UrduPoint:
2025-03-16@16:13:19 GMT

سرسید کی مغل سلطنت سے محبت

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

سرسید کی مغل سلطنت سے محبت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مارچ 2025ء) تاریخ کا یہ دستور رہا ہے کہ ہر شاہی خاندان اپنے عروج کے زمانے میں اپنی طاقت اور شان و شوکت کے اِظہار کے لیے محلات، مقبرے، قلعے، عبادت گاہیں، دروازے اور مینار تعمیر کراتا تھا۔ مُغل حکمرانوں کے پاس لگان، ٹیکسوں اور مالِ غنیمت کے ذریعے بڑی دولت اکٹھی ہو گئی تھی۔ اِس دولت کے ذریعے اُںہوں نے اپنی سلطنت میں شاندار عمارات تعمیر کیں۔

تاج محل کی تعمیر بھی اسی کے عہد میں ہوئی۔ جب مغل خاندان کا زوال شروع ہوا تو وہ اِن عمارتوں کو اُن کی اصلی حالت میں نہ رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ عمارتیں خستہ ہو کر کھنڈرات بنتی رہیں۔ مُغل خاندان کی شان و شوکت اِن کھنڈرات میں گُم ہو گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے مُغل دربار اِن کی حکومت کے لیے جائز ہو گیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سرسید احمد خان نے تحریروں کے ذریعے مُغل دور کے کارناموں اور عروج کو بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔

سرسید احمد خان کا تعلق دہلی کی اشرافیہ سے تھا اور اِن کے تعلقات مغل خاندان سے تھے۔ اس موقع پر اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خاص طور سے دہلی میں مُغل دور کی عمارتوں کی تعریف لکھ کر اپنی تحریروں میں اِن کے اصلی خدوخال اُجاگر کریں گے۔ اس منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اُںہوں نے دہلی کی عمارتوں کا تحقیقی جائزہ لیا۔ اگرچہ وہ ماہر تعمیرات تو نہیں تھے مگر اُںہوں نے ایک ایک کر کے ان عمارتوں پر لکھی ہوئی تحریر اور اُن کے نقش و نگار کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔

بعض اوقات وہ عمارت کی بلندی پر جا کر اُس پر لِکھے گئے کتبے کی نقل کرتے تھے۔ نیچے اِن کے دوست امام بخش صحبائی ڈرتے تھے کہ سرسید احمد خان کہیں گِر نہ پڑیں۔ سرسید احمد خان نے اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے بعد آثارُالصنادیر لکھی، جس نے یہ ثابت کیا کہ مغلیہ عہد تہذیب و کلچر میں اعلیٰ مقام حاصل کیے ہوئے تھے۔ فن معماری میں ماہرِ معمار، ہُنرمند اور رنگین نقش و نگار بنانے والے تھے۔

یہ اُسی وقت ممکن تھا کہ جب یہ ماہرین علمِ ریاضی اور جیومیٹری سے واقف ہوں۔ سرسید احمد خان کی تحریروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کو بھی مُغل خاندان کے بارے میں ایک نیا نقطۂ نظر دیا۔

سرسید احمد خان کا دوسرا اہم کام عہد اکبری کے درباری مؤرخ ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری کی ترتیب و تدوین تھی۔ اِس کتاب میں ابوالفضل نے اکبر کے عہد کے اُن شعبوں کا ذکر کیا ہے، جنہیں اکبر نے قائم کیا تھا اور ہر شعبے کے انتظام کے لیے ملازمین کے مُختلف فرائض تھے، جن میں جانوروں کی دیکھ بھال، کیمپ کے انتظامات، فوج، فراش خانہ، باورچی خانہ، ملبوسات کی دیکھ بھال کرنے والا۔

کُتب خانہ اور دوسرے کئی شعبے ہیں۔ مثلاً آبدار خانے کے بارے میں لِکھا ہے، ''جہاں پناہ اس سرچشمہ زندگی کو آبِ حیات فرماتے ہیں۔ بادشاہ نے اس محکمے کا انتظام بیدار مغز اہل کاروں کے سپرد فرمایا ہے۔ قبلہ عالم خود زیادہ پانی نہیں پیتے لیکن سررشتہ آپ ہر وقت خاص توجہ فرماتے ہیں۔ بادشاہ سَفر و حضر ہر وقت گنگا کا پانی نوش فرماتے ہیں۔

(اُردو ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔

ابوالفضل نے خوشبو خانے کے بارے میں بہت دلچسپ لکھا ہے، ''جہاں پناہ جن کی گرامی ذات بزم سلطنت کی صدر ہے۔ خوشبو کو بےحد پسند فرماتے ہیں اور عزیز رکھتے ہیں۔ قبل عالم بوئے خوش کو خدا کی پرستش کا وسیلہ خیال فرماتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔

ابوالفضل نے شاہی کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے اس میں کام کرنے والے خوش نویسوں، مصوّروں اور جِلد بنانے والوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔

تصویر خانے کے بارے میں اُس کا کہنا ہے، ''تصویر کَشی کی بہترین قِسم خطاطی ہے۔ جہاں پناہ اس پر خاص توجہ فرماتے ہیں اور ظاہر و باطن ہر شعبے میں دُوربینی سے کام لیتے ہیں۔ (ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔

سرسید احمد خان نے آئین اکبری کا پیش لفظ غالب سے لکھوایا تھا۔ غالب نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ اب پرانے آئین کی ضرورت نہیں اب نئے آئین پر لکھو۔

درحقیقیت سرسید کا مقصد ان دونوں کتابوں کی اشاعت سے یہ تھا کہ برطانوی حکومت کو یہ احساس دِلوایا جائے کہ ہندوستان تہذیبی طور پر پسماندہ نہیں تھا۔ اس کا طرزِ حکومت اور انتظام سلطنت مُلک میں امن و امن کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔

بعد میں برطانوی حکومت کو خیال آیا کہ آئین اکبری کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے یہ انگریزی ترجمہ شائع ہوا اور کمپنی کے اَفسروں نے اس کا مطالعہ کیا تا کہ اس کی مدد سے وہ ہندوستان کے معاملات کو سمجھ سکیں۔

اِن دونوں کتابوں سے سرسید کی مُغل سلطنت سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ برطانوی حکومت کی تعریف کرتے تھے مگر مُغل دَور کی کمتری کا احساس نہیں تھا۔ اُن کی یہ دونوں کتابیں مُغل تاریخ کا اہم ماخِذ ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ا ئین اکبری کے بارے میں فرماتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

خوشامد کی ‘انڈسٹری’ کے قلم مزدور

پاکستان میں شاعروں، ادیبوں کی طرف سے حکمرانوں کی خوشامد کی صنعت نے ایوب خان کے دور میں خاصی ترقی کی، اس موضوع پر گزشتہ چند سال سے مسالہ اکٹھا کررہا ہوں جو ہوتے ہوتے اتنا ہوگیا ہے کہ کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس مواد نے حیرت کے کئی در وا کیے، بڑے بڑوں کے بھرم ٹوٹے، آج میں نے دو معروف فکشن نگاروں اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کے رشحات قلم کے بارے میں کچھ لکھنے کی ٹھانی ہے جس میں انہوں نے ایوب خان کی خوشامد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی البتہ یہ تحریریں ان کی کسرِ شان کا باعث ہیں۔

اشفاق احمد کی خوشامد کا نمونہ ہفت روزہ ‘لیل ونہار’ کے 25 اکتوبر 1959 کے شمارے میں محفوظ ہے، یہ رسالہ پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کا تھا جس پر فوجی حکومت نے قبضہ کیا تو سبط حسن کی جگہ اشفاق احمد اس کے ایڈیٹر ہوگئے تھے، ان کے زمانہ ادارت میں ایوب خان کے ‘انقلاب’ کا ایک سال مکمل ہونے پر ‘لیل ونہار’ میں نظم ونثر میں ایوب خان کے قصیدے رقم ہوئے جن کا آغاز ہی اداریے سے کیا گیا۔

اس میں مارشل لا سے پہلے کے حاکموں کو دراز دست لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد صفحہ پلٹنے پر حفیظ جالندھری کی نظم ‘رہبر ہے ایوب’ سے سامنا ہوتا ہے، اس سے یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو:

‘ہم ہیں اپنے باغ کے مالی

اپنی منزل ہے خوش حالی

رہبر ہے ایوب

رہبر ہے ایوب ہمارا رہبر ہے ایوب

دریاؤں کے منہ موڑیں گے

طوفانوں کے سر توڑیں گے

کرلیں گے مغلوب

کوئی بھی ہو اس راہ میں حائل

کرلیں گے مغلوب

خوش حالی ہے اپنی منزل

رہبر ہے ایوب

رہبر ہے ایوب ہمارا رہبر ہے ایوب

بڑھتے چلو چڑھتے چلو

تیز چلو، تیز چلو

اور تیز

اور تیز’

اس نظم سے گزریں تو احسان دانش کے کلامِ بلاغت نظام سے واسطہ پڑتا ہے جس کا عنوان ‘انقلاب زندہ باد’ ہے جو شروع ہی اس شعر سے ہوتا ہے:

