بلوچستان اور وقت کا تقاضا
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
بلوچستان میں پیدا ہونے والی صورت حال اچانک سامنے نہیں آئی بلکہ اس مسئلے کی جڑیں بڑی پرانی ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال ایک الارم سے کم نہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصل وجوہات کا کھلے ذہن سے جائزہ لیا جائے اور قومی مشاورت کے بعد اصلاحی اقدامات کیے جائیں ۔
مکران سے لے کر قلات تک اور بحیرہ عرب کے ساحلوں سے لپٹے گوادر سے لے کر درہ بولان کی سنگلاخ زمین تک پھیلے بلوچستان کا معاملہ حساس اور فوری حل کا متقاضی ہے۔ بیرونی طاقتیں بلوچستان کے ظاہری اور خفیہ معدنی خزانے کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت اور اس کی اسٹرٹیجک اہمیت کی بناء پر پاکستان دشمن قوتوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
بلوچستان ایشیاء کااہم ترین علاقہ ہے ۔ بلوچستان کو وسطی ایشیاء کی شہ رگ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کے لیے بلوچستان سے قریبی اور آسان راستہ دوسرا کوئی نہیں ہے ۔
مجھے بطور صحافی اپنی ابتدائی سروس کے ایام میں پورے بلوچستان کو سڑک کے راستے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے دیکھنے کا موقع ملا۔اس عرصے میں قدرت نے مجھے موقعہ دیا کہ بلوچستان کی قیادت کی اکثریت اور عوام سے بھی مل بھی سکوں۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوزرپورٹر کی حیثیت سے میں نے یکم مارچ1975کو اپنی سروس کا آغاز کوئٹہ ٹیلی ویژن سے کیا۔ ان ایام میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم اور جنرل محمد ضیاء الحق چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ میری ملازمت کو ابھی چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ جنرل محمد ضیاء الحق بلوچستان کے دورے پر آئے۔ انھوں نے مری اور بگٹی قبائل کے علاقے کا دورہ کرنا تھا۔
بطور رپورٹر مجھے بھی ان کے ساتھ اس علاقے میں جانا تھا۔ یہ وہ دن ہیں جب بگٹی اور مری قبائل آپس میں دست و گریباں تھے اور نواب اکبر بگٹی (مرحوم) کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا ۔ اس سے پہلے بھٹو صاحب نے ہی انھیں بلوچستان کا گورنر مقرر کیا تھا۔اکبر بگٹی کو ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کا گورنر کس طرح بنایااور پھر اکبر بگٹی کو کیوں گرفتار کرنا پڑا یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔اس کا تذکرہ انشاء اللہ پھر کبھی۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال بگاڑنے میں بھارت، افغانستان اور دیگر ملک بھی ملوث ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ پتہ ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی قوتیں سرگرم ہیں تو وفاقی اور صوبائی حکومت نے حالات کو سنبھالنے کے لیے اقدامات کیوں نہ کیے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ بلوچستان کی صورتحال غیر ملکی مداخلت کی بناء پر خراب ہو رہی ہے تو یہ معاملے کا حل نہیں کہ صرف بیا ن جاری کر دیا ۔
پاکستان کے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال سے مجرمانہ غفلت کیوں برتی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں پانی، گیس، بجلی، تعلیم اور علاج معالجے کی فراہمی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گزشتہ سالوں کے دوران اربوں روپے کی جو رقم مختص کی تھی وہ کہاں گئی؟ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو اپنے علاقے کی ترقی کے لیے جو رقم دی گئی ہے وہ کہاں گئی؟ وقت کا تقاضہ ہے کہ بلوچستان کے فنڈز کے استعمال کا آڈٹ کرایا جائے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بلوچستان کے عوام کو گزشتہ دہائیوں سے اگر حقوق سے محروم رکھا گیا ہے تو یہ کسی ایک شخص یا محکمے یا افسر کا جرم نہیں بلکہ اس جرم میں مقامی قیادت بھی برابر کی شریک ہے۔ ماضی کی کسی بھی وفاقی اور صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہونے کے باوجود بلوچستان کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا یا پھر ممکن ہے کہ جان بوجھ کر اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی گئی ہو۔
بلوچستان میں قبائی جھگڑوں اور مسلح تحریکوں کی جڑیں بڑی پرانی ہیں ۔یہ مسئلہ برٹش دور میں بھی رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھی بلوچی علاقے میں مسلح تحریک شروع کی گئی ہے۔ایک تجزیے کے مطابق بلوچستان کے سبھی بلوچ سردار اس تحریک میں شامل نہیں بلکہ صرف دو یا تین سردار اس تحریک کو لے کر چل رہے ہیں ۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان تحریکوں کا اہم عنصر علاقائی اور باہمی قبائلی اختلافات بھی ہیں۔ان تحریکوں کو عظیم تر بلوچستان کی تحریک بنانے میں میڈیا کے ایک Segment نے بھی خصوصی کردار ادا کیا۔ اس تحریک کو اجاگر کرنے میں پاکستان دشمن اندرونی عناصر اور کچھ بیرونی طاقتیں جن میں سرفہرست افغانستان اور بھارت شامل ہیں۔
بلوچستان کی صورتحال مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام اور رواداری کی سیاست فروغ پائے تو بلوچستان کے مسائل کا حل بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم اقتدار کی بندر بانٹ، لوٹ کھسوٹ کی سیاست، اقرباء پروری اور کرپشن کی سیاست کو مقدم رکھیں گے تو بلوچستان کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصل وجوہات کا کھلے ذہن سے جائزہ لیا جائے اور قومی مشاورت کے بعد اصلاحی اقدامات کیے جائیں۔بلوچستان کی علاقائی اور صوبائی قیادت کا نکتہ نظر سامنے رکھتے ہوئے ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین قومی مفاہمت کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کریں۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بلوچستان کے بلوچستان کی کہ بلوچستان اور صوبائی اس مسئلے کے لیے
پڑھیں:
غزہ کی امداد بحال نہ ہوئی تو غذائی تحفظ کی صورتحال سنگین ہو سکتی ہے، اقوام متحدہ
دریں اثنا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ زیادہ بھیڑ اور ناقص صفائی کی وجہ سے صحت عامہ کے خطرات بشمول متعدی امراض بہت زیادہ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے کہا ہے کہ غزہ میں سامان کے داخلے کے لیے کراسنگ کی بندش سے اس کے شراکت داروں کے ساتھ ضرورت مندوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی صلاحیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ او سی ایچ اے کے دفتر نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ غزہ میں امداد کے لیے یہ پابندی جتنی دیر تک جاری رہے گی، زمینی سطح پر اس کے اتنے ہی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے شراکت دار ضرورت مند لوگوں کی ممکنہ بڑی تعداد کی مدد کو ترجیح دینے کے لیے خوراک کے راشن کو کم کرنے پر مجبور ہیں۔ ڈوجارک نے متنبہ کیا کہ اگر غزہ کے لیے امداد کی ترسیل جلد از جلد دوبارہ شروع نہ ہوئی تو غذائی تحفظ کی صورتحال تیزی سے خراب ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک کہتے ہیں کہ ہمارے [غزہ میں] شراکت داروں نے زیادہ سے زیادہ کمزور لوگوں کے لیے امداد کو ترجیح دینے کے لیے خوراک کے راشن کو کم کرنے کی اطلاع دی ہے۔ دریں اثنا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ زیادہ بھیڑ اور ناقص صفائی کی وجہ سے صحت عامہ کے خطرات بشمول متعدی امراض بہت زیادہ ہیں۔