WE News:
2025-03-17@19:15:02 GMT

بولو، چیخو اور چلاؤ

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

ہر محب وطن کی خواہش ہے کہ اس دھرتی کے سبز پرچم کو سر بلند دیکھے، اس کو دنیا کی مملکتوں میں سب سے ممتاز دیکھے، اس ارض پاک کو تا قیامت امن کا گہوارہ بنا ہوا رکھے، اس دیس میں خوشحالی ہو، رنگ ہوں، خوشیاں ہوں۔ محبت یہاں رقصاں ہوں، امن یہاں کا نشان ہو، ترقی کی ہر چوٹی ہم نے سر کی ہو، فلاح کا ہر قدم ہم نے اٹھایا ہو، اور یہ جنت نظیر گوشہ اپنے مکینوں کے لیے جنت بھی ہو جائے۔ یہ خواہش ہر محب وطن کی ہے مگر حقیقت اس خواہش سے بہت دور بلکہ بہت ہی دور ہے۔

یہ ارض پاک اب لہو لہو ہے، یہاں نفرتوں کی فصل بیج دی گئی ہے، یہاں دہشتگردی کی آگ ہے، یہاں بم دھماکوں کے شعلے  ہیں، یہاں ایمبولینسوں کا شور ہے۔ یہاں چیخیں، کراہیں اور سسکیاں ہیں۔ یہ سب کچھ وہ نہیں جس کا خواب اس مملکت کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا۔ یہ وہ سب کچھ نہیں ہے جو سب کی خواہش ہے۔ یہ خوف کی فضا، یہ دکھ کے بادل، یہ الم کے سائے کیوں ہمارا مقدر بنے اس پر سوچنا ہے؟

اس ملک میں امن 2 دھماکوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ لوگوں کے چیتھڑے اڑنے کی خبر، آہ و زاری کرتی عورتوں کی وڈیوز، زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد، حکومت کی جانب سے معذرت اور تعزیت کے پیغامات، اعلیٰ افسران کی جانب سے اسپتالوں کے ہنگامی دورے، مرنے والوں کے پس ماندگان کے لیے رقوم کا اعلان، زخمیوں کو مفت علاج کی سہولت اور پھر اس کے بعد اگلے دہشتگرد حملے کا انتظار ہے۔ کیا یہی ہماری قسمت میں لکھا ہے؟ اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

گزشتہ چند دنوں میں دہشتگردی کے واقعات اتنی شدت اور تواتر سے ہوئے کہ کسی کو ہوش نہیں رہا، کہیں کسی عالم دین کو بم کے گولے سے اڑا دیا گیا، کہیں کسی مسجد میں نمازیوں سے خود کش بمبار ٹکرا گیا، کہیں سیکیورٹی پر متعین جوانوں پر حملہ ہوا، کہیں معصوم بچے دہشتگردی کے شکار ہوئے، کہیں کوئی سول آبادی کو لہو میں نہلا گیا، کہیں کسی مدرسے کے طلبہ لقمہ اجل بنے۔ کہیں رزق حلال کی تلاش میں محنت کش ذبح کر دیے گئے۔ یہ سب مںظر ہم بے شمار مرتبہ دیکھ چکے ہیں، یہ سب خبریں ہم با رہا سن چکے ہیں، یہ سب ماتم ہم بہت دفعہ کر چکے ہیں۔

اب اس ملک کے باسیوں کے پاس بہت سے سوال ہیں۔ انہیں ان کے جوابات درکار ہیں۔ اب انہیں ابہام سے نجات چاہیے۔ اب انہیں کوئی واضح رستہ درکار ہے۔ اب اس ملک کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب ماتم کر،کر کے ہماری آنکھیں خشک ہو گئی ہیں۔ اب جنازے اٹھا اٹھا کر ہمارے کاندھے شل ہو چکے ہیں۔

المیے سے بڑا ا لمیہ یہ ہے کہ اس قدر خون ریزی کے باوجود ہمارے ہاں ان دہشتگردوں کے ہمدرد ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ ایسے بے شمار ہیں جن کے اس دہشتگردی سے سیاسی مقاصد وابستہ ہے۔ ملک میں بدامنی سے انہیں اپنا سیاسی مفاد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اس دہشتگردی کے جواز تلاش کرتے ہیں۔ معصوموں کا خون بہانے والوں کے غم گسار بنتے ہیں۔ دہشتگردی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ان ظالموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان فاسقوں کی جرات کی داد دیتے ہیں۔

تاریخ کےاس خوں ریز موڑ پر ہمیں بحیثیت قوم کچھ امتحان درپیش ہیں۔ کچھ فیصلے ہیں جو اب ہمیں کرنے ہیں۔ ان فیصلوں میں نہ تعطل برداشت کیا جا سکتا ہے نہ مصلحت کو درانداز ہونے دیا جا سکتا ہے۔ اب ایک واضح حکمت عملی پر چلنا ہو گا۔ اب ایک مصمم عزم کرنا ہوگا۔ اب ایک اٹل فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب ہمیں  کمزور اور مصلحت آمیز  رویوں کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔ اب طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب نعرہ تکبیر کا وقت آ گیا ہے۔

اب اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ ملک کا سب بڑا خطرہ فتنہ الخوارج ہی ہے۔ یہ وہ بدبخت ہیں جنہیں نہ مذہب کی تعلیمات کا کچھ لحاظ ہے، نہ مساجد کا احترام ہے نہ بے گناہوں کا خون بہنے کا احساس ہے۔ نہ ان کے سینوں میں کوئی دل ہے نہ ان کو علمائے دین کی حرمت کا کچھ خیال ہے۔ یہ فتنہ اس دھرتی کے بدن کو چاٹ رہا ہے۔ اس فتنے کا قلع قمع ہی واحد رستہ ہے۔ یہی طریقہ ہے امن کا بحال کرنے کا۔ یہی قرینہ ہے اس عفریت سے نمٹنے کا۔

 ہم نے بحیثیت قوم اب اس پر اتفاق کرنا ہے کہ اس خوارجی فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی  بقا کا واحد رستہ ہے۔ اس کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے، نہ مملکت میں استحکام آ سکتا ہے، نہ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، نہ بیرونی ممالک ہمیں اچھی نطر سے دیکھیں گے، نہ یہاں سے بھوک ختم ہو گی، نہ افلاس مٹے گا۔ نہ ملک ترقی کرے گا نہ پرچم بلند ہوگا۔

اب ان سب لوگوں کو چپ سادھ لینی چاہیے جو ان فتنہ انگیزوں سے ہمدردی کرتے ہیں، اسی میں ان کا بھلا ہے۔ اب اس مملکت کے پاس ان خوارجیوں کو جہنم واصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب ہم مزید دکھ نہیں دیکھ سکتے۔ مزید خودکش دھماکے نہیں سہہ سکتے۔ اب ہم مساجد کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ اب ہم معصوم بچوں کی لاشیں مزید نہیں اٹھا سکتے۔ اب ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ یہ خوارجی امن کے بھی دشمن ہیں، ملک کے بھی خلاف ہیں، اسلام سے بھی منحرف ہیں، انسانیت سے بھی عاری ہیں۔ اس فتنے کو ختم کرنا ہی بقا کا واحد رستہ ہے۔ یہی ایک رستہ ہے امن، استحکام  اور  ترقی کا۔ ہمیں  یہ فیصلہ آج اور ابھی کرنا ہے۔اب خوارجیوں کے ظلم، اور بربریت کے خلاف ہم سب نے آواز بلند کرنی ہے۔ اب ہم نے اس بربریت کے خلاف پوری قوت سے بولنا، چیخنا اور چلانا ہے۔ ساری دنیا کو احساس دلانا ہے کہ ان خوارجیوں کو ختم کیے بغیر نہ ملک میں امن آ سکتا ہے نہ دنیا میں  سکون ہو سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم پاکستان دہشت گردی عمار مسعود فتنۃ الخوارج.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم پاکستان فتنۃ الخوارج سکتا ہے رستہ ہے چکے ہیں

پڑھیں:

ہجرت، نقل مکانی، آباد کاری وغیرہ وغیرہ

شروعات کرتے ہیں ایک خیال سے، اگرچہ بہت سے خیالات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں، واضح بھی ہیں، مگر کیا کیجیے کہ یہاں تو چیٹ جی پی ٹی پر پرامپٹ “سکھانے” کے بھی کورس نے نام پر 10 ہزار لیے جاتے ہیں۔ میں تو بس اپنے خیالات سامنے رکھ رہا ہوں۔

تو شروعات کرتے ہیں ایک خیال سے

تقسیم کی نسبت اتحاد ایک مثبت تصور ہے۔ لکڑ ہارے کے بیٹوں کو لکڑی کا بنڈل تھمانے والی کہانی ایک اور فقط ایک ہی زاویے سے یہ بات ثابت کرنے پر زور دیتی تھی کہ اتحاد توڑے جانے کو روکتا ہے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ اتحاد برقرار رکھنے کی ایسی تعلیم بجائے تقسیم کو روکنے کے، منقسم گروہ کو متحد رہ کر باقیوں سے مقابلے پر زیادہ آمادہ کرتی رہی۔

اتحاد البتہ فقط لڑنے بھڑنے ہی میں کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔ امن و آشتی سے رہتے ہوئے بھی اتحاد کی افادیت کے لیے کئی خوبصورت دلائل موجود ہیں۔ اس ضمن میں ریاست آسٹریلیا کی مثال لیتے ہیں۔

ریاستی سطح پر آسٹریلیا کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ہمیں انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ ریاست مستقبل میں بہتر سے بہتری کی جانب گامزن رہنا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست غیرآباد علاقوں کو آباد کر کے ترقی لانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست انسانی آباد کاری کے ذریعے ڈیمانڈ سپلائی کو بڑھا کر معیشت کا پہیہ تیز سے تیز تر چلانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست سمجھتی ہے ہنرمند افراد میں اضافہ ریاست کے مجموعی ٹیلنٹ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے کہ ریاست انسانی تنوع کو مفید سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست ٹیکس نیٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کر کے تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات میں بہتری لانا چاہتی ہے۔

ایک پرت اور کھولتے ہیں

آسٹریلیا میں سڈنی اور میلبرن سب سے بڑے اور انفراسٹرکچر کے حساب سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہیں۔ تیسرا بڑا شہر برسبین ہے۔ سڈنی، نیو ساؤتھ ویلز، میلبرن، وکٹوریا جب کہ برسبین، کوئینز لینڈ میں واقع ہے۔

نیو ساؤتھ ویلز، وکٹوریا اور کوئینز لینڈ تین states ہیں تاہم آسانی کے لیے آپ انہیں صوبوں کے مترادف سمجھ لیجیے۔ ان سٹیٹس میں 2 طرح کے علاقے ہیں۔ ایک ہے میٹروپولیٹن علاقہ جب کہ دوسرا ریجنل علاقہ۔

آپ میٹروپولیٹن کو شہر جب کہ ریجنل کو دیہات سمجھ لیجیے۔ میٹروپولیٹن علاقے گنجان آباد جب کہ ریجنل علاقے نسبتاً غیر آباد ہیں۔

ریاست کو اس بات کا ادراک ہے کہ دیہی علاقہ شہری علاقوں کی نسبت کم ترقی یافتہ ہے۔ کم ترقی یافتہ سے مراد ایسا نہیں کہ بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں۔ آبادی کم ہے لہذا جدید تفریحی مقامات کم ہیں، مالز اور تجارتی مواقع کم ہیں۔

ریاست کی پالیسی ہے کہ ان غیر گنجان آباد علاقوں کو زیادہ سے زیادہ آباد کیا جائے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ریاستی سطح پر آسٹریلیا کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ان علاقوں کو انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔

یہ ضرورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ ریاست ان علاقوں کو مستقبل میں بہتری کی جانب گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست ان غیر آباد علاقوں کو آباد کر کے یہاں ترقی لانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست انسانی آباد کاری کے ذریعے ڈیمانڈ سپلائی کو بڑھا کر ان علاقوں کی مقامی معیشت کا پہیہ تیز سے تیز تر چلانا چاہتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست سمجھتی ہے ہنرمند افراد میں اضافہ ان علاقوں کے مجموعی ٹیلنٹ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے کہ ریاست ان علاقوں میں انسانی تنوع کو مفید سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ ریاست ان علاقوں کے ٹیکس نیٹ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کر کے تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات میں بہتری لانا چاہتی ہے۔

ریاست اس کے لیے کیا کرتی ہے؟

ریاست سب سے پہلے تو اپنی شہریت کو ایک حسین خواب جیسا ثابت کرتی ہے۔ کیسے؟ ریاست شہریت کے خواہش مند افراد کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتی ہے، بنیادی سے کہیں پڑھ کر سہولیات کا وعدہ کرتی ہے، ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے، امن و امان کو یقینی بناتی ہے، قانون کے اطلاق کو عملی طور پر نافذ کر کے دکھاتی ہے، ہائی سکول تک مفت اور اس کے بعد بغیر سود قرضے دستیاب کر کے تعلیم کا تسلسل فراہم کرتی ہے، دنیا بھر میں اپنے پاسپورٹ کو عزت و تکریم دلاتی ہے۔

لیکن اس کا غیر آباد علاقوں سے کیا تعلق؟

تعلق یہ ہے کہ شہری آبادی کی بجائے ریاست شہریت یا مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے دیہی علاقوں میں آباد ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔  مگر کیسے؟

ریاست ہنرمند افراد کو پوائینٹ سسٹم کے تحت مستقل رہائش اور پھر شہریت کی راہ دکھاتی ہے۔ یہ کام آپ شہری علاقے میں رہ کر بھی کر سکتے ہیں اور دیہی علاقے میں رہ کر بھی، تاہم، ریاست دیہی علاقوں میں رہنے اور انہیں آباد کرتے ہوئے وہاں کی ترقی میں اضافہ کرنے کے بدلے آپ کو شہریت دینے میں کافی رعایت دے دیتی ہے۔

مثلاً permanent residence کے لیے اگر آپ ریجنل یا دیہی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو ریاست اس بات کی حوصلہ افزائی کے لیے آپ کو باقیوں کی نسبت 5 پوائینٹ اضافی دیتی ہے۔

اگر آپ ورک پرمٹ کے لیے اپلائی کرتے ہیں (جو بعد ازاں آپ کی مستقل سکونت کو پکا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے) تو ریاست آپ کو اضافی 15 پوائینٹ دیتی ہے۔

ریاست دیہی علاقوں میں ورک پرمٹ بھی نسبتاً زیادہ دورانیے کے لیے دیتی ہے۔ ریاست دیہی علاقوں میں رہائش اختیار کرنے پر آپ کا ویزہ بھی نسبتاً جلدی پراسیس کرتی ہے۔ مزیدبرآں، دیہی علاقوں میں رہائش اختیار کرنا شہری علاقوں کی نسبت کافی سستہ بھی پڑتا ہے۔

یہ سب بتانے کا مقصد؟

یہی کہ ترقی کو لے کر سنجیدہ ریاست اولاً تو آباد کاری کے ذریعے انسانوں کے مختلف گروہوں کو اکٹھا کر کے متحد کرنا ناصرف اچھا سمجھتی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔

تو پھر آبادکاری ہمارے یہاں ایک منفی عمل کیوں سمجھا جاتا ہے؟

اس لیے کہ ہم دودھ کے جلے تاحال کالونیلزم یا استعماری نظام کا ترجمہ “نو آبادیاتی نظام” کرنا ناصرف زیادہ بہتر سمجھتے ہیں بلکہ اسے ایک محدود تناظر میں بھی دیکھتے ہیں جس کے چکر میں ہم جدید دور میں آبادکاری کے مثبت اثرات کو نظرانداز کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں۔

کیوں؟ کیونکہ ہم آج تک نسل پرستی اور قومیت سے باہر نکلنے میں ناکام رہے ہیں۔

مثالیں لے لیتے ہیں

پاکستان بن گیا۔ اب آپ اس پر ناچیں گائیں یا ماتم کریں، دنیا کے نقشے پر ایک ریاست تو قائم ہو گئی۔ ریاست جب قائم ہوچکی تو اصولاً اس کے اندرونی معاملات کو اب ریاست بطور اکائی ہی دیکھا جانا چاہیے تھا۔

ایسا ریاست چلانے والوں کی جانب سے بھی ہونا چاہیے تھا اور ریاست میں بسنے والوں کی جانب سے بھی۔ یعنی جب ریاست بن گئی تو اب پٹھان پنجابی بلوچی سندھی سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہونی چاہیے تھی کہ بطور پاکستانی ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں، نہ ریاست کی جانب سے، نہ ریاست میں بسنے والوں کی جانب سے۔

ریاست کی جانب سے یہ کیسے ہوا؟

ریاست کا فرد کے ساتھ وہی رشتہ ہونا چاہیے کہ جس پر فخر کرتے ہوئے فرد ریاست کی شہریت کو نعمت سمجھے ناکہ سزا۔ ریاست البتہ مقامی باشندوں کو اپنی دھرتی پر وہ سب کچھ دینے میں کم و پیش ناکام رہی جو مل جانے پر شہریت فخر کا باعث بنتی ہے۔

ریاست میں بسنے والوں کی جانب سے یہ کیسے ہوا؟

ایک بار جب ریاست بن گئی تو یہاں سے آگے ریاست کا ہر باشندہ پہلے پاکستانی کہلائے گا، بعد میں سندھی بلوچی پنجابی پٹھان۔ ہم نے کیا کیا؟ ہمارے اذہان میں نقل مکانی کی وجہ وہی نو آبادیاتی دور کی تخریب کاری پھنسی ہوئی ہے کہ جناب یہ تو استعمار کی جانب سے ڈیموگرافی کنٹرول کرنے کا طریقہ ہے، یہ مقامی معیشت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے، یہ ہماری مقامی تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کی سازش ہے، یہ ہمارے امن و امان کے خلاف منصوبہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

بھائی کون سا استعمار؟ آپ کے خیال سے پنجابی استعمار نقل مکانی اور آباد کاری کے ذریعے مذکورہ بالا سازشیں کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پنجاب کے اندر باقی پاکستان سے نقل مکانی کون سا استعمال کر رہا ہے؟

اول تو ہر غیر آباد علاقے کو آباد کرنا ایک مثبت عمل ہے لیکن بالفرض اسے مان بھی لیا جائے تو پنجاب خود اس “منفی” عمل سے کتنا متاثر ہوا ہے؟

1996 تک قریب 10 لاکھ افراد دیگر صوبوں سے پنجاب میں آکر بسے۔ یہ کل بین الصوبائی نقل مکانی کا 44 فیصد بنتا ہے۔ سندھ میں یہ تعداد اعشاریہ سات سات ملین رہی۔1998  سے  2027 کے درمیان کراچی کی آبادی میں اضافے کی شرح ڈھائی فیصد رہی۔

جب کہ لاہور میں یہی شرح 4 اعشاریہ ایک فیصد رہی۔ اسی دورانیے میں کے پی کے تا پنجاب نقل مکانی 12.1 فیصد جب کہ سندھ تا پنجاب 6 فیصد رہی۔

ریاست کے صوبائی، وفاقی اور سب سے بڑھ کر بے نام کرتا دھرتا نااہل ہیں،  اس حقیقت سے بھلا کون چشم پوشی کر سکتا ہے، لیکن ہم بطور عوام کتنے نااہل ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پوری دنیا میں غیر آباد علاقوں کو آباد کرنا، وہاں ڈائیورس آبادی کا بڑھنا، مقامی معیشت کو فروغ ملنا یہ سب مثبت عمل جانا جاتا ہے۔

جب کہ ہم آج تک غیر مقامی باشندوں کو بندوق کی نال پر یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ یہ پہاڑ ہمارے ہیں لہذا یہاں آنے کی اجازت ہمارے علاوہ کسی کو نہیں؟

آپ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے کسی بھی شدھ رہائشی سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ گھر کے سامنے کچرا خود خوب دلجمعی کے ساتھ پھینکیں گے، مگر شہر کے مسائل کا ذمہ دار سرائیکیوں اور پٹھانوں کو قرار دیں گے۔

بھائی، آپ کو لگتا ہے ہم نے 14 اگست کو کراچی کی سڑکوں پر “ٹیکسی” میں بیٹھے منہ میں ایک جانب “پیپسی” دوسری جانب گٹکا کھاتے مقامی لونڈے نہیں دیکھے؟

محنت کش کو بس تھوڑی سی سپیس چاہیے ہوتی ہے، وہ مل جائے تو مواقع وہ خود بنا لیتا ہے۔ ہڈ حرام نہیں ہوتے، لہذا جو کام ملے کر لیتے ہیں، بشمول جرائم کے۔ اگر نقل مکانی کرنے والا جرم کر رہا ہے تو جرم کی سزا تو قانوناً مقامی اور غیر مقامی دونوں باشندوں کے لیے ایک ہی ہے۔

