Islam Times:
2025-03-16@23:17:11 GMT

ٹرمپ کو جج نے 227 سال پرانا قانون استعمال کرنے سے روک دیا

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

ٹرمپ کو جج نے 227 سال پرانا قانون استعمال کرنے سے روک دیا

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جج جیمز بواسبرگ نے سماعت کے دوران کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ جلاوطن افراد کو لے جانے والے طیارے اڑان بھر رہے ہیں اور انہیں واپس جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وینز ویلا کے شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے جنگ کے دوران امریکا کو تحفظ فراہم کرنے والے 227 سال پرانے قانون کو استعمال کرنے سے روک دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وینزویلا کے جرائم پیشہ گروہ ٹرین ڈی اراگوا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن امریکا کے خلاف غیر قانونی جنگ کر رہے ہیں، انہیں 1798 کے اجنبی دشمن ایکٹ کے تحت ملک بدر کیا جائے گا۔ تاہم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیمز بواسبرگ نے ہفتے کی شام ملک بدری روکنے کا حکم جاری کیا ہے جو 14 روز تک جاری رہے گا۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جج جیمز بواسبرگ نے سماعت کے دوران کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ جلاوطن افراد کو لے جانے والے طیارے اڑان بھر رہے ہیں اور انہیں واپس جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ قانون امریکا کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگ کے دوران ایسے افراد کو حراست میں لے سکتا ہے، جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں، اسے آخری بار دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی نسل کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ ہفتے کے روز اس اعلان پر کوئی تعجب نہیں پایا گیا، جہاں ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ٹرین ڈی اراگوا ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سرزمین کے خلاف حملے یا شکاری حملے کا ارتکاب کر رہا تھا، کوشش کر رہا تھا اور دھمکی دے رہا تھا۔

انہوں نے گزشتہ سال کی انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے متنازع قانون کو استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ امریکن سول لبرٹیز یونین اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے ہفتے کے روز اعلان جاری کرنے سے پہلے ہی انہیں اس کے استعمال سے روکنے کے لیے مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ جج نے کہا کہ قانون میں حملہ اور شکاری دراندازی کی اصطلاحات ’دراصل دشمن ممالک کی کارروائیوں سے متعلق ہیں، اور یہ قانون شاید ٹرمپ کے اعلان کے لیے کوئی اچھی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ اے سی ایل یو کے ایک وکیل نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اتوار کے روز ہوا میں وینزویلا کے تارکین وطن کے 2 طیارے موجود تھے۔

اس اعلان اور اس کے گرد ہونے والی لڑائی کو ٹرمپ کے حامیوں کو اکٹھا کرنا چاہیے، جنہوں نے غیر قانونی امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں کو کم کرنے کے وعدوں پر انہیں وائٹ ہاؤس واپس بھیج دیا تھا۔ جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے انہوں نے امریکی امیگریشن نظام کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کچھ قانونی ماہرین نے اس مطالبے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان جنگ کے بعد ماضی میں بھی غیر ملکی دشمن ایکٹ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، آئین کے تحت صرف کانگریس ہی جنگ کا اعلان کر سکتی ہے۔

ٹرمپ کے حکم کے تحت امریکا میں موجود وینیز ویلا کے وہ تمام شہری جو کم از کم 14 سال کی عمر کے ہیں (ٹرین ڈی اراگوا کے رکن ہیں اور اصل میں شہریت یافتہ یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں) انہیں غیر ملکی دشمنوں کے طور پر پکڑا، روکا اور نکال دیا جائے گا۔ ٹرمپ نے اعلان میں یہ واضح نہیں کیا کہ امریکی حکام کس طرح اس بات کا تعین کریں گے کہ کوئی شخص پرتشدد، بین الاقوامی گینگ کا رکن ہے؟۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے دوران انہوں نے کے خلاف کے لیے کے روز

پڑھیں:

ٹرمپ اور امریکا

ٹرمپ کے دور اقتدار میں کیا ہوا تھا اور انھیں کیوں ایک کے بعد فوری دوسری بار اقتدار میں آنے سے روکنا پڑا تھا اور پہلے ناکام دورکے بعد عوام نے انھیں ایک وقفے کے بعد ان کو کیسے قبول کر لیا۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کا دنیا میں مانیٹر بننے اور حکم چلانے کے عمل میں خود اس کا اور اس کے حواریوں کا کتنا نقصان ہوا ہے۔

