شام: استحکام کے لیے دلیرانہ اقدامات کی ضرورت، یو این حکام
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے حکام نے شام میں تشدد کے نئے واقعات اور بڑھتے ہوئے عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حالات میں بہتری لانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 14 سالہ خانہ جنگی کے بعد ملک میں آنے والی تبدیلی خطرے میں پڑ جائے گی۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جیئر پیڈرسن نے ملک میں حالیہ دنوں شروع ہونے والی کشیدگی کے فوری خاتمے پر زور دیتے ہوئے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں کو تحفظ دیں۔
Tweet URLان کا کہنا ہے کہ 14 سال پہلے ملک میں اصلاحات کے مطالبے کا جواب ہولناک بربریت سے دیا گیا۔
(جاری ہے)
اس طویل خانہ جنگی سے متاثرہ خاندان آج بھی اپنے پیاروں کا غم منا رہے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور بہت سے شہری اپنے لاپتہ عزیزوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ اس عرصہ میں شام کے لوگوں جو تکالیف پہنچیں اور انہوں نے جو قربانیاں دیں انہیں کبھی بھلایا نہیں جانا چاہیے۔سلامتی کونسل کا مطالبہاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں اس کے شہریوں کے زیرقیادت اور انہی کے لیے ایک مشمولہ سیاسی عمل کا مطالبہ کیا ہے جس کی بنیاد 2015 میں کونسل کی منظور کردہ قرارداد 2254 کے اصولوں پر ہو۔
ان میں نسلی و مذہبی پس منظر سے قطع نظر شام کے تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ بھی شامل ہے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ اس سیاسی عمل کے ذریعے شام کے تمام لوگوں کی جائز امنگوں کو پورا ہونا چاہیے، انہیں تحفظ ملنا چاہیے اور انہیں اپنے مستقبل کا پرامن، آزادانہ اور جمہوریہ طور سے خود فیصلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔کونسل نے شام کے ساحلی شہر لاطاکیہ اور طرطوس میں 6 مارچ سے جاری تشدد اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے ملک میں انصاف اور مفاہمت کے لیے زور دیا ہے۔
منظم وحشیانہ تشددشام کی خانہ جنگی کے ابتدائی مہینوں میں تقریباً 2,000 شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نیوی پلائی نے اسے شہری آبادی کے خلاف وسیع پیمانے پر اور منظم تشدد اور ممکنہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا تھا۔
اس کے بعد 14 سال کے دوران شام کے لوگوں کو کیمیائی ہتھیاروں اور بیرل بموں کے حملوں سمیت بدترین تشدد جھیلنا پڑا جس میں ہزاروں شہری ہلاک اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
ان میں 60 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ہمسایہ ممالک میں پناہ لینا پڑی۔امیدیں اور خدشاتسابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا دسمبر 2024 میں خاتمہ ہو گیا تھا لیکن شام اب بھی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں حالیہ دنوں عبوری حکومت کی افواج اور سابق صدر کے حامیوں میں لڑائی چھڑ گئی ہے جبکہ ملک کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔
نمائندہ خصوصی نے کہا ہےکہ سابق حکومت کے خاتمے سے تین ماہ کے بعد شام کے لیے یہ وقت بہت اہم ہے۔
اس کے شہریوں نے مستقبل کے حوالے سے بہت سی خوشگوار امیدیں قائم کر رکھی ہیں لیکن انہیں شدید خوف بھی لاحق ہے۔ ان حالات میں کامیاب طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے لیے اعتماد کا قیام بہت ضروری ہے۔ بداعتمادی اور خوف کا ماحول برقرار رہا تو پورا سیاسی عمل خطرے میں پڑ جائے گا۔قومی مکالمے کی ضرورتجیئر پیڈرسن نے شام میں مشمولہ حکمرانی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے ملک میں قومی مکالمہ ہونا چاہیے اور اس کی بنیاد پر ٹھوس اقدامات کیے جانا چاہئیں۔
انہوں نے ملک کے عبوری حکمرانوں کی جانب سے جاری کردہ دستوری اعلامیے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے قانون کی حکمرانی بحال کرنے اور اقتدار کی مستحکم طور سے منتقلی کی بنیاد ڈالنے میں مدد ملے گی۔ان کا کہنا ہے کہ ملک کے مستقبل کی تشکیل میں خواتین کو مکمل سیاسی نمائندگی دی جانا ضروری ہے اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی مطابقت سے سیاسی عمل میں مدد دینے کو تیار ہے۔
مفاہمت اور تعمیر نو کا موقعاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے شام کے تمام لوگوں کا تحفظ، وقار اور شمولیت یقینی بنانے کے لیے دلیرانہ اور فیصلہ کن اقدامات کے لیے کہا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 8 دسمبر 2024 کے بعد یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شام میں اب ماضی سے مختلف راہ اختیار کی جا سکتی ہے۔ شام کے لوگوں کے پاس بحالی، مفاہمت اور ایک ایسے ملک کی تعمیر کا موقع ہے جہاں سبھی امن اور وقار سے جی سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ شام میں ایسی مشمولہ سیاسی تبدیلی میں مدد دینے کے لیے پرعزم ہے جس میں احتساب کی ضمانت دی جائے، قومی مفاہمت کو فروغ ملے اور ملک کی طویل مدتی بحالی اور عالمی برادری سے انضمام نو کی بنیاد ڈالی جا سکے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ ان کا کہنا سیاسی عمل کی بنیاد ملک میں کہا ہے کے لیے کے بعد شام کے
پڑھیں:
پاکستان میں ایک بار پھر بڑھتی ہوئی دہشت گردی امن کے لئے چیلنج ہے، اظہر خان مغل
جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشتگردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے ہائیکورٹ بار ملتان کے صدر کا کہنا تھا کہ معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بزدلانہ کاروائی ہے، جس کو جتنا کنڈم کیا جائے کم ہے، دہشت گردی کو روکنے اور عوام کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر محمد اظہر خان مغل ایڈووکیٹ نے جعفر ایکسپریس میں ہونے والی دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس میں کامیاب آپریشن اور لوگوں کو با حفاظت بچانے پر اداروں کو سلام پیش کرتے ہیں، پاکستان میں ایک بار پھر بڑھتی ہوئی دہشت گردی امن کے لئے چیلنج ہے، معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بزدلانہ کاروائی ہے جس کو جتنا کنڈم کیا جائے کم ہے، دہشت گردی کو روکنے اور عوام کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پوری قوم سیکوریٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، ملک دشمنوں کو کسی طور اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