سپریم کورٹ میں اسٹون کریشنگ کیس میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو رولز کی منظوری کیلئے ایک ماہ کا وقت دیدیا جب کہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہم نے لوگوں کے روزگار اور ماحولیات کو بھی مدنظر رکھنا ہے،یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا آپ رولز کی بات کرہے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے مختلف مقدما ت پر سماعت کی، آئینی بنچ نے اسٹون کرشنگ پلانٹس کیخلا ف کیس پر سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ شاہ نے بتایا خیبرپختونخوا میں کل نو سو تین کرشنگ پلانٹس ہیں، 544 فعال ہیں جبکہ 230 زیر تعمیر کرشنگ پلانٹس ہیں، 37 سٹون کرشرز کو شوکاز نوٹس 210 کو قوائد کی خلاف ورزی پر سیل کیا گیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا اسٹون کرشرز کے قیام کا قانون کیا ہے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا قانون تھا  کہ آبادیوں کے ایک کلومیٹر کی حدود میں کرشرز قائم نہیں ہوسکتے، کریشرز کے حوالے سے اب نیا قانون آچکا ہے، شہری علاقوں میں 500 کی حدود تک کرشرز قائم نہیں ہوسکتے، دیہاتی علاقوں میں 300 میٹر کی حدود میں کرشرز قائم نہیں ہوسکتے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم نے لوگوں کے روزگار اور ماحولیات کو بھی مدنظر رکھنا ہے، ممبر کمیشن وقار زکریا نے بتایا اسٹون کرشرز والے علاقوں میں ہوا کا رخ آبادی کی طرف ہو جائے تو فاصلے کا اصول بے معنی ہوجاتا ہے، دھول کے ذرّات کی آبادیوں تک روم تھام کیلئے آبپاشی کے نظام کے ساتھ درخت بھی لگائے جائیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا اسٹون کرشرز کیلئے رولز بن جائیں گے تو اس پر عملدرآمد ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا آپ رولز کی بات کرہے ہیں، وکیل کے پی حکومت نے کہا ہمیں رولز کی منظوری کیلئے تین ماہ کا وقت چاہئے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کیا اتنے وقت کیلئے لوگ مرتے رہیں گے؟ ۔اسٹون کرشرز کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا ہم نے 11 جولائی کے سپریم کورٹ کے حکمنامے کیخلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، اب 26ویں ترمیم کے بعد عدالت مانگی گئی استدعا سے باہر نکل کر فیصلہ نہیں دے سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا استدعا سے باہر نکل کر فیصلہ نہ کرنے کا اطلاق ماضی سے ہوگا یا 26ویں ترمیم کے بعد سے؟۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا پھر آپ کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ کسی قانون کے درست اور غلط ہونے کا جائزہ لینے کیلئے عدالت کس حد جاسکتی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا یہ کیس صرف اس حد تک تھا کہ اسٹون کرشرز کا آبادیوں سے فاضلہ کتنا ہوگا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا رولز طے ہونے دیں، ہوسکتا ہے اپ کی نظر ثانی درخواست خود بخود غیر موثر ہوجائے۔

عدالتی حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ کے پی حکومت کی جانب سے ایک ماہ کا وقت مانگا گیا، عدالت سے استدعا کی گئی کہ قوائد کی قومی ماحولیاتی قونسل سے منظوری کیلئے ایک ماہ کا وقت چاہئے۔

عدالت وقت فراہم کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کرتی ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے اسٹون کرشرز ماہ کا وقت ایک ماہ رولز کی

پڑھیں:

بولو، چیخو اور چلاؤ

ہر محب وطن کی خواہش ہے کہ اس دھرتی کے سبز پرچم کو سر بلند دیکھے، اس کو دنیا کی مملکتوں میں سب سے ممتاز دیکھے، اس ارض پاک کو تا قیامت امن کا گہوارہ بنا ہوا رکھے، اس دیس میں خوشحالی ہو، رنگ ہوں، خوشیاں ہوں۔ محبت یہاں رقصاں ہوں، امن یہاں کا نشان ہو، ترقی کی ہر چوٹی ہم نے سر کی ہو، فلاح کا ہر قدم ہم نے اٹھایا ہو، اور یہ جنت نظیر گوشہ اپنے مکینوں کے لیے جنت بھی ہو جائے۔ یہ خواہش ہر محب وطن کی ہے مگر حقیقت اس خواہش سے بہت دور بلکہ بہت ہی دور ہے۔

