Daily Ausaf:
2025-03-17@04:18:00 GMT

پاکستان بچائو تحریک

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

ہمارے اجتماعی پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کا زوال اپنے پاتال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ہماری زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں بدعنوانی، رشوت خوری، جھوٹ، ہیرا پھیری اور اصولوں کی خلاف ورزی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جس طرف بھی نگاہ ڈالیں مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا عدلیہ ہو کسی ایک بھی ادارے کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے یعنی ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں بچا ہے کہ جس کی کارکردگی پر سر اٹھا کر فخر کیا جا سکے۔حکومت، مقتدرہ یا سرکاری محکمہ جات کے چند لاکھ افراد میں پھیلی بدعنوانی اور غیرمعیاری کارکردگی تو ایک طرف خود ہماری پچیس کروڑ عوام کا اجتماعی سیرت و کردار جتنا شرمناک اور گھٹیا ہے اس پر فقط الحفیظ و الامان ہی پڑھا جا سکتا ہے۔فطری قوانین کی رو سے ہونا تو یہ چاہیئے کہ جیسے ہر اندھیرے کے بعد اجالا آتا ہے، رات کے بعد دن آتا ہے اور زوال کے بعد عروج آنا شروع ہو جاتا ہے، ہماری اس قدر گراوٹ کے بعد اب حالات بہتری کی طرف پلٹنا شروع ہو جانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ بدترین حالات و واقعات کی وقوع پزیری سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورتحال کسی اور المیے اور انہونے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
راولپنڈی کے حلقے گجر خان سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد خورشید زمان جو 1997ء کے انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد میں انہیں پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع کے عہدے پر بھی کام کرنے کا موقع ملا، کل ان سے بات ہوئی تو وہ خصوصی طور پر پاکستان کے اس غیرمحفوظ حال اور مستقبل کے بارے میں بہت دل گرفتہ نظر آئے، تھوڑی دیر بعد انہوں نے ایک ویڈیو پیغام مجھے بھیجا جس کو سننے کے بعد میں خود پریشان ہو گیا کہ وطن عزیز میں صاحبان حل و عقد کر کیا رہے ہیں اور وہ وطن عزیز کو کیوں کسی گھاٹی کھائی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ انہوں نے اڑھائی منٹ کے اس مختصر ویڈیو پیغام میں معاشرے میں پائی جانے والی ناپاک اور گھنائونی برائیوں کو یوں بیان کرنے کی کوشش کی جس کے ہوبہو الفاظ یہ تھے کہ ’’پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اعلیٰ سرکاری افسران بھکاری سے اپنا حصہ لیتے ہیں، ہیجڑوں کی ناپاک کمائی کا حصہ لینا بھی ان کے لئے جائز ہے، غرض یہ ہے کہ منشیات فروش، جسم فروشی کے کاروبار، تھانے اور دوسرے سرکاری اداروں کے ذریعے یہ حصے اوپر تک جاتے ہیں، پھر اوپر والوں کے گھروں کے اخراجات اس ناپاک کمائی سے چلائے جاتے ہیں، ان سے بچوں کے تعلیمی اخراجات، بیگم بچوں اور والدین کے لئے کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے، بچیوں کی شادیاں اور والدین کی وفات کے بعد اسی کمائی سے ختم شریف اور پھر اسی کمائی سے جنت کی دعا لنگر شریف کے بعد کی جاتی ہے۔ ایسے حالات اور سوچ کے بعد پھر ہم اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ اس سے درجنوں معاشرتی و اخلاقی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثال کے طور پر بھیک مانگنا ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پھر یہ لوگ بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور انہیں غیرانسانی طریقوں سے اپاہج کرتے ہیں تاکہ وہ قابل رحم نظر آئیں اور ہم لوگ ان پر ترس کھا کر پیسے دیتے ہیں اور ہمارے اس عمل سے یہ کاروبار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے۔ بچوں کے اغوا اور خرید و فروخت کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ اس حرام کی کمائی سے سرکاری ملازموں کی آمدنی بھی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہمارے بزرگ مفت کا حج نہیں کرتے تھے، حرام کی کمائی گھر لانا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کرنا، زکوٰۃ دینا، عید کی قربانی کرنا، کسی کو روزہ رکھوانا یا کھلوانا، یہ حلال کی کمائی سے جائز ہے، ماں، بہن بیٹی کو رزق حلال کھلائیں گے تو وہ خوشحال زندگی گزارے گی۔ لیکن آج ہمیں اپنی سوچ اور عمل پر نظر دوڑانی ہو گی کہ ہم اپنے بچوں کے لئے کیا روایات اور عزت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو راضی رکھنے کی خواہش ہر انسان کی ہوتی ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہمسائے اور سفید پوش کی ضرورت کو عزت دار طریقے سے پورا کرنا چاہیے اور آزاد پرندوں کا خیال رکھنا اور جانوروں کے ساتھ پیار سے پیش آنا چایئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ کافی ہے۔ ناکہ ان پیشہ ور لوگوں کے ہاتھوں لٹنا عقل مندی ہے۔
اللہ تعالیٰ اور نبی پاک ﷺکا واسطہ ہے کہ ہم آج کے بعد اپنے اعمال درست کریں گے ورنہ یہودی اور ہندوئوں کی غلامی ہمارا اور آنے والی نسل کا مقدر بن جائے گی۔’’جب یہ پارلیمنٹیرین مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر فروری 1997ء کے الیکشن میں منتخب ہوئے تھے تو اس وقت ہمارا معاشرہ پھر بھی اتنا غلاظت کا ڈھیر نہیں بنا تھا جس سے جتنی آج سرانڈ اٹھ رہی ہے۔ جعل سازی ملاوٹ یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ ادویات خالص نہیں ملتی اور بچوں کے دودھ تک میں گندا پاوڈر ملایا جاتا ہے۔ باپ بیٹے کا قاتل ہے اور بیٹا باپ کا قاتل اور دشمن ہے۔ رشتوں کی پہچان ختم ہو گئی ہے، اور افراتفری کا یہ عالم ہے کہ ہمسائے کے حقوق کا احترام ہے اور نہ چھوٹے بڑے کی تمیز ہے۔ایک سابق ممبر پارلیمنٹ کی زبان حال سے ادا ہوئے یہ الفاظ ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ ہیں۔ کسی قوم کو جب زوال آتا ہے تو وہ سماجی برائیوں میں مبتلا ہوتی ہے اور جب عروج آتا ہے تو وہ ان سے چھٹکارہ حاصل کرتی ہے۔ جب انسان میں عقل و ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ برائی کی طرف مائل ہوتا ہے جس سے معاشرہ تباہ ہوتا ہے اور انسانی افراد و اجتماع کو روحانی اور مادی نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ برائیاںجب کسی قوم میں عام ہو جاتی ہیں تو قوم و ملک کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ان سماجی برائیوں کے ایسے گندے اور بدبودار تالاب میں غوطہ زن ہیں جس سے نکلنے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ چوہدری خورشید زمان نے ’’پاکستان بچائو تحریک‘‘کی بنیاد یہی سوچ کر رکھی ہے کہ معاشرے کو ان برائیوں سے نکالنے، اس کی اصلاح کرنے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے قوم کی کردار سازی کی جائے۔قرآن کریم نے جابجا ان معاشرتی برائیوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پا جائو۔ (النحل:90)۔ اس آیت کریمہ میں معاشرتی برائیوں کو تین بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں:-1 فحشا یعنی بے حیائی کے کام-2 منکرات جس سے پوری جماعت کی زندگی متاثر ہو اور -3 بغی یعنی سرکشی ، جیسے چوری ، قتل ، ڈاکہ اور ملک و قوم سے غداری کے کام۔یہ وہ اخلاقی برائیاں ہیں جن کو ہر مذہب اور ہر انسانی معاشرت نے یکساں طور پر برا کہا ہے۔قرآن پاک میں جو سب سے سخت لفظ استعمال ہوا ہے وہ ’’لعنت‘‘کا ہے جو جھوٹ بولنے والوں کے لئے آیا ہے اور تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ’’منافقت‘‘ہے جس کی سزا قرآن حکیم نے جہنم کا سب سے نچلا طبقہ قرار دیا ہے اور یہ دونوں سماجی برائیاں ہمارے معاشرے میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ہر محب وطن پاکستانی کو ’’پاکستان بچائو تحریک‘‘کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے، اس کے سوا پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ تعالی بچوں کے ہوتا ہے جاتا ہے کے لئے کے بعد آتا ہے ہے اور کی طرف

