پشاور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 مارچ ۔2025 )پاکستان افغان سرحد طور خم پر آج دونوں ممالک کے درمیان جرگہ میں فائر بندی اور سرحد کھولنے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے جرگے نے افغانستان کی جانب سے متنازع مقام پر چوکی کی تعمیر کے بارے میں افغان نمائندوں نے شام تک کا وقت مانگا ہے.

(جاری ہے)

نجی ٹی وی کے مطابق دونوں جانب سے قبائلی عمائدین، تاجر اور علما پر مشتمل وفد نے سرحد کے قریب افغانستان کے علاقے گمرک میں اس اجلاس میں شرکت کی پاکستان کی جانب سے جرگے میں شامل شاہ خالد شنواری نے صحافیوں کو بتایا کہ جرگہ میں تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے اور جرگے کے قواعد کے مطابق پہلی نشست میں تین نکات سامنے رکھے گئے تھے جن میں فائر بندی، متنازع مقام پر چیک پوسٹ پر کام بند کرنا ہے اور تیسرے نمبر پر سرحد کھولی جائے گی.

انہوں نے بتایا کہ متنازع مقام پر چوکی کی تعمیر کے بارے میں افغان جرگے نے آج شام تک کا وقت مانگا ہے جس کے بعد وہ جواب دیں گے اس جرگے کے مطابق اگر افغان حکومت متنازع مقام پر چوکی کی تعمیر روک دیتی ہے تو اس کے بعد سرحد کھول دی جائے گی جرگے کے رکن ملک تاج الدین نے بتایا کہ آج پاکستان کی جانب سے 36 افراد جرگے میں شامل تھے جبکہ افغانستان سے 25 افراد شریک ہوئے ہیں.

ان کا کہنا تھا کہ اس جرگے میں مثبت پیشرفت نظر آ رہی تھی اور امید ہے کہ سرحد جلد کھول دی جائے گی یاد رہے کہ پاکستان افغان سرحد طورخم کے مقام پر گزشتہ 25 دنوں سے بند ہے اور اس سے مقامی آبادی کو سخت مشکلات کا سامنا ہے سرحد کی بندش سے دونوں جانب بڑی تعداد میں گاڑیاں سرحد کے قریب علاقے میں کھڑی ہیں.                                                       

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

غیر ملکیوں کا انخلا اور دہشت گردی

پاکستان نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام میں توسیع کے لیے افغانستان کی طالبان حکومت کی درخواست کو مسترد کردیا اور کابل انتظامیہ کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ پاکستان یکم اپریل سے تمام غیر قانونی اور افغان مہاجر کارڈ ہولڈرزکو ان کے وطن واپس بھیجنے کے اعلان پر قائم رہے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے سات مارچ کو اعلان کیا تھا کہ لگ بھگ 8 لاکھ افغان مہاجرین 31 مارچ تک رضاکارانہ طور پر پاکستان سے اپنے وطن افغانستان چلے جائیں ورنہ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد انھیں ڈی پورٹ کیے جانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ادھر پاکستان کے دو صوبوں میں مسلسل دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے بھی سہولت کاری ہونے کی اطلاعات میڈیا میں آتی رہتی ہیں جب کہ پاکستان کی حکومت افغانستان کی حکومت کو کئی بار کہہ چکی ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں لیکن افغانستان کی حکومت نے اس حوالے سے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

 پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی افغان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ مسائل کا شکار ہورہا ہے، اسی طرح پاکستان بھی مسلسل دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے ، یہی نہیں بلکہ افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد یہاں ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معاشرت اور معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔

اسمگلنگ،منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور کئی افغان مہاجر ایسے سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث ہیں جنھیں یہاںافغان مہاجرین کے بھیس میں چھپے ہوئے سہولت کاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے، متعدد پاکستانی باشندے بھی اس گھناونے جرم میں ملوث ہیں۔

یہ لوگ سادہ لوحی، لاعلمی، مالی لالچ،نسلی و لسانی عصبیت یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ اس معاملے پرکسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیارکرنے کی ہرگزگنجائش نہیں نکلتی۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کے شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

