WE News:
2025-03-17@12:12:32 GMT

بولو، چیخو اور چلاؤ

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

ہر محب وطن کی خواہش ہے کہ اس دھرتی کے سبز پرچم کو سر بلند دیکھے، اس کو دنیا کی مملکتوں میں سب سے ممتاز دیکھے، اس ارض پاک کو تا قیامت امن کا گہوارہ بنا ہوا رکھے، اس دیس میں خوشحالی ہو، رنگ ہوں، خوشیاں ہوں۔ محبت یہاں رقصاں ہوں، امن یہاں کا نشان ہو، ترقی کی ہر چوٹی ہم نے سر کی ہو، فلاح کا ہر قدم ہم نے اٹھایا ہو، اور یہ جنت نظیر گوشہ اپنے مکینوں کے لیے جنت بھی ہو جائے۔ یہ خواہش ہر محب وطن کی ہے مگر حقیقت اس خواہش سے بہت دور بلکہ بہت ہی دور ہے۔

یہ ارض پاک اب لہو لہو ہے، یہاں نفرتوں کی فصل بیج دی گئی ہے، یہاں دہشتگردی کی آگ ہے، یہاں بم دھماکوں کے شعلے  ہیں، یہاں ایمبولینسوں کا شور ہے۔ یہاں چیخیں، کراہیں اور سسکیاں ہیں۔ یہ سب کچھ وہ نہیں جس کا خواب اس مملکت کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا۔ یہ وہ سب کچھ نہیں ہے جو سب کی خواہش ہے۔ یہ خوف کی فضا، یہ دکھ کے بادل، یہ الم کے سائے کیوں ہمارا مقدر بنے اس پر سوچنا ہے؟

اس ملک میں امن 2 دھماکوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ لوگوں کے چیتھڑے اڑنے کی خبر، آہ و زاری کرتی عورتوں کی وڈیوز، زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد، حکومت کی جانب سے معذرت اور تعزیت کے پیغامات، اعلیٰ افسران کی جانب سے اسپتالوں کے ہنگامی دورے، مرنے والوں کے پس ماندگان کے لیے رقوم کا اعلان، زخمیوں کو مفت علاج کی سہولت اور پھر اس کے بعد اگلے دہشتگرد حملے کا انتظار ہے۔ کیا یہی ہماری قسمت میں لکھا ہے؟ اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

گزشتہ چند دنوں میں دہشتگردی کے واقعات اتنی شدت اور تواتر سے ہوئے کہ کسی کو ہوش نہیں رہا، کہیں کسی عالم دین کو بم کے گولے سے اڑا دیا گیا، کہیں کسی مسجد میں نمازیوں سے خود کش بمبار ٹکرا گیا، کہیں سیکیورٹی پر متعین جوانوں پر حملہ ہوا، کہیں معصوم بچے دہشتگردی کے شکار ہوئے، کہیں کوئی سول آبادی کو لہو میں نہلا گیا، کہیں کسی مدرسے کے طلبہ لقمہ اجل بنے۔ کہیں رزق حلال کی تلاش میں محنت کش ذبح کر دیے گئے۔ یہ سب مںظر ہم بے شمار مرتبہ دیکھ چکے ہیں، یہ سب خبریں ہم با رہا سن چکے ہیں، یہ سب ماتم ہم بہت دفعہ کر چکے ہیں۔

اب اس ملک کے باسیوں کے پاس بہت سے سوال ہیں۔ انہیں ان کے جوابات درکار ہیں۔ اب انہیں ابہام سے نجات چاہیے۔ اب انہیں کوئی واضح رستہ درکار ہے۔ اب اس ملک کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب ماتم کر،کر کے ہماری آنکھیں خشک ہو گئی ہیں۔ اب جنازے اٹھا اٹھا کر ہمارے کاندھے شل ہو چکے ہیں۔

المیے سے بڑا ا لمیہ یہ ہے کہ اس قدر خون ریزی کے باوجود ہمارے ہاں ان دہشتگردوں کے ہمدرد ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ ایسے بے شمار ہیں جن کے اس دہشتگردی سے سیاسی مقاصد وابستہ ہے۔ ملک میں بدامنی سے انہیں اپنا سیاسی مفاد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اس دہشتگردی کے جواز تلاش کرتے ہیں۔ معصوموں کا خون بہانے والوں کے غم گسار بنتے ہیں۔ دہشتگردی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ان ظالموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان فاسقوں کی جرات کی داد دیتے ہیں۔