پڑھیں:

شام کے اندر رونما ہونے والے واقعات کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، ترجمان

تنظیم کے عوامی تعلقات کے شعبے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم لبنان اور شام کی سرحدوں پر اتوار کو پیش آنے والے واقعات کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلق کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے لبنان اور شام کی سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات سے کسی قسم کے تعلق کی تردید کی ہے۔ حزب اللہ کے عوامی تعلقات کے شعبے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم لبنان اور شام کی سرحدوں پر اتوار کو پیش آنے والے واقعات کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلق کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے پہلے بھی واضح کیا ہے اور ہم ایک بار پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شام کے اندر رونما ہونے والے واقعات کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • شام کے اندر رونما ہونے والے واقعات کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، ترجمان
  • اقامت دین کی جدوجہد میں رمضان کا کردار
  • بلوچستان میں کسی گرینڈ آپریشن کی ضرورت نہیں، رانا ثناء اللہ
  • حکومت اور پارلیمان کٹھ پتلی ،مولانا فضل الرحمن ، حکومت مخالف تحریک چلانےکیلئے اجلاس طلب
  • سندھ میں بڑھتی ہوئی مزاحمت
  • اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ
  • شریعت میں علم اور عقل لازم و ملزوم
  • شیعہ سنی کے درمیان سحری کے وقت میں کوئی فرق نہیں،علامہ ریاض نجفی
  • بے پردگی فحاشی و عریانی بدترین لعنت