نئی دہلی (سپورٹس ڈیسک) بھارتی ٹیم کے اسپنر ورون چکرورتی نے انکشاف کیا ہے کہ ٹی 20 ورلڈ کپ 2021 میں جب پاکستان سے 10 وکٹوں سے ہارے تو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

بھارتی اسپنر ورون چکرورتی نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کے ہاتھوں 10 وکٹوں کی عبرتناک شکست کے بعد اس تاریک وقت کو یاد کیا۔

چکرورتی نے پاکستان کے خلاف ڈیبیو کیا تھا، اسپنر نے اپنے چار اوور کے کوٹے میں 33 رنز دیے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہیں کرسکے تھے۔

بھارت کے گروپ اسٹیج سے باہر ہونے کے بعد چکرورتی کو ٹیم سے باہر کردیا گیا اور مزید تین سال تک ٹیم سے دور رہے۔

33 سالہ کھلاڑی نے گزشتہ سال اکتوبر میں انٹرنیشنل ٹیم میں اپنے طویل انتظار کے بعد واپسی کی اور مسلسل پرفارمنس سے اپنی جگہ مضبوط بنائی۔

چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے انہیں اسکواڈ میں شامل کیا گیا اور صرف 15.

11 کی اوسط سے تین اننگز میں 9 وکٹیں حاصل کیں۔

اب ورون چکرورتی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف شکست کے بعد انہیں دھمکیاں دی گئیں اور ملک واپس نہ آنے سے خبردار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے میرا پیچھا کیا اور گھر کا پتا لگایا جس کی وجہ سے وہ کئی مواقع پر چھپنے پر مجبور ہوئے۔

اسپنر نے کہا کہ میں ڈپریشن میں تھا مجھے ایک بھی وکٹ نہ لینے کا افسوس ہے اس کے بعد تین سال تک میرا ٹیم میں انتخاب نہیں ہوا، لہٰذا مجھے لگتا ہے کہ ٹیم میں واپسی میرے ڈیبیو کے راستے سے زیادہ مشکل تھی۔

ورون چکرورتی نے کہا کہ مجھے دھمکی آمیز کال موصول ہوئیں، لوگوں نے کہا بھارت نہیں آنا، لوگ میرے گھر کے قریب آتے تھے اور مجھے ڈھونڈتے تھے۔
مزیدپڑھیں:بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کرنے جا رہے ہیں، رانا تنویر حسین

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ورون چکرورتی نے کے بعد نے کہا

پڑھیں:

مقابلے کا امتحان

سی ایس ایس کا مطلب کیا ہے۔ مجھے قطعاً معلوم نہیں تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے تیسرے سال میں معمول کی پڑھائی جاری تھی۔ گمان تھا بلکہ پختہ ارادہ تھا کہ ایم بی بی ایس کے بعد امریکا چلا جاؤں گا۔ 1982کی بات ہے۔ میرا قریبی دوست شکیل سرکاری ملازمت میں آ چکا تھا اور اس کا تبادلہ لاہور تھا۔ شکیل حد درجہ بذلہ سنج اور زندہ دل آدمی تھا ۔ سنجیدگی برائے نام بھی نہیں تھی۔ ہر وقت دوسروں کو ہنساتا رہتا تھا۔ اور خود بھی خوش رہتا تھا۔

ایک دن شام کو میرے پاس آیا تو کہنے لگا کہ اس ملک میں اچھی نوکری صرف سی ایس ایس کر کے ملتی ہے ۔اس لیے ہم دونوں کو مقابلے کا امتحان دینا چاہیے۔ خیر بات ختم ہو گئی ۔ میرے اردگرد تمام لوگ میڈیکل کی تعلیم سے منسلک تھے ۔لہٰذا کسی سے بھی مشورہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں ۔