تاریخ کےاس خوں ریز موڑ پر ہمیں بحیثیت قوم کچھ امتحان درپیش ہیں۔ کچھ فیصلے ہیں جو اب ہمیں کرنے ہیں۔ ان فیصلوں میں نہ تعطل برداشت کیا جا سکتا ہے نہ مصلحت کو درانداز ہونے دیا جا سکتا ہے۔ اب ایک واضح حکمت عملی پر چلنا ہو گا۔ اب ایک مصمم عزم کرنا ہوگا۔ اب ایک اٹل فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب ہمیں  کمزور اور مصلحت آمیز  رویوں کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔ اب طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب نعرہ تکبیر کا وقت آ گیا ہے۔

اب اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ ملک کا سب بڑا خطرہ فتنہ الخوارج ہی ہے۔ یہ وہ بدبخت ہیں جنہیں نہ مذہب کی تعلیمات کا کچھ لحاظ ہے، نہ مساجد کا احترام ہے نہ بے گناہوں کا خون بہنے کا احساس ہے۔ نہ ان کے سینوں میں کوئی دل ہے نہ ان کو علمائے دین کی حرمت کا کچھ خیال ہے۔ یہ فتنہ اس دھرتی کے بدن کو چاٹ رہا ہے۔ اس فتنے کا قلع قمع ہی واحد رستہ ہے۔ یہی طریقہ ہے امن کا بحال کرنے کا۔ یہی قرینہ ہے اس عفریت سے نمٹنے کا۔

 ہم نے بحیثیت قوم اب اس پر اتفاق کرنا ہے کہ اس خوارجی فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی  بقا کا واحد رستہ ہے۔ اس کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے، نہ مملکت میں استحکام آ سکتا ہے، نہ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے، نہ بیرونی ممالک ہمیں اچھی نطر سے دیکھیں گے، نہ یہاں سے بھوک ختم ہو گی، نہ افلاس مٹے گا۔ نہ ملک ترقی کرے گا نہ پرچم بلند ہوگا۔

اب ان سب لوگوں کو چپ سادھ لینی چاہیے جو ان فتنہ انگیزوں سے ہمدردی کرتے ہیں، اسی میں ان کا بھلا ہے۔ اب اس مملکت کے پاس ان خوارجیوں کو جہنم واصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب ہم مزید دکھ نہیں دیکھ سکتے۔ مزید خودکش دھماکے نہیں سہہ سکتے۔ اب ہم مساجد کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ اب ہم معصوم بچوں کی لاشیں مزید نہیں اٹھا سکتے۔ اب ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ یہ خوارجی امن کے بھی دشمن ہیں، ملک کے بھی خلاف ہیں، اسلام سے بھی منحرف ہیں، انسانیت سے بھی عاری ہیں۔ اس فتنے کو ختم کرنا ہی بقا کا واحد رستہ ہے۔ یہی ایک رستہ ہے امن، استحکام  اور  ترقی کا۔ ہمیں  یہ فیصلہ آج اور ابھی کرنا ہے۔اب خوارجیوں کے ظلم، اور بربریت کے خلاف ہم سب نے آواز بلند کرنی ہے۔ اب ہم نے اس بربریت کے خلاف پوری قوت سے بولنا، چیخنا اور چلانا ہے۔ ساری دنیا کو احساس دلانا ہے کہ ان خوارجیوں کو ختم کیے بغیر نہ ملک میں امن آ سکتا ہے نہ دنیا میں  سکون ہو سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم پاکستان دہشت گردی عمار مسعود فتنۃ الخوارج.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم پاکستان فتنۃ الخوارج سکتا ہے رستہ ہے چکے ہیں

پڑھیں:

اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ

اللہ تعالیٰ سے تعلق اس پر توکل اور بھروسے سے مضبوط ہوتا ہے۔ ہم سب کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں اللہ سے اپنے تعلق پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ مزید جانیے اس ویڈیو میں ۔۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پاکستان تحریک انصاف کا نیشنل سیکیورٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں شرکت کا اعلان
  • ’یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا اور آپ رولز کی بات کررہے ہیں‘ جسٹس جمال مندوخیل کا وکیل سے مکالمہ
  • ہمیں مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں
  • یہاں آئین پر عمل نہیں ہوتا، رولز کی بات کررہے ہیں،جسٹس مندوخیل کا وکیل سے مکالمہ
  • امریکا کے پاس ہمیں ڈکٹیشن دینے کا کوئی اختیار نہیں، عباس عراقچی
  • ٹرین حملہ سفاکانہ دہشتگردی ‘ فضل الرحمن دوست‘ کہیں نہیں جانے دیں گے: احسن اقبال
  • مہنگی ترین بجلی کب تک ؟
  • اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ
  • ہجرت، نقل مکانی، آباد کاری وغیرہ وغیرہ