اقامت دین کی جدوجہد میں رمضان کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
(امیر تنظیم اسلامی پاکستان)
رمضان المبارک کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘
رمضان کا مہینہ صبر، برداشت ، جھیلنے کا مہینہ ہے۔ افطار سے ایک گھنٹہ پہلے یہ عارضی مشقتیں کچھ زیادہ ہو جاتی ہیں، ٹریفک میں بھی ،گھر میں بھی ،کچن میں بھی، یہ مشقتیں صبر سے جھیلنا ہوتی ہیں تاکہ راہ خدا میں جب مشقتیں آئیں تو ہم اِنہیں بھی جھیلنے کے قابل ہو سکیں۔ سورۃ البقرہ آیت :193میں ارشاد ربانی ہے’’ اور لڑو اْن سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘
یہ آج ہماری غلط فہمی ہے کہ رمضان کے بعد چاند رات کو فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ آج ہمارا تصور ہے کہ جمعہ کی دورکعت پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور اِس کے بعد خود کو فارغ سمجھتے ہیں۔ یہ آج ہمارا تصور ہے کہ نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ پر بھی چلے گئے لیکن سود اور جوا بھی نہ چھوڑا۔ بے پردگی، فلمیں ڈرامے اورناچ گانے نہ چھوٹیں۔ یہ بدقسمتی سے آج ہمارا تصور ہے کہ اسلام چند عبادات کا مجموعہ ہے۔ حالانکہ اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ غلبہ چاہتا ہے۔
اِس غلبہ کے لیے، اِس دین کے قیام کے لیے قتال کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے اور یاد رہے قتال بغیر تیاری اور تربیت کے نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ سن 2 ہجری میں روزے کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اور اْسی سال 17 رمضان کو جنگ بدر ہوئی۔ یہ ایک طرح سے حزب اللہ کے لیے تربیت اور تیاری کا معاملہ تھا کہ مشقت سے گزرنے کے بعد استقامت کا مظاہرہ کرنا سیکھ لیا جائے۔ اس پوری بحث کو سامنے رکھ کر ہمیں پوری دلجمعی کے ساتھ روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہٰی تھا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے حضور نبی اکرمﷺ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی ’’اے اللہ ! یہ قریش ہیں، اپنے سامانِ غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں ۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آ جائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے ۔
اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ قتل (شہید) ہو گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا ۔‘‘ دعا کے دوران آپﷺ کی داڑھی مبارک آنسوؤ ں سے بھیگی اور ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ آپﷺ کے کندھو ں پر پڑی چادر بار بار نیچے گر جاتی، حضرت ابوبکر صدیقؓ ڈھارس بندھاتے کہ اللہ آپﷺ کو تنہا نہیں چھوڑے گا ، ضرور مدد فرمائے گا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی۔
اسلام نے معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مختلف ضابطے مقرر کیے ہیں اور غریبو ں اور مفلسوں کی دستگیری کے لیے امیروں کے ہاتھو ں میں زکوٰۃ و صدقات کے قلمدان تھما دیئے مگر کسی کی جیب سے پیسہ اْس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اْس کے دل میں رحم کا جذبہ نہ پیدا ہو اور یہ احساس اْس شخص کو کس طرح ہو گا جو ہمیشہ مختلف انواع واقسام کی نعمتوں اور لذتوں میں زندگی گزارتا ہو جو ہمیشہ عیش میں رہتا ہو وہ غربت کی تلخیوں کا اندازہ نہیں کر سکتا ، جو عمر بھر پیٹ بھر کر کھا تا رہا ہو وہ کسی غریب کی بھوک اور پیاس کا احساس نہیں کر سکتا اور جب تک کسی کی تکلیف کا احساس نہیں ہو گا، اْس کی مدد کرنے کا جذبہ دل میں پیدا نہیں ہو گا۔
نفسیاتی طور پر آدمی کسی کی تکلیف کا اْس وقت احساس کرتا ہے جب وہ تکلیف خود اْس پرگزرے۔ اسلام نے تمام مسلمانوں پر روز ے فرض کر دیئے تاکہ اغنیاء جب روزے کی جسمانی سختی سے دوچا ر ہوں تو اْنہیں احسا س ہوکہ ہمیں ایک دن کھانا نہ ملنے سے اتنی تکلیف ہوئی تو جو پورے سال ایسے مصائب کا سامنا کرتے ہیں، اْن کا کیا عالم ہو گا ؟ یہ احساس اغنیاء کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرے گا اور وہ غریبو ں کی مدد پر آمادہ ہونگے ۔
قارئین ہر چیز کا ایک مقصد ہوتا ہے جب تک کوئی شئے اپنے مقصد کے ساتھ ہو اْسے مفید سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی چیز اپنے مقصد سے خالی ہو جائے تو وہ لغو اور بے کا ر ہو جاتی ہے۔
سورۃ البقرۃ کے 23 ویں رکوع کی آیت 183میں روزہ کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : ترجمہ’’ اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘ عرب زمانہ جاہلیت میں لوٹ مار اور جنگ کے لیے تیز رفتار گھوڑے استعمال کرتے تھے اور اْن گھوڑوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی، اْنہیں کئی کئی دن تک بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا اور تیررفتار آندھیوں کی طرف منہ کر کے کھڑا رکھا جاتا تھا تاکہ اْن کے اندر قوتِ برداشت پیدا ہو اور مشکل وقت میں وہ ساتھ دے سکیں ۔ اِس سارے عمل کو عرب ’’صوم الفرس‘‘ کہتے تھے یعنی گھوڑے کا روزہ ۔
وہیں سے صوم کا لفظ اہل ایمان کے روزہ کے لیے بھی استعمال ہوا کہ تمہیں بھی روزے رکھوائے جا رہے ہیں تاکہ تمہاری بھی قوت برداشت بڑھے، جب تمہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تم اْس کے لیے تیار ہو ، تم میدان میں کھڑے رہو اور ڈٹ جاؤ ۔ اِس اْمت کی یہ سب تیاری اور تربیت کس لیے کی گئی ۔ سورہ البقرۃ :آیت 143میں فرمایا، ترجمہ:’’ اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اْمت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولﷺ ‘ تم پر گواہ ہو ۔‘‘ سورہ البقرہ:آیت 153 میں فرمایا گیا؛ ترجمہ :’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘ اسی طرح رمضان کے روزے اہل ایمان پر فرض کیے گئے تاکہ ان کے ذریعے صبر ، حوصلہ ، برداشت کی قوت مسلمانوں میں پیدا ہو اور وہ اقامت دین کی جدوجہد میں استقامت کا مظاہرہ کر سکیں ۔ اِس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے بدرکا معرکہ بھی رمضان میں سجا تھا ، فتح مکہ کا معاملہ بھی رمضان میں ہوا تھا اور قرآن بھی رمضان میں ہی نازل ہوا تھا ۔
اِس اعتبار سے قرآن ، رمضان، اقامت دین کی جدوجہد اور سیرت محمد مصطفیٰﷺ کا خاص تعلق ہے جس میں سبق یہ ہے کہ یہ اْمت اپنے مقصد قیام کی تکمیل کے لیے سیرت مصطفیٰﷺ سے رہنمائی حاصل کرے، قرآن کے ذریعے اپنی روحانی قوت بڑھائے اور روزہ کے ذریعے اپنے اندر صبر ، تقویٰ ، برداشت کی قوت پیدا کرے اور پھر انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی پیش کرے ۔ اس کام کے لیے اِس اْمّت کوکھڑا کیا گیا ۔ روزے کا ایک حاصل روح کی بیداری ہے ۔
روح میں اللہ کے ساتھ تعلق کی تڑپ ہے۔ روزے کی حالت میں یہ کیفیت بندے کو میسر آتی ہے تو بندے کواللہ کا قرب ملتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اِس کی جزا ہوں‘‘ روزے کا سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ بندے کو اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں تو اللہ تعالیٰ شرط بتا رہا ہے: ’’پس اْنہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں‘‘ سورۃ البقرۃ آیت 152 میں ہی فرمایا ؛ ترجمہ : ’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرے تو ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہو گا یعنی تقویٰ کی راہ پر گامزن ہونا ہو گا۔ روزے کا بڑا حاصل روح کی بیداری و ترقی ہے جس کا حاصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قرب ہے اوراْس قرب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بندے کے قریب ہو جائے اور بندہ اللہ کے قریب ہو جائے۔
اللہ تو ویسے ہی بندے کے قریب ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت 186 میں فرمایاگیا ؛ ترجمہ :’’ اور (اے نبی ? !) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں ۔ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کتناقریب ہے؟ سورۃ ق آیت 16میں آتا ہے ؛ ترجمہ: ’’ اور ہم تو اْس سے اْس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ یعنی ہم جتنا اپنے آپ سے قریب ہیں اِس سے زیادہ ہمارا رب ہم سے قریب ہے ۔ البتہ اللہ اپنی شان کے مطابق قریب ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے ۔
روزے کا حاصل تقویٰ ہے لیکن اگر ہم میں سے کوئی نمازیں بھی ضائع کر رہا ہے، جوا،سٹہ، بے پردگی،کرپشن ، چوری ، ڈاکہ ، سب برائیاں جاری ہیں اور آجکل تو لوگ بغیر کسی شرعی عذر کے روزے بھی چھوڑ رہے ہیں، ان سب برائیوں کے بعد بھی ہم چاہیں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول کرے تو یہ مشکل ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لیے ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہوگا۔ اللہ کے قرب کا حاصل یہ ہے کہ بندہ دعا کرے تو اللہ اْسے قبول فرمائے گا لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ پہلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فرمانبرداری کی روش کی طرف آئے اورنافرمانی سے خود کو بچائے۔
ایک حدیث مبارک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ راوی ہیں ، فرماتے ہیں :’’نبی کریمﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپﷺ کی سخاوت اْس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیلؑ آپﷺ سے رمضان میں ملاقات کرتے ، جبرائیلؑ نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملاقات کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریمﷺ جبرائیلؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیلؑ آپﷺ سے ملنے لگتے تو آپﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث مبارک سے دوباتیں معلوم ہوئیں : اول ماہ رمضان میں قرآن کا پڑھنا پڑھانا ‘ یہ حضورﷺ اور جبرائیلؑ کا بھی معمول تھا۔ اسی کی توجہ ہم دلاتے ہیں کہ رمضان کی راتیں قرآن کے ساتھ بسرکریں۔ دوم سخاوت کا معاملہ ! یہ اللہ کے رسولﷺ کے معمولات میں شامل تھا لیکن ماہ رمضان میں آپﷺ کی سخاوت میں تیز رفتار آندھی کی سی تیزی آ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقامِ رضا روزہ کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے۔ رب کا اپنے بند ے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی با ت ہے کہ اس کے مقابلہ میں باقی سب نعمتیں کم دکھائی دیتی ہیں ، روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر وجزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑا گیا کہ اس کی رضا حد وحساب کے تعین سے ماوراء ہے ۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات بندے کی تلاش وجستجو اور طلب کا محور تھی، اس بندے کی حیثیت محب اور طالب کی تھی ، لیکن جب وہ خود ذات خداوندی کا محبوب و مطلوب بن گیا تو اْسے خدا کے پسندیدہ ہونے کا مقام نصیب ہوگیا، اِس مقام پر اللہ تعالیٰ کی رضا قدم بہ قدم بندے کے شامل حال ہو گئی اور اْسے زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہیں، روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاکیزگی اورصفائی دینے کے لیے روزہ سے بہتر کوئی عمل نہیں ۔
روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں احساس ہو کہ بھوک اور پیاس انسان کو ستاتی ہے۔ عام طور پر ہمارے پیٹ بھرے ہوتے ہیں تو ہمیں مفلسوں کی تکلیف کا اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں، روزے میں اس کا احساس ہوتا ہے اور انسان کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ زکوٰۃ فرض ہے۔ اہل علم سے مسائل معلوم کر کے ٹھیک ٹھیک زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے لیکن زکوٰۃ کافی نہیں ہے یہ توکم ازکم تقاضا ہے۔
زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ ، اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے تھے کہ کبھی اتنا مال جمع ہوا ہی نہیں کہ زکوٰۃ دینے کی نوبت آئی ہو۔ آج ہمارے ملک میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔
کتنے ہی زکوٰۃ دینے والے ،اب زکوٰۃ لینے والے ہو گئے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اس اعتبار سے ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اللہ نے ہمیں جو عطا کیا ہے، اْس میں سے مخلوق خدا پرخرچ کرنے کی کوشش کرے ۔ لیکن یاد رہے کہ حلال کمائی سے خرچ کریں گے تو اْس کا اجر ملے گا۔ حرام مال اللہ کے ہاں قبول نہیں ۔ اپنے قریبی لوگوں میں دیکھیں، اْن کو پہلے دیں۔ خاص طور پر رشتہ داروں کو دینے کا دْہرا اجر ہے۔ ایک صلہ رحمی کا ثواب اور ایک اس کی مدد کرنے کا ثواب ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
شیعہ سنی کے درمیان سحری کے وقت میں کوئی فرق نہیں،علامہ ریاض نجفی
جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعة المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس الشیعہ کے صدر کا کہنا ہے کہ ہر حاجت اور ہر فرض کی چابی دعا ہے، سب نعمتیں اور رحمتیں اللہ کے پاس ہیں اور ان کو حاصل کرنے کا وسیلہ دعا ہے، مریض اور مسافر روزہ نہ رکھیں، رمضان المبارک کے بعد ان روزوں کی قضا کو پورا کرے، شیعہ سنی کے درمیان افطار کے وقت میں دس منٹ کا فرق ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے واضح کیا کہ اہل تشیع اور برادران اہلسنت کے درمیان سحری کے وقت میں کوئی فرق نہیں، ایک ہی وقت ہے، صبح صادق تک سحری کر سکتے ہیں، جبکہ افطار کے وقت میں دس منٹ کا فرق ہے چونکہ قرآن مجید میں روزہ کو رات تک پورا کرنا کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے ایسے ہی فرض کیے ہیں جیسے کہ پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اگر نہیں رکھیں گے تو گناہگار ہوں گے، البتہ اگر کوئی شخص مریض ہو یا مسافر تو اسے یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور رمضان المبارک کے بعد ان روزوں کی قضا کوپورا کرے۔
جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعة المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرآن مجید نے ایمان کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنے، کفر، فسق اور نافرمانی نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ میں تمہارے قریب ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول جب بھی پکاریں تو فوری جواب دینا چاہیے تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ حافظ ریاض حسین نجفی نے کہا کہ صیام کی آیات کے دوران دعا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہر حاجت اور ہر فرض کی چابی دعا ہے۔ سب نعمتیں اور رحمتیں اللہ کے پاس ہیں اور ان کو حاصل کرنے کا وسیلہ دعا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ،اس لیے اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعا کریں چونکہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