کیا حضرت نوح ؑ کی کشتی مل گئی؟ نئے انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
لاہور:
ترک استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی اور امریکی اینڈریوز یونیورسٹی کے ماہرین اثریات سال بھر سے ترکی کے ارارات پہاڑی سلسلے میں موجود کشتی نما چٹان پر تحقیق کر رہے ہیں، مشہور ہے وہ حضرت نوح ؑ کی کشتی تھی جو فوسل میں بدل چکی ہے۔
ایک ماہ قبل ماہرین نے چٹان کی مٹی وپتھر استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی بھجوائے، 30 نمونوں کے تجزیے سے انکشاف ہوا، ان میں آبی جانوروں اور پودوں کی باقیات موجود ہیں اور یہ کہ چٹان 5 ہزار سال پہلے پانی میں ڈوبی تھی۔
حالیہ سائنسی تحقیق سے اس دعوی کو تقویت ملی کہ شاید کشتی نما چٹان حضرت نوحؑ کی کشتی ہو، یاد رہے، قران پاک کی روسے یہ کشتی’’ کوہ جودی‘‘ پر ٹھہری تھی مگر اس کا مقام نہیں بتایا گیا۔
بعض اسلامی ماہرین ارارات کے پہاڑوں میں یہ مقام بتاتے ہیں، علما کی اکثریت مگر ترکی اور عراق کے سرحد پر واقع ایک پہاڑ کو کوہ جودی قرار دیتی جو ارارات پہاڑی سلسلے سے 2 سوکلومیٹر دور ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ ‘ مغفرت
اللہ تعالی نے رمضان المبارک کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے`اس مہینے میں رحمت‘ مغفرت اور جہنم سے آزادی کو مسلمانوں کے لئے عام کر دیا جاتا ہے اور جو لوگ نیک کام کرتے ہیں وہ فائدے میں رہتے ہیں اور برائی کرنے والے اور دور ہو جاتے ہیں۔
رمضان کا دوسرا عشرہ آپﷺ نے فرمایا مغفرت ہے‘ یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش عام ہو جاتی ہے اور جو لوگ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں اور اپنے گناہوں پر نادم ہوتے ہیں‘ اللہ ان کی مغفرت کر دیتا ہے اور توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے اور اس مبارک مہینے میں تو ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور جو اس مہینے میں بھی مغفرت سے محروم رہ جائے تو بدنصیبی نہیں ہے تو کیا ہے۔آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جائو ‘ حضرت کعب فرماتے ہیں ہم لوگ حاضر ہوگئے جب آپﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین‘ جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین‘ جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین‘ جب آپﷺ خطبے سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے (منبر پر چڑھتے وقت) ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے(جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی میں نے کہا آمین‘ پھر جب میں نے دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپﷺ کا ذکر ہوا اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا آمین‘ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں میں نے کہا آمین۔
اس حدیث میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تین بددعائیں کی ہیں اور آپﷺ نے ان تینوں پر آمین فرمائی اور پہلا وہ شخص ہے جو رمضان المبار ک کے مہینے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے اور رمضان کا مہینہ ضائع کر دے اور توبہ نہ کرسکے اور نہ تلاوت تراویح پڑھ سکے تو اس سے بڑا محروم کون ہوگا‘توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
حضرت ابولیلث سرفندی نے تنیبہ الفافلین میں لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ پانچ باتوں کی وجہ سے قبول ہوئی اور شیطان کی توبہ پانچ باتوں کی وجہ سے رد کر دی گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کے اسباب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اقرار کیا‘ ‘اس پر شرمندہ ہوئے‘ جلدی سے توبہ کی طرف متوجہ ہوئے‘ اپنے نفس کو ملامت کیا‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے اور شیطان کی توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب‘ اپنے گناہ کا اقرار نہ کیا‘ اپنے فعل پر شرمندہ نہ ہوا‘نفس کی ملامت نہ کی (تکبر مانع رہا) ‘ توبہ کرنے میں جلدی نہ کی(بلکہ اللہ کے مقابلے میں اکڑتا رہا)‘اللہ کی رحمت سے مایوس ہوگیا۔
میرے بھائیو!رمضان المبارک کا مقدس مہینہ کہیں چینل دیکھنے میں نہ گزر جائے’ تلاوت ‘توبہ‘ذکر اذکار ‘مراقبہ اس میں وقت لگانے کی کوشش کیجئے رمضان کا دوسرا عشرہ گزر رہا ہے اور یہ خصوصی مغفرت کا عشرہ ہے‘کہیں ایسا نہ ہو کہ مغفرت سے محروم رہ جائیں‘ اللہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو توبہ کرنے کی توفیق نصب فرمائیں۔
روزے کی تعریف‘ شریعت میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے’ پینے اور جماع وغیرہ سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔روزہ کا مقصد‘ روزہ کا مقصد انسان کے نفس کی اصلاح ہے قرآن کریم میں روزہ کے تین مقاصد بیان کئے گئے ہیںتاکہ تم پرہیز گار ہو جائو‘تاکہ تم شکر ادا کرو‘ تاکہ وہ (روزہ دار) نیک راستہ پر لگ جائیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ ’’ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکو ٰۃ روزہ ہے‘‘ (ابن ماجہ) فرمان نبویﷺ ہے کہ ’’اگر لوگوں کو روزہ (رمضان) کے ثواب کی حقیقت معلوم ہو جائے تو یہ تمنا کرنے لگیں کہ سارا سال رمضان ہی ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’ساری عبادتوں کا دروازہ روزہ ہے‘‘ روزہ کی وجہ سے قلب منور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عبادت کی رغبت پیدا ہوتی ہے مگر یہ تب ہے کہ روزہ بھی روزہ ہو۔روزہ دار کو اللہ تعالیٰ ہر دن ایک ایسا وقت عطا فرماتا ہے جس میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں اور یہ وقت افطار کا ہے‘ اللہ کے دربار میں اس وقت کی کیفیت خصوصی مقبولیت رکھتی ہے۔ عین اس لمحے جب روزہ افطار کیا جاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی دعائیں منقول ہیں۔ رمضان المبارک کی آخری رات میں دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ دوزخ سے اتنے آدمیوں کو نجات عطا فرماتا ہے جتنا کہ پورے رمضان میں عطا فرماتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اختتام رمضان پر تمام شہروں میں ایک مراسلہ روانہ فرماتے جس میں لوگوں کو استغفار اور صدقہ فطر کی تاکید کی جاتی کیونکہ صدقہ فطر روزہ دار سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے اور استغفار، روزہ میں واقع ہونے والی کمیوں کے ازالہ کا سبب ہے اور ساتھ یہ تلقین کرتے، لوگو تم بھی اپنے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کی طرح اپنے رب کے حضور ان کلمات سے معافی مانگو۔ ربنا ظلمنا انفسنا و اِن لم تغفِرلنا و ترحمنا لنکونن مِن الخاسِرِین(الاعراف۳۲) ترجمہ : اے ہمارے رب ہم نے اپنی ذاتوں پر ظلم کیا اور اب اگر آپ معاف و رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم گھاٹے والے ہیں۔