ہر تیرگی میں جلوہ نما انقلاب ہے

ہر درد لادوا کی دوا انقلاب ہے

حفیظ نے اپنی نظم میں ‘تیز چلو تیز چلو اور تیز اور تیز’ کی بات کی تھی جسے قتیل شفائی نے ‘ندائے منزل’ میں ‘رفتار کو اور بھی تیز کرو’ کہہ کر اٹھایا ہے۔

اس پرچے میں ایوب خان اور ان کے انقلاب کی مداحی کا مضمون فاضل لکھاریوں نے سو رنگ سے باندھا ہے لیکن ان کا زور سخن اشفاق احمد کے ‘صدر مملکت کے ساتھ چند لمحے’ کے پاسنگ بھی نہیں۔ کہنے کو تو یہ انٹرویو تھا جس کے بیچ بیچ میں اشفاق احمد بھٹی بھی کرتے رہے جو مضحکہ خیز صورت اختیار کر جاتی ہے، اس پیرایہ اظہار کے چند نمونے دیکھیے:

‘میں نے ان کے ساتھ ہاتھ ملایا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ ایک نبرد آزما کا پنجہ ہی نہیں ایک شفیق اور مخلص انسان کا ہاتھ بھی ہے، میں اپنے ہاتھ پر اب بھی اس محبت بھرے ہاتھ کا لمس محسوس کررہا تھا جس نے مجھے یہ آسودگی بخشی تھی، میں نے اپنا سوالنامہ کاغذ کی تہوں سے نکالتے ہوئے کہا، سب سے پہلے تو ملک میں انقلاب لانے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد قبول کیجیے اور ہمیں شکر گزار ہونے کا موقع دیجیے کہ آپ نے عین وقت پر ہماری دست گیری کی اور ملک کو تباہی و بربادی سے بچایا’۔۔۔صدر مملکت کے منہ سے اردو کے ایسے جملے سن کر میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور میں نے یگانگت محسوس کرتے ہوئے پوچھا: ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ ہم کس طرح سے آپ کی مدد کریں اور کیسے ملک کے کام آئیں۔

اشفاق احمد بڑی لجاجت سے جناب صدر کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کی گزارش بھی کرتے ہیں۔

اس شمارے میں آغا بابر کا مضمون ‘کچھ تحریر میں انقلاب’ شامل ہے۔ اس میں انہوں نے اہل قلم کو رائج سیاسی تراکیب کا استعمال ترک کرنے کی تاکید کی ہے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ تقسیم ہند نہیں لکھنا چاہیے کہ یہ بات دشمن کی اڑائی ہوئی ہے، اس کے بجائے ہمیں قیام پاکستان اور حصولِ آزادی لکھنا چاہیے، آغا بابر دانا آدمی تھے لیکن پھر بھی اقبال کے اس شعر کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

انہی آغا بابر کا ڈراما ‘بڑا صاحب’ (گوگول کے ڈرامے انسپکٹر جنرل سے ماخوذ) بھی میرے ذخیرے میں موجود ہے جس کا انتساب کچھ یوں ہے:

‘نئے دور کے خالق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے نام’

اس کتاب کے سرورق پر جلی حروف میں یہ عبارت بھی درج ہے:

‘انقلاب اکتوبر سے قبل یہ ڈراما پیش کرنا ناممکنات میں سے تھا، اسے لکھنے اور کھیلنے کی جرات نئے دور نے دلائی۔’

اب آجاتے ہیں ممتاز مفتی کے خوشامدی ادب پر۔ ‘پاک جمہوریت’ کے نام سے ایک کتابچہ میرے سامنے ہے جس میں ممتاز مفتی کا مضمون شامل ہے، اس میں انہوں نے ایوب خان کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں، اس نثر پارے سے چند ٹکڑے ذرا دیکھیے:

‘میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر چلاؤں فیلڈ مارشل ایوب پاکستان کے نجات دہندہ ہیں۔ وہ ہماری دعاؤں کا جواب ہیں، فیلڈ مارشل ایوب بار بار پیدا نہیں ہوتے، اور ممتاز مفتی کی حیثیت سے مجھے اپنے پاکستانی بھائیوں کی گرمی قلب کے علاوہ فیلڈ مارشل ایوب کی خداداد نگاہ اور جذبہ جمہوریت پر قطعی اعتماد ہے۔ میرا ایمان ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب ہماری دعاؤں کا جواب ہیں۔’

‘پاک جمہوریت’ سے دوبارہ ‘لیل ونہار’ کی طرف چلتے ہیں جس کے ایک اور شمارے (27 مارچ 1960) میں ممتاز مفتی نے ‘انوکھی گاڑی’ کے عنوان سے انوکھی تحریر قلمبند کی ہے۔

