Daily Ausaf:
2025-03-17@21:03:25 GMT

سانحہ بولان: انسانیت پر وحشیانہ حملہ اور بے حسی کی انتہا

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

پاکستان کی سرزمین ایک بار پھر خون میں نہا گئی، معصوم مسافروں کی چیخیں خاموشی میں دفن ہو گئیں، اور دہشت گردی کا ایک اور بدنما داغ ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا۔ سانحہ بولان ایک ایسا المیہ ہے جس نے دلوں کو چھلنی کر دیا، آنکھوں میں آنسو بھر دیئے اور قومی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ صرف چند جانوں کے ضیاع کا نہیں، بلکہ ایک اجتماعی دکھ اور افسوس کا عنوان ہے، جو بار بار ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر ہمارے پیارے وطن کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟
وہ بدقسمت ٹرین، جو سینکڑوں مسافروں کو لے کر کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی، ہر کسی کے دل میں خوشی اور امید کے دیے روشن تھے۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، سرکاری ملازمین، سویلین سبھی اپنے پیاروں سے ملنے جا رہے تھے، اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے سفر پر تھے۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ بولان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ایک قیامت ان کی راہ دیکھ رہی تھی؟ جیسے ہی ٹرین پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی، سفاک درندوں نے اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ گھات لگا کر بیٹھے حملہ آوروں نے ٹرین کی پٹری پہلے ہی اکھاڑ دی تھی تاکہ وہ آسانی سے اسے نشانہ بنا سکیں۔ جیسے ہی ٹرین کی رفتار کم ہوئی، چاروں طرف سے خوفناک فائرنگ شروع ہو گئی۔ بندوقوں کی گرج، راکٹ لانچروں کی دہاڑ، اور معصوم مسافروں کی چیخیں اس ویران علاقے میں گونجنے لگیں۔
بے بس مسافر بوگیوں میں قید، موت کے سامنے بے یار و مددگار کھڑے تھے۔ کوئی بچنے کی کوشش کرتا تو گولیوں کی بوچھاڑ اس کی سانسیں چھین لیتی، کوئی چیخ کر رحم کی بھیک مانگتا تو دہشت گردوں کی سنگدل ہنسی اس کی فریاد کا مذاق اڑا دیتی۔ چند لمحوں میں ہی ٹرین کی دیواریں گولیوں سے چھلنی ہو چکی تھیں، زمین خون سے رنگین ہوگئی تھی، اور فضا میں وحشت اور بربریت کی بو رچ بس گئی تھی۔ یہ سب کچھ ویران علاقے میں ہو رہا تھا، جہاں نہ کوئی مددگار تھا، نہ کوئی سننے والا۔ وہ لوگ جو چند لمحے پہلے ہنسی خوشی اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب بڑھ رہے تھے، وہ لاشوں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ ان کے اہلِ خانہ، جو گھروں میں ان کے منتظر تھے، نہیں جانتے تھے کہ ان کے پیارے کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
اگرچہ سانحہ بولان نے انسانیت کو شرمسار کر دیا، مگر جو کچھ اس کے بعد ہوا، وہ شاید اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی، ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن بدقسمتی سے، سوشل میڈیا پر ایک اور جنگ چِھڑ گئیایک ایسی جنگ جس میں دہشت گردوں کے خلاف بولنے کے بجائے ریاست کے خلاف زہر اگلا جانے لگا۔ یوٹیوب پر بیٹھے نام نہاد تجزیہ کاروں نے حادثے کی جھوٹی تفصیلات گھڑنا شروع کر دیں۔ وہ جو ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں، انہوں نے ایسے بولنا شروع کر دیا جیسے وہ جائے وقوعہ پر موجود ہوں۔ ان کی زبانوں پر ریاست کے خلاف نفرت تھی، وہ دہشت گردوں کے جرائم کو کم کرنے کے لیے تاویلیں دے رہے تھے، اور پاکستان کے اداروں کو کمزور اور ناکام ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ حکومت پر تنقید کیوں ہو رہی تھی، بلکہ سوال یہ تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف بولنے کے بجائے لوگ اپنے ہی ملک کو موردِ الزام کیوں ٹھہرا رہے تھے؟ دہشت گردوں کے لئے جواز اور ہمدردی کیوں دکھائی جا رہی تھی ، دشمن کو اتنی رعایت اور مارج کیوں ؟ سیاست میں اختلاف اپنی جگہ، مگر جب معاملہ ریاست کی بقا ء کا ہو اس پہ کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ دہشت گردوں کی مذمت کیے بغیر، ان کے ظلم پر افسوس کا اظہار کیے بغیر، حکومت اور فوج پر حملہ آور تھے۔ کیا یہ ان دہشت گردوں کی خاموش حمایت نہیں تھی؟ سوشل میڈیا پر چند سیاستدانوں اور نام نہاد صحافیوں نے اس سانحے کو اپنے ذاتی بغض اور سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کا مقصد عوام کے دکھ میں شریک ہونا نہیں، بلکہ اپنی نفرت کو ہوا دینا تھا۔ دشمن ممالک کے میڈیا نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ بھارت کے چینلز نے اس سانحے کو ایسے پیش کیا جیسے پاکستان خود اپنی تباہی کا ذمہ دار ہو۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کے بیانیے کو ہمارے ہی لوگ مزید پھیلا رہے تھے، صرف اس لیے کہ وہ حکومت اور فوج سے ناراض تھے۔
یہ سانحہ ہمیں صرف دہشت گردوں کی وحشت کے بارے میں نہیں بتاتا، بلکہ یہ ہماری اپنی اجتماعی ناکامی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم بطور قوم اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہم ایک قومی سانحے پر بھی ایک موقف اختیار نہیں کر سکتے۔ یہاں دو طرح کے لوگ دکھائی دییایک وہ جو افسوس اور غم کے ساتھ دہشت گردوں کی مذمت کر رہے تھے، ریاست سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان درندوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور دوسرے وہ جو دہشت گردوں پر خاموش رہ کر ریاست اور فوج کے خلاف زہر اگل رہے تھے، گویا وہ بھی اس جرم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہوں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں۔ سیاست ایک اختیاری چیز ہے، مگر ریاست سے وفاداری لازم ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں دہشت گردوں کی حمایت برداشت نہیں کی جاتی، پھر ہمارے ہاں کیوں ایسے عناصر کھلے عام اپنا زہر پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ اشفاق احمد نے ایک بار کہا تھا کہ ’’سب رشتے چائے کی پتی کی طرح ہوتے ہیں، جب تک گرم پانی میں نہ پڑیں، اپنا رنگ نہیں دکھاتے۔‘‘ سانحہ بولان کے بعد کچھ لوگوں کا اصل رنگ سب کے سامنے آ گیا۔ وہ جو بظاہر محب وطن بنے پھرتے تھے، ان کے الفاظ نے ثابت کر دیا کہ وہ اصل میں کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ریاست یا فوج کی نہیں، بلکہ ہم سب کی جنگ ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان منافقوں کو پہچاننا ہوگا جو قومی سانحات کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ اگر ہم نے ان عناصر کو لگام نہ دی تو ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنی جڑیں کاٹنے کے مجرم ہوں گے۔
سانحہ بولان نے ہمیں ایک بار پھر دکھایا کہ دشمن ہم پر حملہ کرنے سے نہیں جھجکتا، مگر اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگ دشمن کے پروپیگنڈے کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا، ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر اپنی ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ جو لوگ دہشت گردوں کی مذمت کے بجائے اپنے ہی اداروں پر تنقید کر رہے ہیں، انہیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست وقتی چیز ہے، مگر ملک ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ ہمیں دشمن کے بیانیے کو شکست دینی ہوگی، ہمیں اپنی ریاست کے ساتھ وفادار رہنا ہوگا، اور ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان کے دشمنوں کو یہاں کوئی جگہ نہیں ملے گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے دہشت گردوں کی سانحہ بولان ریاست کے رہے تھے اپنے ہی کے خلاف کر دیا کر رہے کے لیے

