جنسی زیادتی کیس میں رہا ہونیوالابھارتی وی لاگر جنید خان حادثے میں ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
دہلی(نیوزڈیسک)بھارتی وی لاگر جنید خان موٹر سائیکل حادثے میں جان کی بازی ہارگیا۔ اپنی سلو موشن اور روبوٹک اسٹائل ڈانس ویڈیوزکیلئے مشہور وی لاگر 32 سالہ جنید خا ن کیرالہ کے ملاپور میں حادثے میں ہلاک ہوگئے۔
بھارتی میڈیاکی رپورٹس کے مطابق بھارتی وی لاگر کی موٹر سائیکل ریت کے ٹیلے سے ٹکرانے کے باعث حادثے کا شکار ہوئیجس میں انہیں سر پر چوٹیں آئیں ۔حادثے کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
وی لاگر کی موت پر فلم ساز کمار سیدھرن نے سوشل میڈیا پوسٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا یہ واقعی ایک حادثہ تھا؟ یہ موت انتہائی مشکوک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنید خان کو کچھ عرصہ قبل جنسی زیادتی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیاتھاجس کے خلاف نفرت انگیز مہم بھی چلی تاکہ اسے برا دکھایا جاسکے،
یہ موت مجھے فطری ردعمل سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ فلم ساز نے یہ بھی کہا کہ حادثے کے وقت جنید خان جنسی زیادتی الزامات پر ضمانت پر رہا تھے ایک خاتون نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی کہ وی لاگر نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا اور متعدد مقامات پر مجھ سے تعلق قائم کیا۔ کیرالہ پولیس نے اس شکایت کی بنیاد پر 2 ہفتے قبل بنگلورو سے جنید خان کو گرفتار کیاتھا ۔
وائس آف امریکہ اردو سمیت6 وفاقی ایجنسیاں معطل، صدر نے دستخط کردیئے،ہزاروں ملازمین فارغ
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
دیر سے اعتراف
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ میں شائع ہونے والے شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منظم انداز میں ٹارچر کرنا، جنسی زیادتی، جنسی توہین اور فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کے دیگر اقدامات اسرائیل کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کی حق خود ارادیت ختم کرنا اور ان کی نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے اقدامات جیسے میڈیکل نظام اور زچہ بچہ کے مراکز کو منظم انداز میں تباہ کرنا نسل کشی کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں شائع ہونے والے نتائج نے بین الاقوامی قانونی اداروں اور انصاف کے مراکز میں صیہونی رژیم کے خلاف عدالتی کاروائی انجام پانے اور صیہونی حکمرانوں کو قرار واقعی سزا ملنے کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔ تحریر: رسول قبادی
اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل پانے والے آزاد تحقیقاتی کمیشن نے پہلی بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے تمام مقبوضہ سرزمینوں پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے جس بربریت کا ثبوت دیا ہے وہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی فورسز اور یہودی آبادکاروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں ٹارچر اور جنسی ہراسانی کو فلسطینیوں کو کچلنے اور انہیں اجتماعی سزا دینے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور ٹارچر کا شکار ہونے والے متعدد فلسطینی باشندوں نے اقوام متحدہ کے سامنے شہادتیں پیش کی ہیں۔
سعید عبدالفتاح جن کی عمر 28 سال ہے اور وہ غزہ کے الشفاء اسپتال میں نرس کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے گرفتاری کے دوران صیہونی اہلکاروں کی جانب سے وحشت ناک اقدامات سے پردہ ہٹایا اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ناگوار واقعات کی وضاحت کی۔ سعید عبدالفتاح نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ انہیں کس طرح شدید سردی میں برہنہ حالت میں رکھا جاتا تھا اور مسلسل مار پیٹ کی جاتی تھی جبکہ کئی بار انہیں جنسی زیادتی کی دھمکی بھی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری تفتیش کرنے والا صیہونی اہلکار مسلسل میرے نازک حصوں پر چوٹ لگاتا تھا اور میرے بدن کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا تھا جبکہ میں یوں محسوس کرتا کہ گویا میری جان نکلنے والی ہے۔
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو نہ صرف جیلوں بلکہ دیگر چیک پوسٹوں پر بھی جنسی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فلسطینی وکیل سحر فرانسس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ تمام فلسطینی قیدیوں کو غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جبری تفتیش کا حصہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مواقع پر صیہونی فوجی قیدیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے اور ان کی تحقیر کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں ایک اور فلسطینی گواہ محمد مطر کے بیانات بھی شائع کیے گئے ہیں۔ محمد مطر مغربی کنارے کے رہائشی ہیں اور انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ کس طرح صیہونی سیکورٹی فورسز نے انہیں شدید ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار کرنے کے بعد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، ان کا لباس اتار دیا گیا اور ہاتھ باندھ دیے گئے۔
اس کے بعد انہیں بھیڑ بکریوں کا فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا اور ان پر پیشاب بھی کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک صیہونی جلاد نے لکڑی کے ٹکڑے سے انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل نے منظم انداز میں غزہ کے صحت کے مراکز اور اسپتال تباہ کیے ہیں اور ادویہ جات اور میڈیکل کا سامان غزہ میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "وہ بچے جو آج غزہ میں پیدا ہو رہے ہیں شیرخوارگی کے دوران اور بڑے ہو کر بھی گندے پانی، سردی اور بھوک کے باعث موت کے خطرے سے روبرو رہیں گے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنسی تشدد کو فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم نے صحت کی سہولیات ختم کر کے فلسطینی خواتین اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے تاکید کی ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اعلی سطحی فوجی اور سیاسی رہنماوں کے واضح حکم کے تحت انجام پایا ہے اور انہوں نے اس کی باقاعدہ ترغیب دلائی ہے۔ اسی طرح صیہونی فوجیوں نے اپنے مجرمانہ اقدامات کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ناوی پیلای نے اس رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو کچلنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اس نتیجہ گیری سے گریز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں میں خوف و ہراس پھیلانے اور اپنی آمرانہ پالیسیاں مسلط کرنے کے لیے جنسی تشدد کا سہارا لیا ہے۔"
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ میں شائع ہونے والے شواہد اور دستاویزات کی روشنی میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منظم انداز میں ٹارچر کرنا، جنسی زیادتی، جنسی توہین اور فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کے دیگر اقدامات اسرائیل کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کی حق خود ارادیت ختم کرنا اور ان کی نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ اب تک اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے اقدامات جیسے میڈیکل نظام اور زچہ بچہ کے مراکز کو منظم انداز میں تباہ کرنا نسل کشی کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس رپورٹ میں شائع ہونے والے نتائج نے بین الاقوامی قانونی اداروں اور انصاف کے مراکز میں صیہونی رژیم کے خلاف عدالتی کاروائی انجام پانے اور صیہونی حکمرانوں کو قرار واقعی سزا ملنے کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