کیا امریکی عالمی بالادستی خطرے میں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو مذاکرات کی دعوت پر مبنی خط لکھے جانے کے بعد چین، روس اور ایران نے چابہار کے قریب محافظِ امن2024ء نامی مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ مشقیں عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں مشرق وسطی میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان مشقوں میں آذربائیجان، جنوبی افریقہ، پاکستان، قطر، عراق اور یو اے ای بطور مبصر شریک ہوں گے۔
ان فوجی مشقوں کا وقت نہایت اہم ہے، کیونکہ حالیہ مہینوں میں امریکہ اور اسرائیل بارہا ایران کو دھمکا چکے ہیں کہ اگر اس کا جوہری پروگرام روکا نہ گیا تو اس پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں میں سختی اور سفارتی دبا ؤمیں اضافہ بھی اس تنا ؤکا عکاس ہے۔ تاہم، ان مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے چین اور روس کی حمایت حاصل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا ہے تاکہ مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔ تاہم، ایران کی قیادت نے اس پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے سخت ردعمل دیا۔
اگرچہ امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیاں سخت کر دی ہیں، لیکن ٹرمپ کا لہجہ نرم نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ ایران کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے، لیکن ایران مزاحمتی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ چین اور روس کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، جو اس خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کے لیے ایک چیلنج ہے۔خطے میں چابہار بندرگاہ کی ایک خاص اور اہم اہمیت یہ ہے کہ یہ چین کے بین الاقوامی پراجیکٹ ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘جو مشرقِ وسطیٰ اور بحریہ ہند میں جہاں امریکی اثر و رسوخ کو متوازن کرتا ہے وہاں چین کی معاشی ترقی کا ایک اہم ستون ہے۔ اس لئے چابہار کے قریب مشترکہ فوجی مشقوں کا پیغام جہاں ٹرمپ کے خط کا جواب دکھائی دیتا ہے وہاں فوجی مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط پوزیشن میں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ٹرمپ کی ایران کو جوہری مذاکرات کی طرف لانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں 15جون 2024 ء کو ایرانی وزارتِ دفاع نے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں وضاحتی بیان دے کر اپنے ملکی مفادات پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا اور چابہار کے قریب فوجی مشقوں پر چینی میڈیا گلوبل ٹائمز کا تجزیہ بھی سامنے آگیا ہے کہ یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں بلکہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے ۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ مہینے ایران کے جوہری سائٹس پر فوری حملے کی دھمکی دی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیل کو ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بھی کہا تھا۔ جبکہ امریکہ نے ایران کے تیل کی فروخت پر نئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان مشقوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ وہ روس اور چین کی حمایت سے محفوظ ہے اور خاص طور اپنے بحری راستوں ہرمز آبنائے اور چابہار جیسے اہم پوائنٹس کی حفاظت کے لئے پوری طرح تیار ہے۔
