Express News:
2025-03-16@00:08:18 GMT

کچھ ذکر، ہم سے بچھڑے اداکاروں کا

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

یادش بخیر! پاکستان فلم و ٹی وی انڈسٹری کے متعدد فنکاروں نے خوب نام کمایا لیکن اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، میرے کالم میں جن شوبز شخصیات کا ذکر آئے گا، ان سے بہت محبت کا رشتہ رہا۔ اداکار عابد علی بہت نرم دل اور تعلیم یافتہ شخص تھے ان کی پہچان پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’وارث‘‘ تھا۔ راقم کی جب بھی ان سے ملاقات ہوتی بہت ہی شفقت سے پیش آتے۔

ایک دن ان سے ٹی وی اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے ’’ تم ٹی وی ڈرامے میں کام کیوں نہیں کرتے، آخر اشتہارات میں بھی تو کام کر رہے ہو‘‘ اس زمانے میں ایک معروف پروڈکٹ کے اشتہار میں کام کر رہا تھا اور ایکسپریس میں کالم بھی لکھتا تھا۔

یہ 2004 کی بات ہے، پھر ان کا ایک انٹرویو ایکسپریس کے لیے بھی کیا، میں نے ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی، کبھی سیریس نہیں دیکھا، میں انھیں پیار سے پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہتا تھا وہ کافی عرصے سے جگر کی بیماری میں مبتلا تھے جب ملاقات ہوتی کہتے’’ م۔ش۔خ ! دعا میں بہت تاثیر ہوتی ہے، تم میرے لیے دعا کیا کروں‘‘ وہ کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں داخل تھے اور راقم ان کی عیادت کرنے ہر دوسرے تیسرے دن ضرور جاتا۔

ڈاکٹر سید علی ارسلان کا شمار پھیپھڑوں کے مرض کے حوالے سے پاکستان میں ایک مستند نام ہے اور بہت اچھے لکھاری ہیں۔ ڈرامہ سیریل آدم، ابن آدم، راستہ دے زندگی کے مصنف بھی ہیں اور ’’راستہ دے زندگی‘‘ کو پی ٹی وی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

عابد علی کا انتقال لیاقت نیشنل اسپتال میں ہوا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر علی ارسلان نے ان سے بہت محبت کا ثبوت دیا۔ پاکستان کے معروف مصنف علی سفیان آفاقی کے وہ بھتیجے بھی ہیں اور آج کل بھی وہیں ہوتے ہیں۔

اداکار عابد علی 17 مارچ 1952 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے، محبت کرنے والے اور زندہ دل شخص تھے۔ 1973میں پی ٹی وی سے فنی زندگی کا آغاز کیا اور سیریل ’’جھوک سیال‘‘ میں انھوں نے لاجواب پرفارمنس دی۔ عابد علی کی وجہ شہرت ڈرامہ سیریل وارث تھی ان کی معروف سیریل غلام گردش، مہندی، سمندر، دوسرا آسمان، دشت ایک حقیقت سو افسانے اور دیگر سپرہٹ ڈرامے قابل ذکر ہیں۔

عابد علی نے پہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد ٹی وی کی اداکارہ رابعہ نورین سے شادی کی۔ 1985 میں ان کی اعلیٰ کارکردگی پر تحفہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ آج سے 10 سال قبل راقم پی ای سی ایچ میں رہا کرتا تھا اور میرے قریب ہی موسیقار نیاز احمد ان کا شمار معروف موسیقاروں میں ہوتا تھا اکثر ان سے رات میں تفصیلی ملاقات ہوتی تھیں وہ کشمیر روڈ کے لان میں واک کرتے تھے اور کبھی کبھی مجھے بھی لے جاتے تھے۔

