ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر فعال ہیں اوراپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔
گزشتہ روز کوئٹہ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا اور میڈیا کے سوالات کے جواب دیے۔
ترجمان پاک فوج نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جعفر ایکسپریس ٹرین حملے میں 354 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا ہے جب کہ 26 افراد شہید ہوئے ہیں، 37 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کے پاس کوئی یرغمالی مسافر نہیں ہے اور نہ ہی آپریشن کے دوران کوئی مسافر مارا گیا جو لوگ شہید ہوئے، انھیں دہشت گردوں نے آپریشن سے پہلے شہید کیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ انتہائی دشوار گزار علاقے اور راستے میں ہوا۔ دہشت گردوں نے 11 مارچ کو ایک بجے کے قریب دھماکے سے پٹڑی تباہ کرکے ٹرین کو روکا۔ دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں مسافروں کو لے کر باہر موجود تھے۔ دہشت گردوں پر ہماری فائرنگ کے نتیجے میں مغوی مسافروں کو فرارکا موقع ملا۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی واضح کیا کہ یہ آپریشن احتیاط سے کیا گیا، ضرار گروپ نے مغویوں کو خودکش بمباروں سے نجات دلائی جو ٹولیوں کی شکل میں تھے۔
دہشت گردوں نے یہ سب بڑی منصوبہ بندی سے کیا تھا، انھیں اپنے سرپرستوں کی پوری مدد حاصل تھی اور وہ افغانستان میں موجود اپنے سرغنوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ جو چاہتے تھے، وہ اس میں ناکام رہے۔
ان کا یہ منصوبہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹرین کے تمام مسافروں کو کچھ دن تک یرغمال رکھیں گے اور اپنے سرپرستوں کے پراپیگنڈا کی مدد سے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کریں گے لیکن مسافروں کی ہمت و دلیری اور فوج کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ان کا منصوبہ ناکام ہوگیا اور انھیں بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔
میڈیا کی اطلاع میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے بچوں اور خواتین کو ٹرین کے اندر رکھا، دہشت گردوں نے چوکی پر حملہ کرکے تین ایف سی جوان شہید کیے، ان کے پاس غیرملکی اسلحہ تھا۔ پورے آپریشن میں کسی مغوی کی جان نہیں گئی، جو شہید ہوئے، وہ پہلے ہوئے۔ اس وقت بھی جائے وقوعہ کے اطراف میں پہاڑیوں اور غاروں کی سینی ٹائزیشن جاری ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا اس واقعے کا سرا افغانستان سے ملتا ہے، وہاں سے خودکش بمبار آتے ہیں۔ انھوں نے تین دہشت گردوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کا ایک دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کے دوران مارا گیا تھا ، اس کا نام بدر الدین تھا اور وہ افغانستان کے صوبے باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا تھا۔
اسی طرح ایک اور خارجی مجیب الرحمان افغان آرمی میں بٹالین کمانڈر تھا ۔ بنوں واقعے میں بھی افغان دہشت گرد مارے گئے تھے۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی حکومت کی ناک کے نیچے یہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل درآمد کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم رواں سال اب تک 11 ہزار 654 آپریشن کر چکے، اوسط نکالیں تو یہ 180 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن یومیہ بنتے ہیں۔
2024 اور 2025کے دوران 1250 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، ہمارے563 جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل فعال ہیں، اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر ان 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد مل رہی ہے، وہاں دہشت گردی کے مراکز ہیں اور دہشت گردوں کی قیادت بھی وہاں مقیم ہے۔ دہشت گرد وہاں بھرتی کیے جاتے اور تیار ہوتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ امریکا، افغانستان سے گیا تو اپنا اسلحہ چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے پاس ہے ۔ یہ تو اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ امریکی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، امریکی صد ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس کر دیں۔
اس کے علاوہ امریکا نے افغانستان کی حکومت کی امداد بھی بند کر دی ہے۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی واضح کیا کہ ریاست اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، ڈالر، کرنسی، پٹرول، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور دیگر اسمگلنگ روکی جا رہی ہے جو اربوں ڈالرز میں ہے مگر مافیاز ایسا نہیں چاہتے۔
وہ عرصے سے ملک کھوکھلا کرنے میں لگے ہیں، انھیں روکا جارہا ہے تو مزاحمت کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر سرفراز بگٹی نے کہا بی ایل اے اور افغان دہشت گرد دو الگ گروہ ہیں، ان کے نظریات بھی الگ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کر رہا ہے؟ انھیں تربیت اور پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہینڈلر انھیں اکٹھا کرتے ہیں، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی مگر ہم نے ہمیشہ اس کی مدد کی، لاکھوں مہاجرین کو بسایا مگر انھوں نے ہمارے ہاں دہشت گردی کی۔
افغانستان وعدے پورے نہیں کر رہا۔ اے پی پی کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا جعفر ایکسپریس پر سفر کے لیے 428 ٹکٹ جاری ہوئے تاہم 100 فیصد ٹکٹ ہولڈرز نے سفر نہیں کیا۔ تعداد میں اس لیے فرق آرہا ہے کیونکہ 80فیصد ٹکٹنگ کمپوٹرائزڈ اور 20 فیصد مینوئل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ سفرنہیں کرتے، کچھ پہلے اتر جاتے ہیں یا کسی کا سفر اگلے اسٹاپ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کچھ لوگ جب بھاگے ہوں تو بھٹک گئے ہوں اور دہشت گردوں کے ہتھے دوبارہ چڑھ گئے ہوں۔ کل بھی ایف سی چیک پوسٹ پر دو لوگ آئے اور بتایا بھاگنے کے بعد راستہ بھول گئے تھے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کو جعفر ایکسپریس سانحے، دہشت گردی، بلوچستان کے مسائل اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ارکان اسمبلی نے بلوچستان میں بدامنی، بیروزگاری اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جب کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اپوزیشن نے حکومت پر معیشت اور سیکیورٹی پالیسیوں میں ناکامی کے الزامات لگائے، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کا ذمے دار صوبائی حکومتوں کو ٹھہرایا۔
پاکستان کا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت کلیدی ہے۔ بلوچستان کی یہی حیثیت مقامی شرپسند قوتوں اور ’’فارن ایکٹرز‘‘ کے اتحاد کا باعث ہے۔ بلوچستان میں حال ہی میں معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں خصوصاً سونے کے ذخائر بہت بڑی مقدار میں ہیں۔
تیل کے ذخائر بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے بھی بہت سی قوتوں کو بلوچستان کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ بلوچستان سینٹرل ایشیا کا دروازہ ہے۔ جیسے جیسے بلوچستان ترقی کرتا جائے گا، افغانستان کی حیثیت کم ہوتی چلی جائے گی۔
گوادر بندرگاہ نے بلوچستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے افغانستان اور غیرممالک میں بیٹھی افغان نژاد اشرافیہ پاکستان کے مقامی شرپسندوں سے مل کر منفی پروپیگنڈا کر رہی ہے۔
افعانستان کی ہر حکومت اس کام میں شامل رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو اب اپنی سرحدوں کے میکنزم کو زیادہ سخت اور فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت کو قانونی میکنزم کے ذریعے انجام پانا چاہیے۔
غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قیام امن اور ان صوبوں میں معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ قانون کے مطابق تجارت ہو تو صوبائی حکومتوں کو بھی اچھا خاصا ریونیو ملے گا۔ وفاقی حکومت کو بھی ریونیو حاصل ہو گا۔
غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی ماحول سازگار بن جائے گا جب کہ سیاحت کے لیے بھی ماحول بہتر ہوتا چلا جائے گا۔ دہشت گردوں کے سہولت کار اور ماسٹر مائنڈز بڑی چالاک گیم کھیل رہے ہیں۔ اس گیم کو ناکام بنانے کے لیے ملک کے اندر موجود شرپسندوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بیخ کنی انتہائی ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھی واضح کیا کہ سرفراز بگٹی نے جعفر ایکسپریس دہشت گردوں کے افغانستان کی دہشت گردی کے مسافروں کو شہید ہوئے نے یہ بھی کے دوران انھوں نے رہے ہیں کے خلاف پاک فوج کہ دہشت نے کہا کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
ملکی سلامتی کا بحران
پاکستان کی سلامتی اس وقت سنگین خطرات سے دوچار ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا(کے پی کے) میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس خطے کے امن کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے جس سے عوامی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ اگرچہ سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کر رہی ہیں مگر انہیں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان اور بھارت سے جا ملتے ہیں جس سے ان کے خلاف جنگ مزید پیچیدہ اور چیلنجنگ ہو گئی ہے۔ بیرونی حمایت کے ساتھ یہ دہشت گرد پاکستان کے دفاع اور امن کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔بلوچ دہشت گردوں کا حالیہ حملہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام کے لیے ایک اور سنگین چیلنج تھاجس میں 500 مسافروں کو یرغمال بنا لیاگیا تھا۔ اس دہشت گردی کے واقعے نے نہ صرف پاکستانیوں کو بلکہ پوری دنیاکو ہلا کر رکھ دیا ۔ 13 مارچ 2025 کو بلوچستان کے علاقے بولان میں ہونے والے اس دہشت گردی کے حملے نےاس بات کو ثابت کیا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کنٹرول سےباہر ہے۔اس حملے میں دہشت گردوں نےریلوےٹریک پر دھماکہ خیز مواد نصب کیا جس کی وجہ سے ٹرین رک گئی اور دہشت گردوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتےہوئے ٹرین کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گردوں نے اس ٹرین کو مشکاف سرنگ میں پھنسا دیا اور وہاں سے تمام مسافروں کو یرغمال بناکر اپنےمطالبات پیش کیے۔ یہ واقعہ ایک سنگین دہشت گردی کی کارروائی کی صورت میں سامنے آیا جس میں نہ صرف انسانی جانوں کو خطرہ لاحق تھا بلکہ یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے بھی بڑا چیلنج تھا۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اس حملے کےبعدآپریشن شروع کیا۔ جو دو روز تک جاری رہا اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔ آپریشن میں 33 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق اس حملے میں 21 مسافر اور ایف سی کے متعدد اہلکار جاں بحق ہوئے ۔
بلوچستان میں جاری شورش اور اس کے پیچھے موجود محرکات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ایک دہشت گرد گروہ کے طور موجود ہے جو بلوچستان کی آزادی کے نام پر سرگرم ہے۔ بی ایل اے اور اس جیسے دیگر گروہ پاکستان کی وفاقی حکومت پر بلوچستان کے قدرتی وسائل جیسے تیل اور معدنیات کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ گروہ بلوچستان کے عوام کو اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے لیے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔بی ایل اے کو پاکستان اور امریکہ دونوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ان گروپوں کا دعوی ہے کہ پاکستان نے 1948 میں بلوچستان کو غیرقانونی طور پر اپنے ساتھ الحاق کیا اور اس کی آزادی کو دبایا۔بی ایل اے کی سرگرمیاں صرف بلوچستان تک محدود نہیں رہیں بلکہ اس نے پورے پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان گروپوں کا مقصد پاکستان کی وفاقی حکومت کو کمزور کرنا اور بلوچستان کو آزاد کرانا ہے ۔ بی ایل اے کے حملے بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری ہیں اور ان حملوں میں وقتا فوقتا شدت آئی ہے۔ طویل عرصے تک بی ایل اے کے حملے نسبتا محدود پیمانے کے تھے لیکن وقت کے ساتھ انکے حملوں میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔بلوچستان کے علاقے میں ہونے والی اس دہشت گردی کی کارروائیوں نے پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔ ان سرحدوں کے قریب ہونے کے باعث دہشت گردوں کو وہاں پناہ ملنا اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والی پہاڑی علاقوں اور غاروں کی موجودگی بھی ان کی کارروائیوں کو سہولت فراہم کرتی ہے۔اس حملے کے بعد ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے عوام اور حکومت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تاکہ اس خطے میں امن قائم کیا جا سکے اور ان دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کیا جا سکے۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے یہ ایک اہم لمحہ ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف زیادہ سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ صوبے میں امن و سکون واپس لایا جا سکے۔ اس کے لیے پاکستان کو نہ صرف اپنی داخلی سکیورٹی کو مضبوط کرنا ہوگا بلکہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ اور ان کی ترقی کے لیے بھی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اس وقت ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی تاکہ وہ بلوچستان کے عوام کو ان کی جائز حقوق دےسکےاوردہشت گردوں کی حمایت کوکم کرسکے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی حالت زار، بے روزگاری اور ترقی کی کمی نے بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو عوامی حمایت فراہم کی ہے۔اگر حکومت بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کو تیز کرتی ہے خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے میں تو اس سے عوام میں بی ایل اے جیسے گروپوں کے خلاف نفرت اور عدم تعاون پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں سیکیورٹی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے عوام کے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ اس صوبے میں طویل المدتی امن قائم ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عالمی سطح پر بھی اس مسئلے کی سنگینی کا تذکرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان کی فوج کو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو موثرطریقے سے ختم کرنے کےلیے ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ فوجی کمانڈ کو اس وقت ایک جامع اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنی ہوں گی۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی اور سیکیورٹی حکمت عملیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرے تاکہ دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ملک کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