Daily Ausaf:
2025-03-18@00:52:34 GMT

ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

میں گزشتہ دو دنوں سے ’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘ کے شہر اسلام آباد میں ہوں جہاں کی بحریہ یونیورسٹی میں میری بیٹی ایم ایس کر رہی ہے ،وہ اور اس کی دوست ایمان پچھلے پانچ سال سے اس شہر بے اماں میں موجود ہیں ،انہوں نے چار سال انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی میں بی ایس انگلش کے لئے گزارے میرا اور میری فاطمہ کا یہ وعدہ تھا کہ ہر مہینے میں اس سے ملنے آیا کروں گا مگر میں ایک بار بھی اپنے وعدے کے مطابق اسلام آباد نہ آسکا کہ یہاں ناگفتہ بہ حالات نے اجازت ہی نہ دی ۔میں اس بے مروت شہر کے اخبار کے ادارتی صفحہ پر ہر دوسرے دن کے سورج کے ساتھ طلوع ہوتا ،اس دوران میری بیٹی نے اپنی مادر گیتی کے حوالے سے بہت دکھ سہے، آئے دن جامعہ کی خود مختاری کے گھمنڈ میں مبتلا کوئی نہ کوئی گمبھیر مسئلہ کھڑا کردیتی ،میں لہو کے آ نسو پی کر رہ جاتا کہ سمسٹر سسٹم میں سارے نمبر ان اساتذہ کے اختیار میں ہوتے تھے اور یہ فرعونیت کے لہجے میں بات کرتی تھیں بچیوں کو بلا جواز بات بات پر پراگندہ حال کرنا ان کا روزانہ کا معمول بن گیا ہوا تھا۔
ایسے ماحول میں حساس بچیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا گھٹ گھٹ کے مرتی رہتی تھیں ،کسی وجہ سے چھٹی کی ضرورت پڑجاتی تو اساتذہ کی صورت میں کئی پہاڑ سر کرنے پڑتے اور سمسٹر کے آخر میں امتحان میں شمولیت کے لئے بچیوں کو انتہائی مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا، اکثر اوقات تو انہیں فیل کردیا جاتا، یوں انہیں پھر سے اپیئر ہونا پڑتا کریڈٹ آورز کبھی پورے ہی ہونے کو نہیں آتے تھے،کسی ایک اسائیجمنٹ پر دستخط کروانے کے لئے اساتذہ کے پیچھے کئی کئی دن جوتے رگڑنے پڑتے ، اساتذہ کے کلاس میں آنے نہ پر کوئی قد غن نہیں تھی، دوردراز شہروں سے آنے والی طالبات کو ذرا سی تاخیر پر کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ۔کوئی ڈیکورم نہیں تھا کہ جس کے تحت معمولات کو چلایا جاتا ۔ طالبات کو اپنی شکایات پہنچانے کا کوئی نظام نہیں نہ ریکٹر تک کسی کی رسائی نہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے شنوائی کی سہولت دے رکھی تھی اور حالات جوں کے توں ہیں اساتذہ اور طالبات کے درمیان ہم آہنگی کا گمان ہی مشکل اور والدین کی میل ملاقات تو ویسے ہی شجر ممنوعہ کی مثل ۔اذن گویائی کے سب دربند ہم بے چارے والدین بچیوں کے درد کے نوحے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور بچیاں اپنے دکھ چھپانے میں لگی ہوتیں کہ کہیں کوئی بات باہر نہ نکل جائے کہ نکل گئی تو ایک پہاڑ کی طرح ٹوٹ پڑے گی۔
ویسے اجتماعی سماجی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہر سمت عجیب سے حالات ہیں جو سنورنے کی جانب آہی نہیں ر ہے ایک بھونچال کی سی کیفیات میں زندگی کر رہے ہیں وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ
جہاں بھونچال بنیاد فصیل و درمیں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
یہ فقط تعلیمی ماحول کے حوالے ہی سے نہیں، سیاسی حالات میں بھی یہی افرا تفری مچی ہے۔کہیں حکومت بہتری کے لئے ہاتھ پائوں مارتی ہے تو اس کی ساری تپسیا بالا بالا صاحبان اختیار کے ہاتھوں بے ثمر ٹھہرتی ہے ، مقامی سطح تک سہولیات کے فقدان میں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔حکمرانوں کی طرف راشن کی جو سہولتیں مہیا کی گئیں وہ بھی اندھے کی بانٹ کی مثل کہ ضرب المثل ہے ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں ہی کے بیچ‘‘ ریاست کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں نہیں وہ اپنا رونا روتی ہے ۔نہ ریاست کی ریڈ نہ حکومت کی ، عام آدمی لاچار و نامراد زندگی بسر کر رہا ،حقوق و فرائض کا احوال کس سے بانٹیں سب اپنے اپنے حصے کا دشت بے اماں ناپ رہا ہے وہ احسان یوسف نے کہا تھا کہ کہیں تو آئے نظر اب وفا کا اندلس بھی چراغ پھینک سکوں کشتیاں جلا بھی سکوں حکومت کہنے کو الفاظ کے پھاہے رکھنے میں مصروف مگر سب انہیں کے لئے ہورہا ہے جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں ،پہلے تھوڑے وزیر ،مشیر تھے کہ اب نئی فوج ظفر موج پوری تیاری سے قوم پر مسلط کئے جانا کا اہتمام ہوچکا۔ نئے اخراجات کے پنڈورے بکس کھلیں گے تو مہنگائی کا دیو گلی رقص کرے گا اور وہ گھرانے جنہیں رمضان المبارک میں جتنی مٹھی آٹا دیا گیا تھا اتنے دن فاقے کاٹیں گے اور نئے وزیر مشیر ان افتاد گان خاک کے نصیبوں پر قہقہے لگائیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے لئے تھا کہ

پڑھیں:

پی ٹی آئی کا مستقبل دائو پر لگ گیا

بس کچھ نہ پوچھئے،ملک کی سیاست کا جو حال ہے اس موقع پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ماضی بعید میں ملک کی دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی گرداب میں رہیںلیکن جب پانسہ پلٹا تو دونوں ہی جماعتیں دوبارہ اقتدار میں آ گئیں،جبکہ پونے چار سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)اب گرداب میں ہے،کبھی خوشی،کبھی غم کے مصداق ایسا تو ہوتا آیا ہے پاکستانی سیاست میں،یہ کونی نئی بات نہیں،کسی کا اقتدار کبھی دائمی نہیں رہا۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ کبھی کسی سے وفا نہیں کرتا،جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ آج ہو رہا ہے،لگتا ہے تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔آپ جانتے ہیں بانی پی ٹی آئی ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ سے جیل میں ہیں۔ اکثریت کا گمان تھا کہ خان صاحب جیل نہیں کاٹ سکیں گے کہ مصائب سہنے کے عادی نہیں،جیل کاٹتے ہوئے انہیں ضرور مشکل ہو گی مگر یہ گمان اور سب ہی قیافے غلط ثابت ہوئے۔بانی کو اگرجہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے لیکن اس صورت حال میں وہ حالات سے مسلسل نبرد آزما ہیں اور کسی ’’انہونی‘‘کے انتظار میں ہیں تاہم پیش آمدہ حالات و واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی ایسی انہونی ہونے والی نہیں کہ کوئی ریلیف مل سکے۔ ڈیل کے بھی آثار دور دور تک نہیں۔خواہش تو تھی،کوشش بھی بہت کی کہ اسٹبلیشمنٹ بات چیت کے لئے آمادہ ہو جائے لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر نے جب دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ ’’گفتگو‘‘درکار ہے تو سیاسی لوگوں سے کی جائے۔اسٹیبلشمنٹ سیاسی گفتگو نہیں کرتی،جس سے یہ واضح ہو گیا کہ بانی کا مشکل وقت ابھی کٹنے والا نہیں،نہ کوئی ایسی انہونی ہونے والی ہے،جو ان کی رہائی کا سبب بن سکے۔