29 مئی 2019 میں مختصر بیماری کے بعد اپنے رب کی طرف لوٹ گئے نثار بزمی اکثر ان سے ملاقاتیں کرتے اس سے ہماری نالج میں موسیقی اور شوبزنس کے حوالے سے معلومات میں اضافہ ہوتا، مہدی حسن، نور جہاں، مہناز، احمد رشدی اور رونا لیلیٰ جیسے گلوکاروں کے وہ موسیقار رہے، وہ ہم سے کہتے کہ موسیقی اب دم توڑ رہی ہے۔ پوپ موسیقی نے سب کچھ الٹا کر دیا ہے مگر وہ پوپ موسیقی سے بہت ناامید تھے کیونکہ اس سے نوجوان نسل کی تربیت بگڑتی جا رہی ہے ویسے تو وہ بھی پوپ موسیقی کو تسلیم کر چکے تھے انھوں نے راقم کو بتایا کہ پیٹ تو پالنا ہے لہٰذا اب میں کام کرتا ہوں مگر موسیقی کے حوالے سے میں نے اب خاموشی اختیار کر لی ہے۔

ذہین طاہرہ بڑی فنکارہ تھیں، پی ٹی وی کے ڈراموں سے قبل وہ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہیں، ریڈیو سے نشر ہونے والے ایک ڈرامے میں راقم نے ان کے ساتھ کام بھی کیا مگر ذہین طاہرہ بڑی صداکار تھیں اور ان سے ہم نے صداکاری کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا۔

زیادہ تر کردار ماں، دادی، نانی کے انھوں نے ادا کیے۔ ریڈیو کے ایک پروگرام ’’آپ سے باتیں‘‘ میں ہم بھی ایک کردار ادا کر رہے تھے اور آپ قارئین یقین کریں انھوں نے ہماری بہت مدد کی اور بولنے کا سلیقہ سکھایا وہ ہر ایک کی مدد ہر لحاظ سے کر دیا کرتی تھیں بہت سی بچیوں کے انھوں نے خلوص دل سے رشتے کروائے اور میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی نیکی ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ وہ ہر قسم کے کرداروں میں بہت خوبصورت اداکاری کرتی تھیں۔

مزاحیہ کرداروں میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھیں۔کراچی یونیورسٹی میں بھی کبھی کوئی پروگرام ہوتا تو ضرور شرکت کرتی، یونیورسٹی میں ایک مزاحیہ ڈرامے میں انھوں نے کمال کر دکھایا جس کی رپورٹ ہم نے روزنامہ ایکسپریس میں بھی لکھی اور لوگوں نے ذہین طاہرہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

ذہین طاہرہ بھارتی شہر لکھنو میں پیدا ہوئیں اور 2019 میں رب کی طرف لوٹ گئیں۔اداکارہ روحی بانو بڑی آرٹسٹ تھیں مگر افسوس کہ گھریلو حالات کی وجہ سے وہ نفسیاتی مریضہ بن گئی تھیں جب کہ انھوں نے ٹی وی ڈراموں میں تاریخی کردار ادا کیے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ وہ اپنے عروج کے زمانے میں ہی کچھ صدمات کی وجہ سے ذہنی توازن میں کمی ہونے کے بعد وہ اداکاری کے شعبے سے دور ہوتی چلی گئیں۔

1998 میں کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں فلم ساز عتیق ایک فلم کا آغاز کرنے والے تھے جس کا مرکزی کردار روحی بانو نے کرنا تھا۔ اس حوالے سے ہم ایسٹرن اسٹوڈیوگئے۔ فلم ساز عتیق صاحب سے ہماری دوستی تھی وہاں روحی بانو سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔

روحی بانو بہت سنجیدہ اداکارہ تھیں مگر بہت بااخلاق اور تہذیب دار تھیں ان سے ہم نے ایک تفصیلی انٹرویوکیا۔ زندگی سے نہ جانے کیوں مایوس نظر آتی تھیں۔ میں نے سوال کیا کہ آپ کا یہ عروج ہے کیسا لگتا ہے۔ افسردہ لہجے میں کہا کہ جناب جب دل کی کلیاں پھول بنے سے پہلے مرجھا جائیں تو اس زندگی کا کیا فائدہ ہے انھیں شوبزنس سے بہت گلا تھا۔

