کراچی:
میں خود ہی ہوں اپنے آپ کے پیچھے پڑا ہوا
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں ہے
مجھے شعر و شاعری کا شوق نہیں لیکن بعض شعر دماغ میں بس جاتے ہیں، یہ بھی انہی میں سے ایک ہے اور پاکستان کرکٹ پر مکمل فٹ بیٹھتا ہے،اگر آپ دیکھیں تو ہم اپنے دشمن نمبر ون ہیں، ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں اور خود کو ہی نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔
ماضی میں سرفراز احمد کی زیرقیادت ٹیم 10 سے زائد مسلسل سیریز جیت کر دنیا پر راج کر رہی تھی،اس وقت کے ’’بادشاہ سلامت‘‘ نے ورلڈکپ میں بھارت سے میچ کے حوالے سے کوئی مشورہ دیا جسے نہ ماننے پر سرفراز ’’بیڈ بکس‘‘ میں آ گئے پھر ایک سیریز ہارنے پر ہی چھٹی ہوگی۔
اس کے بعد سے ہی ٹیم جدوجہد کر رہی ہے، درمیان میں کچھ اچھے لمحات ضرور آئے لیکن ماضی والی فتوحات کا دور دوبارہ نہ لوٹ سکا، پھر بابر اعظم سے اعلیٰ حکام ناراض ہوئے تو انھیں قیادت سے ہٹا دیا، وہ اس کے بعد سے نہیں سنبھل سکے اور اب تک جدوجہد کر رہے ہیں۔
بابر کی جگہ شاہین کپتان بنے، ایک سیریز ہارنے پر انھیں برطرف کرکے پھر بابر کو ذمہ داری سونپی گئی،ورلڈکپ میں پھرنتائج اچھے نہ رہے تو کپتان کوایک بار پھر تبدیل کر دیا گیا۔
اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ سلمان علی آغا جیسے اوسط درجے کے پلیئر نے ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے، انھوں نے بہت تیزی سے ترقی کی،جس وقت وہ بطور عام کھلاڑی کھیل رہے تھے تب ہی مجھے کرکٹ سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت نے بتا دیا تھا کہ یہ اگلا کپتان ہے، بعد میں ایسا ہی ہوا۔
قیادت کا یہ میوزیکل چیئر گیم اب تک ختم نہیں ہوا،شاداب خان کو گھر سے بلا کر نائب کپتان بھی مقرر کر دیا گیا، ٹیم نے ون ڈے چیمپئنز ٹرافی میں ناقص کارکردگی دکھائی اور تبدیلیاں ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں کر دی گئیں۔
غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی اسے تسلیم کرتے ہوئے اپنی اصلاح کر لے تو آئندہ بہتری کا امکان بڑھ جاتا ہے، افسوس یہاں ایسا نہ ہوا، ایک پان والے سے لے کر کسی کمپنی کے سی ای او سے پوچھ لیں تو وہ بتائے گا کہ چیمپئنز ٹرافی کیلیے ہمارا اسکواڈ درست منتخب نہیں ہوا لیکن سلیکٹرز اسے ماننے کو تیار نہیں۔
انھیں لگتا تھا کہ ایک اسپنر اور ایک اوپنر پر مشتمل بہترین ٹیم چنی، بچہ بچہ جانتا تھا کہ کون سے سفارشی پلیئرز شامل ہوئے لیکن سلیکشن کمیٹی خاموش رہی، پاکستان میں مستقل کوچ اتنے عرصے عہدے پر نہیں رہتا جتنا ’’عبوری‘‘ عاقب جاوید رہ چکے ہیں۔
سلیکٹرز نہ ہی کوچز کو تبدیل کیا گیا، ایک اضافہ بیٹنگ کوچ محمد یوسف کی صورت میں ہوا جنھوں نے کیریئر میں 3 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے ہیں، وہ خود قدیم دور کے کھلاڑی رہے ہیں نئے وقت کی کرکٹ کسی کو کیا سمجھائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ون ڈے اسکواڈ میں زیادہ ردوبدل نہیں ہوا، کسی ایک نے بھی اپنے فیصلوں پر شرمندگی ظاہر نہ کی، المیہ یہ تھا کہ پی سی بی نے بھی کوئی تبدیلی نہ کی اور انہی سلیکٹرز کو دورہ نیوزی لینڈ کیلیے پلیئرز منتخب کرنے کا ٹاسک سونپ دیا۔
ان بقراطوں نے پھر کمال کر دکھایا، نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز میں ہمارا مکمل مضبوط ترین اسکواڈ بھی کچھ نہیں کر پاتا تھا اس بار کئی نوجوان کرکٹرز کو بھیج دیا گیا، بابر اور رضوان کو سست بیٹنگ کے طعنے ملتے تھے نئے کپتان سلمان علی آغا’’ جدید اوربے خوف‘‘ کرکٹ کھیلنے کی باتیں کرتے رہے لیکن میدان میں جا کر سب بھول گئے۔
ایک رن پر تین وکٹیں گرنے سے شائقین کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ہوگی، پاور پلے میں14 رنز بنے جو پاکستان کی دوسری سست ترین بیٹنگ ہے، محمد حارث کی پرفارمنس صفر مگر انداز سپراسٹار والا ہے، انھیں کوئی بتائے کہ بے خوف کرکٹ کا مطلب آنکھیں بند کر کے شاٹس کھیلنے کی کوشش نہیں ہے۔
