نیشنل ایکشن پلان ٹو کے خد و خال
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
آج کل دہشت گردی کی لہر تیز ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے بعد سیکیورٹی اداروں کے قافلے پر نوشکی میں بھی حملہ ہوا ہے۔خیبرپختونخوا میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
میں سیاسی قیادت کی بات نہیں کر رہا لیکن سب پاکستانی دہشت گردی سے تنگ ہیں۔ وہ کسی بھی حال میں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔مجھے پاکستان کے عوام میں دہشت گردی کی لہر کے خاتمہ کے لیے ایک قومی یکجہتی اور یکسوئی نظر آئی ہے۔لوگ حکومت اور پاک فوج سے امید رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدام کریں گے۔حالیہ دہشت گردی کی لہرکے بعد پارلیمان کا قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے ایک اے پی سی بلانے کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ قومی سلامتی کے اجلا س کے بعد اے پی سی بھی ہو جائے گی۔ ویسے یہ بھی ایک اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے اے پی سی میں پارٹی بانی کی شرکت کی شرط رکھنے کی وجہ سے بھی قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا ہے تا کہ معاملات وہیں حل کیے جائیں۔ لیکن پھر جو جماعتیں پارلیمان میں نہیں ہیں لیکن ان کا سیاسی اثر ہے انھیں بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ بلاول بھٹو نے نیشنل ایکشن ٹو کی بات کی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اگر سانحہ اے پی ایس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سب جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان بنا سکتے ہیں تو آج جب صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو کیوں نہیں بنا سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ بلاول کی بات میں وزن ہے اور معاملات جلد نیشنل ایکشن پلان ٹو کی طرف جانے چاہیے۔ اس ضمن میں ایک ایک دن کی تاخیر کی ملک و قوم کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک سوال ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر سے نبٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ٹو کیا ہو سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں آج ملک میں دہشت گردی جس نہج پر پہنچ گئی ہے،اس سے نمٹنے کے لیے ملٹری کورٹس دوبارہ قائم کرنا ہوں گی۔ ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار کے بارے میں بہت خدشات رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اب ان خدشات کو ختم کر کے یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے آج ملٹری کورٹس دوبارہ ناگزیر ہیں۔
ہمیں سیکیورٹی فورسز پر ہر قسم کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں لے جانا ہوگا۔ ویسے بھی دہشت گردی کے واقعات کے تمام مقدمات کو ملٹری کورٹس میں جانے کا طریقہ کار نکالنا ہوگا۔مجھے لگتا ہے کہ اس ضمن میں 27ویں آئینی ترمیم کے لیے سیاسی راہ کافی حد تک ہموار ہو چکی ہے۔ مجھے اس ضمن میں کوئی خاص رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ صرف تحریک انصاف چاہے گی کہ نو مئی کے مقدمات ملٹری کورٹس میں نہ چلے جائیں۔
انھیں اپنی فکر ضرور ہوگی۔ لیکن اس کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ پاکستان کا نظام عدل دہشت گردی کے سنگین مقدمات سننے کے قابل نہیں ہے۔ ان عدالتوں سے تو عام مجرم بچ نکلتا ہے، دہشت گردوں کی کیا بات ہے۔ اس لیے آج ملک میں دہشت گردی کی لہر جس نہج پر پہنچ گئی ہے ہمیں اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے ملٹری کورٹس دوبارہ بنانا ہوں گی۔ پہلے ہم نے جب ملٹری کورٹس بنائی تھیں۔ اس کا فائدہ ہوا تھا۔ لیکن عام عدالتوں سے اپیلوں میں دہشت گردوں کی رہائی پھر دیکھنے میں آئی تھی۔ اس بار مجھے لگتا ہے کہ دہشت گردوں کی اپیلیں بھی ملٹری کورٹس میں ہی سنی جانی چاہیے، اس لیے ترمیم کو ایسے بنانا چاہیے۔
دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں جن میں بلوچستان اور کے پی کے علاقہ شامل ہیں وہاں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے فوج کو مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔ یہ علاقے اور وہاں کا امن و امان فوج کے حوالے کرنا ہوگا۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نہیں چل سکتا۔ آپ خود کچھ نہ کریں‘ فوج کو مکمل اختیارات بھی نہ دیں اور ان سے امن قائم کرنے کی توقع بھی کریں۔ یہ ایک دہری حکمت عملی ہے۔ فوج کو آئین کے تحت مکمل اختیارات دینا ہوںگے تا کہ کوئی ابہام نہ رہے۔ افغانوں کی واپسی کے لیے پارلیمان کی منظوری ضروری ہے تاکہ انھیں جبراً نکالنے کے لیے بھی اختیارات دیے جا سکیں۔
اس وقت تحریک انصاف، پاکستان سے افغانوں کو نکالنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس ضمن میں ایک پریس کانفرنس بھی کی ہے۔ لیکن یہ کوئی صوبائی معاملہ نہیں ہے۔ کس نے پاکستان میں رہنا ہے اور کس نے پاکستان میں نہیں رہنا ‘یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت کو انھیں نکالنے کے لیے ایک مربوط پالیسی بنانا ہوگی جس میں فوج کو خصوصی اختیارات دیے جائیں۔ اب جو آئینی ترمیم کی جائے اس میں افغانوں کو نکالنے کا روڈ میپ بھی شامل ہو۔ افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کو بڑ ے فیصلے کرنا ہوںگے۔
ہمیں افغانستان کے حوالے سے واضح فیصلے کرنا ہوں گے۔ایک ایسی افغان پالیسی جس کو صرف مقتدرہ کی ہی نہیں بلکہ پارلیمان کی منظوری بھی حاصل ہو۔ اب جو آئینی ترمیم کی جائے اس میں جن افغانوں نے کسی بھی طرح پاکستان کی شہریت حاصل کر لی ہے، اس کو بھی ختم کرنے کاآئینی اور قانونی راستہ نکالا جائے۔ہم امریکا میں دیکھیں وہ غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو کیسے نکال رہے ہیںبلکہ قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو بھی نکال رہے ہیں۔صدر ٹرمپ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر رہے ہیں‘ ہمیں بھی پارلیمان سے ان تمام افغان مہاجرین کو ایک مقررہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد غیر قانونی کا درجہ دے دینا چاہیے اور ان کے ساتھ غیر قانونی کا ہی سلوک کرنا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں پارلیمان کو فوج کو اختیار دینا چاہیے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گردی کے اڈوں کو نشانہ بنائے۔ اس ضمن میں سرجیکل اسٹرائیکس کی باقاعدہ پالیسی بنانا ہوگی۔اب تو کافی حد تک یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغان حکومت ان دہشت گردوں کے اپنے ملک میں موجود ٹھکانوں کو بھی ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس لیے پاکستان کو خود انھیں ختم کرنے کے لیے تیاری کرنا ہوگی۔ کیونکہ جب تک ہم اٖفغانستان میں ان ٹھکانوں کو ختم نہیں کریں گے تب تک پاکستان میں جتنے بھی اقدامات کر لیں سو فیصد نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ اشرف غنی حکومت نے اگر ان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے نہیں بھی کیا تھا تو ان کو جیلوں میں قید ضرور کر لیا تھا۔ افغانستان میں ان کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کی گئی تھیں۔ لیکن افغان طالبان نے اقتدار میں آکر ان کو رہا کیا اور مسائل دوبارہ پیدا ہو گئے۔لہٰذا افغانستان میں مسائل حل کرنے کے لیے بھی ایکشن کی منظوری ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دہشت گردی کی لہر ملٹری کورٹس میں ختم کرنے کے لیے دہشت گردی کے سے بھی گئی ہے فوج کو کے بعد اس لیے
پڑھیں:
تلخ نوائی پر معذرت
