کرکٹ کینیڈا کے چیف ایگزیکٹیو پر چوری اور فراڈ کا چارج عائد
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
کرکٹ کینیڈا کے چیف ایگزیکٹیو سلمان خان پر چوری اور فراڈ کا چارج عائد ہوگیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کرکٹ کینیڈا کے چیف ایگزیکٹیو سلمان خان پر الزام ہے کہ 2014 اور 2016 کے دوران جب وہ کیلگری اینڈ ڈسٹرکٹ کرکٹ لیگ کے صدر تھے تب مالی بے ضابطگی کی۔
پولیس نے بیان میں کہا کہ 2 افراد لیگ میں کم سے کم 2 لاکھ ڈالر کے ہیرا پھیری میں ملوث ہیں، یہ رقم لیگ انفرااسٹرکچر کی اپ گریڈیشن وغیرہ کیلیے لی گئی مگر یا تو یہ کام مکمل ہی نہیں کیا گیا یا پھر بہت ہی مہنگے داموں انتہائی ناقص چیزیں خریدی گئیں۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل؛ نئی ٹیمیں کتنے میں فروخت ہوسکتی ہیں؟ قیمت سامنے آگئی
دوسری جانب سلمان خان نے خود کو بے قصور وار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی گرفتاری کی جھوٹی خبریں پھیلائی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کینیڈا کے نئے وزیراعظم مارک کارنے کون ہیں؟
مارک کارنے نے کینیڈا کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھالیا، انہوں نے اس ملک کی قیادت سنبھالی جو امریکی تعلقات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کے بعد درہم برہم ہے۔
حکومتی لبرل پارٹی نے مارک کارنے کو جسٹن ٹروڈو کی جگہ لینے کے لیے بھرپور طور پر حمایت کی، ان کا ماننا تھا کہ کارنے کا دو مرکزی بینکوں کی قیادت کرنے کا تجربہ اور تاریخی بحرانوں سے نمٹنے کی مہارت کینیڈا کو ممکنہ طور پر تباہ کن تجارتی جنگ کے خدشات سے نمٹنے میں مدد دے گا۔
انہوں نے حلف برداری سے قبل صحافیوں سے کہا کہ ہم فوراً کام شروع کریں گے۔ سفارتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ وزیرِ اعظم کے طور پر اپنا پہلا غیر ملکی دورہ اگلے ہفتے یورپ کا کریں گے۔
کارنے، جو اتوار کو 60 سال کے ہو جائیں گے، ایک سیاسی نو آموز ہیں جنہوں نے کبھی بھی منتخب عوامی عہدہ نہیں جیتا، لیکن ان کی انتخابی مہم کی مہارت کو جلد ہی آزمایا جائے گا کیونکہ کینیڈا کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں عام انتخابات کی طرف بڑھے گا۔
مزید پڑھیں: گھریلو سولر پینل کا متبادل کیا اور کتنا کارآمد ہے؟
ٹرمپ کی طرف سے لاحق خطرات متوقع طور پر ووٹ کو متاثر کریں گے۔ امریکی صدر نے کینیڈا کو نشانہ بناتے ہوئے درآمدی محصولات عائد کیے ہیں اور مزید ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دی ہے، جبکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ ملک اپنی ذات میں قابل عمل نہیں ہے اور اسے واشنگٹن کے ساتھ ضم کیا جانا چاہیے۔
کارنے، جنہوں نے اوٹاوا میں کینیڈا کے 24ویں وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا، نے ٹرمپ کے مؤقف کو کینیڈا کے لیے سب سے سنگین چیلنج قرار دیا ہے۔
بینکر وزیر اعظم ہی کیوں؟کینیڈا کے شمال مغربی علاقوں میں پیدا اور مغربی صوبے البرٹا میں پرورش پانے والے، مارک کارنے نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر ایک بیرونی شخص کے طور پر پیش کیا ہے جو معاشی بدحالی اور غیر یقینی صورتحال کے دور میں کینیڈا کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 4 مارچ کو کینیڈا کی مصنوعات پر سخت ٹیرف کے نفاذ کے اعلان کے بعد کینیڈا کو شدید ناراض کیا ہے، جبکہ کساد بازاری کے خوف نے کینیڈا میں قوم پرستی اور دارالحکومت اوٹاوا میں مستحکم قیادت کی خواہش کو ہوا دی ہے۔
مزید پڑھیں: مارک کارنی کینیڈا کی حکمران پارٹی کے سربراہ منتخب، اگلے وزیراعظم ہونگے
59 سالہ مارک کارنے نے ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کی ہیں اور سرمایہ کاری فرم گولڈمین ساکس میں ایک دہائی سے زائد عرصہ کام بھی کرچکے ہیں۔
ابھی حال ہی میں، انہوں نے بروک فیلڈ اثاثہ جات کے انتظام کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دی ہیں، جہاں انہوں نے کمپنی کی ’سرمایہ کاری منتقلی‘ کی بھی قیادت کی۔ جو کہ عالمی کلائمیٹ کے اہداف کے مطابق سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔
لیکن یہ بحران کے وقت ان کا بینکنگ کا تجربہ ہے کہ جو مارک کارنے اور ان کے حامیوں کا کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کے ہاتھوں برپا کیے گئے ’طوفانی موسم‘ میں کینیڈا کی بقا کی جدوجہد میں ان کی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ ثابت ہوگا۔
معاشی محاذ پر کامیابیاںمارک کارنے نے 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے درمیان بینک آف کینیڈا کے گورنر کے طور پر اپنے دور کا آغاز کیا، انہیں فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے، جس نے کینیڈا کو مزید سنگین بدحالی سے بچانے میں مدد کی۔
2013 میں، مارک کارنے بینک آف انگلینڈ کی قیادت سنبھالنے کے لیے روانہ ہوئے، جہاں وہ 2020 تک وابستہ رہے، وہی سال جب برطانیہ نے باضابطہ طور پر یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
مزید پڑھیں: کینیڈا نے ٹرمپ کی احمقانہ تجارتی جنگ کی مذمت کرتے ہوئے جوابی ٹیکس عائد کردیا
وہاں بھی، بریگزٹ کے اثرات کو کم کرنے کے ضمن میں مارک کارنے کی خدمات کا اعتراف کیا گیا حالانکہ ان کے اس جائزے سے کہ یورپی یونین سے علیحدگی برطانوی معیشت کے لیے خطرہ ثابت ہوگی، برطانوی قدامت پسندوں کی ناراضی کا باعث بھی بنا، جو یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں تھے۔
الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے مصنف، کالم نگار اور برطانیہ کی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے صدر ول ہٹن نے مارک کارنے کو ایک اختراعی مرکزی بینکر قرار دیا۔
’وہ (مارک کارنے) سمجھ گئے تھے کہ اصل میں، مرکزی بینکوں کا کام ہے کہ وہ سرمایہ داری کو اس کی بدترین رکاوٹوں کو ختم کر کے زیادہ سے زیادہ جائز بنائیں لیکن وہ بریگزٹ سے گھبرا گئے تھے، اور اسے خود کو شکست دینے سے تعبیر کیا۔‘
لیکن ول ہٹن نے تسلیم کیا کہ مارک کارنے نے بینک آف انگلینڈ کے طرز عمل کو منظم کرنے میں کامیاب کیا تاکہ اس سے ہونے والا نتیجہ اس سے کم تباہ کن تھا جتنا ہو سکتا تھا۔
سیاسی تجربے کی کمیاگرچہ بہت کم لوگ مارک کارنے کی معاشی صلاحیتوں پر کوئی سوال اٹھاتے ہیں لیکن انتخابی سیاست میں ان کے تجربے کی کمی نے سوالات اٹھائے ہیں۔
اس سے قبل وہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اقتصادی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، جنہوں نے اپنی حکومت کی جانب سے رہائش کے بحران سے نمٹنے اور زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر بڑھتے ہوئے عوامی غصے کے باعث استعفیٰ دے دیا۔
مزید پڑھیں: کینیڈا اور میکسیکو سے ٹیرف ڈیل ممکن نہیں آج سے نفاذ ہوگا، صدر ٹرمپ
لیکن کارنے نے اس سے پہلے کبھی بھی سیاسی عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑا، اور انہوں نے لبرل قیادت کی مہم کا بیشتر حصہ اپنے آپ کو کینیڈینز سے متعارف کرانے میں صرف کیا۔
میک گل یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈینیئل بیلنڈ نے مارک کارنے کو پردے کے پیچھے رہنے والے ایک مشیر کے طور پر یاد کرتے ہوئے انہیں ایسے ٹیکنوکریٹ کے طور پر بیان کیا جسے اسٹیرائڈز پر رکھا گیا ہو۔
کارنے نے اپنی مہم شروع کرنے کے بعد متعدد وعدے کیے ہیں، جن میں حکومتی اخراجات پر لگام لگانا، ہاؤسنگ میں مزید سرمایہ کاری کرنا، کینیڈا کے تجارتی شراکت داروں کو متنوع بنانا اور امیگریشن پر عارضی حد عائد کرنا شامل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الجزیرہ کینیڈا مارک کارنے میک گل یونیورسٹی ول ہٹن