معلوم ہوا کہ ایک کتابچہ ملتا ہے جس میں اس امتحان کی تمام معلومات موجود ہوتی ہیں۔ خیر موٹر سائیکل پر اردو بازار گیا تو شاید پانچ یا چھ روپے کا وہ کتابچہ مل گیا۔ اس میں تمام مضامین ‘ امتحان دینے کا طریقہ کار اور ہر طرح کی جزئیات موجود تھیں۔ مضامین دیکھے تو حد درجے عجیب سی کیفیت ہوئی کیونکہ اس میں کوئی بھی سبجیکٹ میڈیکل کے شعبے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ اور باقی میںنے کسی قسم کا کوئی مضمون عرصہ دراز سے پڑھا نہیں ہوا تھا۔

یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کونسے مضامین اس امتحان میں لینا چاہیے تاکہ نمبر اچھے آ سکیں۔ ہوا ایسے کہ میں ایک پروفیسر صاحب کے پاس گیا جو شاید لاہور ہی کے کسی کالج میں پڑھاتے تھے ۔ عرض داشت پیش کی کہ اس بار سی ایس ایس کرنا ہے اور ضرور کرنا ہے۔ انھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور ہنسنا شروع کردیا۔

بتانے لگے کہ تم یہ امتحان نہیں دے سکتے۔ کیونکہ اس امتحان کی بنیادی شرط گریجویشن ہے۔ اور تم نے بی اے کا امتحان پاس نہیں کیا ہوا۔ ان کی بات درست تھی کیونکہ میڈیکل کالج کی تعلیم اور بی اے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ انتہائی مایوسی سے ہاسٹل واپس آیا اور کمرے میں بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں شکیل آ گیا۔ سارا معاملہ بتایا تو اس نے قہقہے لگانے شروع کر دیے ۔ غیر مناسب اور بے وجہ ہنسی پر مجھے کافی کوفت ہوئی ۔ پوچھا کیا معاملہ ہے ۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ اگر بی اے امتحان میں بیٹھنے کے لیے اولین شرط ہے تو مجھے فوراً بی اے کا امتحان دینا چاہیے۔میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ گریجویشن کا امتحان کیا ہوتا ہے۔

خیر اس اثناء میں میرے والد صاحب کا تبادلہ لاہور ہو چکا تھا ۔ انھیں شادمان میں سرکاری فلیٹ ملا ہوا تھا، والد صاحب لاہور میں ایڈیشنل سیشن جج تھے اور جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سخت گیر والد بھی تھے۔ڈرتے ڈرتے ان سے ذکر کیا کہ میں بی اے کرنا چاہتا ہوں۔ وہ سخت ناراض ہو گئے۔ کہنے لگے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم ختم کرنے کے بعد امریکا جانا زیادہ بہتر ہے ۔ اس ملک میں نوکری کرنا آسان کام نہیں ہے۔خیر ان کی یہ حد درجہ درست بات مجھے بالکل سمجھ نہ آئی اور میں نے کسی بھی مشورے کے بغیر بی اے کرنے کا ارادہ کر لیا ۔

مشکل یہ آن پڑی کہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس میں کونسے مضامین رکھے جائیں ۔ میرا ایک قریبی دوست زاہد پنجاب یونیورسٹی میں فارمیسی پڑھ رہا تھا۔ اس کے پاس چلا گیا اور اس ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر زاہد سے مشورہ کیا کہ گریجویشن کے لیے کونسے مضامین رکھے جائیں۔ وہ فارمیسی کا اسٹوڈنٹ تھا اور اس کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کون سے مضامین بہتر ہیں ۔ اندازہ فرمائیے کہ ہم نے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں زاہد کے ایک دوست کو مشاورت کے لیے بلایا اور اس سے پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا کیا جائے۔ اب ہوتا یہ تھا کہ میں مضامین کی لسٹ پڑھتا تھا اور وہ کہتا تھا کہ یہ رکھ لو ۔

معمولی ردوبدل کے علاوہ اسی طرح ہوا اور آخری دن اپنا داخلہ بی اے کے امتحان کے لیے بھجوا دیا۔ اچھی طرح یاد نہیں کہ کون کون سے مضامین تھے لیکن سوشیالوجی ‘ فارسی ‘ جرنلزم اور اسی طرح کا ایک اور مضمو ن کچھ کچھ یاد پڑتا ہے ۔ اب زندگی ایک عجیب دوراہے پر آ گئی ۔ امتحان میں صرف ایک مہینہ رہ گیا ۔ سوال تھا کہ میڈیکل کی تعلیم اور اس کی کلاسوں کا کیا کیا جائے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تمام پروفیسر کلاسوں میں حاضری سے متعلق بہت زیادہ سختی سے کام لیتے تھے ۔ غائب ہونے یا چھٹی کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

اب اگر میڈیکل کی کلاسیں چھوڑتا تو وہ بھی مشکل تھا اور اگر نا چھوڑتا تو زیادہ مصیبت تھی ۔ چند دوستوں سے مشورہ کیا تو جواب کچھ ایسا تھا کہ کیا پاگل ہو چکے ہوکہ میڈیکل کی تعلیم کو چھوڑ رہے ہو ۔ میں حد درجے کنفیوژن کا شکار رہا۔ بہرحال وطیرہ کچھ ایسا بنا لیا کہ دن میں میڈیکل کالج کی کلاسیں اٹینڈ کرتا تھا ۔ دوپہر سے رات تک بی اے کی تیاری کرتا تھا۔ ہاں امتحان سے دس بارہ دن پہلے کلاسیں اٹینڈ کرنی چھوڑ دیں اور اپنے آپ کو ہاسٹل کے ایک کمرے میں مقید کر لیا ۔

پڑھنے کی عادت تھی اس لیے دشواری نہ ہوئی ۔ خیر تھوڑی سی محنت کر کے بی اے کا امتحان دے ڈالا اور پھر میڈیکل کی تعلیم میں جڑ گیا۔ یہ بات میں نے گھر میں صرف اپنی والدہ کو بتائی ہوئی تھی کہ میں سی ایس ایس کرنے کے لیے بی اے کا امتحان دے رہا ہوں۔ وہ لاہور میں ایک مقامی کالج میں پروفیسر تھیں ۔

انھوں نے مجھے بالکل منع نہیں کیا ۔ بہر حال فارما کالوجی کی پروفیسر نے مجھے بلا کر خوب جھاڑا کہ تم نے دس پندرہ دن کلاس کیوں اٹینڈ نہیں کی۔ جھوٹ بولنے کے بجائے صاف بتا دیا کہ میں بی اے کر رہا تھا۔ پروفیسر بلقیس ظفر حد درجہ دبنگ خاتون تھیں ۔ میرا جواب سن کر ششدر رہ گئیں ۔ اور کہا کہ بیٹا تمہاری دماغی حالت ٹھیک ہے ۔ تم کے ای کے طالب علم ہو جہاں داخلہ تقریباً ناممکن ہے اور تم میڈیکل کی تعلیم کو چھوڑ کر گریجویشن کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے غصے سے مجھے اپنے آفس سے باہر نکال دیا ۔ دو تین مہینے گزر گئے تو معلوم ہوا کہ گریجویشن کا رزلٹ آ گیا ہے۔

کیونکہ امتحان پرائیویٹ طور پر دیا تھا اس لیے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ نتیجہ کہاں سے معلوم کرنا ہے۔ بتایا گیا کہ رزلٹ اخبار کے دفتر میں بھی آ جاتا ہے۔ ان دنوں میں ایک قومی اخبار کا دفتر نسبت روڈ پر تھا ۔ میں وہاں کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ ڈرتے ڈرتے اخبار کے دفتر گیا اور رسیپشن پر بیٹھے شخص سے پوچھاکہ مجھے بی اے کا رزلٹ معلوم کرنا ہے۔ وہاں میری کسی قسم کی کوئی واقفیت نہیں تھی۔ اس مہربان شخص نے اوپر والی منزل سے ایک موٹا سا رجسٹر منگوایا، میرا رول نمبر پوچھا ۔ اور اس کے بعد مجھے میرے نمبر بتا دیے۔ یقین فرمائیے میں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں پاس ہو چکا ہوں یا فیل ہو چکا ہو۔ اس اجنبی شخص نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا کہ برخودار تم پرائیویٹ طلبا میں اپنے مضامین میں اول نمبر پر ہو ۔ مجھے قطعاً یقین نہ آیا ۔ اگلے دن پنجاب یونیورسٹی کے دفتر چلا گیا ۔ زاہد میرے ساتھ تھا۔ وہاں میں نے نمبر اور پوزیشن دوبارہ معلوم کی۔ وہاں بھی مجھے یہی بتایا گیا کہ نجی طلبا میں، میں اول نمبر پر ہوں۔ مگر نہ مجھے یقین تھا نہ زاہد کو اور نہ میرے کسی اور دوست کو ۔

اب سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ خبر جج صاحب کو کیسے سنائی جائے۔ پرانے زمانے میں والد اور بچوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا تھا ۔ اور کوئی بھی بیٹا اتنی جرأت نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے بابا سے کھل کر بات کر سکے ۔ آج کل کے نوجوان بچے اور بچیاں شاید اس بات پر قطعاً یقین نہ کریں ۔

مجھے سمجھ نہ آئے کہ میں یہ خبر اپنے والد صاحب کو کیسے پہنچاؤں ۔ پھر والدہ کا سہارا لیا ۔ انھیں بتایا کہ میرے گریجویشن کا نتیجہ حد درجہ شاندار آیا ہے۔ اور اس کے بعد ہاسٹل چلا گیا ۔ لاہور میں گھر تو تھا مگر میں رہتا ہاسٹل میں ہی تھا ۔ روز شام کو گھر ضرور چکر لگاتا تھا ۔ اگلے دو تین دن میں ڈر کی وجہ سے گھر نہ گیا ۔ تین دن کے بعد گھر گیا تو والد صاحب نے بڑے آرام سے مجھے بلایا اور سمجھاتے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا میڈیکل کی تعلیم میں انسان خود محنت کر کے آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر سرکاری ملازمت میں اتنے مسائل ہیں کہ محنت اور میرٹ وقعت نہیں رکھتے ۔ بہتر ہوگا کہ تم میڈیکل پر توجہ دو اور اپنی تعلیم مکمل کرو ۔

میں خاموشی سے واپس آ گیا کیونکہ میرے پاس چپ رہنے کے علاوہ دوسرا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ ہاسٹل پہنچا تو شکیل اور زاہد کمرے میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے ۔ شکیل سخت حیران تھا کہ میں نے بی اے کا امتحان اتنی آسانی سے کیسے پاس کر لیا ۔ زاہد اسے سمجھا رہا تھا کہ کئی بار خدا ‘ بیوقوف آدمی پر بھی مہربان ہو جاتا ہے۔ اور میرے کیس میں بالکل ایسا ہی ہوا۔  (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • ’اے اللہ! شکریہ مجھے اپنے در پر بلانے کا‘، کینسر کی شکار بھارتی اداکارہ حنا خان کا عمرہ، تصاویر وائرل
  • ورون چکرورتی نے ٹیسٹ کرکٹ میں عدم دلچسپی کی وجہ بتا دی
  • مقابلے کا امتحان
  • دہشتگردوں کے سامنے سرنڈر کرنیوالے اہلکاروں کیخلاف کارروائی ہوگی، ڈی جی لیویز بلوچستان
  • ابراہیم علی خان پاکستانی صارف کو دھمکیاں کیوں دینے لگے؟
  • ڈیوڈ وارنر کی پہلی بھارتی فلم کب ریلیز ہوگی، تاریخ سامنے آگئی
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کیخلاف گھیرا مزید تنگ
  • ٹرمپ انتظامیہ کی دھمکیاں، فلسطین کے حامی طلبہ کو کولمبیا یونیورسٹی سے نکال دیا گیا
  • پاکستان سے شکست پر جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں، مگر کیسے؟