آپ کے شہر میں سپیس تھی، اگلے آئے اور ٹرانسپورٹ کا کام سنبھال لیا۔ اسی کام میں اپنے گاؤں سے مزید لوگ بلوائے اور لگا لیے۔ مل جل کر محنت کی اور آگے بڑھ گئے۔ اس میں قباحت کیا ہے؟

میں 8 سال ابو ظہبی رہا ہوں۔ جب تک رہا وہاں ایک ہی ڈرائیونگ سکول تھا جس کے باہر ڈرائیونگ انسٹرکٹرز کی اکثریت پٹھانوں پر مشتمل تھی۔ کیا یہ غیر قانونی تھا؟ نہیں۔ اسی لیے پاکستان سے باہر بھی یہی پیٹرن رہا۔

آسٹریلیا میں ٹرانسپورٹ پر سکھ کمیونٹی کا اچھا خاصہ حصہ چھایا ہوا ہے۔ کیوں؟ محنت کرتے ہیں، سپیس ملتی ہے، پکڑ کر کام آگے بڑھاتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں جتنی ہو سکے۔ مسئلہ کیا ہے؟

سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی بیرون ملک پاکستانی ہمیں آباد کاری و نقل مکانی کے خلاف لیکچر دیتا نظر آتا ہے۔

بھائی۔۔۔آپ تو خود میری طرح اپنا گھر، اپنی گلی، اپنا محلہ، اپنا علاقہ، اپنا شہر، اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور جگہ مقیم ہیں۔ آپ کس منہ سے اس کے خلاف بات کر رہے ہیں؟

کبھی کے پی سے اٹھ کر پنجاب نقل مکانی کرنے والے کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیے۔ ایک ایک اعتراض سامنے رکھیے اور پھر پہلے خود اپنا جواب دیجیے کہ آپ ان اعتراضات کے جواب کیسے دیں گے؟

بلوچ لبریشن آرمی نے حال ہی میں بتایا کہ یہ صوبہ ہمارا ہے۔ یہاں کے پہاڑ ہمارے ہیں۔ یہاں کی زمین ہماری ہے۔ تمہارے آنے سے ہزاروں سال پہلے ہم یہاں آئے۔ ہزاروں سالوں سے ہم یہاں بکریاں چرا رہے ہیں۔

ٹھیک ہے بھائی، آپ ہزاروں سال پہلے یہاں آئے۔ تب یہاں شاید کوئی نہ ہو۔ آپ نے زمین پکڑ لی۔ اسے اپنی ملکیت میں لے لیا۔ بھائی کتنی زمین چاہیے رہنے کے لیے؟ لے لو۔

باقی کی زمین پر کیسے وہ کلیہ لاگو کر رہے ہو جو خود یہاں پہنچنے پر اپنے اوپر لاگو نہ کیا؟ قانونی طور پر ممانعت نہیں ہے، معاشرتی طور پر نہیں ہے، مذہبی طور پر نہیں ہے۔۔ پھر کس بنیاد پر انسانی آباد کاری اور نقل مکانی کے مخالف ہو؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

معاذ بن محمود

متعلقہ مضامین

  • شاہ رخ کو 20 سال میں پہلی مرتبہ ’منت‘ چھوڑنا پڑ گیا، کہیں اور منتقلی کا فیصلہ
  • امریکا اب ان اقدار کی نمائندگی نہیں کرتا، فرانس کا امریکا سے مجسمہ آزادی کی واپسی کا مطالبہ
  • ’یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا اور آپ رولز کی بات کررہے ہیں‘ جسٹس جمال مندوخیل کا وکیل سے مکالمہ
  • ہمیں مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں
  • یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا، رولز کی بات کررہے ہیں،جسٹس مندوخیل کا وکیل سے مکالمہ
  • امریکا کے پاس ہمیں ڈکٹیشن دینے کا کوئی اختیار نہیں، عباس عراقچی
  • ٹرین حملہ سفاکانہ دہشتگردی ‘ فضل الرحمن دوست‘ کہیں نہیں جانے دیں گے: احسن اقبال
  • مہنگی ترین بجلی کب تک ؟
  • ہجرت، نقل مکانی، آباد کاری وغیرہ وغیرہ