امریکا کے پاس ہمیں ڈکٹیشن دینے کا کوئی اختیار نہیں، عباس عراقچی
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
ایرانی وزیر خارجہ نے ایکس میں اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ گذشتہ سال بائیڈن کی حکومت نے تاریخی بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 23 ارب ڈالر ایک سفاک اور قاتل حکومت کے حوالے کر دیئے، جسکے نتیجے میں 60 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا ان جرائم کیلئے امریکہ کو ذمہ دارٹھہرا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ امریکا کے پاس ایران کو ڈکٹیشن دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک بیان میں دو ٹوک الفاظ میں مطالبہ کیا کہ امریکا یمنی عوام کا قتل عام بند کرے، امریکا اسرائیلی نسل کشی اور دہشت گردی کی حمایت بند کرے۔ عباس عراقچی کا مزید کہنا تھا کہ یمن پر امریکی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، امریکی حملوں کیخلاف یمن سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
دیگر ذرائع کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کو ڈیکٹیشن دینے کا امریکا کو کوئی حق نہيں ہے اور وہ دور 1979ء میں ہی ختم ہوگیا۔ اپنے سوشل میڈیا پیج پر جاری پیغام میں ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ ایران کو ڈیکٹیشن دینے کا اسے کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ایکس پیغام میں لکھا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں ڈیکٹیشن دینے کا نہ تو اختیار ہے نہ ہی اسے کوئی اس سلسلے میں حق حاصل ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا ہے کہ ڈیکٹیشن دینے کا دور، 1979ء میں یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ختم ہوگیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے اس پیغام میں لکھا ہے کہ گذشتہ سال بائیڈن کی حکومت نے تاریخی بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 23 ارب ڈالر ایک سفاک اور قاتل حکومت کے حوالے کر دیئے، جس کے نتیجے میں 60 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا ان جرائم کے لیے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے پیغام کے اختتام میں لکھا ہے کہ اسرائیلی نسل کشی اور دہشت گردی کی حمایت کو ختم اور یمنی عوام کے قتل عام کو بند کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پیغام میں نے اپنے نے کہا
پڑھیں:
خالی ہاتھ
سہراب سائیکل کے بانی اور مالک شیخ اکرم صاحب ارب پتی پاکستانی تھے جو بے بسی اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں چند روز قبل دنیا سے رخصت ہوئے۔ کہا جاتا ہے ان کی میت کئی دنوں تک ہسپتال میں بے گوروکفن پڑی رہی مگر اسے وصول کرنے کے لئے وارثین نہیں پہنچے۔ اپنی موت سے چار دن پہلے تک وہ ڈاکٹروں سے مسلسل التجا کرتے رہے کہ وہ نصیحت لکھنے کے لئے اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہیں مگر تمام ڈاکٹر اس کی درخواست کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ ڈاکٹروں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس کی اولاد کو اس بارے آگاہ کرتے رہے تھے مگر اس کے بچوں کو مرنے سے پہلے اپنے باپ کو دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ وہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ شیخ اکرم انتہائی نیک دل انسان تھے وہ یتیم بچیوں کی شادی کرواتے تھے اور درجنوں غریب گھروں کا خرچہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس حالت میں ہیں۔ آخرکار یہ نیک دل باپ اپنی نصیحت لکھے اور اولاد کو آخری بار دیکھے بغیر آنکھوں میں آنسوئوں کی سسکیاں بھرتے بھرتے موت کے منہ میں چلا گیا، اور جن بچوں کے لئے ورثے میں باپ نے اربوں روپے کی جائیداد چھوڑی تھی وہ اپنے باپ کی آنکھوں پر آخری بار ہاتھ رکھنے کے لئے بھی میسر نہیں تھے۔
یہ حسرت بھری اور المناک موت ہماری ہر دوسری المیہ کہانی کا نتیجہ ہے جس کا آغاز غربت اور انجام امارت کی چاردیواری کے حبس میں ہوتا ہے۔ جب تک انسان کی صحت ہو اور دولت بھی ہو تو اس کے گرد درجنوں سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ لیکن کسی امیر آدمی کے مرنے کا جونہی وقت قریب آتا ہے تو اس کی اولاد اور رشتہ دار مرنے والے کو بھول کر اس کی جائیداد کا بٹوارہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں انسان کے رشتوں اور تعلقات کی حد فاصل بستر مرگ ہے جس پر پڑا انسان ساری دنیا کی دولت رکھنے کے باوجود بھی کسی کو اپنے پاس بلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جتنا بھی پیارا ہو مرنے والے کے ساتھ جانے کو تیار ہوتا ہے۔
