اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مارچ 2025ء) تاریخ کا یہ دستور رہا ہے کہ ہر شاہی خاندان اپنے عروج کے زمانے میں اپنی طاقت اور شان و شوکت کے اِظہار کے لیے محلات، مقبرے، قلعے، عبادت گاہیں، دروازے اور مینار تعمیر کراتا تھا۔ مُغل حکمرانوں کے پاس لگان، ٹیکسوں اور مالِ غنیمت کے ذریعے بڑی دولت اکٹھی ہو گئی تھی۔ اِس دولت کے ذریعے اُںہوں نے اپنی سلطنت میں شاندار عمارات تعمیر کیں۔
تاج محل کی تعمیر بھی اسی کے عہد میں ہوئی۔ جب مغل خاندان کا زوال شروع ہوا تو وہ اِن عمارتوں کو اُن کی اصلی حالت میں نہ رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ عمارتیں خستہ ہو کر کھنڈرات بنتی رہیں۔ مُغل خاندان کی شان و شوکت اِن کھنڈرات میں گُم ہو گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے مُغل دربار اِن کی حکومت کے لیے جائز ہو گیا۔
(جاری ہے)
اس موقع پر سرسید احمد خان نے تحریروں کے ذریعے مُغل دور کے کارناموں اور عروج کو بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔
سرسید احمد خان کا تعلق دہلی کی اشرافیہ سے تھا اور اِن کے تعلقات مغل خاندان سے تھے۔ اس موقع پر اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خاص طور سے دہلی میں مُغل دور کی عمارتوں کی تعریف لکھ کر اپنی تحریروں میں اِن کے اصلی خدوخال اُجاگر کریں گے۔ اس منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اُںہوں نے دہلی کی عمارتوں کا تحقیقی جائزہ لیا۔ اگرچہ وہ ماہر تعمیرات تو نہیں تھے مگر اُںہوں نے ایک ایک کر کے ان عمارتوں پر لکھی ہوئی تحریر اور اُن کے نقش و نگار کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔
بعض اوقات وہ عمارت کی بلندی پر جا کر اُس پر لِکھے گئے کتبے کی نقل کرتے تھے۔ نیچے اِن کے دوست امام بخش صحبائی ڈرتے تھے کہ سرسید احمد خان کہیں گِر نہ پڑیں۔ سرسید احمد خان نے اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے بعد آثارُالصنادیر لکھی، جس نے یہ ثابت کیا کہ مغلیہ عہد تہذیب و کلچر میں اعلیٰ مقام حاصل کیے ہوئے تھے۔ فن معماری میں ماہرِ معمار، ہُنرمند اور رنگین نقش و نگار بنانے والے تھے۔
یہ اُسی وقت ممکن تھا کہ جب یہ ماہرین علمِ ریاضی اور جیومیٹری سے واقف ہوں۔ سرسید احمد خان کی تحریروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کو بھی مُغل خاندان کے بارے میں ایک نیا نقطۂ نظر دیا۔سرسید احمد خان کا دوسرا اہم کام عہد اکبری کے درباری مؤرخ ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری کی ترتیب و تدوین تھی۔ اِس کتاب میں ابوالفضل نے اکبر کے عہد کے اُن شعبوں کا ذکر کیا ہے، جنہیں اکبر نے قائم کیا تھا اور ہر شعبے کے انتظام کے لیے ملازمین کے مُختلف فرائض تھے، جن میں جانوروں کی دیکھ بھال، کیمپ کے انتظامات، فوج، فراش خانہ، باورچی خانہ، ملبوسات کی دیکھ بھال کرنے والا۔
کُتب خانہ اور دوسرے کئی شعبے ہیں۔ مثلاً آبدار خانے کے بارے میں لِکھا ہے، ''جہاں پناہ اس سرچشمہ زندگی کو آبِ حیات فرماتے ہیں۔ بادشاہ نے اس محکمے کا انتظام بیدار مغز اہل کاروں کے سپرد فرمایا ہے۔ قبلہ عالم خود زیادہ پانی نہیں پیتے لیکن سررشتہ آپ ہر وقت خاص توجہ فرماتے ہیں۔ بادشاہ سَفر و حضر ہر وقت گنگا کا پانی نوش فرماتے ہیں۔ (اُردو ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔ابوالفضل نے خوشبو خانے کے بارے میں بہت دلچسپ لکھا ہے، ''جہاں پناہ جن کی گرامی ذات بزم سلطنت کی صدر ہے۔ خوشبو کو بےحد پسند فرماتے ہیں اور عزیز رکھتے ہیں۔ قبل عالم بوئے خوش کو خدا کی پرستش کا وسیلہ خیال فرماتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔
ابوالفضل نے شاہی کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے اس میں کام کرنے والے خوش نویسوں، مصوّروں اور جِلد بنانے والوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔
تصویر خانے کے بارے میں اُس کا کہنا ہے، ''تصویر کَشی کی بہترین قِسم خطاطی ہے۔ جہاں پناہ اس پر خاص توجہ فرماتے ہیں اور ظاہر و باطن ہر شعبے میں دُوربینی سے کام لیتے ہیں۔ (ترجمہ مولوی محمد فدا علی۔ آئین اکبری)۔سرسید احمد خان نے آئین اکبری کا پیش لفظ غالب سے لکھوایا تھا۔ غالب نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ اب پرانے آئین کی ضرورت نہیں اب نئے آئین پر لکھو۔
درحقیقیت سرسید کا مقصد ان دونوں کتابوں کی اشاعت سے یہ تھا کہ برطانوی حکومت کو یہ احساس دِلوایا جائے کہ ہندوستان تہذیبی طور پر پسماندہ نہیں تھا۔ اس کا طرزِ حکومت اور انتظام سلطنت مُلک میں امن و امن کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔بعد میں برطانوی حکومت کو خیال آیا کہ آئین اکبری کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے یہ انگریزی ترجمہ شائع ہوا اور کمپنی کے اَفسروں نے اس کا مطالعہ کیا تا کہ اس کی مدد سے وہ ہندوستان کے معاملات کو سمجھ سکیں۔
اِن دونوں کتابوں سے سرسید کی مُغل سلطنت سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ برطانوی حکومت کی تعریف کرتے تھے مگر مُغل دَور کی کمتری کا احساس نہیں تھا۔ اُن کی یہ دونوں کتابیں مُغل تاریخ کا اہم ماخِذ ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ا ئین اکبری کے بارے میں فرماتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
وزیراعظم سے (پلڈاٹ) بورڈ کے اراکین کی ملاقات
سٹی 42 : وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے بورڈ کے اراکین مجیب الرحمٰن شامی, شاہد حامد اور احمد بلال محبوب کی ملاقات ہوئی ۔
بورڈ ممبران نے وزیراعظم شہباز شریف کو پلڈاٹ کے امور کے بارے آگاہ کیا ۔ وزیراعظم نے پاکستان میں جمہوریت کی بہتری کے حوالے سے کام کرنے پر پلڈاٹ کے کردار کی تعریف کی۔
ملاقات میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھی موجود تھے۔
نصیبو لال کی شوہر سے صلح ، مقدمہ ختم