افغانستان کی جنگ میں کودنے کا عمل دراصل روس سے چلتی ایک طویل سرد جنگ کا نتیجہ تھا جس نے نہ صرف امریکا کو بلکہ دنیا بھر میں تعصب کی جنگ کو ہوا دی تھی۔ لوگوں نے افغانستان میں کی جانے والی خون ریزی کو تسلیم کیا ہو یا نہ کیا ہو، خود امریکی افواج میں اس متعصبانہ رجحان سے نفسیاتی عوارض ناپسندیدگی کی حد تک ابھرے اور یہ تاثر ابھرا کہ امریکا کا اس بڑی جنگ میں اپنا کرتب دکھانے کا عمل کس قدر نقصان کی صورت میں نکلا، جس کے اثر سے آج بھی امریکا اپنا پلو نہیں چھڑا سکا ہے۔

نہ صرف مالی دور پر بلکہ ذہنی و جسمانی کوفت اور اذیت کے نشان امریکی افواج کے اراکین پر نظر آتے ہیں، اس بڑی ناکامی کے بعد بھی یہ عمل رکا نہیں بلکہ کسی اور جانب کا رخ کرگیا۔ بڑی طاقت سے عناد اور ٹکر لینے کا جذبہ امریکا کا پرانا نفسیاتی مرض ہے، اس لیے کہ جب سے برطانیہ کی بادشاہی کا تاج کمزور پڑا، امریکا کو اس کا مقام حاصل کرنے کا چسکا لگ گیا، لیکن یہ آج کی دنیا ہے، یہاں یقینا ماضی کی طرح اب بھی بڑے مظالم قوموں پر ڈھائے گئے ہیں جس کی بڑی مثال غزہ ہے، لیکن ویت نام کی ناکام جنگ نے اسے کوئی سبق نہ دیا اور ایک کے بعد ایک وہ اس طرح کے خونی کھیل میں ڈبکیاں لگاتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان اور پھر اسامہ بن لادن کے ڈراپ سین کے بعد اسے مجبوراً اپنی جانب سے یہ سبق بند کرنا پڑا تھا۔

روس ایک بڑا بھوت بن کر اس کے حواسوں پر ایسا سوار ہوا کہ ماضی تک جو کھیل افغانستان کی آڑ میں چلتا رہا تھا، اب سے یوکرین کے چھوٹے سے پلو سے پکڑنا پڑا اور ہدف تھا روس۔ روس نے یقینا یوکرین کے ساتھ بڑا برا کیا لیکن امریکا نے ایک بار پھر مانیٹرکی ڈیوٹی انجام دینے کی سوچی اور یورپ کے بااثر ممالک کے دروازوں کو بجا کر چوکنا کیا۔

جنگ کے بلند شعلے یورپ تک محسوس کیے گئے۔ پوتن ایک انتہائی ظالم اور مکار انسان ڈکلیئر کردیا گیا جو یوکرین پر پھر سے قبضہ کر کے اپنی حدود بڑھانا چاہتا ہے وہ بھی امریکا کی ناک کے نیچے اور بھلا یہ اسے کیسے گوارا تھا۔ معاملہ بڑھتا گیا امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین کی بھرپور مدد کا اعلان کیا جس کے سہارے ولادیمیر زیلنسکی نے روس جیسے بڑے بھوت سے ٹکر لینے کا عہدکیا، پوتن نے امریکی سرکار کے بڑے دعوے مسترد کر دیے اور وہ رکا نہیں، تب ہی فلسطین کی سرد جنگ شعلوں میں لپٹ کر منظر عام پر آگئی۔

دنیا کے ناظرین کے لیے ایک اور جنگی اسٹیج سج گیا، اب یوکرین اور روس کی جنگ پس منظر میں چلی گئی۔ اس دوران زیلنسکی نے بہت دہائیاں دیں، لیکن بے سود رہیں کہ اچانک امریکی سیاست کا نقشہ بدلتا نظر آتا ہے۔ جوبائیڈن کیا بیمار ہوئے وہاں تو دنیا ہی بدل گئی۔

بدکار، بدفطرت،کرپٹ، چالاک، عیار اور پر تعصب نجانے کن کن القابات کا بوجھ اٹھائے ٹرمپ میدان میں اتر ہی آئے۔ ایک بار پھر منظرنامہ تیزی سے بدلنے لگا۔یوکرین کی حمایت کرنے والا امریکا اب روس کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوکرین پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ روس سے جنگ بندی کر لے اور بدلے میں وہ تمام کڑی شرائط قبول کر لے جو اس کی گردن میں طوق پہنانے کے مترادف ہیں۔

یہ بہت بڑی قلابازی تھی جو ٹرمپ نے آتے ہی کھائی اور دکھا دیا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں الگ سوچتے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلے حملہ روس کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس نے ہی کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ یہ اندھا قانون لاگوکرنے میں دو بڑی طاقتیں ایک ساتھ جڑگئی ہیں۔ جو کچھ جوبائیڈن کرچکے تھے اورکہہ چکے تھے، ٹرمپ اس سے ہٹ کر اپنے لیے نئی روش بنا رہے ہیں۔

پوری دنیا نے زیلنسکی اور ٹرمپ کی اس تکرار کو دیکھا جس میں ٹرمپ نے اپنے منصب سے اتر کر ایسی باتیں کیں جو ان کے امیج کو مزید داغ دار کر گئیں۔ زیلنسکی جوبائیڈن کے دور حکومت تک فارم میں نظر آتے تھے لیکن ٹرمپ کی آنکھیں بدلتے ہی انھیں اپنے ملک کا مستقبل بھی تاریک نظر آنے لگا، دراصل ٹرمپ کی نگاہ کسی اور ہدف پر ہے وہ روس جیسے طاقتور جن کا ہاتھ تھام کر ایشیا میں قدم بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک ایسے کاروباری انسان ہیں جو اپنے نفع کے آگے کچھ نہیں دیکھتا۔

اس منظر میں غزہ بھی ابھرتا ہے جہاں طویل جنگ نے آگ وخون کی ہولی کھیلی لیکن یہاں بھی ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھی بنے نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنے یہودی داماد کے زبردست بزنس پلان سے اس حد تک اتفاق ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

آج ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایسے ایسے شاہکار شامل ہیں جنھیں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا کرپٹ، داغ دارکردار والے شاید امریکا کی تاریخ میں پہلے ایسی ٹیم کبھی نہ دیکھی نہ سنی۔آخر ٹرمپ چاہتے کیا ہیں؟ ٹرمپ کی راہ ماضی کے تمام حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ الگ ہے اور یہ انھوں نے ظاہرکرنا شروع کر دیا ہے۔

وہ خود غرض ہے، انا پرست ہیں یا نہیں لیکن امریکا اور اپنی قوم کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے، وہ کسی بھی طرح اپنے ملک اور امریکی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں، انھیں فکر ہے تو اپنے ملک کے سرمائے کی جسے وہ کسی کمزور ہوتے ملک یا قوم کی بھلائی، سدھارکے لیے استعمال کرنے سے گریزکرتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ امریکا کوگریٹر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔ وہ ایک چال باز بزنس مین کی طرح چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لادنا چاہتے ہیں، امپورٹ ڈیوٹی بڑھنے سے سستی اشیا مہنگی ہوکر عوام کو مشکلات میں ڈال دے گی، لیکن چین کو زیرکرنے کے لیے کاروباری ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے اسی طرح کی کاروباری چالیں وہ اپنی پہلی باری میں بھارت کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کر چکے ہیں۔

ٹرمپ عوام کے لیے کیسے بھی ہوں، انھیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن ان کے اپنے دماغ میں جو بات بیٹھ گئی ہے وہ اسے پورا کرنے میں مستعد ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلی بار 2017 میں کامیاب ہونے کے بعد 2021 میں وہ اس تخت سے دور ہوگئے تھے اور اس میں ان کی جو غلطیاں تھیں وہ آج بھی انھی پرکاربند ہیں کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدل سکتے۔

کاروبار چلانے کے لیے تمام حربے اختیارکرنا انھیں خوب آتا ہے لیکن ملک چلانے کے لیے وہ کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتائج دنیا پر کس طرح اپنے اثرات مرتب کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ انسانی عقل و شعور اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا دنیا ایک گریٹر امریکا کو دیکھ سکے گی یا ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث امریکا کی ریاستیں دور ہو جائیں گی اس لیے کہ فیصلہ قدرت کا ہوتا ہے لیکن وہ انسانوں سے ہی یہ فیصلے کرواتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 227 سال پرانا قانون استعمال کرنے سے روک دیا
  • وفاقی جج نے صدر ٹرمپ کو 227سال پرانا قانون استعمال کرنے سے روک دیا
  • ٹرمپ نے ملک میں 1798 کا ایلین اینیمیز ایکٹ نافذ کردیا
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
  • ٹرمپ اور امریکا
  • امریکہ نے ٹرمپ پر تنقید کرنے والے جنوبی افریقہ کے سفیر کو ملک بدر کر دیا
  • امریکا کا جنوبی افریقہ کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا اعلان
  • غزہ کے فلسطینیوں کی آبادکاری کیلیے امریکا اور اسرائیل کا 3 افریقی ممالک سے رابطہ
  • گرانٹ ختم ہونے کے بعد مشہور امریکی یونیورسٹی کا 2 ہزار ملازمتیں ختم کرنے کا اعلان