میرے دیس پر حملہ ہوا ہے ، میرے وطن کی سالمیت کو چیلنج کیا گیا ہے ، میری سرزمین پر میرے اپنوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور میں بے بس ہوں ، بے اختیار ، میری واحد شناخت ، میرا آخری حوالہ میرادین اور میرا وطن ہے ، آج دونوں دشمنوں کے حملوں کی زد میں ہیں،ضبط آخر کب تک ؟برداشت کہاں تک ؟دشمن کے غم خوار سہولت کار دندناتے پھرتے ہیں ، جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسے جاتے ہیں ،کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی روکنے والا نہیں ۔ ہمیں تو وزیر اعظم نے بھی مایوس ہی کیا کوئٹہ گئے بھی اور صرف مذمتی وتعزیتی بیانات تک محدود رہ گئے ۔ کاش کوئی انہیں بتائے کہ وہ وزیراعظم ہیں ، ان کاکام یہ بتانا نہیں کہ دہشت گردی ختم نہ ہوئی توملک ترقی نہیں کرے گا” ، بلکہ ان کی ذمہ داری دہشت گردی کا خاتمہ اور اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ دوبارہ کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کر سکے ۔ زخمیوں کی عیادت کرتے آبدیدہ ہونا کافی نہیں ، ان کا فرض ہے کہ فورسز کو ملک دشمنوں پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دیں ، اور انہیں وسائل فراہم کریں، مگر ا فسوس کہ وہ اس معیار پر پورا نہیں اتر پائے ۔
دہشت گرد رہے ایک طرف یہ فتنہ انتشار کو تو کوئی لگام ڈالے ، خواجہ آصف نے درست کہا کہ” دہشت گردی کے دوران بھارت ، بی ایل اے اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ایک پیج پر تھے ۔” یہ الگ بات کہ انہوں نے بھی صرف کہا ہی ہے۔ ڈھٹائی کی حد دیکھیں کہ فتنہ انتشار کا اک عجیب و غریب کردار وضاحت کرتا ہے کہ ”کچھ لوگوں کو پی ٹی آئی کا لبادہ پہنا کر ان سے ٹوئٹس کروائی جاتی ہیں۔” پوری قوم کو بےدماغ انتشاری ہی سمجھ رکھا ہے ؟” پی ٹی آئی آفیشل” جو زبان بولتا رہا ، عمران ریاض جو زہر اگل رہا ہے ، قاسم سوری کا پوڈ کاسٹ اب بھی ایکس ہینڈلر کی زینت ہے ، شہباز گل کے جو وی لاگز؟ یہ پی ٹی آئی نہیں ؟ اور وہ نام نہاد صحافی جو اپنے مردہ باپ کے انگوٹھے لگواتے پکڑا گیا تھا ، امریکی تھنک ٹینک کاراتب خور ، حماس اور بی ایل اے کاموازنہ کرتے ہوئے ، حماس کے خلاف بکواس کرتا ہے اور بی ایل اے کی تعریف کرتا ہے ۔” یہ بھی لبادہ ہے ؟ کس کس کا نام لیں ، کسے چھوڑیں ، سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ، اور تو اور یہی موصوف جو اب لبادہ اوڑھانے کی بات کر رہے ہیں ، ان کی اپنی ویڈیو وائرل ہے جس میں کہتے ہیں ” خان صاحب نے کہا ہے ، ماہ رنگ سے بھی رابطہ کریں ، ہم اپنے اجلاس میں ماہ رنگ کو بھی بلائیں گے” ۔ یہ کون سا لبادہ تھا ، کس نے اوڑھایا تھا ۔اب ایرے غیروں کی کیا بات کرنی ، خود ان کا سربراہ ، مرشد انتشار روز اول سے دہشت گردوں ،پاکستان دشمنوں کا حامی ہے ، یقین نہ آئے تو جنوری 2009کا میڈیا دیکھ لیں ، دہشت گرد ہیر بیار مری کے حق میں لندن کی عدالت میں گواہی اور اس کی دہشت گردی کو حق بجانب قرار دینے کا بیان ہر جگہ موجود ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ دسمبر 2007 میں برطانیہ کی ایک عدالت میں دہشت گرد ہیر بیار مری اور دہشت گرد فیض بلوچ کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہواتھا، برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کروانے کا ۔ مقدمہ دوسال چلا، قریب تھا کہ فیصلہ ہوجاتا کہ جنوری 2009میں عمران خان نے اسلام آباد سے ویڈیو لنک پر برطانوی عدالت میں گواہی دی اور ہیر بیار مری کی دہشت گردی کو جائز اور اس کا حق قرار دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ” اس کی جگہ میں ہوتا تو یہی کرتا ۔” اس گواہی کے نتیجے میں پاکستان یہ مقدمہ ہار گیا اور بلوچستان کی دہشت گردی کو برطانوی عدالت سے سند جواز مل گئی ۔ہیر بیار بری ہوگیا۔کسی کو شک ہوتو یہ تمام کوریج آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے ۔برطانیہ کے اخبار ڈیلی ایکسپریس نے 9 جنوری، 2009۔کو اپنے رپورٹر John Twomey کے نام سے خبر شائع کی جس کی سرخی اور ذیلی سرخی تھی۔
