Daily Ausaf:
2025-03-16@14:38:19 GMT

پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
جو معاہدے کے تحت جائز ہے اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب)پر ہندوستان کے منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھاجاتا، البتہ پاکستان مسلسل ان پر اعتراضات کرتا رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہندوستان کی طرف سے ڈیمز کی تعمیر سے دریاؤں کے ’’بہاؤ کی مقدار اور وقت‘‘متاثر ہوتا ہے، جو معاہدے کی روح کے خلاف ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہندوستان نے تین دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)کا پانی مکمل طور پر اپنے استعمال میں لے لیا ہے، جس کو وہ قانونی طور پرجائزسمجھتا ہے اورمغربی دریاؤں پر ہندوستان کے منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھاجاتا ، لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان انہیں اپنے مفادات کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پانی کے وسائل پر کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
ہمالیائی گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرنے بھی گلشیئرز کے پگھلنے، غیر یقینی بارشوں، اور شدید گرمی کی لہروں نے دریاؤں کے بہا ؤکو غیر مستقل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، دریائے سندھ کا 80 فیصد پانی ہمالیہ کے گلیشیئرز سے آتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ صورتحال دونوں ممالک میں پانی کی دستیابی کو غیر یقینی بنا رہی ہے۔
بھارت کی جانب سے دریاؤں پر مزید ڈیم بنانے کی حکمت عملی پاکستان میں پانی کے شدید بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
پاکستان کا انحصار مغربی دریاؤں پر ہے، اس لئے اگر بھارت پانی روکنے کی پالیسی اپناتا ہے تو پاکستان میں زرعی پیداوار شدید متاثر ہو سکتی ہے، جو معیشت اور خوراک کی دستیابی کے لیے خطرہ بنے گی۔
پاکستان اور بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی پانی کی طلب میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ آبادی اور زراعت کے دبا ؤکی وجہ سے پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا پانی کا ’’اسٹریسڈ‘‘ملک ہے، جہاں فی کس پانی کی دستیابی 1,000 کیوبک میٹر سالانہ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ہندوستان میں بھی 60 کروڑ افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ زراعت (جو دونوں ممالک کی معیشت کا 20-25 فیصد ہے)کے لئے پانی کی مسلسل طلب تنازعات کو ہوا دے رہی ہے۔
جیو پولیٹیکل تنائو یعنی کشمیر تنازعہ پاکستان بار بار ہندوستان پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے اور بھارتی دہشت گردی کے معاملات پر تعلقات کشیدہ ہونے سے پانی کے معاملات پر بات چیت مشکل ہو گئی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کی طرف جانے والے پانی کے بہائو کو کنٹرول کر کے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جو 21ویں صدی کا سب سے طویل المدتی اور کامیاب معاہدہ سمجھا جاتا تھا، کیا سندھ طاس معاہدہ ناکام ہو چکا ہے اور موجودی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں؟
ڈیٹا شیئرنگ کے فقدان کی بنا پر دونوں ممالک دریا کے بہا ؤکے اعداد و شمار کو شفاف طریقے سے شیئر نہیں کرتے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے عدم احتساب کی بنا پر بھی معاہدے میں گلوبل وارمنگ یا گلیشیئرز کے پگھلائو ؤجیسے عوامل شامل نہیں۔
ہندوستان معاہدے کے مطابق تمام متنازعہ مسائل کے حل کی ثالثی کے لئے ورلڈ بینک کی بجائے دو طرفہ مذاکرات پر زور دے رہا ہے جس کی بنا پر ان مجوزہ مسائل کے حل میں تاخیر ہو رہی ہے جس کے لئے بھارت مکمل ذمہ دار ہے۔ معاہدے میں گلوبل وارمنگ یا گلیشیئرز کے پگھلا ؤجیسے عوامل شامل نہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا حل معاہدے کے تحت موجود طریقہ کار سے ہی ممکن ہے اور مسئلے کے ممکنہ حل کے لئے فوری طور پر ان عوامل پر عمل کرنا ہو گا۔
