Daily Ausaf:
2025-03-16@14:38:19 GMT

پاکستان بچائو تحریک

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

ہمارے اجتماعی پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کا زوال اپنے پاتال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ہماری زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں بدعنوانی، رشوت خوری، جھوٹ، ہیرا پھیری اور اصولوں کی خلاف ورزی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جس طرف بھی نگاہ ڈالیں مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا عدلیہ ہو کسی ایک بھی ادارے کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے یعنی ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں بچا ہے کہ جس کی کارکردگی پر سر اٹھا کر فخر کیا جا سکے۔حکومت، مقتدرہ یا سرکاری محکمہ جات کے چند لاکھ افراد میں پھیلی بدعنوانی اور غیرمعیاری کارکردگی تو ایک طرف خود ہماری پچیس کروڑ عوام کا اجتماعی سیرت و کردار جتنا شرمناک اور گھٹیا ہے اس پر فقط الحفیظ و الامان ہی پڑھا جا سکتا ہے۔فطری قوانین کی رو سے ہونا تو یہ چاہیئے کہ جیسے ہر اندھیرے کے بعد اجالا آتا ہے، رات کے بعد دن آتا ہے اور زوال کے بعد عروج آنا شروع ہو جاتا ہے، ہماری اس قدر گراوٹ کے بعد اب حالات بہتری کی طرف پلٹنا شروع ہو جانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ بدترین حالات و واقعات کی وقوع پزیری سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورتحال کسی اور المیے اور انہونے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
راولپنڈی کے حلقے گجر خان سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد خورشید زمان جو 1997ء کے انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد میں انہیں پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع کے عہدے پر بھی کام کرنے کا موقع ملا، کل ان سے بات ہوئی تو وہ خصوصی طور پر پاکستان کے اس غیرمحفوظ حال اور مستقبل کے بارے میں بہت دل گرفتہ نظر آئے، تھوڑی دیر بعد انہوں نے ایک ویڈیو پیغام مجھے بھیجا جس کو سننے کے بعد میں خود پریشان ہو گیا کہ وطن عزیز میں صاحبان حل و عقد کر کیا رہے ہیں اور وہ وطن عزیز کو کیوں کسی گھاٹی کھائی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ انہوں نے اڑھائی منٹ کے اس مختصر ویڈیو پیغام میں معاشرے میں پائی جانے والی ناپاک اور گھنائونی برائیوں کو یوں بیان کرنے کی کوشش کی جس کے ہوبہو الفاظ یہ تھے کہ ’’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اعلیٰ سرکاری افسران بھکاری سے اپنا حصہ لیتے ہیں، ہیجڑوں کی ناپاک کمائی کا حصہ لینا بھی ان کے لئے جائز ہے، غرض یہ ہے کہ منشیات فروش، جسم فروشی کے کاروبار، تھانے اور دوسرے سرکاری اداروں کے ذریعے یہ حصے اوپر تک جاتے ہیں، پھر اوپر والوں کے گھروں کے اخراجات اس ناپاک کمائی سے چلائے جاتے ہیں، ان سے بچوں کے تعلیمی اخراجات، بیگم بچوں اور والدین کے لئے کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے، بچیوں کی شادیاں اور والدین کی وفات کے بعد اسی کمائی سے ختم شریف اور پھر اسی کمائی سے جنت کی دعا لنگر شریف کے بعد کی جاتی ہے۔ ایسے حالات اور سوچ کے بعد پھر ہم اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ اس سے درجنوں معاشرتی و اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثال کے طور پر بھیک مانگنا ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پھر یہ لوگ بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور انہیں غیرانسانی طریقوں سے اپاہج کرتے ہیں تاکہ وہ قابل رحم نظر آئیں اور ہم لوگ ان پر ترس کھا کر پیسے دیتے ہیں اور ہمارے اس عمل سے یہ کاروبار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے۔ بچوں کے اغوا اور خرید و فروخت کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ اس حرام کی کمائی سے سرکاری ملازموں کی آمدنی بھی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہمارے بزرگ مفت کا حج نہیں کرتے تھے، حرام کی کمائی گھر لانا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کرنا، زکوٰۃ دینا، عید کی قربانی کرنا، کسی کو روزہ رکھوانا یا کھلوانا، یہ حلال کی کمائی سے جائز ہے، ماں، بہن بیٹی کو رزق حلال کھلائیں گے تو وہ خوشحال زندگی گزارے گی۔ لیکن آج ہمیں اپنی سوچ اور عمل پر نظر دوڑانی ہو گی کہ ہم اپنے بچوں کے لئے کیا روایات اور عزت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو راضی رکھنے کی خواہش ہر انسان کی ہوتی ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہمسائے اور سفید پوش کی ضرورت کو عزت دار طریقے سے پورا کرنا چاہیے اور آزاد پرندوں کا خیال رکھنا اور جانوروں کے ساتھ پیار سے پیش آنا چایئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ کافی ہے۔ ناکہ ان پیشہ ور لوگوں کے ہاتھوں لٹنا عقل مندی ہے۔
اللہ تعالیٰ اور نبی پاک ﷺکا واسطہ ہے کہ ہم آج کے بعد اپنے اعمال درست کریں گے ورنہ یہودی اور ہندوئوں کی غلامی ہمارا اور آنے والی نسل کا مقدر بن جائے گی۔’’جب یہ پارلیمنٹیرین مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر فروری 1997ء کے الیکشن میں منتخب ہوئے تھے تو اس وقت ہمارا معاشرہ پھر بھی اتنا غلاظت کا ڈھیر نہیں بنا تھا جس سے جتنی آج سرانڈ اٹھ رہی ہے۔ جعل سازی ملاوٹ یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ ادویات خالص نہیں ملتی اور بچوں کے دودھ تک میں گندا پاوڈر ملایا جاتا ہے۔ باپ بیٹے کا قاتل ہے اور بیٹا باپ کا قاتل اور دشمن ہے۔ رشتوں کی پہچان ختم ہو گئی ہے، اور افراتفری کا یہ عالم ہے کہ ہمسائے کے حقوق کا احترام ہے اور نہ چھوٹے بڑے کی تمیز ہے۔ایک سابق ممبر پارلیمنٹ کی زبان حال سے ادا ہوئے یہ الفاظ ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ ہیں۔ کسی قوم کو جب زوال آتا ہے تو وہ سماجی برائیوں میں مبتلا ہوتی ہے اور جب عروج آتا ہے تو وہ ان سے چھٹکارہ حاصل کرتی ہے۔ جب انسان میں عقل و ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ برائی کی طرف مائل ہوتا ہے جس سے معاشرہ تباہ ہوتا ہے اور انسانی افراد و اجتماع کو روحانی اور مادی نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ برائیاںجب کسی قوم میں عام ہو جاتی ہیں تو قوم و ملک کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ان سماجی برائیوں کے ایسے گندے اور بدبودار تالاب میں غوطہ زن ہیں جس سے نکلنے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ چوہدری خورشید زمان نے ’’پاکستان بچائو تحریک‘‘کی بنیاد یہی سوچ کر رکھی ہے کہ معاشرے کو ان برائیوں سے نکالنے، اس کی اصلاح کرنے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے قوم کی کردار سازی کی جائے۔قرآن کریم نے جابجا ان معاشرتی برائیوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پا جائو۔ (النحل:90)۔ اس آیت کریمہ میں معاشرتی برائیوں کو تین بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں:-1 فحشا یعنی بے حیائی کے کام-2 منکرات جس سے پوری جماعت کی زندگی متاثر ہو اور -3 بغی یعنی سرکشی ، جیسے چوری ، قتل ، ڈاکہ اور ملک و قوم سے غداری کے کام۔یہ وہ اخلاقی برائیاں ہیں جن کو ہر مذہب اور ہر انسانی معاشرت نے یکساں طور پر برا کہا ہے۔قرآن پاک میں جو سب سے سخت لفظ استعمال ہوا ہے وہ ’’لعنت‘‘کا ہے جو جھوٹ بولنے والوں کے لئے آیا ہے اور تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ’’منافقت‘‘ہے جس کی سزا قرآن حکیم نے جہنم کا سب سے نچلا طبقہ قرار دیا ہے اور یہ دونوں سماجی برائیاں ہمارے معاشرے میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ہر محب وطن پاکستانی کو ’’پاکستان بچائو تحریک‘‘کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے، اس کے سوا پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ تعالی بچوں کے ہوتا ہے جاتا ہے کے لئے کے بعد آتا ہے ہے اور کی طرف

