اگر آج سقراط دوبارہ زندہ ہوجائے، ابنِ سینا کسی سڑک پر چلتا دکھائی دے، تو شاید ہی کوئی انھیں پہچاننے کی زحمت کرے، لیکن اگر کوئی شخص قیمتی گاڑی میں سڑک پر آجائے، برانڈڈ لباس پہنے ہو اور اس کے ساتھ چند لوگ دست بستہ کھڑے ہوں تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجائیںگے۔ وہ جو بھی کہے، لوگ غور سے سنیں گے، اس کی باتوں میں دانائی تلاش کریں گے اور اس کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے بے تاب ہو جائیں گے، چاہے وہ بددیانت ہو، جاہل ہو یا معاشرے کے لیے کسی بوجھ سے زیادہ حیثیت نہ رکھتا ہو۔
یہی ہمارا المیہ ہے۔ ہم کم ظرف لوگوں کو دولت کی وجہ سے عزت دیتے ہیں اور باصلاحیت، دیانت دار اور قوم کے لیے بے لوث کام کرنے والوں کو محض اس لیے کمتر سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس دولت نہیں۔ پھر شکوہ کرتے ہیں کہ ملک و قوم ترقی نہیں کرتے! بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم جنھیں عزت دیتے ہیں، وہی ہمارے اوپر مسلط ہوتے ہیں اور پھر انھی کی وجہ سے ہم زوال کا شکار رہتے ہیں۔
ترقی یافتہ قوموں میں کردار، علم اور دیانت داری کو عزت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں کامیابی کی تعریف صرف دولت سے کی جاتی ہے۔ کسی شخص کی عزت، رتبہ اور مقام اس کے بینک بیلنس سے ناپا جاتا ہے، اس کی قابلیت اور دیانت داری سے نہیں۔ اگر ایک شخص محض دولت مند ہے تو وہ قابلِ احترام ہے، چاہے اس کے پاس کوئی علم نہ ہو، کوئی خدمت نہ ہو، کوئی کردار نہ ہو، مگر جو شخص استاد ہے، عالم ہے، یا مصنف ہے، وہ اگر غریب ہے تو عزت کے بجائے ترس کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ معاشرے کی اصلاح، اخلاقیات اور تعلیم و تربیت پر کام کرتے ہیں، وہ لوگوں کی نظروں میں زیادہ وقعت نہیں رکھتے،کیونکہ وہ پیسے کی بات نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو پیسے کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ زیادہ قابلِ احترام سمجھے جاتے ہیں۔
آج اگر کوئی نوجوان ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد بنا کر، اپنی نجی زندگی اور گھر والوں کو دکھا کر معاشرتی اقدار کو بگاڑ رہا ہو تو وہ زیادہ مقبول ہے، زیادہ معزز ہے اور لوگ اس کی فالوئنگ میں اضافہ کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی نوجوان علم کے فروغ کی بات کرے یا اخلاقیات اور اچھائی پر زور دے تو لوگ اسے نظرانداز کر دیتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اس کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص بے لوث ہو کر معاشرے کے لیے کام کرے، کوئی تعمیری کام کرے، لکھے، پڑھائے یا کوئی فلاحی منصوبہ شروع کرے تو لوگ اسے ناسمجھ قرار دے دیتے ہیں۔ ایسے شخص سے پوچھا جاتا ہے’’ اس کام میں تمہیں کیا فائدہ ہے؟ اس میں تو پیسہ نہیں تو وقت ضایع کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘
یہ سوچ درحقیقت انتہائی خطرناک ہے،کیونکہ اگر لوگ صرف مالی فائدے کی بنیاد پر ہی کام کریں تو دنیا میں تعمیری اور فلاحی کام مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے، اگر یہی سوچ کارفرما رہے کہ جوکام مالی مفاد نہیں دیتا، وہ بے فائدہ ہے تو پھر دنیا میں کوئی بھی معلم نہیں رہے گا، کوئی عالم دین دین کی خدمت نہیں کرے گا،کوئی مصنف علمی خزانہ تخلیق نہیں کرے گا اورکوئی معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے کوشش نہیں کرے گا۔
پھر وہ تمام تحریکیں ختم ہو جائیں گی جو مختلف سماجی، دینی اور اخلاقی اصلاح کے لیے کام کر رہی ہیں،کیونکہ ان میں براہِ راست مالی فوائد نہیں ہوتے۔ یہی سوچ اگر ماضی میں ہوتی تو دنیا میں کوئی سائنسی تحقیق نہ ہوتی،کوئی تحریک آزادی نہ چلتی،کوئی دینی خدمت انجام نہ دی جاتی اورکوئی علم و ادب تخلیق نہ ہوتا۔ کیا اولیاء اللہ، محدثین و مفسرین نے دین اسلام کی تبلیغ کسی مالی فائدے کے لیے کی تھی؟ ک