دونوں ممالک کو سندھ طاس معاہدے کا جدید جائزہ لیتے ہوئے معاہدے کے پرانے نکات پر نظر ثانی کر کے بدلتے حالات کے مطابق اسے اپڈیٹ کرنا ہوگا۔
پاکستان کو مزید ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کرنے ہوں گے تاکہ پانی کے ذخیرے کو بڑھایا جا سکے۔ بین الاقوامی فورمز پر آبی تنازعات کو بہتر سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے۔
دونوں ممالک کو پانی کے مئوثر استعمال، جدید زراعتی نظام اور پانی کی بچت کی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلیوں، ڈیٹا شیئرنگ، اور نئی ٹیکنالوجیز کو معاہدے میں شامل کیا جائے۔
ڈرپ ایریگیشن، اسمارٹ واٹر گرڈز، اور واٹر ری سائیکلنگ پلانٹس جیسی جدید ٹیکنالوجی سے پانی کے استعمال میں کارکردگی بڑھائی جا سکتی ہے۔
اگر دونوں ممالک پانی کے انتظام کو جیو پولیٹکس سے بالاتر رکھنے میں ناکام رہے، تو یہ تنازعہ کشیدگی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق2050ء تک پاکستان میں پانی کی دستیابی موجودہ سطح سے 50فیصدکم ہو جائے گی، جو صورتحال کو مزید سنگین بنا دے گی جو ایک خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔
مزید برآں، بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے میں ترامیم کا نوٹس جاری کیا ہے، جس میں موجودہ حالات کے پیش نظر معاہدے پر نظرثانی کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان نے اس نوٹس پر باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا، لیکن یہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان حالات میں، پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لئے مئوثر مذاکرات اور بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
سوال یہ ہے کیا پانی کے نام پر جنگ ہو سکتی ہے؟ پانی کی قلت اور اس پر کنٹرول کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، براہِ راست جنگ کے امکانات کم ہیں، ، لیکن پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور آبی وسائل پر کنٹرول کی کشمکش مستقبل میں تنازعات کو شدت دے سکتی ہے۔ ۔کیونکہ سندھ طاس معاہدہ اب بھی فعال ہے، اور اس کی پاسداری بین الاقوامی دبائو کے تحت کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ثالثی کے راستے موجود ہیں، جن کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس بحران کو روکنے کے لیے سفارتی اور تکنیکی حل ناگزیر ہیں، تاکہ پانی کے وسائل کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ جوہری طاقت ہونے کے ناطے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی تصادم کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، اس لیے دونوں ممالک جنگ سے گریز کریں گے۔ البتہ، اگر پانی کی قلت مزید بڑھتی ہے اور سفارتی حل تلاش نہ کیا گیا، تو مستقبل میں خطے میں آبی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ پانی کا مسئلہ ان دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ایسی جنگ کا سبب بن جائے جو نہ صرف اس خطے کو بلکہ دنیا کو تاریکی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
پانی کی جنگ کا خطرہ حقیقی ہے، لیکن یہ ناگزیر نہیں۔ جنگ سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دریائے سندھ کا نظام ایک مشترکہ اثاثہ ہے، جسے تباہ کرنے کی بجائے سنبھالنا ضروری ہے۔ جیسا کہ موہن داس گاندھی نے کہا تھا کہ ’’پانی کی لڑائی جیتنے سے کہیں بڑھ کر، اسے بانٹنے کی ضرورت ہے‘‘۔ کیا ہندوستان اپنے قومی باپ کی نصیحت پر کان دھرنے کو تیار ہے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں سندھ طاس معاہدے معاہدے کے تحت بین الاقوامی آبی تنازعات پانی کی قلت تنازعات کو معاہدے میں کی دستیابی اور بھارت معاہدے کی میں پانی پانی کے سکتا ہے سکتی ہے کے لئے کیا جا رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

صدر زرداری کا خطاب

صدر آصف زرداری نے سندھ میں چولستان کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے خلاف احتجاج کی تپش کو محسوس کر ہی لیا۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ صدر زرداری نے اپنے صدارتی خطاب میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کی۔

انھوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ یکطرفہ ہے، وہ بحیثیت صدر حکومت کی اس پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتے، اگرچہ گرین پاکستان کے تحت چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کی سب سے پہلے ایوانِ صدر جس کی صدارت صدر آصف زرداری کر رہے تھے والے اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس وقت کئی مبصرین نے ایوانِ صدر میں صدر زرداری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے مگر ایوانِ صدر اور پیپلز پارٹی کے قائدین نے اس اجلاس پر ہونے والی تنقید پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ مگر اب صدر آصف زرداری نے صدارتی خطبے میں اس بارے میں خاموشی ختم کردی۔ چولستان فارمنگ گرین پاکستان انیشی ایٹو Green Pakistan Initiative کا پہلا حصہ ہے۔

GPI منصوبہ کا آغاز 2023میں ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت زرعی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مدعوکرنے اور کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت چولستان کے ریگستانی علاقے کی 5 ہزار سے زیادہ ایکڑ زمین سیراب ہوسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے حکومت پنجاب کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اس منصوبے کو عملی شکل دی تھی۔ اس منصوبے کے لیے فوری طور پر دو نہروں کی تعمیر ہونی ہے۔ حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ ان دنوں نہروں کو دریائے ستلج میں آنے والا سیلابی پانی فراہم کیا جائے گا۔

جب 60ء کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا ۔ اس معاہدے کے تحت دریائے ستلج کو بھارت کے حوالے کردیا گیا اور اسی معاہدہ کے تحت بھارت سیلاب کی صورت میں پانی دریائے ستلج میں پھینکتا ہے جس سے جنوبی پنجاب کے علاوہ اپر سندھ میں بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت چشمہ بینک کینال سے 6 نہریں نکالی جانی تھیں۔ سندھ کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان میں سے 4 نہریں تعمیر ہوچکی ہیں۔ پنجاب کے محکمہ آبپاشی نے یکم جنوری 2024 کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی سے سیلابی پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہے۔ حکومت سندھ نے ارسا کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کے اختیار کو چیلنج کیا تھا۔ سندھ حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ 1991 میں ہونے والے پانی کے معاہدے کے تحت ارسا کا ادارہ اس طرح کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ارسا کے افسر اعلیٰ نے حکومت پنجاب کو جاری کردہ سرٹیفکیٹ میں واضح طور پر تحریرکیا ہے کہ اس نہر میں خریف کے سیشن میں پانی دستیاب ہوگا اور اس نہر کو سیلابی پانی ملے گا۔

 دریائے سندھ کے امور پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے ایک ممتاز رہنما نصیر میمن کہتے ہیں کہ اس نہر کے پی سی ون کی دستاویز میں اس نہر کو Perennial Canalکا درجہ دیا گیا ہے۔ Perennial-I ایسی نہر ہوتی ہے جس میں سارا سال پانی موجودہ ہوتا ہے۔ اس وقت سندھ کو 13.7 فیصد اور پنجاب کو 19.4 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے اور دریائے سندھ گزشتہ کئی عشروں سے خشک سالی کا شکار رہا ہے، اس بناء پر اس منصوبے کے لیے بڑے پیمانہ پر پانی کی فراہمی کا واضح مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ سے اس منصوبے کے لیے پانی فراہم کیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ پھر اس منصوبے پر چولستان کے مقامی کسان جو صدیوں سے آباد ہیں وہی احتجاج کررہے ہیں۔ ان افراد نے لاہور ہائی کورٹ کی بہاولپور بنچ میں دائر کی جانے والی عرض داشتوں میں اب سوال اٹھایا ہے کہ ان سے زمین چھینی جارہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے نوجوان صحافی جودت سید کی رپورٹ کے مطابق دریائے ستلج گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے، سلیمانکی ہیڈ جو بہاولنگر سے گزرتا ہے اس کے مقام پر بھی پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے، ہیڈ اسلام بہاولپور سے پہلے واقع ہے اس میں بھی پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے جب کہ پنجند ظاہر پیر کے مقام پر قائم ہے یہاں بھی پانی کا بہاؤ آمد اور اخراج صفر ہے۔

اسی طرح سے دریائے راوی جو ہیڈ سدھنائی کے مقام پر جنوبی پنجاب میں آتا ہے یہاں بھی پانی کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے جس میں صرف 1600 کیوسک پانی دستیاب ہے جب کہ دریائے چناب جو ملتان اور مظفرگڑھ کی زرخیز زمینوں کو آباد کرتا ہے اس میں بھی ہیڈ تریموں کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر پانی کی آمد 26 ہزار کیوسک ہے جس میں گزشتہ ریکارڈ کے مطابق 80 فیصد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔ حکومت سندھ کے اعتراض کے بعد وفاقی حکومت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل میں لے جانا چاہیے تھا مگر وفاقی حکومت اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نہیں ہے، یوں معاملات پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ واپڈا کے ایک سابق چیئرمین پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے سربراہ رہے جو ہمیشہ کالا باغ ڈیم کے فوائد بیان کرتے رہے۔

وفاقی حکومت کی فیصلہ سازی نے اس تقرر کے لیے سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے اس تقررکے خلاف احتجاج کیا تو وزیر اعظم کو اس فیصلے کو منسوخ کرنا پڑا ۔ جب میاں نواز شریف 90ء کی دہائی میں پہلی دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما جام صادق وزیر اعلیٰ تھے اور سینیئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان صدر کے عہدے پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت وفاق کی نگرانی میں چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ایک) قانون کے ذریعہ قیام عمل میں آیا تھا۔ ارسا کے قانون کے تحت اس ادارے میں چاروں صوبوں کو نمایندگی دی گئی تھی۔

اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے ارسا کی ہیت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ترمیمی آرڈیننس تیار کیا تھا۔ اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت اس کا چیئرمین خود مختار حیثیت کا حامل نہیں ہوگا بلکہ چیئرمین کے مستقبل کا انحصار وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوگا۔ اس ترمیم کے بعد گریڈ 21 کا افسر ارسا کا چیئرمین ہوسکتا تھا۔ چیئرمین ارسا ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کرنے کا مجاز ہوگا جس میں ماہرین شامل ہونگے۔ اس مسودے کی شق 8 کے تحت تکنیکی ماہرین کی کمیٹی 10دن میں تکنیکی بنیادوں پر پانی کی تقسیم کا طریقہ کار اختیار کرے گی اور ہر صوبے کو پانی کی فراہمی کا فیصلہ یہ تکنیکی کمیٹی کرے گی۔ اس مسودے کی شق 7 کے تحت صوبائی اراکین کا کردار مزید محدود ہوجائے گا۔

اصولی طور پر وفاقی حکومت کو اس اہم قانون کے مسودہ کو صوبوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنا چاہیے تھا مگر حکومت نے آئینی ادارہ کو نظرانداز کیا۔ اس وقت تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف مہم کا حصہ رہے ہیں، انھیں اس قانون کے چھوٹے صوبوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ تھا۔ اس بناء پر انھوں نے اس قانون پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ پیپلز پارٹی نے اس مسودہ قانون کے خلاف زبردست مہم شروع کی تھی۔

سندھ اسمبلی نے قوانین مسودہ کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی تھیں مگر جب دوبارہ مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت بنی تو اس نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور دیگر رہنما مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے مگر حکومت آئینی راستہ اختیار کرنے کے بجائے انتظامی احکامات سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگرچہ صدر زرداری کی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو افطار ڈنر پر مدعو کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ چولستان کنال کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا ۔

متعلقہ مضامین

  • اندرون سندھ 2 گروہوں کے درمیان خونی تصادم، 6 شہری جاں بحق
  • بدین: 2 گروپس کے درمیان تصادم،6 شہری جاں بحق، 7 زخمی، وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس
  • بدمست ہاتھی اور ایڈونچرازم
  • طورخم بارڈر کی تین ہفتوں سے زائد بندش، پاک افغان سالانہ تجارتی حجم میں ایک ارب ڈالر کی کمی کا سامنا
  • طورخم بارڈر کی بندش، پاک افغان سالانہ تجارتی حجم میں ایک ارب ڈالر کی کمی
  • صدر زرداری کا خطاب
  • یو این چیف کا کرغیزستان اور تاجکستان سرحدی معاہدہ کا خیرمقدم
  • سندھ کو پانی کم ملے گا تو کراچی کو بھی کم ملے گا، جماعت اسلامی
  • صدر آصف زرداری نے کسی کینال کی منظوری نہیں دی، جام خان شورو