبھی دوسرے سرداروں کو آگے لا کر پہلے سرداروں کو قابو کر لیتی تھی‘ بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کی پوری اسمبلی کابینہ میں شامل ہوتی ہے‘ تمام ایم پی اے وزیر ہوتے ہیں‘ اپوزیشن لیڈر نام کا ہوتا ہے اور یہ بھی صرف پروٹوکول انجوائے کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

 صوبے کا ترقیاتی بجٹ بھی یہ سب آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں‘ آپ المیہ دیکھیے عبدالقدوس بزنجو صرف 544 ووٹ لے کر ایم پی اے بنے (ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹ 57666 تھے) اور یہ ان 544 ووٹوں کے ذریعے بعدازاں وزیراعلیٰ بن گئے‘ لوگ انھیں سلیپنگ وزیراعلیٰ کہتے تھے کیوں کہ یہ اپنی شبینہ مصروفیات کی وجہ سے دن بارہ بجے اٹھتے تھے اور اس کے بعد اگلی مصروفیات کا بندوبست شروع کر دیتے تھے اور یہ کھیل بلوچستان میں ہزار سال سے جاری ہے یعنی سرداروں کو ہاتھ میں رکھیں‘ ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں اور سسٹم چلاتے رہیں‘ اس بندوبست میں سردار امیر سے امیر ہوتے چلے گئے جب کہ عوام غریب سے غریب ہوتے چلے گئے۔

آپ یہاں دوسرا المیہ بھی دیکھیے‘ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ بی ایریا کہلاتا ہے‘ اس ایریا میں پولیس نہیں ہے‘ لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری لیویز کے پاس ہے اور یہ لیویز سرداروں اور نوابوں کی ذاتی فوج ہوتی ہے‘ سردار حکومت کے ساتھ سودا کرتے ہیں‘ آپ ہمیں ہزار فوجیوں (لیویز) کی تنخواہوں اور رہائش کے اخراجات دے دیں اور ہماری فوج (لیوی) لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری اٹھا لے گی‘ حکومت انھیں رقم دے دیتی ہے اور یہ حکومت کو اپنی لیوی کی فہرست دے دیتے ہیں اور یوں یہ رقم سیدھی سردار کی جیب میں چلی جاتی ہے‘ یہ رقم 90 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے چناں چہ اگر یہ کہا جائے بلوچستان کے صرف دس فیصد علاقے (اے ایریا جہاں پولیس ہے) پر حکومتی رٹ موجود ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ اب صورت حال یہ ہے بلوچستان کے صرف دس فیصد علاقے میں پولیس ہے۔

 90فیصد علاقہ سرداروں اور ان کی قبائلی فوج کے قبضے میں ہے اور اسمبلی اور حکومت بھی ان کی جیب میں ہے‘ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبے کو پچھلے دس برسوں میں ہزاروں ارب روپے ملے لیکن یہ رقم عام بلوچ پر خرچ نہیں ہوئی‘ یہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو گئی‘ سردار ایک دوسرے کو گرا کر حکومت حاصل کرنے کی کوشش میں بھی مصروف رہتے ہیں‘ ہم اگر 1973سے آج تک کا ڈیٹا دیکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے بلوچستان میں اقتدار کی باقاعدہ بندر بانٹ ہوتی ہے‘ سرداروں کے مختلف گروپ سال یا دو سال کی دیہاڑی لگاتے ہیں‘ ایک گروپ اقتدار میں آتا ہے‘ صوبے کو دل کھول کر لوٹتا ہے‘ اس کے بعد رخصت ہو جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ دوسرا گروپ آ جاتا ہے اور رہی سہی دیگ وہ کھا جاتا ہے۔

 ریاست بڑی حد تک اس کھیل کا حصہ ہے‘ یہ خاموشی سے یہ کھیل دیکھتی ہے اور اگر خدانخواستہ کبھی کھیل رک جائے تو یہ  اس میں کود کر اسے دوبارہ اسٹارٹ کرا دیتی ہے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا بلوچستان میں فرسٹریشن پھیل گئی۔بلوچستان میں اس فرسٹریشن کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ بلوچستان پاکستان کے اہم علاقوں سے کٹا ہوا تھا‘ عام بلوچ کو لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کی ترقی کا اندازہ نہیں تھا لیکن جب موبائل فون آیا اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا آ گیا تو محروم بلوچ نوجوانوں کو معلوم ہوگیا بلوچستان کے خشک پہاڑوں کی دوسری طرف جنتیں آباد ہیں‘ اس سے ان کے اندر کی محرومی بڑھ گئی‘ دوسری وجہ مواصلاتی ذرایع میں اضافہ تھا‘ جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان میں سڑکیں بنیں‘ کوسٹل ہائی وے کے ذریعے بلوچستان کو سندھ سے ملا دیا گیا۔