معذرت کے ساتھ تمام شوبزنس سے عمر رسیدہ فنکاروں کو بہت شکایتیں ہیں کہ اس میں وفا نہیں یہ صرف عروج کو کیش کراتے ہیں اور جہاں یہ دیکھتے ہیں کہ اب ان کا چراغ گل ہونے والا ہے تو ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔

رنگیلا، لہری، منور ظریف، ننھا، نرالا، مسعود اختر، وحید مراد، روحی بانو ان سب کو حالات نے زندہ ہونے کے باوجود اندر خانہ مار دیا تھا۔ گلاب چانڈیو، مانا کہ چھوٹی اسکرین کے اداکار تھے مگر بڑے فنکار تھے۔ ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ ہر ملاقات میں افسردہ دل سے ملتے افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج تک عروج پانے والے فنکاروں نے کبھی اپنے سینئرز کے لیے کچھ نہیں کیا نہ کوئی تنظیم بنائی۔

گلاب چانڈیو نے بتایا تھا کہ میں نے کئی فنکاروں دوستوں سے کہا کہ میں فنکاروں کے لیے ایک تنظیم بنانا چاہتا ہوں ’’آپ کی مدد‘‘ کے نام سے مگر ہر ایک نے ہنس کر ٹال دیا کسی فنکار کے انتقال کے بعد کچھ نام نہاد لوگ خراج عقیدت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں مگر کبھی کسی نے ان کے اہل خانہ کے لیے کچھ نہیں کیا۔

بقول گلاب چانڈیو کے کہ تعزیتی اجلاس بڑی خوبصورتی سے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں۔ راقم کی حکومت سے درخواست ہے کہ فنکاروں کے لیے سرکاری سطح پر ایک فنڈ قائم کیا جائے، جس کے ذریعے ان اداکاروں کے لواحقین اپنی زندگی کچھ بہتر طریقے سے گزار سکیں اس میں کوئی شک نہیں کہ فنکار بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، رب ان سب کی مغفرت کرے جن کا کالم میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے حوالے سے ذہین طاہرہ انھوں نے عابد علی میں بھی کے بعد سے بہت کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

اسلام آباد: پیشی پر عدالت آئی خواتین اور وکلاء کے درمیان جھگڑا، گالم گلوچ اور تھپڑوں کا تبادلہ

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں پیشی پر آئی خواتین اور وکلاء کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے دورن وکلاء اور خواتین کے درمیان گالم گلوچ اور تھپڑوں کا تبادلہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق خواتین ایڈیشنل سیشن جج عبدالغفور کاکڑ کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے کچہری آئیں تھی، وکلاء اور خواتین کے درمیان گالم گلوچ اور تھپڑوں کا تبادلہ ہوا، 

ذرائع  نے کہا کہ ہراسانی کا شکار ہونے والی خاتون تنزیلہ بتول ، سلطانہ فاؤنڈیشن اسلام آباد کی رہائشی ہیں، خاتون تنزیلہ بتول 302 کے کیس کے سلسلے  میں عدالت ائی ہوئی تھیں، متاثرہ خواتین میں رملہ شہزادی اور مریم عمران بھی شامل ہیں۔

 ذرائع  کے مطابق بقیہ خواتین بھی کیسز کی سلسلے میں عدالت  میں موجود تھیں۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے  سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے وکیل عمر ستی کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا، 

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ وکیل اور خواتین میں تکرار کا سلسلہ خواتین کی جانب سے شروع ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد: پیشی پر عدالت آئی خواتین اور وکلاء کے درمیان جھگڑا، گالم گلوچ اور تھپڑوں کا تبادلہ
  • بھیڑ بکریوں کی سلطنت
  • ’نوڈلز کھا کر گزارا کرتی تھی کیونکہ پیسے نہیں ہوتے تھے‘، بالی ووڈ اداکارہ دیا مرزا کے انکشافات