Express News:
2025-03-16@05:40:44 GMT

سندھ میں بڑھتی ہوئی مزاحمت

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

صوبہ سندھ سے ایک نئی تحریک جنم لے رہی ہے، جس کا بنیادی عنصر ہے مزاحمت۔ پیپلزپارٹی اگر چھ کینالوں کے مسئلے پر خاموشی اختیارکرتی ہے کیونکہ سندھ حکومت نے ابھی تک اس معاملے پر اپنا واضح موقف بیان نہیں کیا تو آنیوالا وقت پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں مشکل ترین وقت ہے اور یقینا پیپلز پارٹی سندھ میں اپنا ووٹ بینک گنوا دے گی۔

ایسا نہ بھی ہو مگر یہ پارٹی اپنی اخلاقی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ مشکل یہ کہ سندھ میں مضبوط لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے سوا کوئی ایسی پارٹی نہیں جو سندھ میں مقبول ہو۔ پانی کی تقسیم پر سندھ ایک متفقہ بیانیہ رکھتا ہے اور پیپلز پارٹی نے اس پر اپنی سیاسی ترجیحات وضع کی ہوئی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے موقف اور پالیسی میں جھول نظر آرہا ہے۔ ایک طرف انھوں نے SIFC کے اجلاس میںکینالوں کے معاملے میں اپنی رضا مندی دکھائی ہے اور دوسری طرف سندھ میں ان کے لیڈر لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ کینال نہیں بن رہے ہیں۔ لوگوں کے سامنے اس بات کا انکشاف تب ہوا جب پارلیمنٹ کے اجلاس میں صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے چھ کینال بن رہے ہیں، بقول ان کے کہ یہ نہیں بننے چاہئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر کیوں ان کینالوں کے بننے پر پہلے رضامندی ظاہرکی گئی؟

08-07-2024 کو ایوانَ صدر میں SIFC کا اجلاس ہوا ۔ SIFC آئینی ادارہ نہیں، اس ادارے کا آئین کے کسی آرٹیکل میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ لٰہذا SIFC مجاز نہیں کہ وہ آئینی اداروں کو بائی پاس کرتے ہوئے خود فیصلے کرے اور ان فیصلوں پر باقی تمام اداروں سے عمل درآمد کرائے یا پابند کرے۔

ان فیصلوں کے لیے کونسل آف کامن انٹرسٹ (CCI) جو ایک آئینی ادارہ ہے، اس کی منظوری لازمی ہوتی ہے۔ صوبہ سندھ میں ایسا گمان کیا جا رہا ہے کہ جیسے ملک میں اب بھی ون یونٹ رائج ہے۔ یہی فیصلے بنیاد بنے کہ سندھ میں قوم پرست لوگوں نے اپنے الگ بیانیہ بنایا۔ پہلے تو ان کی باتیں سندھ کے لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز نہیں تھیں،کیونکہ پیپلزپارٹی نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی اور تمام قوم پرست بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو ئے، مگر آج پیپلزپارٹی وفاق و سندھ میں برسراقتدار ہے یعنی حکومت کا حصہ ہے اسی لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اگر کچھ کہا بھی تو بہت ہی رسمی طور پر۔

آج جب سندھ میں پیپلز پارٹی کے بغیر ہی قوم پرستوں کا بیانیہ پانی کے مسئلے پر مضبوطی پکڑ رہا ہے تو پیپلز پارٹی پریشان ہے اور شاید پیپلز پارٹی کی پچاس سالہ حکومت میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ سندھ کی سرزمین ان کے پاؤں تلے سے کھسک رہی ہے۔

سندھ میں نہروں کے ایشو پر تحریک ابھرتی نظر آ رہی ہے اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوگا کہ سندھ کا وڈیرہ اس تحریک کا حصہ نہیں ہوگا۔  1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کی قیادت غلام مصطفی جتوئی نے کی تھی، وڈیرے جیلوں میں گئے۔ مگر پندرہ یا بیس دنوں میں ہی بہت سے وڈیروں نے اپنا معافی نامہ پیش کر کے جیل سے رہا ئی پائی۔

اس تحریک میں صرف وڈیرے نہیں تھے یہ تحریک ایک عوامی تحریک تھی جنرل ضیاء الحق کے خلاف اور یہ تحریک دیہی سندھ میں زوروں سے چلی۔ اس تحریک کو پوری دنیا نے رپورٹ کیا۔ گو کہ یہ تحریک پیپلز پارٹی کی تحریک تھی محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت جلاوطن تھیں اور اس تحریک کا بنیادی عنصر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تھی جس کا غم سندھ کے لوگوں میں شدید تھا۔

 اب قوم پرست نہروں کی تعمیر کے ایشو کو لے کر تحریک بنانے کی کوشش کررہے ہیں ، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو سولہ سال گزر چکے ہیں اور جس طرح سے انھوں نے سسٹم کو کنٹرول کیا ہے تو اگلے بیس برس تک ان کا اقتدار سے باہر رہنا محال ہے۔ ان کی حکومت میں ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

سندھ کے ڈیڑھ کروڑ بچے اسکولوں میں جانے سے محروم ہیں۔ تعلیمی اداروں کا نظام تباہ حال ہے، بلدیاتی نظام زوال زمین بوس ہے، صحت کے ادارے غیر فعال ہیں۔ پولیس کا محکمہ کرپٹ پریکٹسزکا شکار ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں منشیات کا کاروبار گہری جڑیں پکڑچکا ہے۔

میں یہ ضرورکہوں گا کہ لوگ اب پیپلز پارٹی سے بیزار ہیں۔ ان کا نعم البدل شاید اب چولستان کی نہر کو ایشو بنا کر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سندھ میں ایسی تحریک ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں پیپلز پارٹی کی کوئی شمولیت نہیں اور سندھ کا وڈیرہ بھی غائب ہے۔

ایک غیر فطری طریقے سے پورا پاکستان جاگیرداروں اور قبائلییت کے جمود سے باہر نکل چکا ہے، مگر سندھ میں اب بھی وڈیروں کا غلبہ ہے اور ان وڈیروں کا نعم البدل بھی وڈیروں کو ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ قوم پرستوں کا یہ موقف ہے کہ وڈیروں کی سوچ یہ ہے کہ سندھ کی مڈل کلاس سندھ کی قیادت نہ کرے اور پانی کے سنگین معاملے میں جس طرح سے ان وڈیروں اور پیپلز پارٹی نے چپ سادھ لی ہے، اس نے قوم پرستوں کے اس موقف کو مزید مضبوط کیا ہے۔

بلوچستان میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ غیر مقبول لوگوں کو پیپلز پارٹی کا رکن بنا کر، ڈاکٹر عبد المالک جیسی مڈل کلاس قیادت کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ حقیقی عوامی نمایندگان کو اقتدار میں جب شرکت نہیں دی گئی تو ماہ رنگ بلوچ ، بلوچستان میں بڑے جلسے کرنے لگ گئی۔ 

پیپلز پارٹی سندھ میں وہ ہی کام کرتی ہے ۔ سندھ کے اندر موجودہ نہری زمینوں کے لیے بھی اس وقت پانی کی قلت ہے۔ کوٹری سے ڈاؤن اسٹریم پانی جس کی اِرسا کے معاہدے کے تحت گارنٹی دی گئی تھی، و ہ اب ماضی بن چکا۔انڈس ڈیلٹا اب تباہ ہو چکا۔ لگ بھگ تین لاکھ ایکڑ زمین سمندر نگل چکا ہے۔ زیرِ زمین پانی، پینے کے لائق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

اگر وفاقیت کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان سیاسی طو ر پر انتہائی نچلی سطح پرکھڑا ہے۔ ہم نے کبھی بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان کا وفاقی نظام حساس ترین وفاقی نظام ہے۔ 1973 میں پاکستان کو آئین دیا گیا اور یہی آئین اس ملک کی بقاء کا باعث بنا گوکہ ہم نے اس آئین کو بار بار توڑا۔ ملک میں اس وقت جمہوری قوت کا فقدان ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جمہوری قوتیں ہیں۔ تاہم اس وقت ایک ہائبرڈ نظام جو چل رہا ہے۔ 14 مارچ نہروں کی حفاظت کا عالمی دن تھا۔ اس دن کو سندھیوں نے اپنے وجود اور بقاء کا اہم دن قرار دے دیا ہے۔کل تک سندھی اپنے ثقافت کے دن کو اہم مانتے تھے مگر اب نہروں کی حفاظت کے عالمی دن کو اہم ترین مانتے ہیں۔ پچھلے جمعے کو سندھ کے لوگوں نے جن میںعورتیں، بچے، بوڑھے، ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلاء شامل تھے ، احتجاج کیا۔ بس اس احتجاج میں نہ پیپلز پارٹی کی شرکت تھی اور نہ ہی سندھ کے وڈیروں کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کی پارٹی کے اس تحریک سندھ کے کہ سندھ کی کوشش رہی ہے اور یہ کے لیے ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

نئی نہریں مسترد، بلاول: ارسا چیئرمین وفاق کارکن سندھ سے لیا جائے، متفقہ قراردادیں

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی نے 4 اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 46 ویں برسی کے موقعے پر گڑھی خدا بخش بھٹو میں بڑے جلسے کا اعلان کرتے ہوئے دریائے سندھ پر 6 کینالوں کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے اور وفاقی حکومت پر واضح کیا ہے کے سندھ کو انڈس ریور سسٹم سے کسی نئے کینال کا منصوبہ قبول نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کے ارسا میں وفاق اور ایک صوبے کی اکثریت کے بنیاد پر سندھ کے آئینی اعتراضات کو بلڈوز کیا جاتا ہے اس لئے وزیر اعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ارسا چیئرمین اور ارسا میں وفاق کا رکن سندھ سے لیا جائے۔ یہ مطالبات ہفتے کو وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ کونسل کے اجلاس میں کئے گئے جس کی صدارت چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، سید قائم علی شاہ، جنرل سیکرٹری وقار مہدی، منظور وسان، سرفراز راجڑ، نعمان شیخ سعید غنی، سرفراز راجڑ، سید ناصر شاہ، شرجیل انعام میمن، مکیش کمار چاولہ، ضیاء الحسن لنجار، آغا سراج درانی، لال چند اکرانی، شاہدہ رحمانی سمیت صوبائی عہدیداران، صوبائی وزراء سمیت ڈویژنل و ضلعی عہدیداران نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے 4 اپریل کو 46 ویں یوم شہادت کے موقعے پر ملک بھر کی عوام گڑھی خدا بخش بھٹو کے جلسے میں بھرپور شرکت کر کے بھرپور خراج عقیدت پیش کریں گے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی سندھ کونسل کی جانب سے دریائے سندھ پر کینال منصوبے کے خلاف قراردادوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی دریائے سندھ پر نئے کینالوں کے خلاف ہے اور پارٹی شروع سے ہی اس منصوبے کے خلاف اپنی بھرپور آواز اٹھاتی آ رہی ہے اور پیپلز پارٹی ہی نے پانی کے ایشو سمیت سندھ کے حقوق کے لئے  عوام کی حقیقی نمائندگی کی ہے اور کرتی رہے گی۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا کہ 6 کینالوں کا منصوبہ سندھ کو بنجر بنانے کا منصوبہ ہے اور سندھ کو دریائے سندھ پر کسی کینال کا منصوبہ قبول نہیں ہے، اس لئے وفاقی حکومت 6 کینالوں کے منصوبے سے دستبرداری کا اعلان کرے اور سندھ کی آواز کو سننے کے لئے سی سی آئی کا اجلاس طلب کیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کو انڈس ریور سسٹم سے نئے کینال منصوبہ کسی صورت قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سسٹم میں پہلے ہی پانی کی سخت کمی ہے تو ان کینالوں میں پانی کہاں سے لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا مطالبہ ہے کہ پانی کے 1991ء معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم پیرا ٹو کے تحت کی جائے۔ جنرل سیکرٹری وقار مہدی نے کہا کے پیپلز پارٹی دریائے سندھ پر 6 کینالوں کے منصوبے کی اس وقت سے مخالفت کر رہی ہے  جب جی ڈی اے سمیت دیگر جماعتوں کو اس سے متعلق کوئی علم ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کے پیپلز پارٹی سندھ کے پانی اور سندھ کے حقوق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے نہیں دے گی۔ سندھ کونسل اجلاس میں قراردادیں منظور کی گئیں جس میں کہا گیا کہ سندھ کونسل کا یہ اجلاس شہید ذوالفقار علی بھٹو کو 46 ویں برسی کے موقعے پر بھرپور خراج عقیدت پیش کرتا ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ 4 اپریل کو ملک بھر سے لاکھوں عوام گڑھی خدا بخش بھٹو کے جلسے میں شرکت کرکے شہداء کو سلام پیش کریں گے۔ قرارداد کے ذریعے پیپلز پارٹی کی سندھ کونسل نے دریائے سندھ پر 6 کینالوں کے منصوبے کو مسترد کیا اور وفاقی حکومت کو واضع کیا کہ سندھ کو انڈس ریور سسٹم سے کسی نئے کینال کا منصوبہ قبول نہیں ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کے پیپلز پارٹی ارسا اور وفاق سے مطالبہ کرتی ہے کہ  پانی کے 1991ء معاہدے کے پیرا ٹو کے تحت یقینی بنا کر سندھ کو اپنے حصے کا پورا پانی فراہم کیا جائے اور کوٹری ڈاؤن سٹریم میں کم از کم 10ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جائے اور چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند لنک کینال جو کے فلڈ کینال ہیں، ان کینالوں کو فلڈ کے علاوہ بہانا بند کیا جائے اور تونسا سے گڈو بیراج تک پانی بہاؤ کی مانیٹرنگ کے لئے ٹیلی میٹری سسٹم لگایا جائے۔ قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو خبردار کرتی ہے کہ سندھ 70 فیصد زراعت پیدا کرنے والا صوبہ ہے اگر سندھ کو کم پانی فراہم کیا گیا تو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگا جس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہوگی اور پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ ارسا میں وفاق اور ایک صوبے کی اکثریت کے بنیاد پر سندھ کے آئینی اعتراضات کو بلڈوز کیا جاتا ہے اس لئے وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کے ارسا چیئرمین اور ارسا میں وفاق کا رکن سندھ سے لیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ جی ڈی اے کیجانب سے کینال معاملے پر پیپلز پارٹی اور صدر زرداری پر الزامات سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش ہیں، جن الزامات کو رد کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی حمایت میں مہم چلانے، ریلیاں نکالنے اور مارشل لاؤں کو دعوت دینے والی جی ڈی اے سندھ کی عوام سے معافی مانگے۔ اجلاس میں قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ پانی تنازعے کے حل اور پانی منصوبوں کے متعلق آئینی فورم سی سی آئی ہے جس کا ہر تین ماہ میں اجلاس طلب کرنا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے، اس لئے وفاقی حکومت سی سی آئی کا اجلاس طلب کرے۔ قرارداد میں جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دہشتگردوں کو بہادری سے شکست دینے پر سکیورٹی فورسز اور پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی اراکین کی جانب سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ویژن کے تحت پارلیمنٹ، آئین اور قانون کی بالادستی سمیت خوشحال سندھ خوشحال پاکستان کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • نئی نہریں مسترد، بلاول: ارسا چیئرمین وفاق کارکن سندھ سے لیا جائے، متفقہ قراردادیں
  • پیپلز پارٹی سندھ کونسل کا اجلاس ، دریائے سندھ پر 6کینال کا منصوبہ مسترد
  • پیپلز پارٹی دریائے سندھ پر 6 کینال منصوبے کے حوالے سے کھل کر سامنے آ گئی
  • پیپلز پارٹی نے دریائے سندھ پر 6 کینال کے منصوبے کو مسترد کردیا
  • پی پی پی سندھ کونسل اجلاس، کینال منصوبے کے خلاف قرارداد متفقہ منظور
  • پیپلز پارٹی سندھ کونسل کا اجلاس، قیادت پر اعتماد اور اہم قراردادیں منظور
  • سندھ کے لوگوں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ
  • صدر آصف زرداری نے کسی کینال کی منظوری نہیں دی، جام خان شورو
  • صدرآصف زرداری نے کسی کینال کی منظوری نہیں دی، جام خان شورو