ہمارے سرمایہ داری زدہ معاشرے میں تو صورتحال اور بھی بدتر ہے کہ جہاں اخلاقی اقدار اور رکھ رکھائو کو بھی رسم و رواج اور دکھاوے میں بدل دیا گیا ہے۔ آپ شہروں یا دیہاتوں میں میت والے گھروں میں جا کر دیکھ لیں کہ ابھی میت گھر میں پڑی ہوتی ہے اور لواحقین اسے جلدی دفنانے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ اس سے بدبو نہ آنے لگے مگر سوگواران اور اہل خانہ مہمانوں کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایسا نہ کیا جائے تو افسوس کرنے کے لئے آئے ہوئے دوست احباب طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں اور طعنے تک دیتے ہیں کہ میت والے گھر میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ وہ ڈھنگ سے مہمانوں کو کھلا پلا سکیں۔ بہت سی جگہوں پر اس مد میں سوگ کو شادی کی طرح منانے کے خلاف انتظامات کیے گئے ہیں جہاں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو یہ سارا انتظام و انصرام کرتی ہیں۔
لیکن اصل بات یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی کتنا امیر ہے یا وہ کس بری طرح غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس معاملے میں ہمارا اصل مسئلہ ہمارے ذہنی رجحان (مائنڈ سیٹ) کا ہے جس کی روشنی میں ہم لوگوں کے درمیان غربت اور امارت کے تفاوت کی لکیر کھینچتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مقابلے میں ایسی طبقاتی سوچ یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا مفقود ہے۔ یہ تہذیب یافتہ ممالک اسی وجہ سے ’’سوشل سٹیٹس‘‘ کہلاتی ہیں کہ وہاں کوئی غریب ہے یا نان نفقہ سے تنگ ہے تو ان ممالک کی حکومتیں ایسے شہریوں کو عزت کے ساتھ سرکاری گھر اور اسے چلانے کے لیئے ہفتہ وار رقم کی ادائیگی کرتی ہیں۔ وہاں ایک دوسرے کو کوئی یہ الزام نہیں دیتا کہ وہ سوشل بینیفٹس پر زندگی کیوں گزار رہا ہے کیونکہ اس طرح کے فوائد لینے والے شہری اپنی وہ رقوم وصول کر رہے ہوتے ہیں جو وہ پہلے ہی حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ان ممالک میں آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے یا آپ بیمار پڑ جاتے ہیں تو آپ کی تیمارداری اور نگہداشت کے لئے حکومت کے منظور شدہ سوشل ورکر فوری طور پر خدمت کے لئے آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور بعض دفعہ زخم یا بیماری وغیرہ کی صورت میں حکومت آپ کو اتنا کچھ دے دیتی ہے کہ اتنا آپ نے عمر بھر نہیں کمایا ہوتا ہے۔
سکندر اعظم کے بارے ایک محاورہ بڑا مشہور ہے کہ، ’’سکندر جب چلا جہاں سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔‘‘ انسان پوری کائنات کا مالک بھی بن جائے مگر وہ مرتے وقت اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتا۔ اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو زیادہ دولت جمع کرنے کا لالچ ہوتا ہے اور نہ کم پیسہ ہونے کی وجہ سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہمارے ایشیائی لوگ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ کا پاسپورٹ لینے کے لئے اسی معیار زندگی کی وجہ سے جدوجہد کرتے ہیں۔ دولت کی ہوس بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ہمارے معاشرے میں شیخ اکرم جیسی امیرانہ مگر تکلیف دہ اذیت تب محسوس ہوتی ہے جب اتنا کچھ کما کر بھی آخر میں انسان اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کے بلانے پر اس کی اولاد تک اس کے پاس آنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس لئے زندگی میں اتنا ہی کمائیں جس سے آپ کسی کے محتاج نہ ہوں اور آپ کی پہچان بن جائے یا اسے آپ کی اولاد جتنا ہضم کر سکے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ دولت کے انبار لگانے اور جائیدادیں بنانے کی بجائے اپنا کمایا ضرورت مندوں اور دوستوں پر خرچ کریں تاکہ ایسی دولت کو سخاوت اور نیک اعمال کی شکل میں اپنے ساتھ اوپر لے جا سکیں۔
یہ پہلی کہانی نہیں جو ایک مرنے والے دولت مند آدمی کے ساتھ پیش آئی ہے۔ پاکستان کی بہت سی امیر فیملیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں بلکہ ورثے میں ملنے والی زمینوں اور جائیداد پر بہت زیادہ لڑائیاں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔اس کے برعکس ترقی یافتہ تہذیبوں کے امیر ترین افراد بھی آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ وہ سیکورٹی عملہ کے بغیر لائن میں لگ کر برگر خریدتے نظر آتے ہیں یا بستر مرگ تک پہنچنے تک وہ اپنی ساری یا آدھی دولت چیرٹی کے نام کر جاتے ہیں۔