Express News:
2025-03-18@07:30:21 GMT

غیر ملکیوں کا انخلا اور دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

پاکستان نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام میں توسیع کے لیے افغانستان کی طالبان حکومت کی درخواست کو مسترد کردیا اور کابل انتظامیہ کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ پاکستان یکم اپریل سے تمام غیر قانونی اور افغان مہاجر کارڈ ہولڈرزکو ان کے وطن واپس بھیجنے کے اعلان پر قائم رہے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے سات مارچ کو اعلان کیا تھا کہ لگ بھگ 8 لاکھ افغان مہاجرین 31 مارچ تک رضاکارانہ طور پر پاکستان سے اپنے وطن افغانستان چلے جائیں ورنہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد انھیں ڈی پورٹ کیے جانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ادھر پاکستان کے دو صوبوں میں مسلسل دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے بھی سہولت کاری ہونے کی اطلاعات میڈیا میں آتی رہتی ہیں جب کہ پاکستان کی حکومت افغانستان کی حکومت کو کئی بار کہہ چکی ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں لیکن افغانستان کی حکومت نے اس حوالے سے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

 پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی افغان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ مسائل کا شکار ہورہا ہے، اسی طرح پاکستان بھی مسلسل دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے ، یہی نہیں بلکہ افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد یہاں ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معاشرت اور معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔

اسمگلنگ،منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور کئی افغان مہاجر ایسے سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث ہیں جنھیں یہاںافغان مہاجرین کے بھیس میں چھپے ہوئے سہولت کاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے، متعدد پاکستانی باشندے بھی اس گھناونے جرم میں ملوث ہیں۔

یہ لوگ سادہ لوحی، لاعلمی، مالی لالچ،نسلی و لسانی عصبیت یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ اس معاملے پرکسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیارکرنے کی ہرگزگنجائش نہیں نکلتی۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کے شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

 پاکستان، ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، داعش کے اہم کمانڈرکی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کررہے ہیں۔

پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کی شرائط پر بھی عمل نہیں کررہے ۔ صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ امریکا 2021میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے کہا ہے کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر افغان طالبان کی جانب سے من مانیوں اور دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا تو خدانخواستہ اس خطے میں ایک اور نئی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

 بی ایل اے اور افغانستان کے دہشت گرد دو الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کررہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ،افغانستان اپنے وعدے پورے نہیں کررہا اور پاکستان کے خلاف کسی اور ملک کے ہاتھوں میں کھیل کر پراکسی وار لڑ رہا ہے۔

پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع ہے کہ جہاں ایک طرف اس کا ازلی دشمن بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جب کہ اس کی دوسری طرف افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گزشتہ برس 20 دسمبر کو بلوچستان میں سرگرم ایک کالعدم تنظیم کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی نے اپنے 72 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

اس وقت اس کمانڈر نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارت فنڈنگ کرتا ہے ، اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی، بھتہ خوری کے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں ۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجز سے گزر رہا ہے۔

گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ 2024میں ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جس میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون بہا اور پاکستان کو معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ بھاری رقم فراہم کر رہے ہیں۔ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغان سرحد سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مسلسل حملے کر رہے ہیں۔

 اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے، جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین اور دیگر غیرملکیوں کی واپسی کے حوالے سے نرم رویہ اپنانے کی بات کرتے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔

کسی ملک کے شہریوں کو ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجنا کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوتی۔افغان مہاجرین کو کسی دشمن ملک کے حوالے نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، افغان مہاجرین کو تو خوشی خوشی اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔ دوسری جانب امریکا نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر غیر قانونی غیرملکیوں کو جہازوں پر لادا اور ان کے آبائی ملکوں میں روانہ کیا اور ان کے آبائی ملک سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بھی وصول کیا ہے۔ایران لاکھوں افغان مہاجرین کو نکال رہا، ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو بہتر سمجھے وہ اقدام کرے۔

افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے منفی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔افغانستان کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنا، طالبان حکومت کی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ انھیں جو حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ فرائض اور ذمے داریوں سے ماوراء ہے۔ اس لییطالبان حکومت اپنے شہریوں کو واپس لے کر اپنی ذمے داری پوری کرے۔ ویسے بھی افغانستان میں اس وقت بقول افغان طالبان حکومت کے، امن و استحکام ہے، معیشت بہتر ہے، افغانستان کی کرنسی کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے، ایسے میں اس حکومت کو اپنے شہریوں تک بھی ترقی کے ثمرات پہنچانے چاہیے۔