ایوب خان عوامی رابطہ مہم کے لیے سبز رنگ کی اسپیشل ٹرین پر عازم سفر ہوئے، ادیب، شاعر اور فنکار بھی اس ٹرین میں رونق افروز تھے، اس سفر کے لمبے قصے میں ممتاز مفتی نے ایوب خان کو جمہوریت کا دل دادہ لکھا ہے، اس قلم توڑ مضمون کی چنیدہ عبارتوں سے آپ کو نفس مضمون کا اندازہ ہو سکے گا:

‘واقعی وہ گاڑی انوکھی اور پیاری شخصیتوں سے بھری ہوئی تھی اور ان سے میل جول کس قدر خوش کن تھا لیکن سب سے جاذب شخصیت صدر کی تھی، جب ہمارے موزوں قامت صدر گاڑی سے باہر نکلتے تو سب ماند پڑ جاتے، ان کے چہرے کی بشاشت اور شگفتگی کو دیکھ کر، ان کے بے پایاں خلوص کو محسوس کرکے، بڑے سے بڑے قنوطی کے دل میں ڈھارس بندھ جاتی۔ امید کی ایک شعاع اندھیرے کو منور کردیتی، گاڑی سے باہر نکل کر وہ اہلکاروں کی طرف یوں بڑھتے جیسے وہ اہلکار نہیں بلکہ شریک کار ساتھی ہوں۔ عوام کی طرف دیکھ کر محبت کے جذبے سے ان کی نگاہ پرنم ہو جاتی۔ جب بھی وہ ان سے خطاب کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ صدر نہیں بلکہ ان کے بھائی ہوں۔ خطاب کرتے وقت وہ انہیں یارا کہہ کر خطاب کرتے، صدر کی تقریروں میں بلا کا اثر تھا اور ان کے جوابات میں مزاح کی چاشنی کے علاوہ چٹکلے اور لطیفے۔’

اپنے نادر مشاہدات کے ذیل میں ممتاز مفتی نے عوام کی ایوب سے دیوانہ وار محبت کے قصے بھی رقم کیے ہیں: ‘ایک مریض بستر مرگ پر صدر کو دیکھنے آیا ہے، اس کے بیٹوں نے اس کی چارپائی اٹھا رکھی ہے، میں نے ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے۔ باپو نے کہا تھا یہ میری آخری خواہش ہے، مجھے ایوب دکھا دو۔’

اب تک کی روداد سے کم از کم یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری راہ کیسے کھوٹی ہوئی، جن کا منصب یہ تھا کہ وہ طاقت سے مرعوب نہ ہوتے، وہ ڈکٹیٹر کے سامنے بچھے جا رہے تھے، اس عمل کی بنا ایک دفعہ پڑی تو پھر یہ مستقل شعار بن گیا۔

ڈکٹیٹروں کے حامی ادیب شاعر کسی رو رعایت کے مستحق نہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں پر حیرت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پہلے تین ڈکٹیٹروں کی پالیسیوں کے عواقب سامنے آنے کے بعد فوجی حکومت سے توقع باندھنے کو نرم سے نرم لفظوں میں بھی حماقت ہی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ سابقہ تجربات سے اس بات میں کسی شک کہ گنجائش نہیں رہی تھی کہ ڈکٹیٹر قوم کو گہری دلدل میں پھینک کر ہی رخصت ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ایسے دو نامور ترقی پسند ادیب جنہیں سیاسی اعتبار سے باشعور خیال کیا جاتا ہے انہوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کی خوب طرف داری کی، ان میں تو ایک فہمیدہ ریاض ہیں جنہوں نے ہمیشہ پرویز مشرف کا مقدمہ ایک ماہر وکیل کی طرح لڑا، دوسرے احمد بشیر بھی جنرل مشرف کی طرف ملتفت ہوئے، ان کے ‘نیا زمانہ’ میں شائع شدہ مضامین میں سے چند مثالیں دیکھتے جائیے:

‘پرویز مشرف ایک نیک دل، بہادر اور محب وطن آدمی ہے۔’

‘ہم پرویز مشرف کے حامی ہیں کیونکہ وہ ایک نیک طینت اور صاف گو اور محب وطن آدمی ہے۔’

احمد بشیر نے ‘خلفشار’ کے عنوان سے ایک مضمون میں پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں پرویز مشرف کی حمایت کی اور نواز شریف اور واجپائی کے اعلان لاہور پر تنقید کے لیے انہیں ارشاد احمد حقانی کے کالم کا سہارا لینا پڑا، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سارے قضیے میں اپنے ممدوح جنرل مشرف کے کارگل میں بلنڈر کا تذکرہ گول کر جاتے ہیں۔ سیاست دانوں سے اندھی نفرت کی وجہ سے وہ صورت حال کا صحیح تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