یا تحریک آزادی کے ہیروز نے پاکستان کے لیے جدوجہد کسی کاروباری مفاد کے تحت کی تھی؟ کیا سقراط نے اپنے اصولوں پر جان اس لیے قربان کی تھی کہ اسے کوئی مادی نفع حاصل ہو؟ کیا نیوٹن، آئن اسٹائن اور ابن سینا نے علم کے میدان میں صرف دولت کمانے کے لیے کام کیا تھا؟ اگر ان سب عظیم شخصیات کی خدمات کا مقصد محض مالی فوائد ہوتا تو آج دنیا اس ترقی یافتہ مقام پر نہ ہوتی۔
افسوس ہم نے عزت اور کامیابی کے تمام اصول بدل ڈالے ہیں، اگرکوئی طالبعلم تحقیق اور تعلیم میں دلچسپی لے تو اسے سمجھایا جاتا ہے کہ’’ بیٹا، ان فضول چیزوں میں وقت ضایع نہ کرو،کوئی ایسا کام کرو جس میں جلد پیسہ آئے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان پیسے کے پیچھے دوڑ رہا ہے، چاہے اس کے لیے اسے اپنے اصولوں کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اگرکسی نوجوان کو دو راستے دکھائے جائیں، ایک وہ جہاں محنت کرنی ہو، علم حاصل کرنا ہو، تحقیق کرنی ہو اور بدلے میں زیادہ دولت نہ ملے اور دوسرا وہ جہاں دنوں میں ڈھیروں روپے کمائے جا سکتے ہوں تو آج کا نوجوان دوسرے راستے کا انتخاب کرے گا، چاہے اس کے لیے اسے کسی کا حق مارنا پڑے، کسی کو دھوکا دینا پڑے، یا کسی ناجائزکام میں ملوث ہونا پڑے۔
اسی لیے آج کا نوجوان تعلیم کو خیرباد کہہ کر زیادہ پیسہ کمانے کے لیے کبھی تو غیرقانونی طور پر بیرون ملک جاتا ہے اور راستے میں اپنی جان گنوا دیتا ہے۔ کبھی وائرل ہونے کے لیے بے ہودہ طریقے اختیارکر کے معاشرے کی اخلاقیات کا تباہ کرتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے، جس نے ہمارے معاشرے کو بدعنوانی اور بیہودگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ جب عزت کا معیار دولت بن جائے تو پھر لوگ دولت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کو کیسے بدلا جائے؟ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے۔ ہمیں اپنے عزت کے معیار کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں ان لوگوں کو عزت دینی ہوگی، جو محنت اور ایمانداری سے کام کرتے ہیں، جو علم اور تحقیق کو اپنا مشن بناتے ہیں، جو دیانت اور اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر زندگی گزارتے ہیں، جو معاشرے کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ کامیابی صرف پیسہ نہیں، بلکہ کردار، علم اور دیانت داری کامیابی کے اہم اجزاء ہیں۔ ہمیں معاشرتی رویے تبدیل کرنا ہوں گے، اگر ہم کسی استاد، عالم یا مصنف کو دیکھیں تو ان کے ساتھ اس سے زیادہ عزت اور محبت کا اظہارکریں، جیسا کہ ہم کسی دولت مند یا کاروباری شخص سے کرتے ہیں۔
ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جانا چاہیے، جو واقعی قوم کی خدمت کر رہے ہیں، نہ کہ صرف دولت مند ہونے کی وجہ سے مشہور ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی کہ عزت کا معیار صرف پیسہ نہیں۔ عزت کا اصل معیارکردار، ایمانداری، محنت اور نیک نیتی ہے۔ جب تک عزت اور اختیار کا معیار دولت رہے گا، ہمارے سماج میں بہتری کی امید رکھنا محض ایک خام خیالی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے بے اگر کوئی دیتے ہیں کرتے ہیں جاتا ہے کرے گا کام کر لوگ اس
پڑھیں:
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
میں گزشتہ دو دنوں سے ’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘ کے شہر اسلام آباد میں ہوں جہاں کی بحریہ یونیورسٹی میں میری بیٹی ایم ایس کر رہی ہے ،وہ اور اس کی دوست ایمان پچھلے پانچ سال سے اس شہر بے اماں میں موجود ہیں ،انہوں نے چار سال انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی میں بی ایس انگلش کے لئے گزارے میرا اور میری فاطمہ کا یہ وعدہ تھا کہ ہر مہینے میں اس سے ملنے آیا کروں گا مگر میں ایک بار بھی اپنے وعدے کے مطابق اسلام آباد نہ آسکا کہ یہاں ناگفتہ بہ حالات نے اجازت ہی نہ دی ۔میں اس بے مروت شہر کے اخبار کے ادارتی صفحہ پر ہر دوسرے دن کے سورج کے ساتھ طلوع ہوتا ،اس دوران میری بیٹی نے اپنی مادر گیتی کے حوالے سے بہت دکھ سہے، آئے دن جامعہ کی خود مختاری کے گھمنڈ میں مبتلا کوئی نہ کوئی گمبھیر مسئلہ کھڑا کردیتی ،میں لہو کے آ نسو پی کر رہ جاتا کہ سمسٹر سسٹم میں سارے نمبر ان اساتذہ کے اختیار میں ہوتے تھے اور یہ فرعونیت کے لہجے میں بات کرتی تھیں بچیوں کو بلا جواز بات بات پر پراگندہ حال کرنا ان کا روزانہ کا معمول بن گیا ہوا تھا۔
ایسے ماحول میں حساس بچیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا گھٹ گھٹ کے مرتی رہتی تھیں ،کسی وجہ سے چھٹی کی ضرورت پڑجاتی تو اساتذہ کی صورت میں کئی پہاڑ سر کرنے پڑتے اور سمسٹر کے آخر میں امتحان میں شمولیت کے لئے بچیوں کو انتہائی مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا، اکثر اوقات تو انہیں فیل کردیا جاتا، یوں انہیں پھر سے اپیئر ہونا پڑتا کریڈٹ آورز کبھی پورے ہی ہونے کو نہیں آتے تھے،کسی ایک اسائیجمنٹ پر دستخط کروانے کے لئے اساتذہ کے پیچھے کئی کئی دن جوتے رگڑنے پڑتے ، اساتذہ کے کلاس میں آنے نہ پر کوئی قد غن نہیں تھی، دوردراز شہروں سے آنے والی طالبات کو ذرا سی تاخیر پر کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ۔کوئی ڈیکورم نہیں تھا کہ جس کے تحت معمولات کو چلایا جاتا ۔ طالبات کو اپنی شکایات پہنچانے کا کوئی نظام نہیں نہ ریکٹر تک کسی کی رسائی نہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے شنوائی کی سہولت دے رکھی تھی اور حالات جوں کے توں ہیں اساتذہ اور طالبات کے درمیان ہم آہنگی کا گمان ہی مشکل اور والدین کی میل ملاقات تو ویسے ہی شجر ممنوعہ کی مثل ۔اذن گویائی کے سب دربند ہم بے چارے والدین بچیوں کے درد کے نوحے پڑھ رہے ہوتے ہیں اور بچیاں اپنے دکھ چھپانے میں لگی ہوتیں کہ کہیں کوئی بات باہر نہ نکل جائے کہ نکل گئی تو ایک پہاڑ کی طرح ٹوٹ پڑے گی۔
ویسے اجتماعی سماجی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہر سمت عجیب سے حالات ہیں جو سنورنے کی جانب آہی نہیں ر ہے ایک بھونچال کی سی کیفیات میں زندگی کر رہے ہیں وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ
جہاں بھونچال بنیاد فصیل و درمیں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
یہ فقط تعلیمی ماحول کے حوالے ہی سے نہیں، سیاسی حالات میں بھی یہی افرا تفری مچی ہے۔کہیں حکومت بہتری کے لئے ہاتھ پائوں مارتی ہے تو اس کی ساری تپسیا بالا بالا صاحبان اختیار کے ہاتھوں بے ثمر ٹھہرتی ہے ، مقامی سطح تک سہولیات کے فقدان میں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔حکمرانوں کی طرف راشن کی جو سہولتیں مہیا کی گئیں وہ بھی اندھے کی بانٹ کی مثل کہ ضرب المثل ہے ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں ہی کے بیچ‘‘ ریاست کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں نہیں وہ اپنا رونا روتی ہے ۔نہ ریاست کی ریڈ نہ حکومت کی ، عام آدمی لاچار و نامراد زندگی بسر کر رہا ،حقوق و فرائض کا احوال کس سے بانٹیں سب اپنے اپنے حصے کا دشت بے اماں ناپ رہا ہے وہ احسان یوسف نے کہا تھا کہ کہیں تو آئے نظر اب وفا کا اندلس بھی چراغ پھینک سکوں کشتیاں جلا بھی سکوں حکومت کہنے کو الفاظ کے پھاہے رکھنے میں مصروف مگر سب انہیں کے لئے ہورہا ہے جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں ،پہلے تھوڑے وزیر ،مشیر تھے کہ اب نئی فوج ظفر موج پوری تیاری سے قوم پر مسلط کئے جانا کا اہتمام ہوچکا۔ نئے اخراجات کے پنڈورے بکس کھلیں گے تو مہنگائی کا دیو گلی رقص کرے گا اور وہ گھرانے جنہیں رمضان المبارک میں جتنی مٹھی آٹا دیا گیا تھا اتنے دن فاقے کاٹیں گے اور نئے وزیر مشیر ان افتاد گان خاک کے نصیبوں پر قہقہے لگائیں گے۔