WE News:
2025-03-17@05:19:25 GMT

پاکستان کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی چاہیے 

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جب جنرل ضیا کی مارشل لا حکومت نے انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے اور یہ واضح ہوگیا کہ مارشل لا جلدی نہیں ٹلے گا، تو پھر سیاسی جماعتیں متحد ہوئیں۔ بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان نے تمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی اور اس میں پی این اے کی جماعتوں کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی مدعو کیا۔

یہ بھی پڑھیں:فیصلے کا وقت آ پہنچا

ابتدائی مرحلے پر درمیانی سطح کے رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر فائنل اسٹیج آئی اور نوابزادہ صاحب نے مختلف جماعتوں کے قائدین کا اجلاس منعقد کیا۔  مقصد سیاسی اتحاد ایم آر ڈی (موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یعنی تحریک بحالی جمہوریت )کی تشکیل تھا۔

روایت کے مطابق بیگم نصرت بھٹو جب کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ بھٹو صاحب کےشدید مخالف اور ان کو کوہالہ پل پر لٹکا دینے کا بیان دینے والے ایئر مارشل (ر) اصغرخان کو دیکھ کر چونک گئیں۔ وہ اس قدر مضطرب اور برہم ہوئیں کہ ان سے بیٹھا نہیں گیا ، انہوں نے نوابزادہ نصراللہ کو متوجہ کیا۔ نوابزادہ تجربہ کار سیاستدان تھے، اتحاد بنانے کے ماہر۔ وہ بیگم صاحب کو فوراً ساتھ والے کمرے میں لے گئے، چند منٹ تک انہیں نجانے کیا سمجھاتے رہے کہ واپسی پر بیگم نصرت بھٹو خاموشی سے اپنی سیٹ پر براجمان ہوگئیں۔ ادھر اب اصغر خان کی تیوریوں پر بل آگئے تھے۔ اس بار نوابزادہ نصراللہ خان اٹھے اور ایئرمارشل صاحب کو باہر لے گئے، چند منٹ تک گفتگو کی اور پھر اصغر خان بھی آ کر سکون سے بیٹھ گئے۔ ایم آر ڈی کا اتحاد بن گیا اور مشترکہ سیاسی جدوجہد بھی شروع ہوگئی۔ اس میں بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی اور بھٹو کے خلاف اپوزیشن اتحاد پی این اے کے نمایاں قائدین نوابزادہ نصراللہ، اصغر خان، ولی خان ، مفتی محمود کے جانشین مولانا فضل الرحمان وغیرہ سب شامل تھے۔

نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی اسی مہارت کا مظاہرہ جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد کیا جب انہوں نے 90 کے عشرے میں ایک دوسرے کے خلاف شدید تنقیدی اور مخالفانہ سیاست کرنے والی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کو اکھٹا کر لیا۔ بعد میں اے آر ڈی شریف خاندان کے باہر چلے جانے سے فعال  نہیں رہا، مگر یہ ابتدائی مفاہمت چند برس  بعد وسیع تر مفاہمت کا پیش خیمہ بنی اور یوں میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی ) لکھا گیا۔

 چند ماہ قبل ایک کھانے کی دعوت میں بیٹھے تھے جب ایک ممتاز صحافی، انٹرویو نگار اور ٹی وی اینکر جو اب باقاعدگی سے کالم بھی لکھ رہے ہیں، انہوں نے گپ شپ میں بتایا کہ کس طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان ابتدا میں شدید مخالفانہ جذبات تھے۔ ہم میاں نواز شریف سے ملتے اور ان سے پیپلزپارٹی کے ساتھ جمہوریت کی خاطر مفاہمت کرنے کا مشورہ دیتے تو وہ ناخوش ہو جاتے۔ وہ پیپلزپارٹی حکومتوں کی جانب سے کی گئی کئی زیادتیاں سناتے اور مزید تفصیل کے لیے اپنے بڑے صاحبزادے کو آواز دیتے کہ ذرا انہیں پیپلزپارٹی کی سختیاں اور مظالم کی تفصیل سناؤ۔ سینیئر صحافی کہنے لگے ، جواب میں ہمیں کہنا پڑتا، میاں صاحب دوسری طرف بھی سنانے کو بہت کچھ ہے، ان کا تو باپ مار دیا گیا اور بھی بہت سے مظالم ہوئے۔ تب میاں صاحب خاموش ہو جاتے۔

یہ بھی پڑھیں:کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟

وہ صحافی بتانے لگے کہ جب بی بی سے ملاقات ہوتی اور ان سے مفاہمت کی بات کی جاتی تو وہ بھی لال پیلی ہو جاتیں، بہت کچھ بولتیں اور تکلیف دہ واقعات سناتیں۔

 خاصا عرصہ یوں ہی چلتا رہا، آہستہ آہستہ مگر دونوں اطراف میں نرمی آنے لگی اور پھر وہ وقت آیا کہ لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوگئے۔

