Juraat:
2025-03-17@04:22:37 GMT

ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام

معصوم مرادآبادی

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ہولی کے موقع پر فساد کرانے کی سازش ناکام بنادی گئی ہے ۔ یہ کام حکومت یا سرکاری مشنری نے نہیں بلکہ ان امن پسند ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر انجام دیا ہے جو اس ملک میں امن چین سے رہنا چاہتے ہیں۔ ورنہ گمراہ پولیس والوں اور بی جے پی کے لوگوں نے شرپھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ہولی اور نماز جمعہ کے نام پر اتنا شر پھیلادیا گیا تھا کہ لوگ خوف وہراس میں مبتلا تھے ۔ یہاں تک کہ ہولی کے رنگوں سے مسجدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان پر ترپال ڈالے گئے تھے اور سیکورٹی تعینات کی گئی تھی۔مگر جب ہولی منانے والوں پر مسلمانوں نے اور جمعہ ادا کرنے والوں پر ہندوؤں نے پھول برسائے تو ساری ساز ش دھری کی دھری رہ گئی۔اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ اس ملک کے ہندو اور مسلمان اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔یہ شرپسند سیاسی عناصر ہیں جو انھیں آپس میں لڑا کر اپنی گھناؤنی سیاست کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔
پورے ملک میں ہولی کا تہوار اور جمعہ کی نماز امن اور شانتی کے ساتھ گزر گئی۔ فرقہ وارانہ تصادم کی کوئی واردات کہیں نہیں ہوئی۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ سے کم نہیں ہے جو ہولی اور جمعہ کے حوالے سے مسلسل کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔اتفاق سے اس بار ہولی اور جمعہ ایک ساتھ آئے اور بہت سے اندیشوں کو بھی ساتھ لائے ۔حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا، لیکن جن لوگوں کی سیاست ہندومسلم ٹکراؤ سے فروغ پاتی ہے ، انھوں نے اسے اپنے لیے ایک موقع جانا اور اس پر زبردست محاذ آرائی شروع کردی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سلسلہ کا آغاز سنبھل کے ایک جونیئر پولیس آفیسر کی خود سری سے ہوا۔ اس معاملے میں گودی میڈیا کے نیوزچینلوں نے بھی خوب آگ بھڑکائی اورسڑک چھاپ عناصر کے ناعاقبت اندیش بیانوں کو خوب مرچ مسالہ لگاکر پیش کیا۔ اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو اصل خطرہ ان نیوز چینلوں سے بھی ہے جو مسلمانوں کے خلاف برادران وطن کے ذہنوں میں زہر بھرنے کا کام کررہے ہیں۔ اگر آپ پچھلے چنددنوں کے واقعات پر نظرڈالیں تو محسوس ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں کو بدنام کرنا ہی تمام مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا اب ایک فیشن بن گیا ہے اور اس میں حکمراں بی جے پی کے لوگ پیش پیش ہیں۔وہ مسلم دشمنی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ملک کے قانون کے مطابق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا قابل سزا جرم ہے ، لیکن حکومت کی مشنری اس معاملے میں بالکل اپاہج ہے ۔ آپ مسلمانوں کو کتنا ہی برا بھلا کہہ لیں کوئی آپ سے یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان منہ بھی کھول دے تو اس کے خلاف مقدمات کی باڑھ آجاتی ہے اور اس کی زبان کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کا اندازہ حال ہی میں مہاراشٹر سماجوادی پارٹی کے لیڈر ابوعاصم اعظمی کے معاملے میں بخوبی ہوا۔ اورنگزیب کے بارے میں بیان دینے کی پاداش میں انھیں نہ صرف اسمبلی سے معطل کردیا گیا بلکہ ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کردئیے گئے ، جبکہ مہاراشٹرکا ایک وزیرنارائن رانے ہرروز مسلمانوں کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز بیان دیتا ہے لیکن اس کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کے لیے حال ہی میں ایک نیا فارمولا ایجاد کیا گیا۔ یہ فارمولا تھا ہولی اور نماز کے نام پر ٹکراؤ پیدا کرنے کا۔ اس کا آغاز کسی فرقہ پرست اور مسلم دشمن لیڈر نے نہیں بلکہ یوگی جی کے چہیتے ایک پولیس افسر نے کیا۔انوج چودھری نام کے اس افسر نے سنبھل کے مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ”ہولی سال میں ایک بار آتی ہے اور جمعہ سال میں باون بار، لہٰذا مسلمان جمعہ کی نماز گھروں کے اندرپڑھیں یا پھر ہولی کا رنگ برداشت کرنے کی قوت پیدا کریں۔یہ بیان ایک ایسے پولیس افسر کا تھا جس کا کام نظم ونسق قائم کرنا اور سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا ہے ۔یوں محسوس ہوا کہ سی او سے یہ بیان ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت دلوایا گیا تھا۔ کیونکہ بعدکو یوگی کابینہ کے ایک بڑبولے وزیرنے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہہولی کے دن مسلمان چمڑے کا برقع پہن کر باہر نکلیں تاکہ انھیں رنگ نہ لگے ۔اس کے بعد اس قسم کے لایعنی بیانوں کی قطار لگ گئی اور گودی میڈیا نے اس پر سینہ کوبی کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہرایراغیرا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہوگیا۔ یہاں تک کہ خود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اس پر مہر لگانا ضروری سمجھا اور مسلمانوں کو نصیحت دے ڈالی کہ وہ اپنے ہندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کا پاس رکھتے ہوئے جمعہ کی نمازگھر میں اداکریں۔ یہ ایک ایسی ریاست کے وزیراعلیٰ کا بیان تھا جہاں پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو اس بنیادی حقیقت کا علم ہی نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز گھر پر نہیں مسجد میں باجماعت ادا کی جاتی ہے ۔
موجودہ نظام حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک غیرضروری آبادی سمجھ کر ان کے ساتھ دوئم درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہاہے ۔ جن لوگوں نے ملک کے آئین پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ مذہب،ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ یازبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کریں گے ، وہ کھلے عام اس کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے بلکہ ان کی زبان اور تہذیب کو بھی بربادکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ ملک کے آئین کی کھلی پامالی ہے ۔یہ سارا معاملہ چونکہ سنبھل سے شروع ہوا ہے ، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ سنبھل میں جب سے شاہی جامع مسجد کے مندر ہونے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے تب سے یہ علاقہ ہندتو کی ایک سرگرم لیبارٹری میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہاں سب کچھ اسی نقطہ نظر سے انجام دیا جارہا ہے ۔ حکومت کی سرپرستی میں سنبھل کے مسلمانوں کو سخت امتحانوں سے گزارا جارہا ہے ۔ وہاں مسلم محلوں میں مندر تلاش کئے جارہے ہیں اور لاؤڈ اسپیکرسے اذان دینے پر مقدمے قائم کئے جارہے ہیں۔حال ہی میں سنبھل کی چندوسی تحصیل میں پولیس نے مقررہ حد سے زیادہ لاؤڈاسپیکر کی آواز پر مسجد کے امام کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ۔اتنا ہی نہیں پولیس نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر بھی ضبط کرلیا۔ اس کے ساتھ حکم عدولی کی صورت میں مزید سخت ایکشن لینے کے احکامات بھی دئیے گئے ہیں۔مسجد کے امام حافظ شکیل خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ،جس میں صوتی آلودگی کی دفعہ بھی شامل ہے ۔ رمضان کے مہینے میں اس قسم کی کارروائی کئی دیگر علاقوں میں بھی کی گئی ہے ۔جبکہ ہولی کے موقع پر جگہ جگہ کان پھاڑنے والی آواز میں ڈی جے بجائے گئے ، لیکن کہیں کسی سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔سنبھل کی مسلم آبادی اس وقت سخت آزمائشوں سے دوچار ہے ۔ اس کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ نظم ونسق کی مشنری پو ری طرح ہندتو کے سانچے میں ڈھل چکی ہے ۔سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے خلاف مسلسل بیان بازی کی جارہی ہے ۔ وزیراعلیٰ یوگی نے ایک بار پھر اس کے مندر ہونے کی بات کہی ہے ۔شاہی جامع مسجد کو متنازعہ قرار دینے کے لیے تمام حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ عدالتی کارروائی میں شاہی جامع مسجد کو’متنازعہ’لکھوادیا گیا ہے ۔ ہولی اور نماز جمعہ کا تنازعہ کھڑا کرنے کا مقصد ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنا اور خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنا تھا۔مگر اس سازش کو ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے ناکام بنادیا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: شاہی جامع مسجد اور مسلمانوں جمعہ کی نماز مسلمانوں کے مسلمانوں کو اور مسلمان چاہتے ہیں اور جمعہ اور مسلم ہولی اور کے ساتھ کے خلاف مسجد کے ہولی کے گیا ہے ملک کے

پڑھیں:

لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، کیوں ؟

آفتاب احمد خانزادہ

ہر انسا ن کے اندر ایک کامیاب ، دانش مند اورعقل مند انسان قید ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اندر قید اس انسان کو کیسے آزادی دلواسکتاہے۔
آئیں پہلے سقراط کاایک قصہ پڑھتے ہیں سقراط کاباپ سو فرونس کس ایک نامور سنگ تراش تھا ۔گھر کے صحن میں جب بھی اس کا باپ کا م کرتا تھا تو وہ اس کا ہاتھ بٹا تا تھا ۔خاصے عرصے تک سقراط صرف تراش خراش کے ابتدائی کام کرتا رہا۔ ابتدائی مشق کے لیے سنگ مرمر جیسی قیمتی چیز کو ضائع نہیں کیاجاسکتا تھا ۔اس لیے سطح کے ہموار ہوجانے کے بعد جب اصل کام شروع ہوجاتا تو سقراط کابا پ خود کام کرنے لگتا اور سقراط ایک ایک کرکے اسے اوزار دیتا رہتا اورکام کو غور سے دیکھتا رہتا ۔ایک مرتبہ ایک فوارے کے منہ کے لیے ایک شیر کا سر بناناتھا۔ سو فر ونس کس نے سنگ مر مر کا ایک ٹکڑا لیااورا س پر کا م شروع کردیا۔ سقراط نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ اندازہ کس طرح ہوتا ہے کہ تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی سخت چوٹ لگا ئیں تو وہ انتہائی کو شش کے باوجود صحیح جواب نہیں دے سکا ۔اس نے کہا ” یوں سمجھو کہ سب سے پہلے تمہیں شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے پھر یوں محسو س کرو کہ شیر سطح کے نیچے قید ہے وہ تمہارا منتظر ہے اور تمہیں اسے آزاد کرنا ہے ،اب جتنی اچھی طرح تم شیر کو دیکھ سکو اتنے ہی یقین کے ساتھ تمہیں یہ بات معلوم ہوگی کہ تمہیںتیشہ کہاں رکھنا چاہیے اور کتنی سخت چوٹ لگانی چاہیے۔ سقراط نے اپنے باپ کی اس بات پر بہت غور کیا اور اس موقع پر اسے اپنی ماں کی کہی ہوئی ایک بات یادآئی ۔وہ دائی کے کام میں بہت ماہر سمجھی جاتی تھی ۔سقراط نے اس سے پوچھا تھا ماں تم یہ کام کس طرح کر لیتی ہو ” اس نے جواب دیا تھا ”میں ،خود کچھ بھی نہیں کرتی میں تو بچے کے آزاد ہونے میں معاون ہوتی ہوں ”۔
