WE News:
2025-03-16@10:59:58 GMT

خوشامد کی ‘انڈسٹری’ کے قلم مزدور

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

پاکستان میں شاعروں، ادیبوں کی طرف سے حکمرانوں کی خوشامد کی صنعت نے ایوب خان کے دور میں خاصی ترقی کی، اس موضوع پر گزشتہ چند سال سے مسالہ اکٹھا کررہا ہوں جو ہوتے ہوتے اتنا ہوگیا ہے کہ کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس مواد نے حیرت کے کئی در وا کیے، بڑے بڑوں کے بھرم ٹوٹے، آج میں نے دو معروف فکشن نگاروں اشفاق احمد اور ممتاز مفتی کے رشحات قلم کے بارے میں کچھ لکھنے کی ٹھانی ہے جس میں انہوں نے ایوب خان کی خوشامد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی البتہ یہ تحریریں ان کی کسرِ شان کا باعث ہیں۔

اشفاق احمد کی خوشامد کا نمونہ ہفت روزہ ‘لیل ونہار’ کے 25 اکتوبر 1959 کے شمارے میں محفوظ ہے، یہ رسالہ پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کا تھا جس پر فوجی حکومت نے قبضہ کیا تو سبط حسن کی جگہ اشفاق احمد اس کے ایڈیٹر ہوگئے تھے، ان کے زمانہ ادارت میں ایوب خان کے ‘انقلاب’ کا ایک سال مکمل ہونے پر ‘لیل ونہار’ میں نظم ونثر میں ایوب خان کے قصیدے رقم ہوئے جن کا آغاز ہی اداریے سے کیا گیا۔

اس میں مارشل لا سے پہلے کے حاکموں کو دراز دست لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد صفحہ پلٹنے پر حفیظ جالندھری کی نظم ‘رہبر ہے ایوب’ سے سامنا ہوتا ہے، اس سے یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو:

‘ہم ہیں اپنے باغ کے مالی

اپنی منزل ہے خوش حالی

رہبر ہے ایوب

رہبر ہے ایوب ہمارا رہبر ہے ایوب

دریاؤں کے منہ موڑیں گے

طوفانوں کے سر توڑیں گے

کرلیں گے مغلوب

کوئی بھی ہو اس راہ میں حائل

کرلیں گے مغلوب

خوش حالی ہے اپنی منزل

رہبر ہے ایوب

رہبر ہے ایوب ہمارا رہبر ہے ایوب

بڑھتے چلو چڑھتے چلو

تیز چلو، تیز چلو

اور تیز

اور تیز’

اس نظم سے گزریں تو احسان دانش کے کلامِ بلاغت نظام سے واسطہ پڑتا ہے جس کا عنوان ‘انقلاب زندہ باد’ ہے جو شروع ہی اس شعر سے ہوتا ہے:

ہر تیرگی میں جلوہ نما انقلاب ہے

ہر درد لادوا کی دوا انقلاب ہے

حفیظ نے اپنی نظم میں ‘تیز چلو تیز چلو اور تیز اور تیز’ کی بات کی تھی جسے قتیل شفائی نے ‘ندائے منزل’ میں ‘رفتار کو اور بھی تیز کرو’ کہہ کر اٹھایا ہے۔

اس پرچے میں ایوب خان اور ان کے انقلاب کی مداحی کا مضمون فاضل لکھاریوں نے سو رنگ سے باندھا ہے لیکن ان کا زور سخن اشفاق احمد کے ‘صدر مملکت کے ساتھ چند لمحے’ کے پاسنگ بھی نہیں۔ کہنے کو تو یہ انٹرویو تھا جس کے بیچ بیچ میں اشفاق احمد بھٹی بھی کرتے رہے جو مضحکہ خیز صورت اختیار کر جاتی ہے، اس پیرایہ اظہار کے چند نمونے دیکھیے:

‘میں نے ان کے ساتھ ہاتھ ملایا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ ایک نبرد آزما کا پنجہ ہی نہیں ایک شفیق اور مخلص انسان کا ہاتھ بھی ہے، میں اپنے ہاتھ پر اب بھی اس محبت بھرے ہاتھ کا لمس محسوس کررہا تھا جس نے مجھے یہ آسودگی بخشی تھی، میں نے اپنا سوالنامہ کاغذ کی تہوں سے نکالتے ہوئے کہا، سب سے پہلے تو ملک میں انقلاب لانے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد قبول کیجیے اور ہمیں شکر گزار ہونے کا موقع دیجیے کہ آپ نے عین وقت پر ہماری دست گیری کی اور ملک کو تباہی و بربادی سے بچایا’۔۔۔صدر مملکت کے منہ سے اردو کے ایسے جملے سن کر میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور میں نے یگانگت محسوس کرتے ہوئے پوچھا: ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ ہم کس طرح سے آپ کی مدد کریں اور کیسے ملک کے کام آئیں۔

اشفاق احمد بڑی لجاجت سے جناب صدر کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کی گزارش بھی کرتے ہیں۔

اس شمارے میں آغا بابر کا مضمون ‘کچھ تحریر میں انقلاب’ شامل ہے۔ اس میں انہوں نے اہل قلم کو رائج سیاسی تراکیب کا استعمال ترک کرنے کی تاکید کی ہے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ تقسیم ہند نہیں لکھنا چاہیے کہ یہ بات دشمن کی اڑائی ہوئی ہے، اس کے بجائے ہمیں قیام پاکستان اور حصولِ آزادی لکھنا چاہیے، آغا بابر دانا آدمی تھے لیکن پھر بھی اقبال کے اس شعر کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

انہی آغا بابر کا ڈراما ‘بڑا صاحب’ (گوگول کے ڈرامے انسپکٹر جنرل سے ماخوذ) بھی میرے ذخیرے میں موجود ہے جس کا انتساب کچھ یوں ہے:

‘نئے دور کے خالق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے نام’

اس کتاب کے سرورق پر جلی حروف میں یہ عبارت بھی درج ہے:

‘انقلاب اکتوبر سے قبل یہ ڈراما پیش کرنا ناممکنات میں سے تھا، اسے لکھنے اور کھیلنے کی جرات نئے دور نے دلائی۔’

اب آجاتے ہیں ممتاز مفتی کے خوشامدی ادب پر۔ ‘پاک جمہوریت’ کے نام سے ایک کتابچہ میرے سامنے ہے جس میں ممتاز مفتی کا مضمون شامل ہے، اس میں انہوں نے ایوب خان کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں، اس نثر پارے سے چند ٹکڑے ذرا دیکھیے:

‘میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر چلاؤں فیلڈ مارشل ایوب پاکستان کے نجات دہندہ ہیں۔ وہ ہماری دعاؤں کا جواب ہیں، فیلڈ مارشل ایوب بار بار پیدا نہیں ہوتے، اور ممتاز مفتی کی حیثیت سے مجھے اپنے پاکستانی بھائیوں کی گرمی قلب کے علاوہ فیلڈ مارشل ایوب کی خداداد نگاہ اور جذبہ جمہوریت پر قطعی اعتماد ہے۔ میرا ایمان ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب ہماری دعاؤں کا جواب ہیں۔’

‘پاک جمہوریت’ سے دوبارہ ‘لیل ونہار’ کی طرف چلتے ہیں جس کے ایک اور شمارے (27 مارچ 1960) میں ممتاز مفتی نے ‘انوکھی گاڑی’ کے عنوان سے انوکھی تحریر قلمبند کی ہے۔

ایوب خان عوامی رابطہ مہم کے لیے سبز رنگ کی اسپیشل ٹرین پر عازم سفر ہوئے، ادیب، شاعر اور فنکار بھی اس ٹرین میں رونق افروز تھے، اس سفر کے لمبے قصے میں ممتاز مفتی نے ایوب خان کو جمہوریت کا دل دادہ لکھا ہے، اس قلم توڑ مضمون کی چنیدہ عبارتوں سے آپ کو نفس مضمون کا اندازہ ہو سکے گا:

‘واقعی وہ گاڑی انوکھی اور پیاری شخصیتوں سے بھری ہوئی تھی اور ان سے میل جول کس قدر خوش کن تھا لیکن سب سے جاذب شخصیت صدر کی تھی، جب ہمارے موزوں قامت صدر گاڑی سے باہر نکلتے تو سب ماند پڑ جاتے، ان کے چہرے کی بشاشت اور شگفتگی کو دیکھ کر، ان کے بے پایاں خلوص کو محسوس کرکے، بڑے سے بڑے قنوطی کے دل میں ڈھارس بندھ جاتی۔ امید کی ایک شعاع اندھیرے کو منور کردیتی، گاڑی سے باہر نکل کر وہ اہلکاروں کی طرف یوں بڑھتے جیسے وہ اہلکار نہیں بلکہ شریک کار ساتھی ہوں۔ عوام کی طرف دیکھ کر محبت کے جذبے سے ان کی نگاہ پرنم ہو جاتی۔ جب بھی وہ ان سے خطاب کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ صدر نہیں بلکہ ان کے بھائی ہوں۔ خطاب کرتے وقت وہ انہیں یارا کہہ کر خطاب کرتے، صدر کی تقریروں میں بلا کا اثر تھا اور ان کے جوابات میں مزاح کی چاشنی کے علاوہ چٹکلے اور لطیفے۔’

اپنے نادر مشاہدات کے ذیل میں ممتاز مفتی نے عوام کی ایوب سے دیوانہ وار محبت کے قصے بھی رقم کیے ہیں: ‘ایک مریض بستر مرگ پر صدر کو دیکھنے آیا ہے، اس کے بیٹوں نے اس کی چارپائی اٹھا رکھی ہے، میں نے ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے۔ باپو نے کہا تھا یہ میری آخری خواہش ہے، مجھے ایوب دکھا دو۔’

اب تک کی روداد سے کم از کم یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری راہ کیسے کھوٹی ہوئی، جن کا منصب یہ تھا کہ وہ طاقت سے مرعوب نہ ہوتے، وہ ڈکٹیٹر کے سامنے بچھے جا رہے تھے، اس عمل کی بنا ایک دفعہ پڑی تو پھر یہ مستقل شعار بن گیا۔

ڈکٹیٹروں کے حامی ادیب شاعر کسی رو رعایت کے مستحق نہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر جنرل پرویز مشرف کے حامیوں پر حیرت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پہلے تین ڈکٹیٹروں کی پالیسیوں کے عواقب سامنے آنے کے بعد فوجی حکومت سے توقع باندھنے کو نرم سے نرم لفظوں میں بھی حماقت ہی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ سابقہ تجربات سے اس بات میں کسی شک کہ گنجائش نہیں رہی تھی کہ ڈکٹیٹر قوم کو گہری دلدل میں پھینک کر ہی رخصت ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ایسے دو نامور ترقی پسند ادیب جنہیں سیاسی اعتبار سے باشعور خیال کیا جاتا ہے انہوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کی خوب طرف داری کی، ان میں تو ایک فہمیدہ ریاض ہیں جنہوں نے ہمیشہ پرویز مشرف کا مقدمہ ایک ماہر وکیل کی طرح لڑا، دوسرے احمد بشیر بھی جنرل مشرف کی طرف ملتفت ہوئے، ان کے ‘نیا زمانہ’ میں شائع شدہ مضامین میں سے چند مثالیں دیکھتے جائیے:

‘پرویز مشرف ایک نیک دل، بہادر اور محب وطن آدمی ہے۔’

‘ہم پرویز مشرف کے حامی ہیں کیونکہ وہ ایک نیک طینت اور صاف گو اور محب وطن آدمی ہے۔’

احمد بشیر نے ‘خلفشار’ کے عنوان سے ایک مضمون میں پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں پرویز مشرف کی حمایت کی اور نواز شریف اور واجپائی کے اعلان لاہور پر تنقید کے لیے انہیں ارشاد احمد حقانی کے کالم کا سہارا لینا پڑا، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سارے قضیے میں اپنے ممدوح جنرل مشرف کے کارگل میں بلنڈر کا تذکرہ گول کر جاتے ہیں۔ سیاست دانوں سے اندھی نفرت کی وجہ سے وہ صورت حال کا صحیح تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

پرویز مشرف کے فراڈ ریفرنڈم پر تنقید کا ان میں حوصلہ نہیں، الٹا وہ اس بھونڈے عمل کے مخالفین پر گرفت کرتے ہیں۔

ان کی سیاسی فکر کا سب سے کمزور اور افسوس ناک پہلو آئین سے عناد ہے۔

احمد بشیر لکھتے ہیں:

‘یہ کانسٹی ٹیوشن ایک بے ہودہ دستاویز ہے۔’

‘یاد رکھیے کہ پاکستان میں کبھی کوئی تبدیلی آئی تو کانسٹی ٹیوشن کی خلاف ورزی کر کے ہی آئے گی۔’

ڈکٹیٹروں کے حق میں قلم گھسیٹنے والے ادیبوں کے تذکرے کے بعد اب آخر میں ہم مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کر لیتے ہیں جنہوں نے ‘آب گم’ میں آمریت اور آمرانہ ذہنیت کا گہرا تجزیہ کیا ہے اور ‘شام شعر یاراں’ میں بھی ڈکٹیٹروں پر چوٹ کی ہے۔ ایوب خان کے معتمدِ خاص قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر بھی ان کے قلمی نشتروں کے نشانے پر آئے ہیں۔ وہ شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے ایک اقتباس اور اس پر تبصرے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں:

‘دلی والوں کو بھلے وقتوں میں دنبے پالنے کا بہت شوق تھا، یہ دنبے اس قدر فربہ ہو جاتے کہ ان کی چکتیاں اتنی بھاری ہو جاتیں کہ اس بوجھ کو لے کر چلنا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا، لہٰذا ہلکی پھلکی دو پہیوں کی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بنوائی جاتیں جن پر ان کی چکتیاں رکھ دی جاتیں، تب کہیں ان کی پھرائی ممکن ہوتی۔’

‘ہمیں یہ اقتباس یہاں اس لیے نقل کرنا پڑا کہ بعض نامی گرامی بیورو کریٹ، حاکم وقت بالخصوص آمر کی انانیت اور مطلق العنانیت کی روز بروز بڑھتی اور پھولتی ہوئی چکی کو اسی طرح اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، حاکم و آمر تو بالآخر رخصت ہو جاتا ہے مگر تاریخ میں وہ چکی انہی کاندھوں پر دھری کی دھری رہ جاتی ہے، لاکھ اتارنا چاہیں، اتر کے نہیں دیتی۔’

یوسفی صاحب نے جو بات نامی گرامی بیوروکریٹ کے لیے لکھی ہے میں سمجھتا ہوں یہ ڈکٹیٹروں کی حمایت کرنے والے ادیبوں پر بھی صادق آتی ہے کہ یہاں تو معاملہ اور بھی نازک ہے کہ خوشامد میں کی گئی سخن طرازی کبھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی، زیر نظر مضمون ہی کو لیجیے کہ مال روڈ پر پرانی کتابوں کے بازار سے ‘لیل ونہار’ کے 65 برس پرانے پرچے ملنے پر اسے لکھنے کا خیال آیا اور ‘گویا دبستاں کھل گیا! ‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews ادیب انڈسٹری خوشامد شاعر قلم مارشل لا محمودالحسن مزدور وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: مارشل لا محمودالحسن وی نیوز میں ممتاز مفتی رہبر ہے ایوب ایوب خان کے نے ایوب خان پرویز مشرف اشفاق احمد لیل ونہار انہوں نے مشرف کے اور تیز کے لیے کی طرف

پڑھیں:

آئی ٹی انڈسٹری کے لیے 10 سالہ فکسڈ ٹیکس رجیم نافذ کیا جائے: چیئرمین پاشا

آئی ٹی انڈسٹری کے لیے 10 سالہ فکسڈ ٹیکس رجیم نافذ کیا جائے: چیئرمین پاشا WhatsAppFacebookTwitter 0 14 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین سجاد مصطفی سید نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آئی ٹی انڈسٹری کے لیے 10 سالہ فکسڈ ٹیکس رجیم نافذ کیا جائے، جو 2025 سے 2035 تک مؤثر ہو۔
انہوں نے وضاحت کی کہ موجودہ فکسڈ ٹیکس نظام کے تحت پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (PSEB) سے رجسٹرڈ آئی ٹی کمپنیوں پر صرف 0.25 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوتا ہے، جو کہ انڈسٹری کی ترقی کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی طرف راغب ہو رہی ہے، اور اگر پالیسی سازوں نے درست فیصلے کیے تو پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر مزید ترقی کر سکتا ہے۔


انہوں نے آئی ٹی انڈسٹری کے ملازمین اور ریموٹ ورکرز پر یکساں انکم ٹیکس لاگو کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کے مطابق، اس وقت ریموٹ ورکرز پر زیادہ سے زیادہ 1 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے، جبکہ آئی ٹی کمپنیوں کے ملازمین پر یہ ٹیکس 35 فیصد تک پہنچ جاتا ہے، جو کہ غیر منصفانہ ہے۔
سجاد مصطفی سید نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو آئی ٹی انڈسٹری کے فارن کرنسی ریونیو کی نقل و حرکت میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فارن کرنسی پاکستان آ سکے اور ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہو۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کے حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے: شیخ رشید احمد
  • بھارت بنگلہ دیش بحریہ کی مشترکہ مشق: ‘علاقائی سالمیت کے لیے باہمی دفاعی اشتراک بہت ضروری ہے’
  • نمک کی کان میں تودہ مزدوروں پر گرنے سے 2 مزدور جاں بحق
  • قومی اسمبلی میں بلوچستان ٹرین واقعے پر کوئی بات نہیں کررہا، عمر ایوب کا شکوہ
  • آئی ٹی انڈسٹری کے لیے 10 سالہ فکسڈ ٹیکس رجیم نافذ کیا جائے: چیئرمین پاشا
  • کچھی میں زیر تعمیر ڈیم پر حملہ، 7 مزدور اغواء کرلیے گئے
  • فلم میں کام کے بدلے نامور ہدایتکاروں کی غیر اخلاقی ڈیمانڈز؛ اداکارہ نے کچا چٹھا کھول دیا
  • اسٹار اداکارہ نے بالی ووڈ کے منفی پہلو کا پردہ فاش کردیا
  • ‘وہ سب مجھ پر ہنستے تھے’، عماد وسیم نے قومی ٹیم کی میٹنگز کی کہانی بتادی