 یہ کہا جا سکتا ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر مثالی انداز میں عمل نہیں ہوا ، بعض حوالوں سے خلاف ورزی بھی ہوئی ۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ اس کے بعد سے ن لیگ اور پی پی پی میں تلخی کی وہ کیفیت نہیں رہی جو کہ پہلے تھی۔ انتخابات کے موقع پر کسی قدر ٹمپریچر ہائی ہوتا یا کر دیا جاتا ہے، مگر بہرحال یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا سیکھ گئیں اور اپنی باری کا انتظار کرنا بھی۔

کیا آج پھر وہی حالات نہیں ہیں کہ ملک میں ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی لایا جائے، اس پر دونوں اطراف کی سیاسی قوتیں دستخط کریں اور کام کرنے کا ایک نیا ماحول اور رولز آف گیم بنائیں؟

 یہ حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی اعتبار سے شدید قسم کی تقسیم ہے۔ ایک طرف حکمران اتحاد ہے جس میں مسلم لیگ ن، پی پی پی، ایم کیو ایم، ق لیگ، باپ پارٹی وغیرہ شامل ہیں جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف ہے جس کے ساتھ اس کی چھوٹی اتحادی جماعتیں مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل ہیں جبکہ محمود خان اچکزئی بھی سیاسی طور پر ان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، اپوزیشن نے جس اتحاد ’تحریک تحفظ آئین‘ کا ڈول ڈالا ہے، اس میں ایک طرح سے جے یوآئی ف کی حمایت بھی شامل ہے اور کسی حد تک بعض بلوچ قوم پرست گروپوں کی بھی، جی ڈی اے بھی اس کے قریب ہے۔ دونوں کیمپس میں بہت فاصلہ اور گہری خلیج حائل ہے۔ واضح تقسیم ،اتنی کہ اس نے پوری قوم کومنقسم کر رکھا ہے۔

تحریک انصاف کی اس لحاظ سے اہمیت ہے کہ خیبر پختونخوا میں نہ صرف اس کی صوبائی حکومت ہے بلکہ وہاں کے عوام میں اس کی مقبولیت کا لیول خاصا بلند ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پختون نوجوان، عمران خان کے ساتھ ہے۔  تحریک انصاف بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ پنجاب میں وہ مؤثر قوت ہے اور کراچی میں بھی اس کا اہم ووٹ بینک ہے۔

  میرے جیسے لوگ اپنے بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس بار مگر واقعی نازک دور ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں دہشت گردی کی اتنی منظم، زوردار اور مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں کہ ان کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ دہشتگرد ان دونوں صوبوں میں ریاستی رٹ، صوبائی حکومتوں کا نظم و نسق اور سوشل فیبرک درہم برہم کرنے  پر تلے ہوئے ہیں۔ انہیں یقینی طور پر فارن سپورٹ حاصل ہے اور اس بار پاکستان کے دونوں اطراف یعنی مشرقی اور مغربی پڑوسی ممالک ان دہشتگرد گروپوں کی کھل کر مدد کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکا فرسٹ‘ بمقابلہ ’سب سے پہلے پاکستان‘

  یہ سب چیلنج اتنے بڑے ہیں کہ موجودہ حکومت کے لیے تنِ تنہا اسے ہینڈل کرنا آسان نہیں، ہمارے ادارے بڑی تندہی کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، مگر دہشتگردی کے لیے ایک مؤثر اور طاقتور عوامی بیانیہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر دہشتگردوں کو پسپا نہیں کیا جا سکتا۔

  یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ بیانیہ موجودہ حکمران اتحاد نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ اجتماعی قومی دانش بروئے کار لائی جائے۔ ملک بھر کی سیاسی قوتیں متحد اور یکسو ہو کر 2-3 نکات پر متفق ہوں اور پھر جس سے بات ہوسکتی ہے، بات کی جائے، جس کو سختی سے کچلنا لازمی ہو جائے ،اس کے خلاف کارروائی ہو۔

  اس کے لیے ضروری ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور اس میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بلکہ اس کا حقیقی قائد بھی شریک ہو۔ اگر اس مقصد کے لیے کچھ رعایتیں دینا پڑیں تو کوئی حرج نہیں۔ ملک و قوم کا مفاد ہر چیز پر بالاتر ہے۔ جس سنگین بحران سے ہم دوچار ہیں، اس میں سب سے بڑی ترجیح قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے ۔ قومی سطح پر میثاق جمہوریت یا قومی اتفاق رائے کی تشکیل لازم ہوچکی۔

اسی طرح بلوچستان میں بھی اے پی سی بلائی جائے یا اگر ممکن ہو تو  وہاں کسی صوبائی سطح پر ایک کثیر الجماعتی حکومت کی تشکیل ہو۔ اختر مینگل جیسے اہم قوم پرست رہنما جو مایوس اور دل شکستگی کے عالم میں کارنر ہوچکے ہیں، انہیں بھی آن بورڈ لیا جائے۔ صوبے میں ایک بڑی وسیع البنیاد مخلوط حکومت بنائی جائے جس میں موجودہ صوبائی حکمران جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ وغیرہ کے ساتھ محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ، اختر مینگل، جے یوآئی ، اے این پی، تحریک انصاف وغیرہ کو بھی ساتھ ملایا جائے۔

