بدین: 2 گروپس کے درمیان تصادم،6 شہری جاں بحق، 7 زخمی، وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
سندھ کے ضلع کیریو گھنور بدین میں 2 گروپس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 0 شہری جاں بحق اور 7 زخمی ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا بدین میں دو گروپوں میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کا نوٹس لیا گیا، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی پولیس سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیئے سخت قانونی کاروائی کر کے رپورٹ دی جائے؛ شہریوں کی جان، مال اور عزت آبرو کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ دہشت پھیلانے والے عناصر کو فوری گرفتار کیا جائے؛ مجھے افسوس ہے کہ برکتوں بھرے مہینے میں بھی لوگ ایک دوسرے کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتے۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے ایس ایس پی بدین سے تفصیلات طلب کرلیں، ۔وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ فی الفور پولیس ٹیمز کو حرکت میں لایا جائے، قانون شکن اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جائے، خوف اور دہشت پھیلانے والے عناصر کے خلاف آہنی اقدامات کیئے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں امن اور قانون کی رٹ کے قیام کے لیئے علاقہ معززین اور معروف شخصیات کے کردار کو یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا تنازع کئی دہائیوں پر محیط ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں پانی کی قلت اس خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے نظام کی پیچیدہ نوعیت، آبادی میں تیزی سے اضافہ، موسمیاتی تبدیلی، اور سیاسی اختلافات اس تنازعے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پانی کے تنازعے کی جڑیں تقسیم ہند سے جڑی ہیں۔ 1960 ء میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں (دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس اور ستلج)دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)کا کنٹرول ہندوستان کو دیاگیا۔ مغربی دریائوں (جہلم، چناب، سندھ)پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، لیکن ہندوستان کو محدود مقدار میں ’’غیر استعمالی‘‘ مقاصد(جیسے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس) کے لئے پانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ معاہدہ عالمی سطح پر کامیاب سمجھا جاتا ہےکیونکہ اس نے 1965 ء اور 1971ء کی جنگوں کے باوجود دونوں ممالک کو پانی کے تنازعات پر بات چیت کا پلیٹ فارم فراہم کیا ۔
سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا، جس میں عالمی بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کی معاون دریائوں کے پانی کے تنازعے کو حل کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دریائوں کے پانی کی تقسیم کی گئی تھی جس کےمطابق مشرقی دریاؤں دریائےراوی، بیاس، اور ستلج ہندوستان کے حصے میں اور مغربی دریاؤں ،دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کو مکمل اختیارحاصل ہوگیااور اس طرح طاس سندھ معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ معاہدے کے مطابق، بھارت مغربی دریاؤں کے کچھ پانی کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ پاکستان کے لیے مختص پانی کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔
ہندوستان کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)پر مکمل کنٹرول دیاگیا، وہ ان دریاؤں پر بندبناسکتا ہے، پانی ذخیرہ کرسکتا ہےیازرعی استعمال کرسکتا ہے۔ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب)پر ہندوستان کو محدود استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جیسے آبپاشی، پن بجلی اور گھریلو ضروریات کےلئے،بشرطیکہ اس سے پاکستان کے حصے میں پانی کی مقدار متاثر نہ ہو، مثلا ًبجلی پیدا کرنے کےلئے ’’رن آف دی ریور‘‘ہائیڈرو پاور منصوبے، لیکن پانی کو روک کرذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ ہندوستان ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ تنازعات کو حل کرنے کے لیے سنیارٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اگر یہ کمیشن مسئلہ حل نہ کر سکے تو عالمی عدالت انصاف یا ثالثی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کے پانی کا موڑنے کے دعوے کے مطابق ہندوستان نے مشرقی دریاؤں(راوی، بیاس، ستلج)پر اپنےحقوق کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ڈیم اور نہری نظام بنائے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان تک پانی کی مقدار کم ہوئی ہے۔ تاہم، ہندوستان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہیں ۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت نے مغربی دریاؤں پر متعدد ڈیم اور بیراج تعمیر کئے ہیں، جن میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ پاکستان کو ان منصوبوں پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتا ہےکہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں اور اس سے اس کے پانی کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
موجودہ تنازعات کے محرکات میں سب سے اہم ہندوستان کے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے ہیں۔ ہندوستان دریائے چناب اور جہلم پر متعدد ڈیمز اور ہائیڈرو پاور پلانٹس بنارہا ہے، جنہیں پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ نمایاں مثالوں میں شامل ہیں۔ ہندوستان نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان نے اعتراض کیا کہ ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھارت پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ عالمی ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے لیکن اسے پاکستان کے لئے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا جس پر 2007 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو ڈیم کی اونچائی کم کرنے کاحکم دیا۔اس کے ساتھ ہی بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے نیلم (جسے بھارت میں کشن گنگا کہا جاتا ہے)پر تعمیر کیا۔ پاکستان کامؤقف ہے کہ کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ منصوبہ دریائے جہلم کے بہاؤ کو روک کر اس کے زرعی نظام کو متاثر کررہا ہے اور پاکستان نے یہ بھی اعتراض کیا کہ اس منصوبے سے دریائے نیلم کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے،جو آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاقوں کو متاثر کرے گی۔ پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا،2013 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت دی، لیکن پانی کی ایک خاص مقدار پاکستان کو فراہم کرنے کی شرط عائد کی۔ تاہم بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا اور پاکستان کو پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی کورٹ میں بھارتی رتل ہائیڈرو الیکٹرک کے خلاف بھی کیس دائر کر رکھا ہے۔یہ ڈیم دریائے چناب پر تعمیر کیا جا رہا ہے، اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس سے پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہے، جبکہ پاکستان اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔بھارت نے دریائے راوی اور بیاس کے پانی کو اندرا گاندھی نہر کے ذریعے اس کے پانی کا رخ راجستھان کی طرف موڑدیا ہے اور دریائے ستلج پربھاکڑاڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرتے ہوئے اس کی تعمیر کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی دریاؤں پر ہندوستان نے کئی متنازعہ منصوبے شروع کئے ہیں جو پاکستان کے خدشات کا باعث بنے ہیں، مثلاً ہندوستان کا مؤقف ہے کہ اس نے مشرقی دریائوں (راوی، بیاس، ستلج)کا پانی اپنی طرف موڑا ہے۔
(جاری ہے)