حسن نواز اور عبدالصمد ڈیبیو پر ناکام رہے مگر اس میں ان کا قصور نہیں، نئے کھلاڑیوں کو نیوزی لینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں ڈیبیو کرا دیا گیا، انھیں کچھ وقت تو لگے گا، اب ایک ناکامی کے بعد انھیں ڈراپ نہیں کر دیجیے گا بلکہ صلاحیتوں کے اظہار کا پورا موقع دیں۔
میں نے 2 دن پہلے ایک ٹی وی شو میں اسی خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ٹیم شاید 100 رنز بھی نہ بنا سکے بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا، آپ کے پاس کوئی ایسا پلیئر ہی نہیں تھا جو وکٹ پر وقت گزار سکے، اسی لیے 20 اوورز بھی نہ کھیلے جا سکے، بیچاروں کو بے خوف کرکٹ کا راگ الاپ کر خوفزدہ کردیا گیا۔
پاکستان کرکٹ سازشوں سے بھری ہوئی ہے، مکی آرتھر کے دوسرے دور میں ورلڈکپ میں پرفارمنس کا جائزہ لینے کیلیے ایک کمیٹی بنائی گئی اس میں مصباح الحق بھی شامل تھے، انھوں نے ایسا جائزہ لیا کہ مکی کی جگہ خود نہ صرف ہیڈ کوچ بلکہ چیف سلیکٹر کی ذمہ داری بھی سنبھال لی۔
اس کے بعد بھی ٹیم کا تیا پانچا ہوتا رہا، ایکشن ری پلے اب دیکھنے کو ملا جب عاقب جاوید، جیسن گلیسپی اور گیری کرسٹن کو سائیڈ لائن کروا کر خود سلیکٹر اور کوچ بن گئے، گلیپسی کے لیے مجھے زیادہ افسوس ہوا کیونکہ کئی کھلاڑیوں نے ان کی بڑی تعریف کی تھی، میں خود بھی جب ان سے ملا تو منصوبے جان کر بیحد متاثر ہوا تھا۔
وہ اگر کچھ عرصے رہ جاتے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھیل میں یقینا بہتری آتی لیکن سازشوں کا شکار ہو گئے، اب پھرہم انہی افراد میں گھرے ہیں جو نوکری ملنے پر حکام کی خوشامد کرتے ہیں اور برطرفی کے بعد ٹی وی پر بیٹھ کر ملکی کرکٹ میں خامیاں نکالتے ہیں۔
گلیسپی نے گذشتہ دنوں جو باتیں کیں جو بالکل درست ہیں، یہ بیچارے غیرملکی کوچز پاکستانی سیاست سے واقف نہیں اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں، ہمارے سابق کرکٹرز بڑی بڑی باتیں کر کے حکام کے دل جیت لیتے ہیں لیکن فیلڈ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
اب خدانخواستہ نیوزی لینڈ سے ہار گئے تو ایسے بیانات سامنے آئیں گے کہ ’’نوجوان ٹیم تھی اس لیے نتائج اچھے نہ رہے، یہ پلیئرز سیکھ کر پرفارم کرنے لگیں گے‘‘۔
ان لوگوں کا چیک ہر ماہ تیار ہوتا رہے گا لیکن مسئلہ شائقین کرکٹ کا ہے، ہر ایونٹ یا سیریز کے بعد ہزاروں نوجوان کھیل سے دوری اختیار کر رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کبھی ٹیم کھیلے تو کسی کو پروا ہی نہ ہو، حالات تو یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ ایسا وقت اب زیادہ دور نہیں ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نیوزی لینڈ رہے ہیں دیا گیا کے بعد تھا کہ
پڑھیں:
پی ایس ایل چھوڑنے پر کوربن بوش کو پی سی بی کا قانونی نوٹس
کراچی:پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جنوبی افریقی آل راؤنڈر کوربن بوش کو قانونی نوٹس جاری کر دیا ہے۔
بورڈ نے نوٹس کوربن بوش کی جانب سے ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ میں اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کے سبب بھیجا ہے۔
کوربن بوش کو پشاور زلمی نے پی ایس ایل پلیئر ڈرافٹ میں ڈائمنڈ کیٹیگری میں منتخب کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے آئی پی ایل کو جوائن کرلیا، حال ہی میں ممبئی انڈینز کی جانب سے کوربن بوش کو بطور متبادل اپنے اسکواڈ کا حصہ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
پی سی بی انتظامیہ نے ان کی علیحدگی کے اثرات اور ممکنہ نتائج کا بھی خاکہ پیش کیا ہے جبکہ قانونی نوٹس بوش کے ایجنٹ کے ذریعے بھجوایا گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ سمجھتا ہے کہ کوربن بوش کی یہ حرکت مستقبل میں دوسرے کھلاڑیوں کے بھی ایسا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
یاد رہے کہ اس بار پی ایس ایل اور آئی پی ایل دونوں لیگز ایک ہی تاریخوں میں کھیلی جائیں گی۔