پاکستان میں افغانیوں سمیت غیر قانونی مقیم افراد کے لیے آخری ڈیڈ لائن میں 15 دن باقی
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن میں صرف 15 دن باقی رہ گئے ہیں۔
حکومت پاکستان نے 31 مارچ تک ان افراد کو پاکستان چھوڑنے کا حکم جاری کیا ہے، حکومت کے فیصلے کے مطابق 31 مارچ تک ان افراد کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔
حکومت پاکستان نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ انخلا کے دوران کسی بھی شخص کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جائے گی، اور انہیں واپس جانے کے لیے خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
تاہم، حکومت نے واضح کیا ہے کہ مقررہ تاریخ کے بعد ان افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
متعلقہ حکام نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ڈیڈلائن کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف گرفتاریوں اور دیگر قانونی اقدامات کا آغاز کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
معذور خواتین اور لڑکیاں آن لائن ہراسانی کا زیادہ نشانہ
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ رکن ممالک کو آن لائن ہراسانی روکنے اور جسمانی معذور خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی یقینی بنانا ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے میں جسمانی معذور افراد کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔ ہر جگہ ایسے لوگوں کو امتیازی سلوک اور مستردگی کا سامنا رہتا ہے جبکہ جسمانی معذوری کا شکار خواتین اور لڑکیاں اس صورتحال سے کہیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جنہیں بدسلوکی کا ہدف بنایا اور نظرانداز کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا ہراسانی اور بلیک میلنگ سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بات کرتے ہوئے ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ آج کی آن لائن دنیا میں ہراسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔
معذوری، تفریق اور تشددجسمانی معذور افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار حبا ہغراس نے کونسل میں اسی انتباہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق کو فروغ و تحفظ دینے میں پیش رفت جمود کا شکار ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف کو دیکھا جائے تو پیش رفت 14 فیصد تنزلی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسمانی معذور خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ صورتحال اور بھی خراب ہے جنہیں کئی طرح کی تفریق کا سامنا ہے۔ انہیں صںفی بنیاد پر اور اپنی معذوری کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ تعلیم اور روزگار میں بہت پیچھے ہیں اور انہیں تشدد و بدسلوکی بالخصوص جبری اسقاط حمل، گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کا خطرہ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔
مددگار ٹیکنالوجی کی خامیاںوولکر ترک کا کہنا تھا کہ جسمانی معذور افراد کے لیے کئی طرح کی مددگار ٹیکنالوجی مردوں نے مردوں کے لیے تیار کی ہیں جیسا کہ بعض بیساکھیاں صرف مردوں کے لیے ہی موزوں ہوتی ہیں جبکہ انہیں خواتین کے لیے بھی یکساں فائدہ مند ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی و ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟
اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے سماعت و بصارت سے محروم افراد کے لیے عالمی ادارے کے صدر سنجا ترکزے نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، جسمانی معذوری کے حامل صرف 10 فیصد لوگوں کو ہی مددگار ٹیکنالوجی تک رسائی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی محض سادہ آلات نہیں ہوتے بلکہ ان کی بدولت جسمانی معذور افراد کو زندگی میں اپنا کردار بھرپور طور سے ادا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی دنیا محض ایک خواب نہیں جس میں تمام معذور افراد کو مساوی مواقع ملیں بلکہ اسے ممکن بنانا سبھی کی مشترکہ ذمہ داری بھی ہے اور تمام لوگوں کو باہم مل کر اسے حقیقت کا روپ دینا ہے۔
سوشل میڈیا کی ذمہ داریجسمانی معذور افراد کے حقوق کی علمبردار نکی للی نے کونسل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ نے سائبر ہراسانی اور آن لائن نفرت کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کو ٹیکنالوجی کی تیاری میں جسمانی معذور افراد کو بھی شامل کرنا ہو گا اور ہراسانی و نفرت پر مبنی پوسٹ حذف کرنے اور انہیں جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے عمل کو تیز رفتار بنانا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: آن لائن رشتہ ایپس پر ہراسانی کے خطرات کیوں بڑھتے جا رہے ہیں؟
انہوں نے جسمانی معذور افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر پی ڈی) کا خیرمقدم کرتے ہوئے کونسل کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ ایسے قابل رسائی ڈیجیٹل نظام پر سرمایہ کاری یقینی بنائیں جس میں تمام لوگوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو۔
’آن لائن ہراسانی پر احتساب کا مضبوط طریقہ اختیار کیا جائے اور ایسی مشمولہ پالیسیاں بنائی اور نافذ کی جائیں جن کی بدولت ہر فرد معاشرے میں مساوی کردار ادا کر سکے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ انٹرنیٹ جنسی ہراسانی سوشل میڈیا نکی للی وولکر ترک