ٹرمپ کے حکم پر 6 امریکی ایجنسیوں کے آپریشنز معطل، وائس آف امریکا بھی بند
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
ٹرمپ کے حکم پر 6 امریکی ایجنسیوں کے آپریشنز معطل، وائس آف امریکا بھی بند WhatsAppFacebookTwitter 0 16 March, 2025 سب نیوز
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائس آف امریکا کی پیرنٹ ایجنسی سمیت 6 دیگر وفاقی ایجنسیوں کو معطل کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے بعد وائس آف امریکا کے متعدد ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 40 سے زائد زبانوں میں کام کرنے والے بین الاقوامی میڈیا براڈکاسٹر وائس آف امریکا کے متعدد کارکنوں نے رائٹرز کے ساتھ ایک ای میل شیئر کی، جس میں انہیں مکمل تنخواہ اور مراعات کے ساتھ انتظامی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکا کی پیرنٹ ایجنسی یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے ہیومن ریسورس ایگزیکٹو کی جانب سے بھیجی گئی ای میلز میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے کام کے احاطے میں داخل نہ ہوں اور نہ ہی داخلی نظام تک رسائی حاصل کریں۔
یہ اقدام ٹرمپ کی جانب سے یو ایس اے جی ایم اور 6 دیگر ایجنسیوں بشمول فیڈرل ثالثی اور مصالحتی سروس ، ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز ، انسٹیٹیوٹ آف میوزیم اینڈ لائبریری سروسز ، یو ایس انٹر ایجنسی کونسل آن ہوم لیس نیس، کمیونٹی ڈیولپمنٹ فنانشل انسٹیٹیوشنز فنڈ اور منارٹی بزنس ڈیولپمنٹ ایجنسی کو ہدایت دی گئی ہے کہ بیوروکریسی کو سکڑنا ضروری ہے، لہٰذا اپنے آپریشنز کو کم سے کم کریں ۔
گزشتہ ماہ ایلون مسک نے ’ایکس‘ پر پوسٹ میں لکھا تھا کہ وائس آف امریکا کو بند کر دینا چاہیے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ٹرمپ اور امریکا
ٹرمپ کے دور اقتدار میں کیا ہوا تھا اور انھیں کیوں ایک کے بعد فوری دوسری بار اقتدار میں آنے سے روکنا پڑا تھا اور پہلے ناکام دورکے بعد عوام نے انھیں ایک وقفے کے بعد ان کو کیسے قبول کر لیا۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کا دنیا میں مانیٹر بننے اور حکم چلانے کے عمل میں خود اس کا اور اس کے حواریوں کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
افغانستان کی جنگ میں کودنے کا عمل دراصل روس سے چلتی ایک طویل سرد جنگ کا نتیجہ تھا جس نے نہ صرف امریکا کو بلکہ دنیا بھر میں تعصب کی جنگ کو ہوا دی تھی۔ لوگوں نے افغانستان میں کی جانے والی خون ریزی کو تسلیم کیا ہو یا نہ کیا ہو، خود امریکی افواج میں اس متعصبانہ رجحان سے نفسیاتی عوارض ناپسندیدگی کی حد تک ابھرے اور یہ تاثر ابھرا کہ امریکا کا اس بڑی جنگ میں اپنا کرتب دکھانے کا عمل کس قدر نقصان کی صورت میں نکلا، جس کے اثر سے آج بھی امریکا اپنا پلو نہیں چھڑا سکا ہے۔
نہ صرف مالی دور پر بلکہ ذہنی و جسمانی کوفت اور اذیت کے نشان امریکی افواج کے اراکین پر نظر آتے ہیں، اس بڑی ناکامی کے بعد بھی یہ عمل رکا نہیں بلکہ کسی اور جانب کا رخ کرگیا۔ بڑی طاقت سے عناد اور ٹکر لینے کا جذبہ امریکا کا پرانا نفسیاتی مرض ہے، اس لیے کہ جب سے برطانیہ کی بادشاہی کا تاج کمزور پڑا، امریکا کو اس کا مقام حاصل کرنے کا چسکا لگ گیا، لیکن یہ آج کی دنیا ہے، یہاں یقینا ماضی کی طرح اب بھی بڑے مظالم قوموں پر ڈھائے گئے ہیں جس کی بڑی مثال غزہ ہے، لیکن ویت نام کی ناکام جنگ نے اسے کوئی سبق نہ دیا اور ایک کے بعد ایک وہ اس طرح کے خونی کھیل میں ڈبکیاں لگاتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان اور پھر اسامہ بن لادن کے ڈراپ سین کے بعد اسے مجبوراً اپنی جانب سے یہ سبق بند کرنا پڑا تھا۔
روس ایک بڑا بھوت بن کر اس کے حواسوں پر ایسا سوار ہوا کہ ماضی تک جو کھیل افغانستان کی آڑ میں چلتا رہا تھا، اب سے یوکرین کے چھوٹے سے پلو سے پکڑنا پڑا اور ہدف تھا روس۔ روس نے یقینا یوکرین کے ساتھ بڑا برا کیا لیکن امریکا نے ایک بار پھر مانیٹرکی ڈیوٹی انجام دینے کی سوچی اور یورپ کے بااثر ممالک کے دروازوں کو بجا کر چوکنا کیا۔
جنگ کے بلند شعلے یورپ تک محسوس کیے گئے۔ پوتن ایک انتہائی ظالم اور مکار انسان ڈکلیئر کردیا گیا جو یوکرین پر پھر سے قبضہ کر کے اپنی حدود بڑھانا چاہتا ہے وہ بھی امریکا کی ناک کے نیچے اور بھلا یہ اسے کیسے گوارا تھا۔ معاملہ بڑھتا گیا امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین کی بھرپور مدد کا اعلان کیا جس کے سہارے ولادیمیر زیلنسکی نے روس جیسے بڑے بھوت سے ٹکر لینے کا عہدکیا، پوتن نے امریکی سرکار کے بڑے دعوے مسترد کر دیے اور وہ رکا نہیں، تب ہی فلسطین کی سرد جنگ شعلوں میں لپٹ کر منظر عام پر آگئی۔
دنیا کے ناظرین کے لیے ایک اور جنگی اسٹیج سج گیا، اب یوکرین اور روس کی جنگ پس منظر میں چلی گئی۔ اس دوران زیلنسکی نے بہت دہائیاں دیں، لیکن بے سود رہیں کہ اچانک امریکی سیاست کا نقشہ بدلتا نظر آتا ہے۔ جوبائیڈن کیا بیمار ہوئے وہاں تو دنیا ہی بدل گئی۔
بدکار، بدفطرت،کرپٹ، چالاک، عیار اور پر تعصب نجانے کن کن القابات کا بوجھ اٹھائے ٹرمپ میدان میں اتر ہی آئے۔ ایک بار پھر منظرنامہ تیزی سے بدلنے لگا۔یوکرین کی حمایت کرنے والا امریکا اب روس کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوکرین پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ روس سے جنگ بندی کر لے اور بدلے میں وہ تمام کڑی شرائط قبول کر لے جو اس کی گردن میں طوق پہنانے کے مترادف ہیں۔
یہ بہت بڑی قلابازی تھی جو ٹرمپ نے آتے ہی کھائی اور دکھا دیا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں الگ سوچتے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلے حملہ روس کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس نے ہی کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ یہ اندھا قانون لاگوکرنے میں دو بڑی طاقتیں ایک ساتھ جڑگئی ہیں۔ جو کچھ جوبائیڈن کرچکے تھے اورکہہ چکے تھے، ٹرمپ اس سے ہٹ کر اپنے لیے نئی روش بنا رہے ہیں۔
پوری دنیا نے زیلنسکی اور ٹرمپ کی اس تکرار کو دیکھا جس میں ٹرمپ نے اپنے منصب سے اتر کر ایسی باتیں کیں جو ان کے امیج کو مزید داغ دار کر گئیں۔ زیلنسکی جوبائیڈن کے دور حکومت تک فارم میں نظر آتے تھے لیکن ٹرمپ کی آنکھیں بدلتے ہی انھیں اپنے ملک کا مستقبل بھی تاریک نظر آنے لگا، دراصل ٹرمپ کی نگاہ کسی اور ہدف پر ہے وہ روس جیسے طاقتور جن کا ہاتھ تھام کر ایشیا میں قدم بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک ایسے کاروباری انسان ہیں جو اپنے نفع کے آگے کچھ نہیں دیکھتا۔
اس منظر میں غزہ بھی ابھرتا ہے جہاں طویل جنگ نے آگ وخون کی ہولی کھیلی لیکن یہاں بھی ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھی بنے نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنے یہودی داماد کے زبردست بزنس پلان سے اس حد تک اتفاق ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
آج ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایسے ایسے شاہکار شامل ہیں جنھیں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا کرپٹ، داغ دارکردار والے شاید امریکا کی تاریخ میں پہلے ایسی ٹیم کبھی نہ دیکھی نہ سنی۔آخر ٹرمپ چاہتے کیا ہیں؟ ٹرمپ کی راہ ماضی کے تمام حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ الگ ہے اور یہ انھوں نے ظاہرکرنا شروع کر دیا ہے۔
وہ خود غرض ہے، انا پرست ہیں یا نہیں لیکن امریکا اور اپنی قوم کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے، وہ کسی بھی طرح اپنے ملک اور امریکی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں، انھیں فکر ہے تو اپنے ملک کے سرمائے کی جسے وہ کسی کمزور ہوتے ملک یا قوم کی بھلائی، سدھارکے لیے استعمال کرنے سے گریزکرتے ہیں۔
اس لیے کہ وہ امریکا کوگریٹر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔ وہ ایک چال باز بزنس مین کی طرح چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لادنا چاہتے ہیں، امپورٹ ڈیوٹی بڑھنے سے سستی اشیا مہنگی ہوکر عوام کو مشکلات میں ڈال دے گی، لیکن چین کو زیرکرنے کے لیے کاروباری ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے اسی طرح کی کاروباری چالیں وہ اپنی پہلی باری میں بھارت کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کر چکے ہیں۔
ٹرمپ عوام کے لیے کیسے بھی ہوں، انھیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن ان کے اپنے دماغ میں جو بات بیٹھ گئی ہے وہ اسے پورا کرنے میں مستعد ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلی بار 2017 میں کامیاب ہونے کے بعد 2021 میں وہ اس تخت سے دور ہوگئے تھے اور اس میں ان کی جو غلطیاں تھیں وہ آج بھی انھی پرکاربند ہیں کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدل سکتے۔
کاروبار چلانے کے لیے تمام حربے اختیارکرنا انھیں خوب آتا ہے لیکن ملک چلانے کے لیے وہ کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتائج دنیا پر کس طرح اپنے اثرات مرتب کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ انسانی عقل و شعور اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا دنیا ایک گریٹر امریکا کو دیکھ سکے گی یا ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث امریکا کی ریاستیں دور ہو جائیں گی اس لیے کہ فیصلہ قدرت کا ہوتا ہے لیکن وہ انسانوں سے ہی یہ فیصلے کرواتی ہے۔