پڑھیں:

حکومت اور پارلیمان کٹھ پتلی ،مولانا فضل الرحمن ، حکومت مخالف تحریک چلانےکیلئے اجلاس طلب

اسلام آباد(اوصاف نیوز)سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نےنے حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے مجلس عمومی کا اجلاس بلایا ہےاور عید کے بعد اس حوالے سے مزید فیصلہ کیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمان کٹھ پتلی ہیں، وزیر اعظم، صدر اور وزیر داخلہ اہل نہیں ہیں، موجودہ حکمران الیکشن جیت کر نہیں آئے۔انہوں نے کہا کہ ریاست خطرے میں ہے، حیرت ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہو کر ملک کا سوچ رہے ہیں، جبکہ حکومت ملک کا کیوں نہیں سوچ رہی ہے، وزیر اعظم افطار کیلیے دعوت دے رہے ہیں مگر ملکی مسائل پر بات کیوں نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پوسٹل سروسز، پی ڈبلیو ڈی سمیت دیگر اداروں سے ملازمین نکالے جا رہے ہیں، اگر ملازمین نااہل ہیں تو آپ کیسے اہل ہیں، ملازمین کو ملازمتوں سے نکالیں گے تو نوجوان کہاں جائیں گے۔مولانا فضل الرحمن سے سندھ کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں ڈاکو خود سے نہیں بلکہ ردعمل میں بنے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے مولانا نے کہا کہ اس پارٹی کی اصل قیادت جیل میں ہے، اور باہر جو ہیں ان یکسوئی کا فقدان ہے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے معاملات میں تلخی کم ہوئی ہے، بیان بازی سے پی ٹی آئی کے ساتھ ممکنہ اتحاد میں دراڑ نہیں پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف اگر کوئی بیان دیتا ہے تو پی ٹی آئی کو نوٹس لینا چاہیے، شیخ وقاص اکرم اور ان کے بڑوں سے میرا تعلق ہے، اس پارلیمنٹ میں شیخ وقاص اکرم سے ملاقات نہیں ہوئی، جب سے شیخ وقاص اکرم کی صورت تبدیل ہوئی ہے ان کی گفتگو بھی تبدیل ہو گئی ہے۔

مولانا فضل الرحن نے کہا کہ حکومت مخالف تحریک میں پی ٹی آئی سے اتحاد پر پالیسی ساز اجلاس میں فیصلہ ہوگا، حکومت میں شمولیت کے لئے حکمران منتیں کرتے رہے۔ملکی موجودہ سیاسی صورتحال میں نواز شریف اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، اگر نواز شریف سمجھتے ہیں ایک صوبہ میں حکومت سے کام چل گیا تو ملک کہاں گیا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری کے حوالے سے مولانا نے کہا کہ وہ انجوائے کر رہے ہیں، آصف زرداری واحد شخص ہیں جو صوبائی اسمبلی اور ایوان صدر خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا اگر پنجاب ٹھنڈا ہے تو یہ کوئی بات نہیں، دو صوبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا، جب ہم نکلیں گے تو یہ کہیں گے کہ ملک کا خیال کریں۔

