سانحہ جعفر ایکسپریس بانی پی ٹی آئی نے مذمت نہیں کی: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نیٹ نیوز) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ شریف اللّٰہ کی حوالگی کا ٹرین واقعے سے کوئی تعلق ہو۔ ہو سکتا ہے کہ دہشت گردوں کو دکھ ہو کہ شریف اللّٰہ کو کیوں امریکا کے حوالے کیا گیا۔ پی ٹی آئی سانحہ جعفر ایکسپریس پر پروپیگنڈا کررہی ہے۔ اتنے روز گزرنے کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی نے واقعے کی مذمت نہیں کی، وہ جیل سے 3 اور 4 صفحات کے خط لکھتے ہیں، اخبارات میں آرٹیکل اور بیانات دیتے ہیں لیکن قومی سانحے کی مذمت نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے بانی پی ٹی آئی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی پارٹی کا موٹو بن چکا ہے کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں۔ بانی پی ٹی آئی دہشت گردوں کو افغانستان سے لائے اور اپنے اقتدار کی ضمانت لی تھی۔ (اے پی سی) میں شرکت پی ٹی آئی نے مشروط کی ہے، ان کا موقف ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو پے رول پر لایا جائے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیاں لگانا نامناسب بات ہے، حکومت نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے، ہفتے دس دن میں معاملہ حل ہو جائے گا، کوشش ہے کہ سفری پابندی نا لگے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی
پڑھیں:
11مارچ2025 کا المناک واقعہ!
دہشت گردی کے خونی اور خونریز واقعات و سانحات نے پاکستانیوں کی زندگیاں اجیرن اور غیر محفوظ بنا رکھی ہیں ۔ ہماری سیکورٹی فورسز کے جوان اور افسران دہشت گردی کا ٹیٹوا دبانے اور دہشت گردوں کے سر کچلنے کے لیے دن رات قربانیاں دے رہے ہیں ۔ کئی کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔
بد قسمتی سے مگر دہشت گردی کا طوفان رکنے اور تھمنے کی بجائے مسلسل آگے بڑھ اور پھیل رہا ہے ۔ قوی اندیشے اور خدشے ہیں کہ دو ممالک ( بھارت اور افغانستان) پاکستان کے خلاف دہشت گردی ، دہشت گردوں اور خوارج کو اعانت ، استعانت اور بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ مُلّا طالبان کا افغانستان، بدقسمتی سے، پاکستان کے خلاف ایک کوڑھ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ اِن سب عوامل نے رَل مل کر عالمی ادارے (Global Terrorism Index2025) کو حال ہی میں یہ کہنے ، لکھنے اور انکشاف کرنے پر مجبور کیا ہے کہ پاکستان دُنیا کے اُن ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ اور ہلاکت خیز دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ مشاہدات و حوادث اِس عالمی رپورٹ کی تردید بھی نہیں کررہے ۔
11مارچ2025کو تو حد ہی ہو گئی ۔ پاکستان میں پشاور کاAPSکا نہائت خونریز سانحہ بھی ہو چکا ہے ، جسے خونی دہشت گرد ٹی ٹی پی کے وابستگان نے انجام دیا۔ ہم سب پاکستانی مگر یہ کمر شکن واقعہ بھی برداشت کر گئے ۔ لیکن اب11مارچ کی دوپہر جس سانحہ نے جنم لیا ہے ، اِس نے تو گویا ملک دشمنی اور دہشت گردی کی ساری سرحدیں ہی عبور کر لی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ، پاکستانی عوام اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے صبر کا پیمانہ چھلک اُٹھا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا ۔
11مارچ کو بلوچستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقے(بولان،مچھ) میں کوئٹہ سے پشاور آنے والی ٹرین( جعفر ایکسپریس) کو دہشت گردوں نے مبینہ طور پر440مسافروں سمیت اغوا اور یرغمال بنا لیا ۔اِس واقعہ اور سانحہ کی بنیاد پر پوری پاکستانی قوم ، حکومت اور سیکورٹی ادارے دو روز تک (11تا12مارچ) مسلسل جانگسل آزمائش کی سُولی پر لٹکے رہے ۔
دو روز تک ہی بی بی سی اور سی این این وغیرہ ایسے عالمی خبر رساں اداروں میں جعفر ایکسپریس کے یرغمال بنائے جانے کی خبر بازگشت بن کر سنائی دیتی رہی ۔ بھارتی میڈیا نے ، حسب ِ عادت ، پاکستان کے خلاف کذب گوئی اور جعلسازی کے لاتعداد طوفان برپا کیے رکھے ۔ یہاں تک جھوٹ بول دیا کہ ’’جعفر ایکسپریس‘‘ میںپاک فوج کے100 جوان سوار ہیں اور سب کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ایسے میں جھوٹے ہمسائے، بھارت، سے بھلا کیسے اور کیونکر مناسب ، سفارتی اور معمول کے تعلقات اُستوار کیے جا سکتے ہیں؟
اب یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ ’’جعفر ایکسپریس‘‘ کا سانحہ BLA( بلوچستان لبریشن آرمی) ایسی عالمی دہشت گرد تنظیم کے بدمعاشوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہُوا ہے ۔ ہر محبِ وطن پاکستانی اِس دہشت گرد گروہ پر لعنتیں بھیج رہا ہے ۔ لگتا تھا کہ اغوا کار اور مسافروں کے یرغمال کنندگان اپنے مذموم اور ملعون عزائم میںکامیاب ہو جائیں گے ، مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں نے واقعی معنوں میں اپنی جانوں پر کھیل کر بدمعاشوں اور ملک دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے ۔