یادرکھیں !اگر آپ اپنے آپ کو اپنے آپ سے آزاد نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو دریافت نہیں کریں گے تو پھر آپ اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے کھاتے رہیں گے اور پھر ایک دن آپ کے اندر قید کامیاب ، خوشخال ،دانش مند اورعقل مند انسان آپ کے ساتھ ہی مرجائے گا ، وہ انسان اپنے جنم لینے سے پہلے ہی مرجائے گا۔ ” ہر چیز ممکن ہے یقین ہی ان چیزوں کی اصل حقیقت ہے جن کی ہم امید کرتے ہیں ان چیزوں کا ثبوت ہے جو دکھائی نہیں دیتیں ” ۔ہنری فورڈ کی سوانح عمری اس مختصر اور انتہائی رجائیت پسندانہ فارمو لے پر ختم ہوتی ہے ۔یہ آخری الفاظ ایک قسم کاروحانی ترکہ ہیں اور اس نے یقین کے بارے میں جو کہا ہے وہ قطعاً کوئی اتفاقیہ کہی گئی بات نہیں ہے۔ اس کی تمام زندگی اور کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیر متزلزل یقین کے حامل شخص کے لیے سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں کوئی یخ بستہ جمی ہوئی مچھلی دیکھی ہے کیا آپ نے کبھی اس مچھلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگر نہیں تو پھر آپ اپنے نزدیکی مچھلی بازار میں دوڑتے ہوئے جائیے اور اس یخ بستہ مچھلی کا انتخاب کیجئے جو آپ کوبہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور اسے خرید کر گھر لے آئیے اس یخ بستہ مچھلی کو پھر اپنے ہاتھ میں تھا م لیجیے اس کی آنکھوں میں دیکھئے اور جہاں تک ممکن ہو اس سے باتیں کرنے کی کو شش کیجئے اپنے آپ اور اس یخ بستہ مچھلی کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں کے ذریعے تعلق قائم کرنے کی کو شش کیجئے تاکہ آپ کے اندر موجود آپ کی ذات کا یخ بستہ مچھلی کے ساتھ بامقصد ذاتی تعلق استوار ہوجائے اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آپ کو اس کی جانب سے یہ پیغام ملے گا کہ ” ایک یخ بستہ مچھلی کی مانند نہ بنیے ” آپ پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے کہ آپ کو کامیابی و کامرانی نصیب ہولیکن پھر بھی لوگ ناکام ہوجاتے ہیں کیوں ؟ ان کی ناکامی میں یقینا فطرت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ فطرت ہر حال میں انسان کے لیے کامیابی چاہتی ہے اور جب انسان اپنی مرضی اور خو اہش کے مطابق کامیابی اور کامرانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی تمنا فطری قانو ن و اصول کے عین مطابق ہے ،لوگ صرف اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں اورکامیابی و کامرانی حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ وہ اپنے آپ کے اندرکے انسان کو ساری عمر قید رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے ملاقات ہی نہیں کرپاتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پاتے ہیں۔ ایک مشہور کہاوت کے مطابق ” جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہوجاتا ہے تو استاد بھی فوراً آن موجود ہوتا ہے ”۔ اس لیے آپ فوراً رونا دھونا بند کردیجئے اپنے نصیبوں کو برابھلا کہنا فوراً روک دیجئے اور ساتھ ہی ساتھ ساری دنیا کی برائیاں کر نا فوراً چھوڑ دیجئے کیونکہ آپ کی ناکامی ، بدحالی ، غربت افلاس ، بے اختیاری کا سار اقصور نہ تو آپ کے نصیبوں کا ہے اور نہ ہی آپ کی قسمت خراب ہے ،ان تمام ناکامیوں کے آپ ہی اکلوتے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے یہ رونا دھونا ، چیخنا چلانا ، دہائیاں دینا اور کوسنا آخرکیوں ، کیا آپ معذور ہیں، محتاج ہیں، بیمار ہیں، اپاہج ہیں، کیاآپ ہی صرف بغیر صلاحیتوں اور قابلیتوں کے پیدا کیے گئے ہیں ۔کیا آپ کو کسی نے زنجیروں میں جکڑرکھا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اپنے آپ کو لعنت ملامت کیجئے۔ اپنے آپ کو شرمندہ کیجیے، امریکہ ، روس ، فرانس اور دیگر ممالک کے لوگوں کی حالت تو ہم سے کہیں زیادہ بد ترین تھی لیکن انہیں اس بات پر یقین تھا کہ فطرت ہر حال میں ان کی کامیابی و کامرانی چاہتی ہے ۔