یہ واضح رہے پی ٹی آئی ہی عمران خان ہیں اور عمران خان ہی پی ٹی آئی۔ان کے بغیر سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل ہے-اس بات کا پتہ بانی کے حریفوں کو ہی نہیں،ان کے حامیوں کو بھی ہے،ہر کوئی جانتا ہے جس دن بانی نہ رہے،پی ٹی آئی اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔اس کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا،لیکن یہاں ایک بنیادی سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی جن حالات کا سامنا کر رہی ہے اور اسے جو صورت حال درپیش ہے اس تناظر میں کیا آئندہ انتخابات تک پی ٹی آئی اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟ پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں اسے درپیش اور لاحق خطرات کے حوالے سے بھی کافی اظہار کیا جا رہا ہے۔باخبر لوگ برملا کہہ رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی اور جاری چپقلش پی ٹی آئی کو مہنگی پڑی ہے جس نے اسے تنہا کر دیا ہے،پھر 9مئی کے واقعات کے نتیجے میں جس طرح کا کریک ڈان ہوا جس وسیع پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئیں اس کے اثرات سے ابھی تک پی ٹی آئی باہر نہیں نکل سکی۔خیبرپختونخوا کے سوا باقی تینوں صوبوں میں اس کے دفاتر ویران اور سنسان ہو گئے ہیں،ہو کا عالم ہے،خوف کی ایسی فضاء ہے جو بہت گھمبیر ہے۔صورت حال کے باعث کافی رہنما یا تو منظر سے غائب ہیں یا ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔جماعت میں شدید اختلافات کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔ جماعت کے سب سے متحرک اور میڈیا پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ نظر آنے والے منتخب ایم این اے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالے جانے کے بعد لفظی جنگ میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ پی ٹی آئی بلاشک و شبہ انتشار کا شکار ہے۔گروپ بندی نے اس میں ناصرف گو مگو کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے بلکہ اسے جماعتی لحاظ سے بھی کمزور کر دیا ہے۔خوف اور یاس و ناامیدی کی ایسی فضا پیدا ہو چکی ہے جو پی ٹی آئی کی صفوں میں صاف نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں عید کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے جس کے لیئے اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس تشکیل دینے کی بات ہو رہی ہے۔ تاہم سٹریٹ پاور رکھنے والی سب سے مضبوط اور اہم جماعت جمعیت علما اسلام کی اس گرینڈ الائنس میں ابھی تک شرکت مشکوک ہے۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطح کے ایک وفد نے اگرچہ سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کی قیادت میں مولانا سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں گرینڈ الائنس کی غرض و غایت پر بات کی گئی۔مولانا کو دعوت دی گئی کہ جمعیت علماء اسلام اس الائنس کا حصہ بنے مگر مولانا فضل الرحمان نے اس پیشکش کا ابھی تک کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔اب یہ خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ جمعیت نے پی ٹی آئی قیادت کے سامنے کچھ مطالبات رکھے ہیں۔ تاہم جمعیت کے ذرائع کسی قسم کے مطالبات کی تردید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں گرینڈ الائنس میں شامل ہونے کے لئے انہوں نے کوئی شرائط نہیں رکھیں،لیکن اسلام آباد کے باخبر ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ بات چیت میں تعطل اسی وجہ سے ہے کہ جمعیت کے مطالبات پر پی ٹی آئی میں اعلیٰ سطح پر غور کیا جا رہا ہے۔بانی پی ٹی آئی سے مشاورت اور اجازت کے بعد ہی پی ٹی آئی اپنے موقف سے جمعیت کو آگاہ کرے گی کہ مطالبات قابل قبول ہیں یا نہیں؟مطالبات میں دو، تین چیزیں اہم ہیں،جن کی بازگشت سنی جا رہی ہے،کہا یہ جا رہا ہے کہ جمعیت کے پی حکومت میں تین وزاتیں چاہتی ہے۔ جمعیت کو وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور سے بھی بہت سے تحفظات ہیں۔جمعیت والے ان کے بیانات اور رویے سے بہت شاکی ہیں۔علی امین گنڈا پور ڈیرہ اسماعیل خان کے جس حلقے سے جیت کر آئے ہیں،اس میں ری کانٹنگ کا معاملہ بھی مطالبات میں شامل ہے۔ اگرچہ کامران مرتضے واضح الفاظ میں میڈیا پر آ کر کہہ چکے ہیں کہ 2024ء کے الیکشن پر ان کے تحفظات ضرور ہیں۔ کے پی کے میں بھی وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ غلط ہے کہ ہم نے کسی قسم کے مطالبات پی ٹی آئی کے سامنے رکھے ہیں۔ جہاں تک گرینڈ الائنس میں شمولیت کا تعلق ہے تو بقول کامران مرتضے اس کا فیصلہ ان کی سیاسی کمیٹی اور مولانا فضل الرحمن کریں گے۔اپوزیشن گرینڈ الائنس اور عید کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے بہت ہی باخبر سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے نہ کوئی گرینڈ الائنس بننے جا رہا ہے، نہ عید کے بعد کسی تحریک کا آغاز ہونے والا ہے۔ واوڈا نے آج تک کی جتنی بھی پیش گوئیاں کیں، حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہیں۔لہٰذا واوڈا کی اس تازہ ترین پیش گوئی کے متعلق بھی گمان کیا جا سکتا ہے کہ سابق پیش گوئیوں کی طرح وہ بھی درست ثابت ہو سکتی ہے۔ عید کوئی زیادہ دور نہیں۔دیکھتے ہیں عید کے بعد گرینڈ الائنس اور پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کیا بنتا ہے؟بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے بس چند دنوں کی بات ہے سب پر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ہر ایک سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔فی الوقت بانی پی ٹی آئی اڈیالہ سے باہر آتے دکھائی نہیں دے رہے۔26نومبر کو ڈی چوک والی تحریک کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی آخری امید صدر ٹرمپ تھے۔کہا جا رہا تھا امریکی کانگریس میں موجود پی ٹی آئی کی حمایتی لابی بالآخر ٹرمپ کو مجبور کر دے گی کہ جیل سے بانی کی رہائی کے لئے وہ کوئی راست اقدام اٹھائیں۔ ٹرمپ کے حلف کا انتظار تھا۔فروری میں یہ حلف بھی ہو گیا لیکن عمران خان کے حق میں ٹرمپ کا ایک بیان بھی نہیں آیا۔اب تک کوئی ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ ٹرمپ بانی کی رہائی کے لئے کوئی کردار ادا کریں گے۔اس لئے رہائی والا باب اب بند سمجھیں۔ فیصلہ بالآخر پاکستانی عدالتوں نے ہی کرنا ہے جہاں بانی کے مقدمات زیر سماعت ہیں، یا چالان اور ٹرائل کے منتظر ہیں۔ان میں 9مئی بھی شامل ہے،جو بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔دیکھیں بانی کی قسمت کا ستارہ چمکتا ہے یا گردش میں ہی رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کے کالجز میں اساتذہ اور طلباء کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی
  • لاہور سمیت صوبے بھر کے کالجز میں اساتذہ و طلباء کیلئے موبائل فون کے استعمال کرنے پر پابندی عائد
  • پشاور: برقعہ پہن کر لیڈی ریڈنگ اسپتال کے گائنی وارڈ میں گھسنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا 
  • وزیرِ اعلیٰ سندھ کا تعلیمی اداروں میں اساتذہ و طلبہ کی حاضری چہرے کی شناخت کیساتھ ڈیجیٹلائز کرنے کا حکم
  • پی ٹی آئی کا مستقبل دائو پر لگ گیا
  • ہمارا ہیرو بوڑھا ہوگیا، سلمان خان کی نئی تصویر پر مداحوں کو تشویش
  • کالجزمیں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد ، نوٹیفکیشن جاری
  • رواں سال 15 لاکھ نوجوانوں کو  روزگار فراہم کرنا ہمارا ہدف ہے: رانا مشہود
  • یہ کیسا معیار عزت ہے؟