  ان قائدین پر مشتمل یا ان کی مشاورت سے ایک کمیٹی بنے جو ماہرنگ بلوچ وغیرہ سے بھی بات کرے۔ گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان کی حق دو تحریک سے بھی بات کی جائے۔ چیزیں شاید بہت آگے جا چکی ہیں، مگر پھر بھی اگر جامع سیاسی حکمت عملی اپنائی جائے تو کچھ نہ کچھ شاید ہو سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں:خرابی کی جڑ آخر کہاں ہے؟

سیاسی طریقے سے جو بہتری لائی جا سکتی ہے، وہ لائی جائے۔ جبکہ دہشتگردوں کے خلاف پھر ٹارگٹیڈ اسٹرائیکس ہوں، جس میں خیال رکھا جائے کہ عوام متاثر نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہمیں وہاں موجود فارن پلیئرز کے حوالے سے بھی ایک ٹھوس حکمت عملی بنانا ہوگی۔ بلوچستان میں فارن انویسٹمنٹ کے لیے اب سعودی، اماراتی اور مغربی پلیئرز آ رہے ہیں تو اس سے بھی مدد مل سکتی ہے، تب انڈین اور افغان ایجنسیوں کو  پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

 اس سب کے لیے مگر ضروری ہے کہ حکمران اتحاد کے شعلہ بیان وزرا خواجہ آصف، عطا تارڑ وغیرہ کو خاموش کرایا جائے اور وزیراعظم شہباز شریف خود پیشرفت کریں ، یا اگر صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف بھی فعال ہوں تو بہتر ہے۔ تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ قومی اتفاق رائے کی طرف بڑھیں، اپنے شعلہ بیان لیڈروں کو ٹھنڈا پانی پینے کی ہدایت کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے لے آئیں۔

  پاکستان کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔ اس کا فائدہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہوگا، سب سے بڑھ کر اس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

بلوچستان پی ٹی آئی چارٹر آف ڈیموکریسی خواجہ آصف خیبرپختونخوا دہشتگردی عطاتارڑ نصرت بھٹو نوازشریف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان پی ٹی ا ئی چارٹر آف ڈیموکریسی خواجہ ا صف خیبرپختونخوا دہشتگردی عطاتارڑ نصرت بھٹو نوازشریف نوابزادہ نصراللہ قومی اتفاق رائے تحریک انصاف میں ایک کے ساتھ کے خلاف رہے ہیں اور پھر کے لیے ہیں کہ سے بھی

پڑھیں:

ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں ہے؛پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن

سٹی 42: پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن  کے پنجاب زون   نے کہا کہ ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں ہے

 ترجمان  پاکستان  شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ چینی کی قلت کے حوالے سے افواہیں پھیلا کر مفاد پرست عناصر ملک میں ہیجان پیدا کر رہے ہیں،کریانہ مرچنٹس، سٹہ باز اور ذخیرہ اندوز بے سروپا باتیں پھیلا کر شوگر انڈسٹری کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ملک میں دوسری صنعتوں کی طرح شوگر انڈسٹری کو بھی فری کام کرنے دیا جائے ،شوگر سیکٹرکومکمل ڈی-ریگولیٹ کر کے فری مارکیٹ کی سہولت دی جائے،رواں کرشنگ سیزن میں  گنے کا ریٹ 400 سے 750 روپے فی من تک کسانوں کو دیا گیا ہے،رواں سیزن گنے کی ریکوری کم ہوئی ہے اور چینی کے پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے،گنا پاکستان کی واحد فصل ہے جس نے کسانوں کو معاشی طور پر بچایا ہے

جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو  لے جانے اور خود رہا کرنے کا پروپیگنڈاجھوٹ، آرمی نے ریسکیو کی ویڈیو ریلیز کر دی

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت منانا اچھا اقدام ہے، اِسے صرف مذہبی ٹچ نہ بنایا جائے، لیاقت بلوچ 
  • یو این چیف کا سیاسی تغیر کے دوران بنگلہ دیش کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ
  • ہمارے وسائل سے لوٹ مارکرکے بلوچستان کا ستیاناس کر دیا گیا: اختر مینگل
  • دہشت گردی میں بھارت، افغانستان ملوث، حملہ آور کسی کو ساتھ لیکر نہیں گئے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں ہے؛پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن
  • پی ٹی آئی ایسا راستہ اختیارکرے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، ڈاکٹر فاروق ستار
  •  ملک میں چینی کی وافر مقدار موجود ہے،مصنوعی بحران کی اجازت نہیں دیں گے ؛وزیرِ اعظم
  • اسمبلی میں موجود پی ٹی آئی والوں کو بی ایل اے کیخلاف بولنا چاہیے تھا: عظمیٰ بخاری
  • جون کے آخر تک کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا، آئی ایم ایف کو منا لیا گیا