ان جاری صورتحال میں ٹرمپ نے اپنے مخفی ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے ایرانی روحانی سربراہ خامنہ ای کو جوہری معاہدہ (2015JCPOA) (جے سی پی اواے)کی طرف واپس لانے کے لئے خط لکھا ہے جس پر ایرانی روحانی سربراہ خامنہ ای نے اپنا ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس خط کو امریکا کی نئی چال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید برآں خامنہ ای نے یورپ کو بے شرم ، اندھا اور امریکی گماشتہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین نے امریکی پابندیوں کے خوف سے اپنے جوہری معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا اور ایران پر تجارتی پابندیاں لگاتے ہوئے ایران کو بے تحاشہ معاشی نقصانات پہنچایا ہے۔یاد رہے کہ پچھلے کئی برسوں سے ایران پر تیل اور بینکنگ شعبہ سمیت 50 سے زائد نئی پابندیاں عائد ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کو جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے معاشی مراعات دینے کی پیشکش کی وضاحت کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ خطے میں ایران کو جوہری طاقت بننے سے روک کر خطے کو مزید جنگی صورتحال سے بچایا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ایسا ہی مطالبہ اسرائیل سے کیوں نہیں کرتا اور ایک ہی وقت میں دونوں ملکوں کے ساتھ یہ دہرا اور منافقانہ مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے۔
دراصل امریکا یہ سمجھتا ہے کہ برسوں ایرنی مزاحمت کے طوپر کام کرنے والی قوتیں سابقہ صدر بشارالاسد شام سے فرار ہو کر روس میں پناہ لے چکا ہے ،ایران کی شامی صدر بشار الاسد کو دی گئی فوجی مدد کے باوجود، شام معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اب نئی حکومت مکمل طور پر ایرانی اثر و رسوخ سے نکل کر دیگر عرب ممالک کے علاوہ ترکی کے ساتھ اچھے مراسم قائم کر چکی ہے اور اس طرح لبنان میں حزب اللہ کی پسپائی کے بعد اسرائیل کسی حد تک محفوظ ہو چکا ہے لیکن امریکا اور اسرائیل کو اب بھی یہ خوف ہے کہ ایران یمن کے حوثیوں، لبنان کے حزب اللہ، اور عراقی شیعہ ملیشیا کے ذریعے اب بھی اپنا اثر بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایران شام میں عسکری ناکامی کے بعد ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے، جس میں مزاحمت کا محور دوبارہ مستحکم کرنا شامل ہے۔ ان مشقوں کا انعقاد اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، تاکہ ایران کو خطے میں ایک مستحکم طاقت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اس سے ایران کو عالمی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
15 جون 2024ء کو ایران کے دفاعی وزارت نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں ان فوجی مشقوں کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ بحرِ ہند اور خلیجِ عمان میں بحری قذاقی اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ ردعمل کی صلاحیت کو جانچنا مقصود ہے۔ اب ان مشقوں میں ایران، روس اور چین کے بحری جہازوں اور ہوائی فوجی دستوں نے حصہ لیا اور ایران نے اپنے ذوالفقار اور قادر میزائل سسٹم کا بھی مظاہرہ کیا۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہے کہ ایران فوجی مشقوں کو جوہری نے ایران ایران کے مشقوں کا ایران کو ایران پر خامنہ ای نے اپنے کے ساتھ سکتا ہے اور اس ہے اور کیا جا
پڑھیں:
گرین لینڈ کی برف کے نیچے چھپا امریکی فوجی راز، ایک پورا شہر جس نے دنیا کو خطرے میں ڈال دیا
واشنگٹن(انٹرنیشنلڈیسک)سنہ 1962 کا زمانہ تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں ایک نوجوان ڈاکٹر، جسے امریکہ کی فوجی خدمات میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، اپنی نیویارک کے بیلیوو اسپتال میں جاری میڈیکل ٹریننگ کو ادھورا چھوڑ کر گرین لینڈ کے ایک دور دراز علاقے میں تعینات ہونے پر مجبور ہوگیا۔
اس ڈاکٹر کو یہ بتایا گیا تھا کہ اسے قطب شمالی کی برف کے نیچے تقریباً 8 میٹر گہرائی میں موجود ایک تحقیقی مرکز میں خدمات انجام دینی ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی۔
