دہشتگردی کو ختم ہونا ہو گا تاکہ ریاست آگے بڑھ سکے، رؤف حسن
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
رہنما تحریک انصاف رؤف حسن کا کہنا ہے کہ اس قسم کے حالات میں جب کہ ملک سخت دہشت گردی کی زد میں ہے قومی اتفاق رائے سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا، ریاست اور دہشت گردی اکٹھے نہیں چل سکتے،دہشتگردی کو ختم ہونا ہو گا تاکہ ریاست آگے بڑھ سکے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہم پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے مقبول جماعت ہونے کے ناطے ہم اپنی ذمے داریوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان کو پورا کرنا بھی جانتے ہیں۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز سید نے کہا کہ اس کے لیے دو لفظ ہیں، گلوبل جیو پالیٹیکس۔ اس وقت دنیا کی سیاست یہ رخ اختیار کر گئی ہے کہ ہندوستان امریکا کا دوست نظر آ رہا ہے اور چین کے ساتھ امریکا کا جو مسابقہ ہے اس کیلیے ان کا پارٹنر ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجیں جا چکی ہیں، پاکستان ان کو کار آمد نظر نہیں آتا اس لیے پاکستان کے عالمی قد کاٹھ اور اہمیت میں کمی آئی ہے، دوسرا یہ ہوا ہے کہ پاکستان کی جو اپنی اقتصاد ہے جس کو اب بڑی مشکل سے سنبھالا ملا ہے ورنہ تو بڑی ڈیفالٹ والی صورتحال نظر آ رہی تھی، پچھلے دس سال میں ہماری سیاست بھی بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہاکہ حکومت کا ایک واضع پیغام ہے کہ جنھوں نے سولر پینل لگائے ہوئے ہیں جو بقول حکومت کے ایک لاکھ 83 ہزار لوگ ہیں کہ آپ نے جو بجلی بنائی ہے وہ آپ کو مبارک ہو، ہم نے جو بجلی بنائی ہے وہ آپ کو خریدنی پڑی گی اس کا جو بھی ریٹ ہو، انھوں نے پالیسی کے اندر دو تین بینادی تبدیلیاں کی ہیں،پالیسی اس طرح تبدیل کر دی گئی ہے کہ اب سولر پینل لگانا اور لگا کر اس سے بجلی استعمال کرنا اتنا فائدہ مند نہیں رہا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
میری سروس کی اب ریاست کو ضرورت نہیں ، 9 مئی مقدمات کی جے آئی ٹی کے سابق سربراہ مستعفی
لاہور میں ڈی آئی جی ایڈمن کے عہدے پر تعینات ایس ایس پی عمران کشور نے پولیس سروس سے استعفیٰ دے دیا ۔ انہوں نے تحریری استعفی آئی پنجاب کے نام تحریر کیا ۔
اس استعفیٰ کے اندر تحریر میں انہوں نے اس بات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ بظاہر اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بات پر نالاں نظر آتے ہیں۔
اردونیوکے مطابق عمران کشور نے استعفے میں لکھا کہ اپنی سروس کے سخت حقائق کے بوجھ تلے میں پولیس سروس آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ قصور، شیخوپورہ، نارووال اور مظفر گڑھ جیسے اضلاع کی پولیس کمانڈ کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے لاہور میں ایس ایس پی انویسٹیگیشن، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن اور ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی سخت ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں نو مئی کی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا سربراہ بھی رہا اور اب ڈی آئی جی ایڈمن کے فرائض بھی سر انجام دیے، میں نے اپنے حلف کی پاسداری کی، جس کی مجھے ذاتی طور پر بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔ (اس بھاری قیمت نے) مجھے کئی ایسے سوالوں میں مبتلا کر دیا جن کے جواب میرے پاس نہیں ہیں۔ اور ان سوالوں کی بنا پر میرے اندر غیراطیمنان بخش خلش پیدا ہو گئی۔
عمران کشور کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال نے مجھے اس دوراہے پر کھڑا کر دیا کہ شاید میری سروس کی اب ریاست کو ضرورت نہیں رہی۔ جس وجہ سے میرا سروس سے رشتہ کمزور ہو گیا جو کبھی میرا مضبوط سہارا تھا۔ اس لیے اب میں استعفیٰ دے کر قلم اٹھانا چاہتا ہوں تاکہ اپنے ضمیر کے مطابق لکھ سکوں۔‘
ان کا یہ استعفیٰ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور تحریک انصاف سے منسلک اکاونٹس نے اس کو نو مئی کے تناظر میں دیا گیا ایک استعفیٰ قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ استعفی آئی پنجاب کے نام تحریر کیا جبکہ وفاقی ملازم ہونے کی بنا پر قانونی طور پر انہیں یہ استعفٰی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجنا چاہیے تھا۔
اس استعفے کے بعد پیدا ہونے والے ابہام کے سبب ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا موبائل نمبر مسلسل بند جا رہا ہے۔
اس موضوع پر آئی جی آفس اور سی سی پی او آفس نے بھی کسی طرح کے تبصرے سے گریز کیا ہے البتہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع بحث بن چکا ہے۔
پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دینے والے واقعات جن میں عمران خان کی لاہور سے گرفتاری اور اس سے پہلے نو مئی کے واقعات کے سینٹر سٹیج پر ایس ایس پی عمران کشور کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ استعفیٰ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب سینٹرل سلیکشن بورڈ نے پاکستان پولیس سروس کے 19ویں اور 20ویں گریڈ کے 10 افسران کو ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کے عہدوں پر ترقی دی ۔ جن افسران کو ترقی دی گئی ہے ان میں عمران کشور کا نام شامل نہیں تھا تاہم جن ناموں پر غور کیا گیا دستاویزات کے مطابق ان کا نام اس فہرست میں موجود تھا۔
عمران کشور 33ویں کامن کے آفیسر ہیں اور ان کے بیج کے تقریباً سبھی افسران ترقی پا کر 20ویں گریڈ میں جا چکے ہیں۔
اس صورتحال سے آگاہ لاہور کے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ دوسری بار ہے کہ عمران کشور کا نام فہرست میں ہونے کے باوجود ترقی پانے والے افسران میں شامل نہیں ہو سکا۔‘
گزشتہ برس بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی لیکن اس سال تو 34ویں کامن کے بھی کچھ افسران جو ان کے جونئیر تھے ان کی گریڈ 20 میں ترقی ہو گئی جس کی وجہ سے یقیناً وہ دل برداشتہ ہوئے ہوں گے اس کے علاوہ تو ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’تاہم ان کے استعفے میں جو الفاظ استعمال ہوئے اس نے سب کو چونکا دیا ہے، اور اب صورت حال اتنی سادہ نہیں رہی۔یہ ایک غیرمعمولی استعفیٰ ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی، ایک آدھ دن میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ ان کا استعفیٰ آئی جی آفس سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو جائے گا یا پھر بورڈ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی لیے کوئی ہنگامی صورت حال پیدا کی جائے گی۔