یہ ارض پاک اب لہو لہو ہے، یہاں نفرتوں کی فصل بیج دی گئی ہے، یہاں دہشتگردی کی آگ ہے، یہاں بم دھماکوں کے شعلے  ہیں، یہاں ایمبولینسوں کا شور ہے۔ یہاں چیخیں، کراہیں اور سسکیاں ہیں۔ یہ سب کچھ وہ نہیں جس کا خواب اس مملکت کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا۔ یہ وہ سب کچھ نہیں ہے جو سب کی خواہش ہے۔ یہ خوف کی فضا، یہ دکھ کے بادل، یہ الم کے سائے کیوں ہمارا مقدر بنے اس پر سوچنا ہے؟

اس ملک میں امن 2 دھماکوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ لوگوں کے چیتھڑے اڑنے کی خبر، آہ و زاری کرتی عورتوں کی وڈیوز، زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد، حکومت کی جانب سے معذرت اور تعزیت کے پیغامات، اعلیٰ افسران کی جانب سے اسپتالوں کے ہنگامی دورے، مرنے والوں کے پس ماندگان کے لیے رقوم کا اعلان، زخمیوں کو مفت علاج کی سہولت اور پھر اس کے بعد اگلے دہشتگرد حملے کا انتظار ہے۔ کیا یہی ہماری قسمت میں لکھا ہے؟ اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

گزشتہ چند دنوں میں دہشتگردی کے واقعات اتنی شدت اور تواتر سے ہوئے کہ کسی کو ہوش نہیں رہا، کہیں کسی عالم دین کو بم کے گولے سے اڑا دیا گیا، کہیں کسی مسجد میں نمازیوں سے خود کش بمبار ٹکرا گیا، کہیں سیکیورٹی پر متعین جوانوں پر حملہ ہوا، کہیں معصوم بچے دہشتگردی کے شکار ہوئے، کہیں کوئی سول آبادی کو لہو میں نہلا گیا، کہیں کسی مدرسے کے طلبہ لقمہ اجل بنے۔ کہیں رزق حلال کی تلاش میں محنت کش ذبح کر دیے گئے۔ یہ سب مںظر ہم بے شمار مرتبہ دیکھ چکے ہیں، یہ سب خبریں ہم با رہا سن چکے ہیں، یہ سب ماتم ہم بہت دفعہ کر چکے ہیں۔

اب اس ملک کے باسیوں کے پاس بہت سے سوال ہیں۔ انہیں ان کے جوابات درکار ہیں۔ اب انہیں ابہام سے نجات چاہیے۔ اب انہیں کوئی واضح رستہ درکار ہے۔ اب اس ملک کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب ماتم کر،کر کے ہماری آنکھیں خشک ہو گئی ہیں۔ اب جنازے اٹھا اٹھا کر ہمارے کاندھے شل ہو چکے ہیں۔

المیے سے بڑا ا لمیہ یہ ہے کہ اس قدر خون ریزی کے باوجود ہمارے ہاں ان دہشتگردوں کے ہمدرد ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ ایسے بے شمار ہیں جن کے اس دہشتگردی سے سیاسی مقاصد وابستہ ہے۔ ملک میں بدامنی سے انہیں اپنا سیاسی مفاد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اس دہشتگردی کے جواز تلاش کرتے ہیں۔ معصوموں کا خون بہانے والوں کے غم گسار بنتے ہیں۔ دہشتگردی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ان ظالموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان فاسقوں کی جرات کی داد دیتے ہیں۔

تاریخ کےاس خوں ریز موڑ پر ہمیں بحیثیت قوم کچھ امتحان درپیش ہیں۔ کچھ فیصلے ہیں جو اب ہمیں کرنے ہیں۔ ان فیصلوں میں نہ تعطل برداشت کیا جا سکتا ہے نہ مصلحت کو درانداز ہونے دیا جا سکتا ہے۔ اب ایک واضح حکمت عملی پر چلنا ہو گا۔ اب ایک مصمم عزم کرنا ہوگا۔ اب ایک اٹل فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب ہمیں  کمزور اور مصلحت آمیز  رویوں کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔ اب طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب نعرہ تکبیر کا وقت آ گیا ہے۔