پرویز مشرف کے فراڈ ریفرنڈم پر تنقید کا ان میں حوصلہ نہیں، الٹا وہ اس بھونڈے عمل کے مخالفین پر گرفت کرتے ہیں۔

ان کی سیاسی فکر کا سب سے کمزور اور افسوس ناک پہلو آئین سے عناد ہے۔

احمد بشیر لکھتے ہیں:

‘یہ کانسٹی ٹیوشن ایک بے ہودہ دستاویز ہے۔’

‘یاد رکھیے کہ پاکستان میں کبھی کوئی تبدیلی آئی تو کانسٹی ٹیوشن کی خلاف ورزی کر کے ہی آئے گی۔’

ڈکٹیٹروں کے حق میں قلم گھسیٹنے والے ادیبوں کے تذکرے کے بعد اب آخر میں ہم مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کر لیتے ہیں جنہوں نے ‘آب گم’ میں آمریت اور آمرانہ ذہنیت کا گہرا تجزیہ کیا ہے اور ‘شام شعر یاراں’ میں بھی ڈکٹیٹروں پر چوٹ کی ہے۔ ایوب خان کے معتمدِ خاص قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر بھی ان کے قلمی نشتروں کے نشانے پر آئے ہیں۔ وہ شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے ایک اقتباس اور اس پر تبصرے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں:

‘دلی والوں کو بھلے وقتوں میں دنبے پالنے کا بہت شوق تھا، یہ دنبے اس قدر فربہ ہو جاتے کہ ان کی چکتیاں اتنی بھاری ہو جاتیں کہ اس بوجھ کو لے کر چلنا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا، لہٰذا ہلکی پھلکی دو پہیوں کی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بنوائی جاتیں جن پر ان کی چکتیاں رکھ دی جاتیں، تب کہیں ان کی پھرائی ممکن ہوتی۔’

‘ہمیں یہ اقتباس یہاں اس لیے نقل کرنا پڑا کہ بعض نامی گرامی بیورو کریٹ، حاکم وقت بالخصوص آمر کی انانیت اور مطلق العنانیت کی روز بروز بڑھتی اور پھولتی ہوئی چکی کو اسی طرح اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، حاکم و آمر تو بالآخر رخصت ہو جاتا ہے مگر تاریخ میں وہ چکی انہی کاندھوں پر دھری کی دھری رہ جاتی ہے، لاکھ اتارنا چاہیں، اتر کے نہیں دیتی۔’

یوسفی صاحب نے جو بات نامی گرامی بیوروکریٹ کے لیے لکھی ہے میں سمجھتا ہوں یہ ڈکٹیٹروں کی حمایت کرنے والے ادیبوں پر بھی صادق آتی ہے کہ یہاں تو معاملہ اور بھی نازک ہے کہ خوشامد میں کی گئی سخن طرازی کبھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی، زیر نظر مضمون ہی کو لیجیے کہ مال روڈ پر پرانی کتابوں کے بازار سے ‘لیل ونہار’ کے 65 برس پرانے پرچے ملنے پر اسے لکھنے کا خیال آیا اور ‘گویا دبستاں کھل گیا! ‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews ادیب انڈسٹری خوشامد شاعر قلم مارشل لا محمودالحسن مزدور وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • خوشامد کی ‘انڈسٹری’ کے قلم مزدور
  • فاطمہ فرٹیلائزر اور عاطف اسلم کی جانب سے رمضان کی مناسبت سے ”فاصلوں کوتکلف “ نعت  جاری
  • ایسا پنجاب بنا رہے ہیں جہاں ہر شہری خود کو محفوظ، با اختیار، برابر کا پاکستانی محسوس کرے: مریم نواز
  • وزیراعلیٰ مریم نواز پنجاب کی جانب سے ہندو برادری کے تہوار ہولی پرپیغام
  • بھیڑ بکریوں کی سلطنت
  • یہ تیوہار بہار کی آمد اور محبت کی فتح کی علامت ہے، وزیر اعظم کا ہولی پر پیغام
  • پاکستان مختلف مذاہب کا حسین امتزاج، سب کو یکساں حقوق میسر ہیں: مریم نواز
  • اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کو  ریڈ لائن قرار دے کر یقینی بنایا جارہا ہے،مریم نواز شریف
  • کولکتہ، سلطنت مغلیہ کی وارثہ مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور