افغان طالبان میں اختلافات، افغانستان کے وزیر داخلہ سراج حقانی عہدے سے مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
وزیرداخلہ سراج الدین حقانی نے اپنا استعفیٰ امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کو پیش کر دیا،دسمبر میں حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر اور وزیر برائے مہاجرین خلیل حقانی خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے
استعفے کی وجہ طالبان قیادت کے درمیان کئی اہم ایشوز پر اندرونی اختلافات تھے، ایشوز کے حل نہ ہونے کے باعث سراج الدین حقانی وزارت کی ذمہ داریوں سے طویل عرصے سے غیرحاضر تھے، میڈیا رپورٹس
طالبان حکومت میں شدید اختلافات کی خبروں کے دوران ہی وزیرداخلہ سراج الدین حقانی نے اپنا استعفیٰ امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کو پیش کر دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امیرِ طالبان ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے سراج الدین حقانی کا استعفیٰ منظور کرلیا۔استعفے کی وجوہات سے متعلق سراج الدین حقانی کا کوئی بیان تاحال سامنے نہیں آیا، نہ ہی طالبان حکومت نے کوئی وجہ بتائی ہے۔ تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق استعفے کی وجہ طالبان قیادت کے درمیان کئی اہم ایشوز پر اندرونی اختلافات ہیں۔ان ایشوز کے حل نہ ہونے کے باعث سراج الدین حقانی وزارت کی ذمہ داریوں سے طویل عرصے سے غیرحاضر تھے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی مرکزی قیادت کے درمیان خواتین کے حقوق کے معاملے پر بھی اختلافات ہیں۔یاد رہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم کمانڈر اور وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی دسمبر میں ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
ہینڈلر اور ماسٹرز مائنڈ، اصل دشمن
سکیورٹی فورسز نے جعفر ایکسپریس حملے کے بعد یرغمال بنائے گئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل کرتے ہوئے وہاں موجود تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آپریشن سے پہلے 21 مسافر اور ایف سی کے 4 اہلکار شہید ہوئے۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر یہ حملہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔
ہماری سکیورٹی فورسز نے انتہائی سرعت، مستعدی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرین کے یرغمالی مسافروں کو آزاد کروایا اور ساتھ ہی تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جو لائق تحسین ہے۔
درحقیقت بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ دہشت گردی کے مرتکب درندہ صفت عناصر بے رحمانہ سزاؤں کے مستحق ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے غیر ملکی اداروں کا ہاتھ ہے، جو صوبے میں عدم استحکام پیدا کر کے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد کچھ بھی نہیں ہیں، ان کے پیچھے جو ہینڈلر اور ماسٹرز مائنڈ بیٹھے ہوئے ہیں، اصل دشمن وہی ہیں جن کے ایماء پر سب کچھ ہو رہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد عناصر نے اپنی خفیہ کمین گاہیں بنا رکھی ہیں، بھرپور فوجی آپریشن سے ان کو کچلنا ہوگا۔
ٹرین جعفر ایکسپریس کے حوالے سے انڈین چینلز پر فیک ویڈیوزکی بھرمار تھی، نیوز ویب پورٹلز سنسنی پھیلانے میں پیش پیش تھے، وہ سوشل میڈیا پر مسلسل ہنگامہ برپا کیے ہوئے تھے۔ سیاسی رد عمل ہو یا معاشرتی، سوشل میڈیائی پاگل پن ہو ، سیکیورٹی ڈومین ہو یا بین الاقوامی ایجنڈا، رد عمل بحیثیت مجموعی زہریلا تھا۔ دراصل دہشت گرد کے اہم ترین مقاصد میں قیمتی جانوں کا ضیاع یا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا تو ہوتا ہی ہے، لیکن وہ اور اس کے ہینڈلر ایسی وارداتوں کے ذریعے درحقیقت کوریج اور ہائپ مانگ رہے ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کے کسی ایونٹ کی 24 گھنٹے کوریج اور براہ راست ہولناک اور خون آلود مناظر سے دہشت گرد کی اصل تسکین کا سامان پیدا ہوتا ہے اور نتیجے میں معاشرہ بھی غیریقینی کی سی صورتحال اور گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری دہشت گردوں کے خلاف قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی بھی سرگرم نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک بیرونی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں جو چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعاون، بشمول چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف دہشت گردی کا استعمال کر رہے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی علاقوں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کا تشویش میں مبتلا ہونا قدرتی امر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کی مد میں تقریبا 31 ارب ڈالر اور قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے ۔ دہشت گردی ایک کھلی حقیقت ہے مگر کچھ ممالک اسے غلط رنگ دے رہے ہیں جیسا کہ بھارت۔
دہشت گردی سے مراد لوگوں کے اذہان میں خوف اور دہشت کا احساس سرایت کرنے کے لیے ہولناک، تباہ کن اور مہلک ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا ہے جن میں بے رحمانہ قتل و غارت اندھا دھند فائرنگ، اغواء، بینک لوٹنا، ریل گاڑیوں پر شب خون مارنا اور طیاروں کی ہائی جیکنگ شامل ہے،کیونکہ اس طرح دہشت گرد عوام اور خصوصاً حکومت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
دہشت گردی باقاعدہ ایک نیٹ ورک سے پھیلتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر جو ہو رہا ہے یہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہے۔ ڈیجیٹل دہشت گردوں کا پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس ملک سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ ملک میں بدامنی اور خوف پھیلا کر وطن عزیز کو معاشی عدم استحکام سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی دہشت گردی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ سیاسی و عسکری قوتوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکساں انداز میں آگے بڑھنا ہو گا۔
حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو پاکستان نے افغانستان پرکبھی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ چالیس برس گزرجانے کے باوجود لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دے رکھی ہے۔ پاکستان نے بارہا افغانستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر پاکستان میں حملوں کے ثبوت پیش کیے ہیں۔
القاعدہ کے ساتھ طویل وابستگی کے پیش نظر، ٹی ٹی پی علاقائی اور عالمی دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
افغانستان کے چیلنجز بشمول دہشت گردی، انسانی حقوق اور وسیع پیمانے پر غربت بھی خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔ افغان حکام کی سیاسی فیصلہ سازی تیزی سے ابہام کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک کے استحکام کو خطرات لاحق ہیں ، جب کہ پاکستان دہشت گردی کے موجودہ چیلنج سے نمٹنے میں افغانستان کی موجودہ عبوری (طالبان) حکومت سے مخلصانہ تعاون کی توقع رکھتا ہے اور امید ہے کہ اس سلسلے میں کابل انتظامیہ نے بین الاقوامی برادری سے جو وعدے کیے ہیں، وہ ان پر پورا اترے گی۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی پر افغانستان کے تعاون کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد ایسی ہے کہ اس کے آر پار آمد و رفت کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستان نے اس کو روکنے کے لیے 500 ملین ڈالر لاگت سے باڑ لگائی ہے ۔ وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں جس حقیقت کی طرف افغان طالبان کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے، وہ ان کے وعدے ہیں جو انھوں نے دو سال قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکیوں کے ساتھ غیرملکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے کیے تھے۔
اس معاہدے میں شامل ایک شرط کے تحت افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کو کسی ہمسایہ یا کسی اور ملک کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور امریکا کو بھی شکایت ہے کہ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے اور ایک ایسے ہوٹل جہاں چینی ورکرز اور انجینئرز کا اکثر آنا جانا رہتا تھا، پر دہشت گردوں کے حملوں کو اس ضمن میں بطورِ ثبوت پیش کیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان کا اصرار ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان افغان سرزمین سے آپریٹ نہیں کر رہی بلکہ اس کی کارروائیاں پاکستانی علاقوں سے کی جا رہی ہیں۔
طالبان جنگجوؤں نے قبائلی علاقوں میں داخل ہوتے ہی خوف و ہراس، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی کارروائیاں شروع کردیں جن کے خلاف سوات، باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مقامی سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی کے اراکین، تاجروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے پہلے تو دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو پلے ڈاؤن کرنے کی کوشش کی اور پھر ان کی ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈال دی۔
وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف تو ملک میں اس مسئلے پر متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور دوسری طرف افغانستان کی عبوری حکومت کے تعاون کو اس مسئلے کے تسلی بخش اور دیرپا حل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے یہ ایک دانش مندانہ پالیسی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ صرف عسکری سطح پر نہیں لڑی جا سکتی، اس میں ہمیں بیانیہ کی جنگ بھی کرنا پڑے گی اور پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا ۔