WE News:
2025-03-16@09:13:23 GMT

بدمست ہاتھی اور ایڈونچرازم

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

ملک میں پہلا مارشل لا تو سنہ 58 میں لگا لیکن 1953 میں ملک کے پہلے ڈی ایچ اے کی داغ بیل کراچی میں ‘ڈی او سی ایچ سی’ کے نام سے ڈالی جا چکی تھی اور پھر یہ ڈی ایچ اے ایک بدمست ہاتھی کی طرح شہر کو روندتا ایسا چلا ایسا چلا کہ نہ برساتی نالے بخشے گئے، نہ سمندر کی آبی حیاتیات یا تمر کے جنگلات پر رحم کھایا گیا اور نہ ریتیلے ساحل کی افادیت کو سمجھا گیا۔ نتیجہ سب نے دیکھا کہ جب جب کراچی میں کُھل کر مینہ برسا، شہر بھر سے برسات کا پانی جو پہلے برساتی نالوں سے ہوتا ہوا سیدھا سمندر کا رخ کیا کرتا تھا، شہر کی مقامی آبادیوں میں آن گھسا، کیا مکان، کیسا کاروبار اور کاہے کا روزگارِ زندگی، سبھی کو تہس نہس کرکے وہیں جم کے کھڑا ہوگیا، دوسری جانب خود ڈی ایچ اے کے عالی شان فیز دنوں دریا بنے رہے جن میں گٹروں کے ملبہ کی بھی آمیزش رَستی رہی، شہر کو سوسائیٹیوں میں تقسیم در تقسیم کرنے کی روایت کیا پڑی کہ شہر کی پرانی آبادیوں کا بیڑا غرق ہوتے بھی سب نے ہی دیکھا، وہی علاقے، کالونیاں، نگر اور آباد جو کبھی صفائی ستھرائی اور طور طریقوں میں اپنا جداگانہ مقام رکھتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکوں، ابلتے گٹروں اور خستہ حال محلوں میں تبدیل ہوتے گئے اور صاحب استطاعت گھرانے پوش سوسائیٹیوں میں منتقل ہونے لگے، اب ایک بڑا ڈی ایچ اے سٹی کا بورڈ کراچی سے 50 میل کے فاصلے پر حیدرآباد کے راستے میں اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ایستادہ نظر آتا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ زمین پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، حیدرآباد پہنچتے پہنچتے کئی الا بلا و فلاں اداروں کی گیٹڈ سوسائیٹیاں (پھاٹک بند سوسائیٹیاں) نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں، درخت، پھول پودے، سبزہ اکھاڑ کر زمین کو تپتی، کُھولتی سِلوں میں تبدیل کرنے کا عمل رکتا دکھائی نہیں دیتا، اب Special Investment Fascilitation Council کے زیر انتظام پیش خدمت ہے ‘سبز پاکستان’ منصوبہ۔

ادارہِ عقل کُل کا یہ کیسا ‘گرین پاکستان’ منصوبہ ہے جہاں ریگستان کو بسانے کے لیے سندھ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین، پانی کی قلت پیدا کرکے مزید اجاڑنے کے تیاریاں زور و شور سے جا ری ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ کو کئی سال سے 1991 کے پانی کے معاہدے کے طے شدہ 48 ملین ایکڑ فیٹ سے 20 فیصد کم پانی مل رہا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں انسان پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے، اب یہ سبز پاکستان منصوبہ ان سے جینے کی آخری امید چھیننے کو تیار بیٹھا ہے، وہیں پنجاب کی زمینوں پر صدیوں سے زراعت کرنے والے ہاریوں کو بے دخل کرنے کے لیے الگ اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں، تاکہ عوام کی زمینوں کو ‘کارپوریٹ فارمنگ’ جیسے چمکیلے دمکیلے الفاظ کا روپ دے کر بنا ڈکار لیے ہڑپ کیا جاسکے۔

سندھ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کو بنجر بنانے کے لیے اربوں روپے کی انویسمنٹ کی گئی ہے اور عوام کو گرین پاکستان کے سبز خواب دکھا کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ حکومتِ وقت بھی ارباب اختیار کے آگے دست بستہ کھڑی ہے کہ کہیں سرکار ان کی کرسی نہ کھینچ لے، سو سب ہی کان، آنکھ، منہ حتیٰ کہ ناک بھی بند کیے چپ سادھے بیٹھے ہیں کہ کہیں عوامی غیض و غضب کی ہوا ان کے نتھنوں سے نہ ٹکرا جائے۔

ماڈرن اسٹائل میں جب اسے ‘گرین پاکستان’ کہا جارہا ہے تو عام لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ واہ بھئی واہ کیا گلستانی منصوبہ ہے کہ ایک دورافتادہ ریگستان (چولستان) کو کیسی سہولت سے ہرے بھرے گلشن میں تبدیل کردیا جائے گا، بس ذرا سُتلج دریا سے پانی کھینچ کر 6 نہروں کی دھاریں چولستان کی جانب موڑ دی جائیں گی اور تیار ہے قابل کاشت ‘کاروباری زرعی زمین’۔ اب ان داناؤں سے پوچھیں کہ سُتلج میں پانی ہے کہاں بھلا؟ پانی تو دراصل سندھو دریا سے کاٹا جائےگا، جو پہلے ہی اُجڑے دیار میں بدل چکا ہے۔ دوسرا سوال کہ کیا چولستان میں یہ معرکہ سرانجام دینے کی صورت میں کیا ہاریوں، مزارعوں اور کسانوں کا بھی کوئی فائدہ ہوگا؟ جی نہیں قطعی نہیں۔ یہ زمینیں ملک کا کرتا دھرتا ادارہ بین الاقوامی اور قومی سرمایہ داروں کو لیز پر دے گا جن کی مالیت کروڑوں یا اربوں روپے ہوگی تو پھر کہاں کے کسان اور کون سے ہاری؟ سارا معاملہ بندر بانٹ کا ہے نہ کہ عوام کی بھلائی یا خوش حالی کا۔

آج سے 4 دہائیاں قبل جنوبی سندھ میں ‘ایل بی او ڈی’ نامی منصوبہ بدین اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لیے بدترین تباہی کا مؤجب بنا تھا، بدین کے بظاہر اَن پڑھ لیکن دوراندیش اور موحولیاتی تبدیلیوں سے واقف کسان اور ماہی گیروں کے واویلوں کے باوجود حکومتی اور بین الاقوامی اداروں کی عاقبت نااندیشی کے باعث بدین کے میٹھے پانی کی جھیلیں سمندری پانی سے کئی گنا زیادہ نمکین ہوگئیں اور آبی حیاتیات تڑپ تڑپ کر مر گئے تو دوسری جانب بدین کی قابل کاشت زمین سیم و تھور سے آج بھی بنجر پڑی ہے۔

گرین پاکستان کی تفصیلات پڑھ کر ملتان کا ڈی ایچ اے یاد آگیا جہاں چند برس قبل ہزاروں ایکڑ پر پھیلے میٹھے رسیلے آم کے باغات کاٹ کر پتھر کی سلوں کا ایک وسیع و عریض شہر بسایا گیا اور اب خوبصورتی کے نام پر جھاڑیاں اگائی جارہی ہیں۔

سندھ میں گرین پاکستان کے منصوبے کے خلاف کیا سیاسی کارکن تو کیا قوم پرست، کیا بچے تو کیا بوڑھے، اور کیا عورتیں بچیاں سب ہی یک زبان ہیں۔

آج سے دو تین دہائیاں قبل کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے کوٹری بیراج یا جام شورو سے گزرتے تھے تو بپھرا ہوا دریائے سندھ اپنی پرزور جوانی پر نازاں حسینہ کی مانند ہمیشہ جولانی پر ہوا کرتا تھا، اب بھی انہی بیراجوں سے گزر ہوتا ہے لیکن حدنگاہ تک سوکھی زمین پر مٹی کے جابجا ٹِیلے نظر پر گراں گزرتے ہیں، سندھ کے عوام نے پتھروں کو کاٹتے، بل کھاتے، جھلملاتے، لہلہاتے، مسکراتے، گنگناتے سندھو دریا کے جوبن کو رفتہ رفتہ رہ زنوں کے ہاتھوں صحرا بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو اب اگر ان کے سینوں میں غم و غصے کی لہریں موجزن ہیں تو کیا عجب بات ہے؟

ملک ایک فیڈریشن ہوتا ہے، وفاق صوبوں کے مفادات و نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع وعریض اور مہنگے منصوبوں کا بیڑا اٹھاتا ہے۔

جیسا کہ ماضی میں ون یونٹ یا کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی گئی تھی، اسی طرح آج گرین پاکستان کے علاوہ SIFC کے تحت شروع ہونے والے مزید چار منصوبوں کی بھی مخالفت زوروں پر ہے اور ان تمام منصوبوں کی شفافیت پر سینکڑوں سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ جن لوگوں کو ان منصوبوں سے فائدہ یا نقصان کا احتمال ہے ان سے رابطہ کاری یا گفت و شنید نہیں کی گئی نہ ہی ماحولیاتی ماہرین سے کوئی رائے طلب کی گئی؟

اگر سندھ کے عوام سندھو دریا کے سوکھنے پر بین کرتے ہیں تو یاد رکھیے بین الاقوامی قانون کے مطابق دریا کے نچلے علاقوں پر دریا کے پانی پر حق زیادہ ہوتا ہے۔

ان کا یہ خوف بھی بجا ہے کہ جب دریائی پانی سمندر تک نہیں پہنچتا تو پھر سمندری پانی ساحلی علاقوں پر چڑھ آتا ہے جسے اچھی بھلی زرعی زمین بھی سیم تھور کا شکار ہو کر بنجر ہو جاتی ہے۔

پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہو چکی ہے اگر اسی طرح ہم اپنی زرعی زمینوں پر بلڈوزر چلا کر کنکریٹ کے ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن بناتے رہیں گے یا اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے چولستان جیسے ایڈونچر کرتے رہیں گے تو ملک میں غذائی قلت ہی نہیں قحط کی صورت حال پیدا ہونے میں بھی وقت نہیں لگے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

wenews ایڈونچر ازم بحریہ ٹاؤن بدمست ہاتھی ڈی ایچ اے کراچی کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایڈونچر ازم بحریہ ٹاؤن بدمست ہاتھی ڈی ایچ اے کراچی کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں وی نیوز گرین پاکستان بین الاقوامی دریا کے کی گئی کے لیے

پڑھیں:

صدر زرداری کا خطاب

صدر آصف زرداری نے سندھ میں چولستان کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے خلاف احتجاج کی تپش کو محسوس کر ہی لیا۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ صدر زرداری نے اپنے صدارتی خطاب میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کی۔

انھوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ یکطرفہ ہے، وہ بحیثیت صدر حکومت کی اس پالیسی کی حمایت نہیں کرسکتے، اگرچہ گرین پاکستان کے تحت چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کی سب سے پہلے ایوانِ صدر جس کی صدارت صدر آصف زرداری کر رہے تھے والے اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس وقت کئی مبصرین نے ایوانِ صدر میں صدر زرداری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھائے تھے مگر ایوانِ صدر اور پیپلز پارٹی کے قائدین نے اس اجلاس پر ہونے والی تنقید پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ مگر اب صدر آصف زرداری نے صدارتی خطبے میں اس بارے میں خاموشی ختم کردی۔ چولستان فارمنگ گرین پاکستان انیشی ایٹو Green Pakistan Initiative کا پہلا حصہ ہے۔