 کے پی اور پنجاب کے ساتھ رابطہ سڑکیں بھی بہتر ہوگئیں لہٰذا بلوچ نوجوانوں کو ملک کے دوسرے علاقے دیکھنے کا موقع مل گیا یوں انھوں نے اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کر دی اور تیسری وجہ بلوچ سرداروں کو محسوس ہوا یہ نوجوان جلد یا بدیر ہم سے سوال کرنا شروع کر دیں گے چناں چہ انھوں نے ان کے سوالوں کو ریاست‘ فوج اور پنجاب کی طرف موڑ دیا‘ یہ انھیں خود کہنے لگے آپ فوج‘ پنجاب اور ریاست سے پوچھیں‘ ہمارے حصے کی نوکریاں اور ترقی کہاں ہے؟ نوجوان سادے تھے لہٰذا انھوں نے سرداروں اور اپنے سیاست دانوں سے پوچھنے کے بجائے ریاست سے پوچھنا شروع کر دیا اور یہ صورت حال بھارت کو سوٹ کرتی تھی لہٰذا یہاں سے بھارت بلوچستان میں کود گیا۔   (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلوچستان میں بلوچستان کے میں شامل ہو خان آف قلات پاکستان کے سرداروں کو اس کے بعد ہے اور یہ چناں چہ کے ساتھ اور یوں جاتا ہے چلے گئے تھے اور اور اس ہو گئی

پڑھیں:

دہشت گردی اور بلوچستان

ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر فعال ہیں اوراپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔

گزشتہ روز کوئٹہ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا اور میڈیا کے سوالات کے جواب دیے۔

ترجمان پاک فوج نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جعفر ایکسپریس ٹرین حملے میں 354 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا ہے جب کہ 26 افراد شہید ہوئے ہیں، 37 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کے پاس کوئی یرغمالی مسافر نہیں ہے اور نہ ہی آپریشن کے دوران کوئی مسافر مارا گیا جو لوگ شہید ہوئے، انھیں دہشت گردوں نے آپریشن سے پہلے شہید کیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ انتہائی دشوار گزار علاقے اور راستے میں ہوا۔ دہشت گردوں نے 11 مارچ کو ایک بجے کے قریب دھماکے سے پٹڑی تباہ کرکے ٹرین کو روکا۔ دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں مسافروں کو لے کر باہر موجود تھے۔ دہشت گردوں پر ہماری فائرنگ کے نتیجے میں مغوی مسافروں کو فرارکا موقع ملا۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی واضح کیا کہ یہ آپریشن احتیاط سے کیا گیا، ضرار گروپ نے مغویوں کو خودکش بمباروں سے نجات دلائی جو ٹولیوں کی شکل میں تھے۔

دہشت گردوں نے یہ سب بڑی منصوبہ بندی سے کیا تھا، انھیں اپنے سرپرستوں کی پوری مدد حاصل تھی اور وہ افغانستان میں موجود اپنے سرغنوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ جو چاہتے تھے، وہ اس میں ناکام رہے۔

ان کا یہ منصوبہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹرین کے تمام مسافروں کو کچھ دن تک یرغمال رکھیں گے اور اپنے سرپرستوں کے پراپیگنڈا کی مدد سے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کریں گے لیکن مسافروں کی ہمت و دلیری اور فوج کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ان کا منصوبہ ناکام ہوگیا اور انھیں بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔

میڈیا کی اطلاع میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے بچوں اور خواتین کو ٹرین کے اندر رکھا، دہشت گردوں نے چوکی پر حملہ کرکے تین ایف سی جوان شہید کیے، ان کے پاس غیرملکی اسلحہ تھا۔ پورے آپریشن میں کسی مغوی کی جان نہیں گئی، جو شہید ہوئے، وہ پہلے ہوئے۔ اس وقت بھی جائے وقوعہ کے اطراف میں پہاڑیوں اور غاروں کی سینی ٹائزیشن جاری ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا اس واقعے کا سرا افغانستان سے ملتا ہے، وہاں سے خودکش بمبار آتے ہیں۔ انھوں نے تین دہشت گردوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کا ایک دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کے دوران مارا گیا تھا ، اس کا نام بدر الدین تھا اور وہ افغانستان کے صوبے باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا تھا۔

اسی طرح ایک اور خارجی مجیب الرحمان افغان آرمی میں بٹالین کمانڈر تھا ۔ بنوں واقعے میں بھی افغان دہشت گرد مارے گئے تھے۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی حکومت کی ناک کے نیچے یہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔

انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل درآمد کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم رواں سال اب تک 11 ہزار 654 آپریشن کر چکے، اوسط نکالیں تو یہ 180 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن یومیہ بنتے ہیں۔

2024 اور 2025کے دوران 1250 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، ہمارے563 جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل فعال ہیں، اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر ان 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد مل رہی ہے، وہاں دہشت گردی کے مراکز ہیں اور دہشت گردوں کی قیادت بھی وہاں مقیم ہے۔ دہشت گرد وہاں بھرتی کیے جاتے اور تیار ہوتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ امریکا، افغانستان سے گیا تو اپنا اسلحہ چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے پاس ہے ۔ یہ تو اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ امریکی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، امریکی صد ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس کر دیں۔