 پاکستان، ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، داعش کے اہم کمانڈرکی گرفتاری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کررہے ہیں۔

پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کی شرائط پر بھی عمل نہیں کررہے ۔ صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ امریکا 2021میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے کہا ہے کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر افغان طالبان کی جانب سے من مانیوں اور دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا تو خدانخواستہ اس خطے میں ایک اور نئی جنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

 بی ایل اے اور افغانستان کے دہشت گرد دو الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کررہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ،افغانستان اپنے وعدے پورے نہیں کررہا اور پاکستان کے خلاف کسی اور ملک کے ہاتھوں میں کھیل کر پراکسی وار لڑ رہا ہے۔

پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع ہے کہ جہاں ایک طرف اس کا ازلی دشمن بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جب کہ اس کی دوسری طرف افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گزشتہ برس 20 دسمبر کو بلوچستان میں سرگرم ایک کالعدم تنظیم کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی نے اپنے 72 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

اس وقت اس کمانڈر نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارت فنڈنگ کرتا ہے ، اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی، بھتہ خوری کے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں ۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجز سے گزر رہا ہے۔

گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ 2024میں ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جس میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون بہا اور پاکستان کو معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ بھاری رقم فراہم کر رہے ہیں۔ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغان سرحد سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مسلسل حملے کر رہے ہیں۔

 اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے، جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین اور دیگر غیرملکیوں کی واپسی کے حوالے سے نرم رویہ اپنانے کی بات کرتے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔

کسی ملک کے شہریوں کو ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجنا کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوتی۔افغان مہاجرین کو کسی دشمن ملک کے حوالے نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، افغان مہاجرین کو تو خوشی خوشی اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔ دوسری جانب امریکا نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر غیر قانونی غیرملکیوں کو جہازوں پر لادا اور ان کے آبائی ملکوں میں روانہ کیا اور ان کے آبائی ملک سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بھی وصول کیا ہے۔ایران لاکھوں افغان مہاجرین کو نکال رہا، ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو بہتر سمجھے وہ اقدام کرے۔

افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے منفی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔افغانستان کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنا، طالبان حکومت کی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ انھیں جو حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ فرائض اور ذمے داریوں سے ماوراء ہے۔ اس لییطالبان حکومت اپنے شہریوں کو واپس لے کر اپنی ذمے داری پوری کرے۔ ویسے بھی افغانستان میں اس وقت بقول افغان طالبان حکومت کے، امن و استحکام ہے، معیشت بہتر ہے، افغانستان کی کرنسی کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے، ایسے میں اس حکومت کو اپنے شہریوں تک بھی ترقی کے ثمرات پہنچانے چاہیے۔

طالبان پالیسی سازوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے علاوہ کونسا دوسرا ہمسایہ ملک ایسا ہے جہاں لاکھوں افغان پناہ گزین آزادی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔افغانستان کی حکومت کو پاکستان کی مجبوریوں کا احساس کرنا چاہیے نہ کہ مسائل میں اضافہ کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • غیر ملکیوں کا انخلا اور دہشت گردی
  • پاکستان افغان حکام کا سرحدی کشیدگی ختم کرنے اور تجارتی گزرگاہ کھولنے پر اتفاق
  • پاک افغان جرگے کا مستقل فائربندی اور طور خم بارڈر کھولنے پر اتفاق
  • 24 روز سے طورخم بارڈر بند، پاکستانی جرگہ مذاکرات کے لیے طورخم پہنچ گیا
  • پاکستان اور افغانستان طورخم سرحد کی بندش پر لویہ جرگہ کی دوسری نشست آج ہوگی
  • طورخم سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کیلئے پاک افغان جرگہ آج ہوگا
  • طورخم سرحد پرکشیدگی، تجارتی گزرگاہ آج 23 ویں روز بھی بند
  • طورخم سرحد پر تجارتی گزرگاہ 23 ویں روز بھی بند
  • طورخم سرحد پرکشیدگی، تجارتی گزرگاہ 23 ویں روز بھی بند