طالبان پالیسی سازوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے علاوہ کونسا دوسرا ہمسایہ ملک ایسا ہے جہاں لاکھوں افغان پناہ گزین آزادی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔افغانستان کی حکومت کو پاکستان کی مجبوریوں کا احساس کرنا چاہیے نہ کہ مسائل میں اضافہ کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان کی حکومت افغان مہاجرین کو پاکستان کے خلاف افغان طالبان افغانستان کے طالبان حکومت دہشت گردی کی پاکستان میں اس حوالے سے پاکستان کی کہ پاکستان کا سلسلہ حکومت کو ٹی ٹی پی ا گیا ہے رہے ہیں ان کے ا کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد 1991 میں یوکرین، بیلاروس اور روس نے سی آئی ایس قائم کی تھی، یوکرین اب اس کا ایکٹیو ممبر نہیں ہے، لتھوینیا، لیٹویا اور ایسٹونیا اس میں شامل ہی نہیں ہوئے، سینٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستوں سمیت اب اس کے 10 ایکٹیو ممبر ہیں۔

اپریل 2023 میں سی آئی ایس یعنی کامن ویلتھ آف انڈیپینڈنٹ اسٹیٹ کا اجلاس ہوا تھا، اس موقع پر جو اسٹیٹمنٹ جاری کی گئی اس میں انتباہ کیا گیا کہ داعش، القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، ٹی ٹی پی، بلوچستان لبریشن آرمی، جنداللہ، جیش العدل، جماعت انصاراللہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) ریجنل اور گلوبل تھریٹ ہیں۔

عسکریت پسندوں کے ان ناموں پر غور کریں، اس میں ایران مخالف، پاکستان مخالف، چین مخالف تنظیمیں شامل ہیں، کچھ ایسی بھی ہیں جن کا ایجنڈا گلوبل ہے۔ ان سب کے خلاف سی آئی ایس کا مشترکہ بیان دیکھیں۔ اب اس کے ممبر ملک سوچیں جن میں ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر بائیجان شامل ہیں۔ روس اس تنظیم کا لیڈر ہے، اس مشترکہ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے ممبر ملک علیحدگی پسند بی ایل اے اور مذہبی شدت پسند ٹی ٹی پی کے بھی مخالف کھڑے ہیں۔

خیر سے ان ساری ہی تنظیموں کے فٹ پرنٹس افغانستان میں ملتے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند زرنج افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے بات کرتے رہے، زرنج نمروز افغانستان میں ہے، نمروز اور ہلمند دو ایسے افغان صوبے ہیں جہاں بلوچ بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ بی ایل اے کے دو دھڑے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ بشیر زیب کی بی ایل اے نے کیا۔ بی ایل اے آزاد حیر بیار مری کی رہنمائی میں کام کرتی ہے، حیر بیار بی ایل اے سے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔

حیر بیار مری آج کل اسرائیلی سائٹ میمری پر پر آزاد بلوچستان کا اپنا آئیڈیا پیش کرتے رہتے ہیں، حیر بیار کے آزاد بلوچستان میں ایرانی بلوچستان کا بڑا حصہ چاہ بہار بندرگاہ اور بندر عباس شامل ہیں، افغانستان سے نمروز اور ہلمند کے صوبے بھی اس بلوچستان کا حصہ بتائے جاتے ہیں۔

افغانستان سے مسلسل افغان طالبان کی اندرونی تقسیم کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں، وزیر داخلہ سراج الدین کے اختیارات ڈپٹی وزیر داخلہ ابراہیم صدر دیکھ رہے ہیں، افغان عبوری وزیردفاع ملا یعقوب جو ملا عمر کے صاحبزادے ہیں ان کی وزارت میں عبدالقیوم ذاکر اہم ہوگئے ہیں۔ عبدالقیوم ذاکر لو پروفائل رہنے والے طاقتور طالبان رہنما ہیں، ملا اختر منصور کو امیر بنائے جانے کے وقت یہ بھی امارت کے مضبوط امیدوار تھے، ان کا ہلمند، نمروز اور ایرانی بلوچستان میں بہت اثر ہے، ابراہیم صدر کا تعلق بھی ہلمند سے ہے۔