اس کے علاوہ امریکا نے افغانستان کی حکومت کی امداد بھی بند کر دی ہے۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی واضح کیا کہ ریاست اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، ڈالر، کرنسی، پٹرول، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور دیگر اسمگلنگ روکی جا رہی ہے جو اربوں ڈالرز میں ہے مگر مافیاز ایسا نہیں چاہتے۔

وہ عرصے سے ملک کھوکھلا کرنے میں لگے ہیں، انھیں روکا جارہا ہے تو مزاحمت کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر سرفراز بگٹی نے کہا بی ایل اے اور افغان دہشت گرد دو الگ گروہ ہیں، ان کے نظریات بھی الگ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کر رہا ہے؟ انھیں تربیت اور پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہینڈلر انھیں اکٹھا کرتے ہیں، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی مگر ہم نے ہمیشہ اس کی مدد کی، لاکھوں مہاجرین کو بسایا مگر انھوں نے ہمارے ہاں دہشت گردی کی۔

افغانستان وعدے پورے نہیں کر رہا۔ اے پی پی کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا جعفر ایکسپریس پر سفر کے لیے 428  ٹکٹ جاری ہوئے تاہم 100 فیصد ٹکٹ ہولڈرز نے سفر نہیں کیا۔ تعداد میں اس لیے فرق آرہا ہے کیونکہ 80فیصد ٹکٹنگ کمپوٹرائزڈ اور 20 فیصد مینوئل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ سفرنہیں کرتے، کچھ پہلے اتر جاتے ہیں یا کسی کا سفر اگلے اسٹاپ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کچھ لوگ جب بھاگے ہوں تو بھٹک گئے ہوں اور دہشت گردوں کے ہتھے دوبارہ چڑھ گئے ہوں۔ کل بھی ایف سی چیک پوسٹ پر دو لوگ آئے اور بتایا بھاگنے کے بعد راستہ بھول گئے تھے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کو جعفر ایکسپریس سانحے، دہشت گردی، بلوچستان کے مسائل اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ارکان اسمبلی نے بلوچستان میں بدامنی، بیروزگاری اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جب کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اپوزیشن نے حکومت پر معیشت اور سیکیورٹی پالیسیوں میں ناکامی کے الزامات لگائے، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کا ذمے دار صوبائی حکومتوں کو ٹھہرایا۔

پاکستان کا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت کلیدی ہے۔ بلوچستان کی یہی حیثیت مقامی شرپسند قوتوں اور ’’فارن ایکٹرز‘‘ کے اتحاد کا باعث ہے۔ بلوچستان میں حال ہی میں معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں خصوصاً سونے کے ذخائر بہت بڑی مقدار میں ہیں۔

تیل کے ذخائر بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے بھی بہت سی قوتوں کو بلوچستان کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ بلوچستان سینٹرل ایشیا کا دروازہ ہے۔ جیسے جیسے بلوچستان ترقی کرتا جائے گا، افغانستان کی حیثیت کم ہوتی چلی جائے گی۔

گوادر بندرگاہ نے بلوچستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے افغانستان اور غیرممالک میں بیٹھی افغان نژاد اشرافیہ پاکستان کے مقامی شرپسندوں سے مل کر منفی پروپیگنڈا کر رہی ہے۔

افعانستان کی ہر حکومت اس کام میں شامل رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو اب اپنی سرحدوں کے میکنزم کو زیادہ سخت اور فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت کو قانونی میکنزم کے ذریعے انجام پانا چاہیے۔

غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قیام امن اور ان صوبوں میں معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ قانون کے مطابق تجارت ہو تو صوبائی حکومتوں کو بھی اچھا خاصا ریونیو ملے گا۔ وفاقی حکومت کو بھی ریونیو حاصل ہو گا۔

غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی ماحول سازگار بن جائے گا جب کہ سیاحت کے لیے بھی ماحول بہتر ہوتا چلا جائے گا۔ دہشت گردوں کے سہولت کار اور ماسٹر مائنڈز بڑی چالاک گیم کھیل رہے ہیں۔ اس گیم کو ناکام بنانے کے لیے ملک کے اندر موجود شرپسندوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بیخ کنی انتہائی ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان میں کسی گرینڈ آپریشن کی ضرورت نہیں، رانا ثناء اللہ
  •  نیوزی لینڈ نے پہلا ٹی 20 نو وکٹوں سے جیت لیا
  • پہلے پاکستانی بیٹرز ناکام، پھر بولرز کی پٹائی، نیوزی نے پہلا ٹی 20 نو وکٹوں سے جیت لیا
  • پہلا ٹی 20: بیٹنگ چلی نہ باؤلنگ، پاکستان کو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 9 وکٹوں سے شکست
  • کرائسٹ چرچ، پہلا ٹی 20، پاکستان کی 4 وکٹیں 11 رنز پر گر گئیں
  • پاکستان ، نیوزی لینڈمیں پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل آج کھیلا جائیگا
  • دہشت گردی اور بلوچستان
  • بلوچستان اور وقت کا تقاضا
  • پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلا ٹی20 کل کھیلا جائے گا