ڈاکٹر رابرٹ وائس، جو اُس وقت 26 سال کے تھے اور آج ییل یونیورسٹی میں یورولوجی کے پروفیسر ہیں، کو ”کیمپ سنچری“ نامی ایک خفیہ امریکی فوجی منصوبے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت برف کے نیچے میزائل لانچنگ سائٹس تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تاکہ سوویت یونین پر اچانک حملہ ممکن بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر وائس کو اس خفیہ منصوبے کی حقیقت کا علم کئی دہائیوں بعد 1990 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب اس معلومات کو عوام کے لیے افشا کیا گیا۔ انہوں نے وہاں تقریباً ایک سال گزارا اور ایک ایسی زیرِ زمین برفیلی دنیا میں قیام کیا جو نہ صرف جدید سائنسی تجربات بلکہ فوجی منصوبہ بندی کے لیے بھی استعمال ہو رہی تھی۔
کیمپ سنچری: برف کے نیچے ایک شہر
کیمپ سنچری ایک غیر معمولی منصوبہ تھا، جہاں امریکی فوج نے جدید ترین انجینئرنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے برف کے اندر ایک پورا شہر بسایا تھا۔ اس شہر میں رہائشی بیرکیں، لیبارٹریاں، باورچی خانے، غسل خانے، ورزش کے مقامات اور یہاں تک کہ ایک جوہری ری ایکٹر بھی شامل تھا جو اس پورے مرکز کو توانائی فراہم کرتا تھا۔
ابتدائی طور پر جوہری ری ایکٹر کی کارکردگی میں کچھ مسائل پیدا ہوئے اور کیمپ میں تابکاری کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لیڈ کی تہیں لگائی گئیں، جس کے بعد حالات معمول پر آئے۔ ڈاکٹر وائس کے مطابق، وہاں زندگی اتنی دشوار نہیں تھی جتنی کہ وہ تصور کر رہے تھے۔ وہ اپنے فارغ وقت میں طبی کتب کا مطالعہ کرتے، شطرنج اور برج کھیلتے اور 10 سینٹ میں مارٹینی سے لطف اندوز ہوتے۔
کیمپ سنچری کا اصل مقصد سائنسی تحقیق بتائی جاتی تھی، لیکن حقیقت میں یہ ”پروجیکٹ آئس ورم“ نامی ایک خفیہ فوجی منصوبے کا حصہ تھا۔ اس منصوبے کے تحت امریکی فوج برف کے نیچے میزائل لانچنگ سائٹس بنانے کا ارادہ رکھتی تھی تاکہ سوویت یونین کو حیران کن حملے کا نشانہ بنایا جا سکے۔
یہ منصوبہ اس قدر خفیہ تھا کہ اس کے بارے میں معلومات 1997 میں منظرِ عام پر آئیں، جب ڈنمارک کے ایک تحقیقی ادارے نے اسے ایک امریکی خفیہ دستاویز سے دریافت کیا۔ منصوبے کے تحت تقریباً 135,000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 600 کے قریب میزائل تعینات کیے جانے تھے۔ تاہم، اس منصوبے پر کبھی مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا اور 1967 میں کیمپ سنچری کو ترک کر دیا گیا۔
گرین لینڈ میں ماحولیاتی خطرہکیمپ سنچری آج بھی گرین لینڈ کی برف کے نیچے دفن ہے، لیکن سائنس دانوں کو اس کے حوالے سے ایک نئے خطرے کا سامنا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کے باعث برف پگھلتی ہے تو وہاں موجود جوہری اور کیمیائی فضلہ ماحول میں شامل ہو سکتا ہے، جو ایک بڑا ماحولیاتی بحران پیدا کر سکتا ہے۔
امریکی فوج نے 1967 میں کیمپ سنچری سے جوہری ری ایکٹر تو ہٹا لیا تھا، لیکن وہاں کا فضلہ، بشمول تابکاری سے آلودہ پانی، اب بھی برف کے نیچے دفن ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، اگر عالمی درجہ حرارت اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو 2100 کے بعد اس فضلے کے برف سے باہر آنے کا امکان موجود ہے۔
کیمپ سنچری کی سائنسی میراثکیمپ سنچری نہ صرف ایک فوجی منصوبہ تھا بلکہ اس نے سائنسی تحقیق میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہاں کیے جانے والے مطالعات نے زمین کے ماضی کے ماحولیاتی حالات کو سمجھنے میں مدد فراہم کی۔
1966 میں یہاں سے حاصل کیا گیا برف کا کور (Ice Core) تقریباً 100,000 سال پرانے موسمی حالات کا ایک محفوظ ریکارڈ تھا۔ اسی کور نے سائنس دانوں کو یہ انکشاف کرنے میں مدد دی کہ گرین لینڈ ماضی میں برف سے پاک تھا، جو اس بات کی علامت ہے کہ اگر موجودہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہا تو سمندروں کی سطح میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے۔
اب جب کہ عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے، کیمپ سنچری ایک نئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، جس سے نہ صرف گرین لینڈ بلکہ پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔
مزیدپڑھیں:’دانیہ بچی تم نے غلط کیا، پلٹ کر واپس نہیں آؤں گا‘: عامر لیاقت کے آخری الفاظ پھر وائرل ہوگئے