بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے۔ گزشتہ 3 دنوں میں پولیس نے دہشت گردوں کے متعدد حملے ناکام بنائے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ دہشتگردی صوبائی نہیں قومی مسئلہ ہے، وفاقی حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے۔ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات اور  وفاقی حکومت پر تنقید  کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے۔ گزشتہ 3 دنوں میں پولیس نے دہشت گردوں کے متعدد حملے ناکام بنائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنوں اور لکی مروت میں عوام نے پولیس کے شانہ بشانہ دہشت گرد حملوں کو پسپا کیا۔ خیبر پختونخوا حکومت بہادر پولیس اور غیور عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ عوام اور پولیس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یک جہت ہیں۔ عوام کے تعاون کے بغیر شرپسند عناصر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ جعلی وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے بجائے سیاسی بیان بازی سے گریز کرے۔ دہشت گردی صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے اور وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا کہ جعلی وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کے بجائے صوبے کے فنڈز روک رکھے ہیں۔ صوبے کو معاشی طور پر کمزور کرنا درحقیقت دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کی آبادی میں اضافہ ہوا، لیکن این ایف سی ایوارڈ میں اس کے مطابق حصہ نہیں دیا جا رہا۔ اے آئی پی پروگرام کے تحت وفاق کے ذمے 700 ارب روپے واجب الادا ہیں، لیکن اب تک صرف 132 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ نیٹ ہائیڈل کے 2 ہزار ارب روپے کے بقایا جات بھی صوبے کو ادا نہیں کیے جا رہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بیرسٹر سیف نے کہا دہشت گردی کے خلاف خیبر پختونخوا وفاقی حکومت نے کہا کہ

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں تشدد میں اضافہ کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مارچ 2025ء) صوبائی حکومت نے دارالحکومت پشاورسمیت دیگر اضلاع میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سرکاری عہدیداروں کو رات کے وقت سفر نہ کرنے اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ یہ حکم نامہ اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد جاری کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنا ہے۔

اسی طرح افغانستان سے ملحقہ تین ضم قبائلی اضلاع کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دلاور وزیر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’'کرفیو کا نام ہی ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے شہریوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔

(جاری ہے)

ضم قبائلی اضلاع کے سیاسی اتحاد نے کرفیو کے نفاذ کی مخالفت کی ہے جب کہ تاجر برادری بھی اس کرفیو سے متاثر ہو رہی ہے۔

‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے بازاروں سمیت اعظم ورسک کا بڑا بازار بھی بند ہے، جس کی وجہ سے عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر کے بقول جنوبی اور شمالی وزیرستان میں نسبتا امن ہے لیکن سکیورٹی فورس کی نقل و حرکت کی وجہ سے بھی بعض اوقات کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔‘‘

ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی اس لہرکے دوران زیادہ تر مذہبی شخصیات، سکیورٹی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےافسران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سےعام شہریوں میں خوف بڑھتا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والی پولیس کومسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان سرحد سے متصل پاکستانی اضلاع میں دہشت گردی اور بدامنی کےواقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت کی گزرگاہیں بھی کئی کئی ہفتوں کے لیے بند ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث افراد میں زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے جبکہ افغان حکام کے اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں

جہاں صوبے کے بعض علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے، وہیں جنوبی اضلاع کے بعض علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے سرحدی اضلاع ٹانک،جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ضلع خیبر جیسےعلاقوں میں کرفیو سمیت دہشت گردوں کےخلاف آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں، تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مسلسل کارروائیوں سے ہلاکتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ علاقہ عدم استحکام کا شکار ہونے کے خدشات ہیں۔

دہشت گردی کی اس نئی لہر کے حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے قبائلی اُمور کے ماہر شمس مومند سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ابھی حکومت نے جتنے بھی آپریشن شروع کیے ہیں، عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ ماضی کی طرح پراکسی وار نہیں بلکہ آپریشن کے بعد باقاعدہ طور مارے جانے والے دہشت گردوں کے تصاویرجاری کی جاتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سال رواں کے دوران سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کے دوران مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

پہلے دہشت گردانہ حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں کا جانی نقصان زیادہ ہوتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور پولیس اورفوج کامیابی سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔‘‘

امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے خیبر پختونخوابھر کےعوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فوجی آپریشن، بم دھماکے، خود کش حملے اور فرقہ ورانہ فسادات نے صوبے کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بدامنی کی وجہ سے تاجروں کی ایک بڑی تعداد دیگرصوبوں یا بیرون ملک منتقل ہوچکی ہیں۔ ضم قبائلی اضلاع میں آئے روز آپریشن اورکرفیوکی وجہ سے بھی مقامی آبادی نقل مکانی پرمجبور ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں تشدد میں اضافہ کیوں؟
  • خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں 5 پولیس اہلکار شہید
  • وفاقی حکومت فنڈز روک کر خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے، بیرسٹر سیف
  • وفاق دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سیاسی بیان بازی سے گریز کرے، بیرسٹر سیف
  • دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وفاقی حکومت سنجیدگی دکھائے، بیرسٹر سیف
  • وفاقی حکومت نے دہشتگردی کے معاملے میں مدد کے بجائے صوبے کے فنڈز روک رکھے ہیں: محمد علی سیف
  • وفاق دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سیاسی بیان بازی سے گریز کرے: بیرسٹر سیف
  • دہشتگردی صوبائی نہیں قومی مسئلہ ہے، وفاقی حکومت تماشا دیکھ رہی ہے، ترجمان پختونخوا حکومت
  • خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر، 24گھنٹوں میں 10حملے، 3اہلکار شہید اور 2زخمی، ایک سویلین بھی جان سے گیا