لاہور( آئی این پی) سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ٹرین سانحہ کے بعد ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر بلوچستان میں آپریشن ہوسکتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ آپریشن فوکس، کلیئر اور اسمارٹ ہونا چاہیے،بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے تناظر میں بلوچستان حکومت تبدیل ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے،بلوچستان میں شدت پسندی پہلے سے جاری ہے،شدت پسندی میں تیزی سرفراز بگٹی یا ان کی حکومت کی وجہ سے نہیں آئی،سرفراز بگٹی تو ابھی آئے ہیں ان کو ابھی سال بھی نہیں ہوا۔

ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں رونما ہوئے ٹرین واقعہ پر پی ٹی آئی اور پاکستان دشمن ممالک کے ہم آواز ہونے سے متعلق سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کو ملک دشمن نہیں سمجھتا، میں پی ٹی آئی کو بسا اوقات انتہائی احمقانہ اور بیہودہ حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتا ہوں مگر اس کے باوجود ان کی پاکستانیت پر سوال نہیں کیا جا سکتا، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پاکستانی نہیں ہیں، یا یہ بھارت کے اشارے پر یہ سب کر رہے ہیں۔ البتہ بعض اوقات یہ وہی کرتے ہیں جو بھارت کی خواہش ہوتی ہے مگر یہ دونوں چیزں مختلف ہیں۔

معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان ہسپتال میں داخل

 اس حوالے سے ہمیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ جھگڑا کسی سیاسی پارٹی سے نہیں، ریاست کے وجود کو چیلنج کا سامنا ہے جس کے باسی تم بھی ہو اور میں بھی ہوں۔ماہ رنگ بلوچ کے دوہرے رویہ سے متعلق سوال پر سابق وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ایک خاتون جو ترتبت سے اسلام آباد کے لیے نکلی ،میڈیا نے چند ماہ میں اس کو ہیومن رائٹس کا چمپئن ڈکلیئر کر دیا، مگر میرا اس پر اعتراض یہ ہے کہ وہ نہ ہیومن رائٹس ایکٹیویسٹ ہے نہ وہ خواتین کی خودمختاری کی بات کر رہی ہے البتہ جو کچھ شدت پسندوں کے حق میں جاتا ہے اس کے لیے وہ آواز اٹھاتی ہے۔

وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کا 12 زہریلی کیڑے مار دوائوں پر مکمل پابندی کا اعلان

بلوچستان میں شدت پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے لیے وہ آواز بلند نہیں کرتی، تب ماہ رنگ پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔بلوچستان میں شدت پسندی کے حوالے سے انہوںنے کہا کہ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تشدد کا جواب ہونا چاہیے یا نہیں؟ جب آپ کسی بھی تشدد کی توجیح دینا شروع کرتے ہیں، اس کی مختلف پہلوئوں کو کھوجنے لگتے ہیں تو آپ لامحالہ ایک مینٹل پروسس میں انگیج ہو جاتے ہیں اور تشددکی توجیح کرنے لگتے ہیں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کیسے کیا جائے؟ ،ایک یہ طریقہ ہے کہ آپ اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوجائیں، ان سے درخواست کریں کہ ہم عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں ہم پر رحم کریں، ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کو اخلاقیات کا درس دیں۔ ہو سکتا ہے ان کے دل میں رحم آجائے اور ہوسکتا ہے کہ ان کا نقطہ نظر تبدیل ہوجائے، اس کے کتنے امکانات ہیں اس پر ضرور لوگ سوچیں۔

پشاور ، کرک میں 5 دہشتگردانہ حملے،3 پولیس اہلکار اور ایک ایف سی گارڈ شہید

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ تشدد کرنے والے کو فورس کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کی تشدد کی صلاحیت کم ہوجائے یا ختم ہوجائے۔ایک سوال کے جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مجھے اس بات پر تکلیف سے زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ اس تشدد کو جس کو دنیا نے دہشت کا نام دیا ہے پاکستان میں میڈیا کا ایک حصہ اس پورے عمل کو معاشی مسائل کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی اس تشدد کی توجیح کی طرف چل پڑتا ہے، کوئی آپ کو 70 سال کی تاریخ یاد دلانا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی آپ کو مبہم اور مسخ تاریخ بتانا شروع کرتا ہے کہ ریاست قلات کو زبردستی شامل کر لیا گیا، پہلے دن سے یہ لوگ آپ کے ساتھ نہیں تھے، یوں پورے کے پورے نریٹیو کو ڈسٹراشن میں لے جاتے ہوئے موجودہ دہشتگردی کی توجیح کی جاتی ہے۔

نوشکی: قومی شاہراہ این 40 پر سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکا

انہوں نے ایک اورسوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں آپ نے تشدد پسندوں کے اتنے بہی خواہ اور ہمدرد پیدا کر لیے ہیں کہ ان کے حوصلہ بڑھ رہے ہیں۔ پرائم ٹائم میں کسی بھی چینل پر بیٹھا ایک ایف اے، بی پاس شخص سکیورٹی، ٹیرازم، اکانومی تمام چیزوں کا ایکسپرٹ بن کر رائے سازی کرتا ہے اور اس دھڑلے سے کرتا ہے جیسے اس کے پاس جو علم ہے وہ الہامی سچ ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اوپر سے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا آگیا ہے اس میں بھی ادھوری معلومات لوگوں کی ذہن سازی کر رہی ہے۔

 اس کے علاوہ آپ کا جو زہریلا سیاسی ماحول بنا یاگیا ہے وہ تو چیری آن دی کیک ہے، یہ تمام عوامل جب مل گئے ہیں، افغانستان سے نیٹو فورس کے جانے کے بعد جو ہتھیار ان کے ہاتھ میں آگئے ہیں، ان تمام چیزوں نے ان کے عمل کو نمایاں بھی کر دیا ہے اور بڑھا بھی دیا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ آپ کی بات سے یہ لگ رہا کہ بلوچستان کا مسئلہ کچھ جرنیلوںنے اور میڈیا نے پیدا کیا ہے؟ جس پر انہوںنے کہا کہ وہ اس مسئلے کو پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں اس مسئلے کو کنفیوژ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

امریکی فوج کے یمنی دارالحکومت صنعا پر فضائی حملے میں 24 افراد ہلاک

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: بلوچستان میں کاکڑ نے کہا نے کہا کہ کی توجیح یہ ہے کہ ہے کہ ا

پڑھیں:

بھارت نے ٹرین ہائی جیکنگ سمیت دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کو مستردکردیا

نئی دہلی/کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 مارچ ۔2025 )بھارت نے پاکستان کی جانب سے ٹرین ہائی جیکنگ کے سمیت دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کو مستردکردیا ہے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم پاکستان کی جانب سے لگائے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہیں پوری دنیا کو پتا ہے کہ عالمی دہشت گردی کا مرکز کہاں ہے پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل اور ناکامیوں کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے.

(جاری ہے)

قبل ازیں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بریفنگ میں کہا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کی سازش غیر ممالک میں تیار کی گئی تھی تاہم انہوں نے براہ راست بھارت کا نام نہیں لیا تھا ان کا کہنا تھا کہ ٹرین پر قبضے کی پوری مدت کے دوران شدت پسند افغانستان میں میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے. حکومت پاکستان نے بلوچ علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی تبدیل کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے اس کی تردید کی اور کہا تھاکہ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور انڈیا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی اعانت کر رہا ہے.

ترجمان نے کہاتھا کہ میں نے اس ٹرین کے مخصوص واقعے کا ذکر کیا تھا ہمارے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ شدت پسند افغانستان سے کالز کر رہے تھے قبل ازیں افغانستان نے بلوچستان میں شدت پسندوں کی جانب سے جعفر ایکسپریس پر کیے جانے والے حملے سے کسی بھی طرح کا تعلق ہونے سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بجائے اپنی سلامتی اور اپنے اندرونی مسائل کے حل پر توجہ دے.

افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ’ایکس‘ ‘پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم پاکستانی فوج کے ترجمان کی طرف سے صوبہ بلوچستان میں مسافر ٹرین پر حملے کو افغانستان سے جوڑنے کے بے بنیاد الزامات کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہیں اور پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ تبصروں کے بجائے اپنی سلامتی اور اندرونی مسائل کے حل پر توجہ دیں.

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ حزب اختلاف کے کسی رکن کی افغانستان میں موجودگی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کبھی امارت اسلامیہ (افغانستان) سے کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی ہے افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس واقعے میں بے گناہوں کی جانوں کے ضیاع پر افسردہ ہیں سیاسی مقاصد کے لیے شہریوں کی جان کی قربانی دینا غیر منصفانہ عمل ہے. یاد رہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ میں بھی کہا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملوں میں ملوث شدت پسندوں کے افغانستان میں ٹیلی فون کالز کرنے کے ثبوت ملے ہیں اور اس واقعے کے حوالے سے مذید شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں .

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل کے 10ویں ایڈیشن کیلیے پشاور زلمی اور معروف فوڈ چین کے درمیان معاہدہ طے پا گیا
  • بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ’را‘ ملوث ہے، رانا ثناءاللّٰہ
  • بلوچستان میں کسی گرینڈ آپریشن کی ضرورت نہیں، رانا ثناء اللہ
  • پی ٹی آئی کو ملک دشمن سیاسی جماعت نہیں سمجھتا، انوار الحق کاکڑ
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کے موقف پر غیرملکی خاتون صحافی کی بیزاری اور سرفراز بگٹی کی ناراضی
  • وی ایکسکلوسیو، ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر بلوچستان میں آپریشن ہوسکتا ہے: انوارالحق کاکڑ
  • بھارت نے ٹرین ہائی جیکنگ سمیت دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کو مستردکردیا
  • قومی اسمبلی میں بلوچستان ٹرین واقعے پر کوئی بات نہیں کررہا، عمر ایوب کا شکوہ
  • سانحہ جعفر ایکسپریس؛ ڈی جی آئی ایس پی آر آج اہم پریس کانفرنس کرینگے