GPI منصوبہ کا آغاز 2023میں ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت زرعی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مدعوکرنے اور کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت چولستان کے ریگستانی علاقے کی 5 ہزار سے زیادہ ایکڑ زمین سیراب ہوسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے حکومت پنجاب کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اس منصوبے کو عملی شکل دی تھی۔ اس منصوبے کے لیے فوری طور پر دو نہروں کی تعمیر ہونی ہے۔ حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ ان دنوں نہروں کو دریائے ستلج میں آنے والا سیلابی پانی فراہم کیا جائے گا۔

جب 60ء کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا ۔ اس معاہدے کے تحت دریائے ستلج کو بھارت کے حوالے کردیا گیا اور اسی معاہدہ کے تحت بھارت سیلاب کی صورت میں پانی دریائے ستلج میں پھینکتا ہے جس سے جنوبی پنجاب کے علاوہ اپر سندھ میں بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت چشمہ بینک کینال سے 6 نہریں نکالی جانی تھیں۔ سندھ کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان میں سے 4 نہریں تعمیر ہوچکی ہیں۔ پنجاب کے محکمہ آبپاشی نے یکم جنوری 2024 کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی سے سیلابی پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہے۔ حکومت سندھ نے ارسا کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کے اختیار کو چیلنج کیا تھا۔ سندھ حکومت کا واضح مؤقف ہے کہ 1991 میں ہونے والے پانی کے معاہدے کے تحت ارسا کا ادارہ اس طرح کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ارسا کے افسر اعلیٰ نے حکومت پنجاب کو جاری کردہ سرٹیفکیٹ میں واضح طور پر تحریرکیا ہے کہ اس نہر میں خریف کے سیشن میں پانی دستیاب ہوگا اور اس نہر کو سیلابی پانی ملے گا۔

 دریائے سندھ کے امور پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے ایک ممتاز رہنما نصیر میمن کہتے ہیں کہ اس نہر کے پی سی ون کی دستاویز میں اس نہر کو Perennial Canalکا درجہ دیا گیا ہے۔ Perennial-I ایسی نہر ہوتی ہے جس میں سارا سال پانی موجودہ ہوتا ہے۔ اس وقت سندھ کو 13.7 فیصد اور پنجاب کو 19.4 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے اور دریائے سندھ گزشتہ کئی عشروں سے خشک سالی کا شکار رہا ہے، اس بناء پر اس منصوبے کے لیے بڑے پیمانہ پر پانی کی فراہمی کا واضح مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ سے اس منصوبے کے لیے پانی فراہم کیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ پھر اس منصوبے پر چولستان کے مقامی کسان جو صدیوں سے آباد ہیں وہی احتجاج کررہے ہیں۔ ان افراد نے لاہور ہائی کورٹ کی بہاولپور بنچ میں دائر کی جانے والی عرض داشتوں میں اب سوال اٹھایا ہے کہ ان سے زمین چھینی جارہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے نوجوان صحافی جودت سید کی رپورٹ کے مطابق دریائے ستلج گنڈا سنگھ والا کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے، سلیمانکی ہیڈ جو بہاولنگر سے گزرتا ہے اس کے مقام پر بھی پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے، ہیڈ اسلام بہاولپور سے پہلے واقع ہے اس میں بھی پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے جب کہ پنجند ظاہر پیر کے مقام پر قائم ہے یہاں بھی پانی کا بہاؤ آمد اور اخراج صفر ہے۔

اسی طرح سے دریائے راوی جو ہیڈ سدھنائی کے مقام پر جنوبی پنجاب میں آتا ہے یہاں بھی پانی کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے جس میں صرف 1600 کیوسک پانی دستیاب ہے جب کہ دریائے چناب جو ملتان اور مظفرگڑھ کی زرخیز زمینوں کو آباد کرتا ہے اس میں بھی ہیڈ تریموں کے مقام پر پانی کی آمد اور اخراج صفر ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر پانی کی آمد 26 ہزار کیوسک ہے جس میں گزشتہ ریکارڈ کے مطابق 80 فیصد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔ حکومت سندھ کے اعتراض کے بعد وفاقی حکومت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل میں لے جانا چاہیے تھا مگر وفاقی حکومت اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نہیں ہے، یوں معاملات پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ واپڈا کے ایک سابق چیئرمین پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے سربراہ رہے جو ہمیشہ کالا باغ ڈیم کے فوائد بیان کرتے رہے۔

وفاقی حکومت کی فیصلہ سازی نے اس تقرر کے لیے سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے اس تقررکے خلاف احتجاج کیا تو وزیر اعظم کو اس فیصلے کو منسوخ کرنا پڑا ۔ جب میاں نواز شریف 90ء کی دہائی میں پہلی دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما جام صادق وزیر اعلیٰ تھے اور سینیئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان صدر کے عہدے پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت وفاق کی نگرانی میں چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ایک) قانون کے ذریعہ قیام عمل میں آیا تھا۔ ارسا کے قانون کے تحت اس ادارے میں چاروں صوبوں کو نمایندگی دی گئی تھی۔

اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے ارسا کی ہیت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ترمیمی آرڈیننس تیار کیا تھا۔ اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت اس کا چیئرمین خود مختار حیثیت کا حامل نہیں ہوگا بلکہ چیئرمین کے مستقبل کا انحصار وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوگا۔ اس ترمیم کے بعد گریڈ 21 کا افسر ارسا کا چیئرمین ہوسکتا تھا۔ چیئرمین ارسا ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کرنے کا مجاز ہوگا جس میں ماہرین شامل ہونگے۔ اس مسودے کی شق 8 کے تحت تکنیکی ماہرین کی کمیٹی 10دن میں تکنیکی بنیادوں پر پانی کی تقسیم کا طریقہ کار اختیار کرے گی اور ہر صوبے کو پانی کی فراہمی کا فیصلہ یہ تکنیکی کمیٹی کرے گی۔ اس مسودے کی شق 7 کے تحت صوبائی اراکین کا کردار مزید محدود ہوجائے گا۔

اصولی طور پر وفاقی حکومت کو اس اہم قانون کے مسودہ کو صوبوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنا چاہیے تھا مگر حکومت نے آئینی ادارہ کو نظرانداز کیا۔ اس وقت تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف مہم کا حصہ رہے ہیں، انھیں اس قانون کے چھوٹے صوبوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ تھا۔ اس بناء پر انھوں نے اس قانون پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ پیپلز پارٹی نے اس مسودہ قانون کے خلاف زبردست مہم شروع کی تھی۔

سندھ اسمبلی نے قوانین مسودہ کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی تھیں مگر جب دوبارہ مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت بنی تو اس نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور دیگر رہنما مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے مگر حکومت آئینی راستہ اختیار کرنے کے بجائے انتظامی احکامات سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگرچہ صدر زرداری کی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو افطار ڈنر پر مدعو کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ چولستان کنال کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا ۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب اسمبلی نے محفوظ شہید نہر کی تعمیر سے سبز انقلاب کی نوید سنا دی
  • اسپیس اسٹیشن پر پھنسے خلا بازوں کو واپسی پر دردناک صورتحال کا سامنا، ہڈیاں تبدیل ہوگئیں
  • شگر، عمائدین تسر کا دانش اسکول کے لیے فری زمین دینے کا اعلان
  • پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟
  • صدر زرداری کا خطاب
  • سندھ کو پانی کم ملے گا تو کراچی کو بھی کم ملے گا، جماعت اسلامی
  • صدر آصف زرداری نے کسی کینال کی منظوری نہیں دی، جام خان شورو
  • سندھ کو پانی کم ملے گا تو کراچی کو بھی کم پانی ملے گا، محمد فاروق
  • دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش