Express News:
2025-03-17@04:20:26 GMT

دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں لاکھوں سال کے ارتقائی سفرکی گواہ ہے۔ اس کی مٹی میں ان گنت خواب دفن ہیں، اس کے دریاؤں میں امیدوں کی جھلک ہے، اس کی فضاؤں میں لاکھوں آہوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو وقت کے سفاک ہاتھوں نے اس پر بکھیردی ہیں۔

یہ وہی زمین ہے جس نے تہذیبوں کو پروان چڑھتے دیکھا جس نے محبتوں کے گل کھلتے دیکھے جس نے علم و ہنرکے چراغ جلتے دیکھے اور اس نے جنگوں کی ہولناکیاں بھی جھیلی ہیں۔ اس نے خون میں نہائے ہوئے شہر بھی دیکھے ہیں۔ اس نے معصوم بچوں کی چیخیں بھی سنی ہیں۔ اس نے ماؤں کی آنکھوں میں بستے خوابوں کو ویران ہوتے بھی دیکھا ہے۔ یہ زمین جو زندگی کو پروان چڑھانے کے لیے بنی تھی صدیوں سے طاقت اور ہوس کے پجاریوں کے ہاتھوں مقتل بنی ہوئی ہے۔

یہ سوال آج ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ہم ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پرکھڑے ہیں؟ کیا ترقی یافتہ دنیا جو آج پہلے سے زیادہ باشعور اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی (connected) ہے پھر سے انھی غلطیوں کو دہرانے جا رہی ہے جو ماضی میں انسانیت کے لیے تباہی کا باعث بنی تھیں؟ کیا ہم پھر سے خون کی ہولی کھیلنے والے ہیں، پھر سے بستیوں کو ویران کرنے والے ہیں، پھر سے وہی آگ بھڑکانے جا رہے ہیں جو صدیوں تک جلتی رہتی ہے اور انسانوں کو راکھ میں تبدیل کردیتی ہے؟

یہ سوال کوئی جذباتی واویلا نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ہرگزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطے پہلے ہی جنگ اور بربادی کی لپیٹ میں ہیں۔ فلسطین میں معصوم بچوں کے جسموں سے خون بہتا ہے، یوکرین کی گلیاں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی ہیں۔ افغانستان کی سڑکیں خاموشی سے اپنے زخمی جسموں کے نوحے سناتی ہیں۔

افریقہ میں بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں ویرانی کے سائے لہراتے ہیں۔ اس سب کے باوجود عالمی طاقتیں آج بھی جنگی سازوسامان کے انبار لگا رہی ہیں، نئے اتحاد بن رہے ہیں، پرانے دشمنوں کوگھیرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، وسائل پر قبضے کی دوڑ میں انسانیت کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوتن کا حالیہ بیان اس عالمی منظرنامے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روس کسی کا دشمن نہیں، وہ کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا، وہ تو بس اپنی سالمیت کا دفاع کر رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا روس نے یورپ کو سستی گیس فراہم نہیں کی؟ کیا دوسری جنگ عظیم میں روس نے فاشزم کے خلاف عظیم قربانیاں نہیں دیں؟ کیا کووڈ کی وبا کے دوران مدد فراہم نہیں کی؟ یہ سوالات اپنی جگہ مگر سچ تو یہ ہے کہ عالمی سیاست کسی ایک ملک کے نیک نیتی کے دعوئوں پر نہیں بلکہ طاقت کے بے رحم اصولوں پر چلتی ہے۔ دشمنیاں صرف نظریاتی یا تاریخی وجوہات کی بنیاد پر نہیں بنتیں بلکہ جغرافیائی اور معاشی مفادات ان کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔

امریکا اور یورپی طاقتیں اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ آزما رہی ہیں جب کہ چین روس اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں اس نظام کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اس کھینچا تانی میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے، وہ عام انسان جوکسی عالمی طاقت کے ایوان میں نہیں بیٹھا جو نہ کسی جنگی منصوبے کا حصہ ہے نہ کسی سیاسی سازش کا شریکِ کار۔ وہ جو صرف اپنی زمین پر ہل چلانا چاہتا ہے، اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینا چاہتا ہے، اپنی چھت کے نیچے محفوظ سونا چاہتا ہے مگر جنگیں اس کے ہاتھ سے سب کچھ چھین لیتی ہیں۔

اگر ہم تاریخ کے صفحات پلٹیں تو ہمیں ہر جگہ جنگوں کے مہلک اثرات ہی نظر آئیں گے۔ پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری ویتنام کی جنگ ہو یا کوریا کی عراق اور افغانستان کی بربادی ہو یا مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تباہ کاریاں، ہر جنگ کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں نے اٹھایا جن کا ان تنازعات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کسان جن کی زمینیں جل گئیں، وہ مزدور جن کے کارخانے کھنڈر بن گئے، وہ مائیں جن کے بیٹے لوٹ کر نہ آئے، وہ بچے جن کے خوابوں پرگولیوں کے زخم لگے، وہ بستیاں جو کبھی دوبارہ آباد نہ ہو سکیں۔ جنگ صرف بارود اور ہتھیاروں کا کھیل نہیں، یہ نسلوں کی تباہی تہذیبوں کی بربادی اور انسانیت کی شکست کا نام ہے۔

یہ کیسی ترقی ہے کہ دنیا میں اربوں ڈالر ہتھیار بنانے پر خرچ کیے جا رہے ہیں مگر کروڑوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں؟ جو سرمایہ ایٹمی ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان پر لگایا جا رہا ہے، اگر وہ تعلیم، صحت اور انسانی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تو دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے، مگر مسئلہ یہی ہے کہ عالمی قیادت کی ترجیحات میں انسانیت کہیں بہت پیچھے چلی گئی ہے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنگوں کو روکنے کے بجائے انھیں مزید پیچیدہ بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ جنگی صنعتوں سے وابستہ کمپنیاں اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں عالمی طاقتوں کے حکمران یہ سب ایک ایسے کھیل کا حصہ ہیں جہاں امن ایک ناپسندیدہ شے بن چکا ہے۔ 

ہتھیار بنانے والوں کو جنگوں سے فائدہ ہوتا ہے، سیاستدانوں کو دشمنیاں زندہ رکھنے میں مفاد نظر آتا ہے۔ سامراجی قوتوں کوکمزور ممالک کی بربادی سے اپنا اقتدار مضبوط ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روزکہیں نہ کہیں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، ایک نئی جنگی سازش تیار کی جا رہی ہے، ایک نئی نسل کو برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا جا رہا ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جا رہی ہے رہے ہیں رہی ہیں رہا ہے پھر سے کے لیے

پڑھیں:

اسپیس اسٹیشن پر پھنسے خلا بازوں کو واپسی پر دردناک صورتحال کا سامنا، ہڈیاں تبدیل ہوگئیں

امریکی خلاباز سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور تکنیکی مسائل کے باعث نو ماہ سے خلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دونوں خلا باز 8 روزہ مشن پر روانہ ہوئے تھے تام ان کی واپسی تاحال نہ ہوسکی۔

تاہم اب ان کی واپسی کیلئے حال ہی میں ایک خلائی طیارہ کریو-10 بھیج دیا گیا ہے جس کی امید ظاہر کی جا رہی ہے سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور زمین پر واپس آجائیں گے۔

مگر اتنے ماہ تک خلا میں وقت گزارنے کے بعد دونوں خلابازوں کی زمین پر واپسی کا سفر دشوار اور تکلیف دی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ بتایا جا رہا ہے کہ کئی مہینوں خلا میں رہنے کے بعد خلاباز سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور میں ”بیبی فٹ“ (Baby Feet) نامی حالت پیدا ہو سکتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے پیروں کے تلوے چھوٹے بچے کی طرح نرم اور حساس ہو جائیں گے جس سے چہل قدمی میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جب ہم زمین پر چلتے ہیں تو ہمارے پیروں کو کشش ثقل اور رگڑ کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ہمارے پیروں کے تلووں کی جلد موٹی ہو جاتی ہے، جو ایک حفاظتی تہہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ ہمیں درد اور تکلیف سے بچانے میں مدد فراہم کرتا ہے، اور ہمارے پیروں کو ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچاتا ہے۔

بیبی فٹ کے علاوہ کشش ثقل کے بغیر خلا میں رہنا بھی ہڈیوں کے شدید نقصان کا سبب بن سکتا ہے جسے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ناسا کے مطابق ہر ماہ خلاباز خلا میں جاتے ہیں اور اگر وہ انہیں روکنے کے لیے کچھ نہ کریں تو ان کی ہڈیاں اپنی کثافت کا تقریباً 1 فیصد کھو دیں۔ پٹھے، جو عام طور پر زمین پر گھومنے پھرنے سے متحرک ہوتے ہیں، وہ بھی کمزور پڑجاتے ہیں کیونکہ ان میں مزید کام کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔

اس کے علاوہ خلا میں جسم کے خون کا volume کم ہو جاتا ہے کیونکہ دل کو کشش ثقل کے بغیر خون پمپ کرنے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ خون کا بہاؤ بھی بدل جاتا ہے، کچھ حصوں میں سست ہو جاتا ہے، جو خون کے جمنے کا باعث بن سکتا ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • گرین ریفائنری پاکستان کیلیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے
  • کراچی، آسمان پر شہاب ثاقب کے دلکش مناظر، فضاؤں میں ٹوٹے ہوئے تارے پھیل گئے
  • جیل ایک ان دیکھی دنیا
  • پی ایس ایل؛ نئی ٹیمیں کتنے میں فروخت ہوسکتی ہیں؟ قیمت سامنے آگئی
  • اسپیس اسٹیشن پر پھنسے خلا بازوں کو واپسی پر دردناک صورتحال کا سامنا، ہڈیاں تبدیل ہوگئیں
  • شگر، عمائدین تسر کا دانش اسکول کے لیے فری زمین دینے کا اعلان
  • دانش یونی ورسٹی دنیا کی ممتاز ترین جامعات کے ہم پلہ ہوگی، وزیراعظم
  • 190 ملین پاؤنڈ سے یونیورسٹی بنارہے ہیں، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے کم نہ ہوگی، وزیراعظم
  • دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش امتیازی سلوک، نفرت اور تعصب قابل مذمت ہے، مریم نواز