اب اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ ملک کا سب بڑا خطرہ فتنہ الخوارج ہی ہے۔ یہ وہ بدبخت ہیں جنہیں نہ مذہب کی تعلیمات کا کچھ لحاظ ہے، نہ مساجد کا احترام ہے نہ بے گناہوں کا خون بہنے کا احساس ہے۔ نہ ان کے سینوں میں کوئی دل ہے نہ ان کو علمائے دین کی حرمت کا کچھ خیال ہے۔ یہ فتنہ اس دھرتی کے بدن کو چاٹ رہا ہے۔ اس فتنے کا قلع قمع ہی واحد رستہ ہے۔ یہی طریقہ ہے امن کا بحال کرنے کا۔ یہی قرینہ ہے اس عفریت سے نمٹنے کا۔

 ہم نے بحیثیت قوم اب اس پر اتفاق کرنا ہے کہ اس خوارجی فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی  بقا کا واحد رستہ ہے۔ اس کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے، نہ مملکت میں استحکام آ سکتا ہے، نہ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، نہ بیرونی ممالک ہمیں اچھی نطر سے دیکھیں گے، نہ یہاں سے بھوک ختم ہو گی، نہ افلاس مٹے گا۔ نہ ملک ترقی کرے گا نہ پرچم بلند ہوگا۔

اب ان سب لوگوں کو چپ سادھ لینی چاہیے جو ان فتنہ انگیزوں سے ہمدردی کرتے ہیں، اسی میں ان کا بھلا ہے۔ اب اس مملکت کے پاس ان خوارجیوں کو جہنم واصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب ہم مزید دکھ نہیں دیکھ سکتے۔ مزید خودکش دھماکے نہیں سہہ سکتے۔ اب ہم مساجد کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ اب ہم معصوم بچوں کی لاشیں مزید نہیں اٹھا سکتے۔ اب ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ یہ خوارجی امن کے بھی دشمن ہیں، ملک کے بھی خلاف ہیں، اسلام سے بھی منحرف ہیں، انسانیت سے بھی عاری ہیں۔ اس فتنے کو ختم کرنا ہی بقا کا واحد رستہ ہے۔ یہی ایک رستہ ہے امن، استحکام  اور  ترقی کا۔ ہمیں  یہ فیصلہ آج اور ابھی کرنا ہے۔اب خوارجیوں کے ظلم، اور بربریت کے خلاف ہم سب نے آواز بلند کرنی ہے۔ اب ہم نے اس بربریت کے خلاف پوری قوت سے بولنا، چیخنا اور چلانا ہے۔ ساری دنیا کو احساس دلانا ہے کہ ان خوارجیوں کو ختم کیے بغیر نہ ملک میں امن آ سکتا ہے نہ دنیا میں  سکون ہو سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم پاکستان دہشت گردی عمار مسعود فتنۃ الخوارج

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ نے باپ کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا
  • سپریم کورٹ کی جانب سے باپ کے انتقال کے بعد بیٹی نوکری کیلئے اہل قرار
  • ’یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا اور آپ رولز کی بات کررہے ہیں‘ جسٹس جمال مندوخیل کا وکیل سے مکالمہ
  • مبینہ غیر قانونی پروموشن کیس؛ اسپورٹس بورڈ سے متعلقہ تمام ریکارڈ اور رولز طلب
  • آپ نے تقریر کرنی ہے تو سن لیتے ہیں، سپریم کورٹ کا خاتون وکیل کے رویے پر  اظہار برہمی
  • آپ نے تقریر کرنی ہے تو سن لیتے ہیں، سپریم کورٹ کا خاتون وکیل کے رویے پر اظہار برہمی
  • سپریم کورٹ نے کرسچن کمیونٹی سے امتیازی سلوک کے خلاف درخواست خارج کردی
  • سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کو اسٹون کرشنگ کے رولز مرتب کرنے کی مہلت دیدی
  • بولو، چیخو اور چلاؤ