ان دونوں جوانوں کی پوزیشن دیکھیں بلوچ ایریا سے کنیکشن دیکھیں، اس کے بعد بشیر زیب اور حیر بیار کی بی ایل اے میں فرق نوٹ کریں ، آگے ڈاٹ ملانا آپ کا کام ہے۔ سراج حقانی طویل عرصہ منظر سے غائب رہنے کے بعد خوست میں ظاہر ہوگئے ہیں، وہ عوامی رابطے کررہے ہیں، افغان طالبان کی سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی یہ اختلافات حل کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر افغان طالبان کے اندر بھی سوچ کا اختلاف موجود ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دھڑے بندی اور تقسیم میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔

پاکستانی ریاست کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے ہاں امن قائم کرے، ایک پاکستانی ریاست وہ ہے جسے ہم سوشل میڈیا پر دھوتے ہیں، سیاسی عدم استحکام انتشار کی حد تک بڑھا ہوا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب ہے، ایک مقبول جماعت کا لیڈر جیل میں بیٹھا ہے، شدت پسندی کے علاوہ علیحدگی پسند بھی مسلح کارروائیاں تندہی سے کررہے ہیں۔ ملکی معیشت گرتی پڑتی چل رہی ہے، سوشل میڈیا بے قابو ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا غیر مؤثر ہے، عدالتی نظام دہشتگردی کے علاج میں معاون نہیں بلکہ کافی حد تک مددگار ہے۔

اتنے مشکل حالات میں چلنے والے ملک کی کوئی سٹرینتھ بھی تو ہوگی، پاکستان کا نظام جیسا بھی ہے یہ علیحدگی کی تحریکیں بھگت چکا، شدت پسندی، دہشت گردی کی لہروں کا سامنا کرچکا، 2 افغان جنگوں کے نتائج بھگت چکا اور ان میں حصہ لے چکا۔ ریاستی پالیسی جو بھی ہو کسی کو اچھی لگے یا بری اس پر عملدرآمد ہر ڈیزائن کے سیاستدان، آمر اور ادارے مذہبی جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر پر اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا، ایٹمی اور میزائل پروگرام مکمل کیا، سی پیک ون بھی بڑی حد تک مکمل کیا، افغانستان پر بھی دنیا ہمیں ڈو مور اور ڈبل پالیسی کے طعنے ہماری خدمات کے اعتراف میں ہی دیتی رہی۔

حکومت کسی کی بھی ہو، چیف کوئی بھی ہو، اپوزیشن جیسی بھی ہو، پاکستان اگر ریاست ہے جو کے ہے تو پھر اسے علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں دونوں کا علاج کرنا ہے، دنیا کے حالات کافی حد تک اس حوالے سے پاکستان کے لیے موافق ہیں، اس کے لیے پرانا حوالہ سی آئی ایس کا 2023 کا اجلاس ہے۔ نیا حوالہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی تعریف ہے۔ دہشت گردی کی یہ لہر تیزی سے اٹھی ضرور ہے، یہ وقتی ہے اس کا زور جلد ہی ٹوٹ جائے گا، اس کی وجوہات ہیں جن پر بات ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

wenews افغانستان بی ایل اے پاکستان دہشتگردی شدت پسند تنظیمیں عالمی برادری کارروائی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی
  • افغان مہاجرین کے انخلا میں 15دن باقی، بروقت جانے والوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، حکومت
  • افغان مہاجرین کے انخلا میں 15 دن باقی، مقررہ مدت تک جانے والوں سے بدسلوکی نہیں ہوگی، حکومت
  • پی ٹی آئی کے بغیر حکومت دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکتی، بیرسٹر گوہر
  • دہشتگردوں سے بلوچستان نیٹ ورک کی اہم معلومات ملیں، بی ایل اے کے تانے بانے بھارت میں ہیں: خواجہ آصف
  • افغان عوام ہمارے ساتھ ہیں، حکومت دہشتگردوں کو سہولت دے رہی ہے، رانا ثنااللہ
  • دہشت گردی اور بلوچستان
  • ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور جعلی حکومت خوابِ غفلت میں پڑی ہے، بیرسٹر سیف
  • جعلی وفاقی حکومت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی، بیرسٹرسیف