پڑھیں:

بنوں میں بیک وقت 2 تھانوں اور ایک پولیس چوکی پر دہشت گردوں کے حملے

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں دہشت گردوں نے 2 پولیس اسٹیشنزکو نشانہ بنایا جبکہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے خوجڑی پولیس چوکی پر دو ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

پولیس کے مطابق حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے اور علاقے میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ اس واقعے کے بعد گاؤں کے لوگوں نے بھی چوکی کی حفاظت کے لیے خود کو مسلح کر لیا اور اعلان کیا کہ خوجڑی پولیس چوکی کی حفاظت علاقے کے مشران کریں گے۔

پولیس کے مطابق بنوں کے بکاخیل پولیس اسٹیشن اور غوری والہ پولیس اسٹیشن پر بھی حملے کیے گئے جہاں فائرنگ کا تبادلہ کیا گیا۔ پولیس کے مطابق دہشت گردوں نے تین مختلف مقامات پر بیک وقت حملے کیے جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

پولیس اور سیکیورٹی ادارے حملہ آوروں کی تلاش میں ہیں اور علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔ عوام نے پولیس کے ساتھ تعاون کا اعلان کیا ہے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • دہشتگردوں کے سامنے سرنڈر کرنیوالے اہلکاروں کیخلاف کارروائی ہوگی، ڈی جی لیویز بلوچستان
  • نوشکی: کالعدم بی ایل اے کا ایف سی کے قافلے پر خودکش حملہ،3 جوانوں سمیت 5 افراد شہید
  • نوشکی میں ایف سے قافلے پر دھماکا، 3 اہلکار اور 2 شہری شہید، خود کش حملہ آور سمیت 4دہشتگرد ہلاک
  • سانحہ جعفر ایکسپریس بانی پی ٹی آئی نے مذمت نہیں کی: خواجہ آصف  
  • خیبر میں دہشت گردوں کابھاری ہتھیاروں سے پولیس چوکی پر حملہ
  •   سانحہ جعفر ایکسپریس میإ شہید ہونے والے مسافروں کے لواحیق کے لئے  52 لاکھ فی کس امداد کا اعلان
  • جعفر ایکسپریس حملہ، سکیورٹی فورسز نے بڑے سانحہ سے بچالیا: بیرسٹر گوہر
  • بنوں میں بیک وقت 2 تھانوں اور ایک پولیس چوکی پر دہشت گردوں کے حملے
  • دہشت گردی میں بھارت، افغانستان ملوث، حملہ آور کسی کو ساتھ لیکر نہیں گئے: ڈی جی آئی ایس پی آر