بہت عرصے پہلے ایک بہت ہی کمزور ، معذور بچہ ایلیس ہوتا تھا، وہ اس قدر غریب تھا کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اکثر بھوک کا شکار رہتے تھے اور انہیں کھانے کے لیے کوئی چیز بھی میسر نہ ہوتی تھی اس نے سینے کی مشین ایجاد کی لیکن کوئی شخص بھی اسے خریدنے کے لیے تیار نہ تھا ،اس کی تجربہ گاہ میں آگ لگ گئی، اس کی بیوی فوت ہوگئی لیکن وہ پھر بھی مسلسل کو شش کرتا رہا اور بالا آخر اپنی یہ مشین بیچنے میں کامیاب ہوگیااور پھر ایلیس محض بارہ سال کے اندر کروڑ پتی بن گیا۔ عظیم سائنس دان اور برقی سائنس کاموجد ایک غریب لوہار کا بیٹاتھا ۔اس عظیم سائنس دان کا نام مائیکل فراڈے تھا۔ ایلس فوٹی میک ڈوگال خاتون نیو یارک کے ریلو ے اسٹیشن پر کافی اور بسکٹ فروخت کیاکرتی تھی پھر ایک دن اس نے پچاس لاکھ ڈالر مالیت پر مشتمل بے شمار ریسٹوران قائم کیے۔ سٹیوارٹ نیویارک آیا تو اس کی جیب میں صرف ڈیڑھ ڈالرتھے اور محنت کے بعد جلد ہی کروڑوں پتی بن گیا۔ اینڈر یو جیکسن اور اور ابراہم لنکن دونوں امریکہ کے عظیم صدور تھے۔ ابتدائی زندگیوں میں یہ دونوں اشخاص انتہائی غریب تھے۔ اولیسس ایس گرانٹ ابتدا ء میں ایک کاروباری فرد کی حیثیت سے ناکام ہوگیا۔ 39سال کی عمر میں وہ ایندھن کے لیے استعمال کر نے کے لیے لکڑیاں کاٹتاتھا اور پھر صرف 9سال بعد ہی وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔ مصطفی کمال ترکی فوج میں ایک عام سپاہی تھا جو ترکی کا حکمران بن گیا ۔رضاشاہ ایرانی فوج میں ایک ادنیٰ رنگروٹ تھا جو بعد میں ایران کا شہنشاہ بنا ۔جو لیس سیزر مرگی کا مریض تھا جس نے معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی۔ دیماس تھینز ہکلا کر بولتا تھا لیکن وہ قدیم یونان کا ایک عظیم خطیب اور مقرر بنا ۔فرینکلن دی روز ویلٹ بچپن میں فالج کا شکار ہوگیا تھا لیکن سخت محنت کے باعث امریکہ کا صدر بنا ۔
اگر آپ اب بھی اپنے اندر قید کامیاب ، خوشحال، دانشمند اورعقل مند انسان کو رہائی دلوانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر آپ کے لیے دعائیں بھی بے اثر رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • افسوسناک کہ ہولی کا تہوار بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کیلئے استعمال ہورہا ہے، محمد شفیع
  • اسلاموفوبیا عالمی امن کیلئے خطرہ، اقوام عالم کشمیر، فلسطین میں مسلمانوں کے جان، مال، حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں: مریم نواز
  • آزادی اظہار کی آڑ میں توہین مذہب کا جواز نہیں،وزیراعظم
  • مسلمانوں کے خلاف طاقت کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات افسوسناک ہیں، اسد الدین اویسی
  • مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا کے باعث مسلمانوں کیخلاف پرتشدد واقعات ہوئے، یوسف رضاگیلانی
  • ہندوتوا والوں نے ہولی کو اقلیتوں کے لیے خوف کا ذریعہ بنا دیا ہے، محبوبہ مفتی
  • اسلامو فوبیا عالمی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے خطرہ ہے: مریم نواز
  • اسلاموفوبیا کا عالمی دن: مسلمانوں کو درپیش امتیازی سلوک قابل مذمت ہے، مریم نواز
  • لوگ ناکام ہوجاتے ہیں، کیوں ؟