کابل ایئرپورٹ دھماکے میں ملوث ملزم کی گرفتاری میں پاکستان کی معاونت پر مولانا کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بکرا پیش کیا ٹرمپ خوش ہوا اور حکومت نے عید منائی، حکومت ٹرمپ کو بکرا پیش کرنے کےلئے انتظار میں تھی، ٹرمپ کے آنے سے اپوزیشن خوش جبکہ حکومت خوفزدہ تھی، بکرا پیش کرتے وقت ملک خودمختاری نہیں دیکھی گئی، اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کی جاسکتی تھی مگر خاموشی رہی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کل کو اپنے ناجائز اقتدار کو بچانے کیلیے ہم میں سے کسی کو بھی بکرا بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے بھجوائے گیا تھریٹ الرٹ مضحکہ خیز تھا ترتیب درست نہ تھی،

تھریٹ الرٹ میں کہا گیا کہ آپ سیاست حکومت اور مذہبی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، تھریٹ الرٹ میں کہا گیا کہ یہ فتنہ الخوارج کی طرف سے ہے، فتنہ الخوارج کا ہماری سیاست حکومت اور مذہب سے کیا تعلق ہے؟ میرے کردار سے فتنہ الخوارج کو نہیں ان کوخطرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جان اللہ کے پاس ہے ڈرنے والے نہیں گھر بیٹھے بھی جان جاسکتی ہے، یکطرفہ فیصلے بند نہ کئے گئے ملکی سیاست میں شدت آئے گی، خرافات کی ذمہ دار اسٹبلشمنٹ ہے، ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مسلح جتھوں اور فوج سے لوگوں کو خطرہ ہے، بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ ملک کو چلا رہی ہے، کہتے ہیں سیاستدان ملک کو کیسے چلا سکتے ہیں، خدا کےلئے آپ گھر بیٹھ جائیں سیاستدان آپ سے بہتر ملک چلا سکتے ہیں, پاکستان فوج کی ملکیت نہیں ملک ہم سب کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران انڈیا کےساتھ بات چیت ہوسکتی ہے تو یہ رویہ افغانستان کےلئے کیوں نہیں؟ جے یو آئی رہنماوں پر حملے کرکے ہمیں ڈرایا جارہا ہے لیکن ہم نہیں ڈریں گے، الیکشنز میں چوری نہیں ڈاکے ڈالے گئے ہم شاہد ہیں، سیاست کو دھاندلی سے پاک کریں آئین پر عمل کریں، عوام پارلیمنٹ سے ناراض ہیں ایسے ملک نہیں چل سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے کہا تو افغانستان کے معاملہ پر کردار ادا کرنے کا سوچ سکتے ہیں، ہمارے حوصلے جواب دے گئے ہیں، مایوس نہیں ناراض ہیں، پی ٹی آئی دور حکومت میں 15 دن کا دھرنا الیکشنز کی تاریخ لیکر ختم کیا اور بعد میں بعد میں الیکشنز کی تاریخ پر دھوکا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مائنس ون کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا، مقتدرہ کو پاپولر سیاستدان پسند نہیں کرتی۔مولانا فضل الرحمن نے چیف الیکشن کمشنر و دو ممبران کے استعفی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد بھی چیف الیکشن کمشنر و ممبران نوکری کررہے ہیں، بڑے لوگ ہیں مدت مکمل ہونے پر ان کو مستعفی ہوجانا چاہیے، حکومت کہے تو یہ بیٹھے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان میں کسی گرینڈ آپریشن کی ضرورت نہیں، رانا ثناء اللہ
  • حکومت اور پارلیمان کٹھ پتلی ،مولانا فضل الرحمن ، حکومت مخالف تحریک چلانےکیلئے اجلاس طلب
  • سندھ میں بڑھتی ہوئی مزاحمت
  • میرا نہیں خیال، شریف اللہ کی حوالگی کا ٹرین واقعے سے کوئی تعلق ہو، خواجہ آصف
  • بلدیاتی انتخابات کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے، فیض اللہ فراق
  • اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ
  • شریعت میں علم اور عقل لازم و ملزوم
  • شیعہ سنی کے درمیان سحری کے وقت میں کوئی فرق نہیں،علامہ ریاض نجفی
  • پی ٹی آئی کا لگایا ہوا گند ہم صاف کر رہے ہیں، افنان اللہ خان