I’d do the same as terror suspects, says Imran Khan. FORMER cricket superstar Imran Khan yesterday gave his support to two terror suspects accused of encouraging guerrilla warfare in Pakistan.اسی روز ریڈف نیوز نے سرخی لگائی ۔Imran Khan says terror ok if no other option۔ انڈی پینڈنٹ لندن نے بھی ملتی جلتی سرخی کے ساتھ لکھا کہ ”عمران خان، جو پاکستان کے کرکٹ کے لیجنڈ اور تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، نے برطانیہ کی ایک عدالت میں بیان دیا کہ اگر عوام کے پاس جمہوری راستہ موجود نہ ہو تو انہیں اپنی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانےکاحق حاصل ہے۔ ہندوستان ٹائمز نے اسی روز خبر شائع کی سرخی تھیImran defends terror suspects ۔تمام اخبارات نے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی تفصیل بیان کی جیساکہ کورٹ رپورٹنگ کا معمول ہے ۔کالم کی تنگ دامانی کے پیش نظر خلاصہ پیش خدمت ہے ، جس میں موصوف نے صرف دہشت گردوں کی حمائت ہی نہیں کہ بلکہ ریاست اور فوج کے خلاف وہی الزام تراشی کی جو دہشت گرد آج تک کرتے آرہے ہیں ۔ اخبار لکھتا ہے ”لندن میں دہشت گردی کے مقدمے میں گواہی دیتے ہوئے، کھیلوں سے سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان نےکہا ہے کہ اگر وہ ان دو افراد کی جگہ ہوتے جو عدالت میں کٹہرے میں کھڑے ہیں، تو وہ بھی ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہوتے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اگر وہ پاکستان کے سب سے غریب صوبے بلوچستان سے ہوتے، جہاں فوج نے شہریوں کو قتل اور اغوا کیا، 75,000 افراد کو بےگھر کیا، انتخابات میں دھاندلی کی اور عدالتوں کو کنٹرول کیا، تو وہ حکومت کے خلاف تشدد کے لیےتیار ہوتے۔ان دونوں افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے لندن میں بیٹھ کر لوگوں کو پاکستان میں دہشت گردی پر اکسایا ہے ۔” اخبار کے مطابق ”یچنری بلیکسلینڈ کیو سی، جو ایک ملزم حیربیار مری کی طرف سے وکالت کر رہے تھے، نے عمران سے پوچھا: “بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں آپ کی معلومات کے پیش نظر، کیا آپ نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ بلوچ ہوتے تو اپنے دفاع کے لیے بندوق اٹھانے پر مجبور ہو سکتے تھے؟”اسلام آباد سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے عمران نے کہا کہ اس علاقے کو پاکستان کا حصہ کم اور ایک کالونی زیادہ سمجھا گیا لہذا میں بھی یہی کرتا ۔”مزے کی بات یہ کہ ملزموں نے تردید کی ، موصوف نے ایک قدم آگے بڑھ کر دہشت گردی کو ہی جائز قرار دے ڈلا ۔ اخبار نے لکھا ”عمران خان کے اس بیان کی وجہ سے ہیربیار مری کو لندن کی عدالت سے بری کردیا گیا، اور پاکستان یہ مقدمہ ہارگیا۔” پنجابی کی کہاوت ہے کہ ” گرو جنہاں سے ٹپنے چیلے جان چھڑپ” لہذا ریکارڈ اور حالیہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ فتنہ انتشار کسی رد عمل میں نہیں ، کسی جذباتی کیفیت کے زیر اثر نہیں ،بلکہ اپنی سوچی سمجھی رائے کے تحت دہشت گردی کا حامی ہے ، مرشد انتشار کی دہشت گرو بی ایل اے کے سربراہ ہیر بیار کےحق میں اور پاکستان کے خلاف گواہی کے بعد آج اگر ان کی جماعت اسی بی ایل اے کی دہشت گردی کو سپورٹ کر رہی ہے ، تو اس میں لبادہ اوڑھانے والی کیا بات ہے ۔ کھل کر مانو کہ آپ اپنے لیڈر کے نقش قدم پر ہو ، ویسے بھی پوچھنے والا کون ہے یہاں ، زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا ، وزیراعظم صاحب تجزیہ نما بیان جاری کریں گے اور خواجہ آصف جذباتی تقریرکردے گا ، بس ۔
یہ جو عزت کی بات کرتے تھے
یہی دشمن کے در کے طلبگار نکلے
وطن کی مٹی کو بیچ کر ہنس دیے
یہ ضمیر فروش، یہ غدار نکلے
قلم بیچا، ضمیر بیچا، وفا بیچی
اپنے مفاد کے لیے ہرجائی کردار نکلے
قوم کی تقدیر سے کھیل کر خوش ہوئے
یہ سیاست کے بھیانک کاروبار نکلے
نہ حیا، نہ شرم، نہ غیرت رہی
یہ جو رہنما تھے، سب غدار نکلے!