مولانا فضل الرحمن کو صدمے پہ صدمہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
حضرت مولانا فضل الرحمن بیرونِ ملک دَورے سے واپس آ چکے ہیں ۔ اِس دَورے کے دوران ہی انھیں کئی صدموں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ وہ بیرونِ ملک ہی تھے کہ ’’کیچ‘‘(بلوچستان)کے ممتاز عالمِ دین ، مفتی شاہ میر بزنجو، کو7اور8مارچ2025کی درمیانی شب شہید کر دیا گیا ۔ مفتی صاحب مذکور نمازِ عشاء اور تراویح سے فارغ ہُوئے ہی تھے کہ مسلّح دہشت گردوں نے انھیں گولیاں مار دیں ۔ شدید زخمی حالت میں انھیں مقامی (تربت) اسپتال منتقل کیا گیا ۔ مگر وہ جانبر نہ ہو سکے ۔
شہیدمفتی شاہ میر صاحب ، جے یو آئی (ایف) کے مشہور عالمِ دین ، مقامی سطح پر جماعت کے سیکریٹری جنرل اور قبلہ مولانا فضل الرحمن کے معتمد دوستوں میں سے تھے ۔ پہلے بھی دوبار اُن پر قاتلانہ حملے ہُوئے تھے۔ ٹارگٹ کلرز نے انھیں ہدف بنا کر یقیناً ملک کو علمی و دینی لحاظ سے تو گزند پہنچایا ہی ہے، مولانا فضل الرحمن صاحب اور جے یو آئی کو بھی سخت نقصان، صدمہ اور دھچکا پہنچایا ہے ۔
حیرانی کی بات ہے کہ کئی بھارتی اخبارات نے بھی مفتی شاہ میر کے قتل کی خبر نمایاں طور پر شایع کی ہے ۔ مثلاً’’انڈین ایکسپریس‘‘ اور’’این ڈی ٹی وی ورلڈ‘‘نے یوں خبر شایع کی :’’ بلوچستان (پاکستان) کے علاقے تربت میں معروف مذہبی شخصیت، مفتی شاہ میر، قتل کر دیے گئے۔ یہ وہی شاہ میر تھے جنھوں نے بھارتی نیوی کے افسر ، کلبھوشن یادیو، کو گرفتار کرانے میں مدد فراہم کی تھی ۔‘‘
پاکستان دشمن بھارتی جاسوس ،کلبھوشن یادیو، کو2017میں بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا ۔ لمبی سزا پانے کے بعد وہ اب بھی پاکستانی جیل میں ہے ۔ بھارتی اخبارات کی جانب سے یہ خبر خصوصی طور پر شایع کرنے کا کیا یہ مطلب نہیں ہے کہ مفتی شاہ میر بزنجو کی شہادت میں بھارت کا ہاتھ ہے ؟اِس سے پہلے بھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کر چکی ہیں، اس لیے یہ شبہ بیجا نہیں ہے کہ مفتی صاحب مذکور کی شہادت میں بھی ملعون بھارت ہی کا کردار ہو۔
ابھی ایک ہفتہ قبل بلوچستان ہی میں مولانا فضل الرحمن کے 2قریبی سیاسی و مذہبی ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا تھا ۔ یہ سانحہ 2 مارچ 2025 کو وقوع پذیر ہُوا۔ دو مارچ کو بلوچستان کے ضلع ’’خضدار‘‘ کے ’’زہری‘‘ علاقے سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی (ایف) کے دو معروف علمائے کرام ( وڈیرہ غلام سرور اور مولوی امان اللہ) گاڑی میں سوار اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ راستے میں نہ معلوم افراد نے اُن پر گولیاں برسا دیں ۔ دونوں علمائے کرام موقع ہی پر شہید ہو گئے۔
لگتا ہے جمعہ کا دن جے یو آئی (ایف) کے علمائے کرام اور سیاستدانوں کے لیے بھاری ثابت ہو رہا ہے ۔مفتی شاہ میر بھی جمعہ کی رات شہید کیے گئے ہیں اور جب 26فروری2025 کو اکوڑہ خٹک کی ممتاز ترین اسلامی درسگاہ کے مشہور عالمِ دین، مولانا حامد الحق حقانی، شہید کیے گئے ، اُس روز بھی جمعہ ہی تھا۔ مولانا حامد الحق حقانی شہید بھی حضرت مولانا فضل الرحمن کے قریبی اور معروف ہم مسلک ساتھی تھے ۔ مولانا حامد بھی اُس وقت شہید کیے گئے جب مولانا فضل الرحمن ملک سے باہر تھے ۔ اُن کی شہادت پر مولانا فضل الرحمن صاحب بجا طور پر دلگرفتہ ہیں ۔
اِسی لیے انھوں نے حامد الحق حقانی کی شہادت پر غمزدہ لہجے میں سانحہ کی مذمت کرتے ہُوئے یوں بیان دیا:’’ مادرِ علمی ، دارالعلوم حقانیہ ، پر (دہشت گردوں ) کے حملے پر دل رنجیدہ اور زخمی ہے۔ دارالعلوم حقانیہ اور برادرم مولانا حامد الحق حقانی پر حملہ میرے گھر اور میرے مدرسے پر حملہ ہے۔‘‘بیرونِ ملک سے واپسی پر مولانا فضل الرحمن فوراً مولانا حامد حقانی شہید کی تعزیت کے لیے دارالعلوم حقانیہ پہنچے اور وہاں سیکڑوں لوگوں کے سامنے خطاب کرتے ہُوئے کہا:’’علما کے خلاف بندوق اُٹھانا جہاد نہیں ، دہشتگردی ہے ۔‘‘ پھر انھوں نے خود کش بمباروں کو مخاطب کرتے ہُوئے سخت لہجے میں فرمایا:’’ تم مجاہد نہیں ، قاتل ہو۔‘‘
یہ الفاظ ہی مولانا فضل الرحمن کے دِلی جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں ۔ یوں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے لگائے گئے چرکوں اور زخموں کے سبب مولانا فضل الرحمن صاحب کو جو صدمے پہ صدمے پہنچے ہیں ، ان کی نوعیت اور شدت کتنی اور کیسی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کا دہشت گردوں کے خلاف لہجہ بتا رہا ہے کہ اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔کیا جے یو آئی (ایف) اور حضرت مولانا فضل الرحمن کو کسی کی نظرِ بَد کھا گئی ہے ؟ ایک سال قبل، 8فروری 2024کے عام انتخابات میں جے یو آئی (ایف) کے گڑھ، خیبر پختونخوا، میں پی ٹی آئی کے مقابل مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارٹی کو خاصا بڑا سیاسی و انتخابی دھچکا اور غیر متوقع صدمہ پہنچا تھا ۔
مولانا صاحب اِس دھچکے کے اثرات سے ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں ۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بارے اُن کے تلخ سیاسی بیانات اِنہی اثرات کا شاخسانہ کہے جا سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر عام انتخابات کے تین ماہ بعد ( اپریل2024) مولانا فضل الرحمن صاحب نے ’’پشین‘‘ ( بلوچستان) میں ایک بڑے سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا:’’اِس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئیں ۔ بتایا جائے کہ بلوچستان اسمبلی 70ارب روپے میں خریدی گئی یا 80ارب روپے میں؟۔‘‘ اور ابھی حال ہی میں ( فروری2025) مولانا فضل الرحمن نے نہائت تلخ لہجے میں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے بلوچستان کے ’’پانچ سات اضلاع‘‘ بارے اپنے جن شدید خدشات وخطرات کا کھلے الفاظ میں اظہار فرمایا تھا، وہ نہائت غیر معمولی تھے۔
حقیقت اور سنجیدگی کے تقاضے یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب بلوچستان بارے ، بار بار، جن پُر تشویش خیالات کا اظہار کررہے ہیں ، ان کی طرف مقتدر و طاقتور ترین حلقے توجہ مبذول کریں ۔ چند دن قبل ہی بلوچستان سے ’’داعش‘‘ کے ایک عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد ، شریف اللہ، کی پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کا واقعہ بتاتا ہے کہ بلوچستان کو کیسے کیسے لوگوں نے اپنی دُھر بنا رکھا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان میں مولانا صاحب کے جن قریبی اور معتمد ، ہم مسلک ساتھیوں کو حالیہ ایام میں بیدردی سے شہید کیا گیا ہے، اِن سانحات نے مولانا صاحب کا دل لخت لخت کررکھا ہے ؛ چنانچہ وہ خود کہتے سنائی دیتے ہیں:’’ بلوچستان کے حالات سنگین ہیں۔ مَیں حد درجہ مایوس اور مضطرب ہُوں ۔‘‘
کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بلوچستان بارے مولانا فضل الرحمن صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنے جس اضطراب کا اظہار کیا تھا، ان کی طرف فیصلہ سازوں کی عدم توجہی برتنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جعفر ایکسپریس ٹرین کاسانحہ 11مارچ 2025کو پیش آ گیا ہے ؟ اِس میں 61کے قریب افراد کام آئے جن میں18سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادت بھی شامل ہے ۔ اِس سانحہ کی شدت اسقدر ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اکٹھے ہی، 14مارچ کو، پریس کانفرنس میں صحافیوں کے رُو برو آنا پڑا ہے ۔اور اب15مارچ کو خبر آئی ہے کہ جنوبی وزیرستان کی ایک مسجد پر بم حملے میں جے یو آئی( ایف) کے ممتاز عالمِ دین ، رہنما اور ضلعی امیر ، مولانا عبداللہ ندیم ، شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے لیے ایک اور صدمہ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن صاحب مولانا فضل الرحمن کے حامد الحق حقانی مفتی شاہ میر بلوچستان کے کہ بلوچستان مولانا حامد کرتے ہ وئے جے یو ا ئی کی شہادت شہید کی
پڑھیں:
موجودہ سیاسی صورتحال میں نوازشریف اہم کردار ادا کر سکتے ہیں: فضل الرحمن
اسلام آباد (خبرنگار) جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور ملکی صورتحال پر تحریک کیلئے جے یو آئی کی مجلس عمومی کا اجلاس بلا لیا ہے۔ عید کے بعد مجلس عمومی میں تحریک چلانے کا فیصلہ کریں گے۔ موجودہ حکومت، پارلیمان کٹھ پتلی ہیں۔ وزیر اعظم، صدر، وزیر داخلہ اہل نہیں۔ موجودہ حکمران الیکشن جیت کر نہیں آئے۔ ریاست خطرہ میں ہے۔ اپوزیشن میں ہوکر ملک کا سوچ رہے ہیں، حکومت کیوں نہیں سوچ رہی۔ وزیر اعظم افطار کیلئے دعوت دے رہے ہیں۔ ملکی مسائل کیلئے بات کیوں نہیں کرسکتے۔ پوسٹل سروسز، پی ڈبلیو ڈی سمیت اداروں سے ملازمین نکالے جا رہے ہیں۔ اگر ملازمین نااہل ہیں تو آپ کیسے اہل ہیں۔ اگر ملازمتوں سے نکالیں گے تو نوجوان کہاں جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سندھ میں ڈاکو خود سے نہیں ردعمل میں بنے۔ پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر والی قیادت میں یکسوئی نہیں۔ پی ٹی آئی سے معاملات میں تلخی کم ہوئی ہے۔ بیان بازی سے پی ٹی آئی کے ساتھ ممکنہ اتحاد میں دراڑ نہیں پڑے گی۔ میرے خلاف اگر کوئی بیان دیتا ہے تو پی ٹی آئی کو نوٹس لینا چاہیے۔ شیخ وقاص اکرم اور ان کے بڑوں سے میرا تعلق ہے۔ اس پارلیمنٹ میں شیخ وقاص اکرم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جب سے شیخ وقاص اکرم کی صورت تبدیل ہوئی ان کی گفتگو بھی تبدیل ہوگئی۔ حکومت مخالف تحریک میں پی ٹی آئی سے اتحاد پر پالیسی ساز اجلاس میں فیصلہ ہوگا۔ حکومت میں شمولیت کے لئے حکمران منتیں کرتے رہے۔ ملکی موجودہ سیاسی صورتحال میں نواز شریف اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر نواز شریف سمجھتے ہیں ایک صوبہ میں حکومت سے کام چل گیا تو ملک کہاں گیا۔ آصف زرداری انجوائے کررہے ہیں۔ آصف زرداری واحد شخص صوبائی اسمبلی اور ایوان صدر خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پنجاب ٹھنڈا ہے تو یہ کوئی بات نہیں۔ دو صوبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جب ہم نکلیں گے تو یہ کہیں گے کہ ملک کا خیال کریں۔ پاکستان نے بکرا پیش کیا، ٹرمپ خوش ہوا۔ حکومت نے عید منائی۔ حکومت ٹرمپ کو بکرا پیش کرنے کیلئے انتظار میں تھی۔ ٹرمپ کے آنے سے اپوزیشن خوش حکومت خوفزدہ تھی۔ بکرا پیش کرنے کے بعد اپوزیشن مایوس ہوئی ہے۔ بکرا پیش کرتے وقت ملکی خود مختاری نہیں دیکھی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کی جاسکتی تھی مگر خاموشی رہی۔ کل کو اپنے ناجائز اقتدار کو بچانے کیلئے ہم میں سے کسی کو بکرا بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مجھے بھجوایا گیا تھریٹ الرٹ مضحکہ خیز تھا۔ ترتیب درست نہ تھی۔ تھریٹ الرٹ میں کہا گیا کہ آپ سیاست، حکومت اور مذہبی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ تھریٹ الرٹ میں کہا گیا کہ یہ فتنہ الخوارج کی طرف سے ہے۔ فتنہ الخوارج کا ہماری سیاست، حکومت اور مذہب سے کیا تعلق ہے۔ میرے کردار سے فتنہ الخوارج کو نہیں ان کوخطرہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جان اللہ کے پاس ہے، ڈرنے والے نہیں، گھر بیٹھے بھی جان جاسکتی ہے۔ یکطرفہ فیصلے بند نہ کئے گئے تو ملکی سیاست میں شدت آئے گی۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ مسلح جتھوں اور فوج سے لوگوں کو خطرہ ہے۔ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ ملک کو چلا رہی ہے۔ ایران انڈیا کے ساتھ بات چیت ہوسکتی ہے تو یہ رویہ افغانستان کیلئے کیوں نہیں؟۔ جے یو آئی رہنمائوں پر حملے کرکے ہمیں ڈرایا جارہا ہے، ہم نہیں ڈریں گے۔ ریاست نے کہا تو افغانستان کے معاملہ پر کردار ادا کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ ہمارے حوصلے جواب دے گئے ہیں، مایوس نہیں ناراض ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چوہدری برادران کہتے ہیں امانت ہے، وہ امانت الیکشنز تاریخ تھی۔ بلوچستان میں بات چیت کرنی چاہیے۔ بلوچستان کے معاملہ پر یک طرفہ بیانیہ نہ دیکھیں۔ مائنس ون کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