الحمد للہ ۔ہر پاکستانی کا دل اور آنکھ اِسی سانحہ کے نتائج و عواقب پر ٹکا ہُوا تھا ؛ چنانچہ ایسے پُر آزما لمحات میں DGISPRقوم کے سامنے آئے اور سب کو حقائق اور حملہ آور دہشت گردوں کے خلاف جملہ آپریشن بارے آگاہ کیا ۔ اُن کے مطابق:اِس سانحہ میں مجموعی طور پر 58افراد کام آئے ہیں: 33حملہ آور دہشت گرد جہنم واصل کیے گئے ، 21بدقسمت مسافر اور4سیکورٹی جوان شہید ہُوئے ہیں ۔ بقول ڈی جی آئی ایس پی آر، جعفر ایکسپریس پردہشت گردحملہ آوروں کے خلاف بروئے کار آنے والے ملٹری آپریشن سے قبل ہی جہنمی و ملعون دہشت گرد21مسافروں اور(ایف سی) کے تین سیکورٹی جوانوں کو شہید کر چکے تھے۔ آپریشن کے دوران صرف ایک جوان شہید ہُوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب شہدا کی شہادتوں کو قبول و منظور کرتے ہُوئے اُن کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین۔
جعفر ایکسپریس کا سانحہ پاکستانی تاریخ کا سب سے پہلا، منفرد اور المناک ترین واقعہ و سانحہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جتنا بڑا سانحہ تھا، اتنا ہی بڑا آپریشن اِس کے خلاف بروئے کار آیا ہے ۔ دو دن مسلسل عالمی خبر رساں اداروںمیں بلوچستان کے مذکورہ دہشت گردوں اور اُن کی تنظیم کا نام گونجتا رہا ۔ اب یہ خونی اور خونریز جسارت کرنے والوں اور اُن کے ماسٹر مائنڈز کا پوری طاقت سے تعاقب کرکے قلع قمع کرنا از بس ضروری ہو چکا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے ایک بار پھر ملک اور عوام کے سامنے سرخرو ہُوئے ہیں۔ دہشت گردوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے ۔
یہ بات تو سامنے لائی گئی ہے کہ 33حملہ آور دہشت گردوں ( بی ایل اے کے وابستگان)کو جہنم واصل کردیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا جارہا کہ حملہ آوروں کی کُل تعداد کتنی تھی ؟ کچھ بچ نکلنے میں کامیاب بھی رہے یا سبھی کو مارڈالا گیا ؟ کچھ عالمی ادارے حملہ آوروں کی تعداد80بتا رہے ہیں۔اب یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ بلوچستان میں بروئے کار ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں بارے قوم کے ہر فرد کو آگاہ کیا جائے ۔اب اِن بدمعاشوں اور اِن کے سرپرستوں بارے دستیاب معلومات کو قالین کے نیچے دھکیل کر وقتی طور پر آنکھیں بند کرنے کا وقت گزر چکا ہے ۔ اب اِس عفریت کو اُس کے سینگوں سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دینے کے لمحات آ پہنچے ہیں۔
11تا12مارچ2025 جنم لینے والے جعفر ایکسپریس سانحہ نے بہت کچھ بے نقاب بھی کر ڈالا ہے ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک بیٹھے کچھ شر پسند اور ملک دشمن عناصر نے اپنے ٹویٹس اور ویلاگز کے ذریعے اپنے خبثِ باطن کا مسلسل اظہار کیا ہے ۔ ہمیں اِن سب کے چہرے پہچاننا ہوں گے ۔ ہمارے سیکورٹی اداروں کو بھی اِن کے چہرے ، حقائق کے ساتھ، قوم کے سامنے پیش کرنے چاہئیں ۔ وزیر اطلاعات ، عطا تارڑ، نے بجا کہا ہے کہ ’’ سانحہ جعفر ایکسپریس کے پس منظر میں کا لعدم ٹی ٹی پی، پی ٹی آئی کے کچھ لوگ اور بھارتی میڈیا ایک ہی زبان بولتے نظر آئے ۔
افسوس ۔کئی ممالک نے بیک زبان 11مارچ کے سانحہ کی سخت مذمت کی ہے ، لیکن کچھ استفسارات نے بھی ساتھ ہی سر اُٹھایا ہے ۔ مثال کے طور پر: (1) وزیر ریلوے ، حنیف عباسی ، سارے منظر سے تقریباً غائب ہی رہے۔ کیوں؟ (2)سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، اختر مینگل ، نے اِس سانحہ کے حوالے سے ایک غیر مناسب ٹویٹ کیوں کی ؟ یہ نوبت کیوں آئی ؟(3)وزارتِ داخلہ میں اب تو تین وزیر بروئے کار ہیں ۔ اِن تینوں نے اِس سانحہ بارے قوم کو کتنا آگاہ کیا؟ کتنی ڈھارس بندھائی؟ (4)قومی اسمبلی میں اپوزیشن قوم و ملک کو درکار کردار ادا کرنے میں کہاں تک سرخرو ٹھہری؟
جعفر ایکسپریس سانحہ کی مذمت کرنے کے حوالے سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، وزیر اعظم و صدرِ پاکستان کے ساتھ ساتھ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے جس یکجہتی اور ہم نوائی کا مظاہرہ کیا ہے، قابلِ ستائش ہے ۔ اگر اِن آوازوں میں پی ٹی آئی ، بانی پی ٹی آئی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی آوازیں بھی نمایاں طور پر شامل ہو جاتیں تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ، سرفراز بگٹی، نے اِس سانحہ کے موقع پر بلوچستان اسمبلی میں جو درد مندانہ خطاب کیا ہے ، اِس کی تحسین نہ کرنا بے انصافی ہوگی ۔