مہنگائی کی وجہ اور اس کے اثرات
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
دنیا کے کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی نئی حکومت بنتی ہے تو وہاں کے عوام نئے حکومتی عہدیداروں اور اربابِ اختیار سے ایک اُمید وابستہ کر لیتے ہیں، کہ آنیوالے نئے وزراء اپنے فیصلے عوام کی اُمیدوں کو مدِنظر رکھ کر کرتے ہیں تا کہ عوام کو ریلیف ملے گا تو خود بہ خود اُنکے حکومت میں آنے کا مقصد پورا ہو گا۔
بیشک عوام انتخابات میں ایسے ہی لوگوں کا چُناؤ کرتے ہیں جس سے اُنھیں ملک کے حالات میں مزید بہتری کی اُمیدیں ہوں۔ ایسے ہی پاکستان میں بھی 2024 کے ہونیوالے انتخابات میں لوگوں کی اپنی آنیوالی حکومت سے بیش بہا اُمیدیں وابستہ تھیں کہ آنیوالی حکومت عوام کے لیے ریلیف فراہم کرے گی، دن بہ دن بڑھنے والی مہنگائی کی نہ صرف روک تھام کریگی بلکہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقدامات بھی کریگی یا ملکی معیشت بہتر ہو گی، بے روزگاروں کو روزگار فراہم کریگی۔
جب کہ ایسے ہی کئی خواب دیکھتے ہوئے پاکستان کے عوام نے اپنی نئی حکومت اور نئے عُہدیداروں کا چناؤ کیا اور 2024کے ہونیوالے انتخابات میں عوام نے اپنے حکومتی اعلیٰ کاروں میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو چن لیا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت بننے سے پہلے بھی مہنگائی اپنے عروج پر تھی، اور نئی حکومت کے بننے کے بعد مزید مہنگائی میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
جیسا کہ پاکستان میں موجود ہر شخص کو ایک جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس میں سرِ فہرست بجلی، گیس، پٹرول، بیروزگاری جیسے مسائل شامل ہیں۔ بجٹ بھی عوام کے لیے ریلیف لانے کے بجائے عوام کو خطرے کی گھنٹیاں سُناتا آتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بجلی، گیس، پانی یا دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں صرف بجٹ کے وقت ہی اضافہ کیا جاتا ہے بلکہ ان کے اداروں کے اربابِ اختیار لوگوں کا جب دل کرتا ہے عوام کو بجلی، پانی، گیس، پٹرول، سبزیاں اور دیگر مراعات کی قیمتوں میں اضافے کی بُری خبر سُنا دیتے ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں مختلف شہروں میں مختلف بجلی کے ادارے موجود ہیں۔
کراچی میں KE کراچی الیکٹرک، لاہور میں LESCO، جب کہ اسلام آباد میں IESCO جیسے ادارے اپنے کردار نبھا رہے ہیں۔ جب کہ ان اداروں کو چلانیوالا ایک اور ادارہ جسے ہم NEPRA کے نام سے جانتے ہیں پاکستان میں وہ خاص ادارہ ہے جس نے پاکستانی عوام کو بجلی اور اس کے بلوں کے حوالے سے صرف کڑے امتحان میں ہی ڈالا ہے۔
یہاں تک کہ پاکستانی عوام اپنے استعمال کردہ بجلی کے یونٹس کے بل کی رقم سے زیادہ رقم بجلی کے بل میں موجودہ 9 قسم کے ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتی ہے۔ بجلی کے بل میں لگ کر آنیوالے 9 ٹیکسز درجہ ذیل ہیں۔
1۔الیکٹرک سٹی ڈیوٹ 2۔جنرل سیلز ٹیکس 3۔پی ٹی وی لائسنس فیس 4۔ فنانسنگ لاگت سر چاجز 5۔فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ 6۔اضافی ٹیکس 7۔مزید ٹیکس 8۔انکم ٹیکس 9۔ اور سیلز ٹیکس۔ اس کے علاوہ بجلی کے اداروںمیں کام کرنیوالے ملازمین کے یونیفارم کے پیسے بھی بجلی کے بلوں میں لگا کر بھیجے جاتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں گیس کی قلّت کی وجہ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا ضرور تھا لیکن گیس کے بلوں کی طرف سے پاکستانی عوام کو یہ سکون تھا کہ پانچ سو یا بہت ہوا تو ہزار کے اندر اندر گیس کا بل آئیگا جسکی ادائیگی بھی عوام الناس پر بھاری نہیں تھی لیکن جیسے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ویسے ہی بجلی کے اداروں کو دیکھتے ہوئے سوئی گیس کی جانب سے بھی عوام پر خطرات منڈلانے لگے۔
گزشتہ دنوں میں گیس کے بلوں کے حوالے سے عوامی شکایات میں یہ خبر سننے میں آئی کہ چند سو میں آنیوالا گیس کا بل ایک لاکھ سے اوپر کا آ گیا ہے۔ جب کہ دیگر ذرایع کے مطابق دسمبر 2023 سے فروری 2024 تک گیس کمپنیوں نے گیس کے یونٹس میں دو 2 بار اضافہ کیا ہے۔ جسکی وجہ گیس کی کمپنیوں کی بدحالی اور قرضہ بتائی جا رہی ہے جب کہ حالات اس کے بر عکس ہیں۔
ذرایع کے مطابق گیس کی کمپنیوں کے افسران اور ملازمین کی مراعات اور دیگر اخراجات کی مد میں 34 ارب روپے، ملازمین کی تنخواہوں کے 22 ارب روپے، افسران کی کلب کی ممبر شپ کے 5 کروڑ، چائے کافی کے 4 کروڑ 50 لاکھ، ملازمین کو مفت کا پٹرول کی فراہمی کے لیے 15 کروڑ، ملازمین کو گیس کی مفت فراہمی کے 59 کروڑ جب کہ ملازمین کے بونس کے 1 ارب 13 کروڑ کے علاوہ ملازمین کے حج کے اخراجات بھی عوام کو ہی اُٹھانے ہوں گے۔
مطلب گیس کی کمپنیوں کے ملازمین کی عیاشیوں اور دیگرمراعات بھی اب عوام سے بلوں کی صورت میں لیے جائیں گے۔ گیس کے بلوں میں اضافے کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے ملنے والی سبسڈی میں کمی اور درآمدی ضروریات پوری نہ ہونا بھی ہے۔
بجلی، گیس کے بعد اگر بات کی جائے پٹرولیم مصنوعات کی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں نے عوام کو کم امتحانات میں نہیں ڈالا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے 2023 کا سال بھی عوام کے لیے بہت بُرا ثابت ہوا ہے، ذرایع کے مطابق 2023 میں 24.
بجلی، گیس اور پٹرول کے علاوہ پاکستان کی عوام کے اوپر دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بھی برس پڑتی ہیں، آٹا، دال، چاول اور دیگر مصالحہ جات کے علاوہ سبزی فروش بھی قیمتوں کے حوالے سے اپنی من مانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پیاز ٹماٹر، آلو، ہری مرچ، دھنیا پودینا جیسی روز مرہ کے کھانوں میں استعمال ہونے والی سبزیاں بھی ایک عام آدمی کی خرید سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔پاکستان میں جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی لوگوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، بڑھتی مہنگائی نے نہ صرف لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے بلکہ ڈکیتی، چوری اور دیگر وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مہنگائی کی وجہ سے اشیائے خورونوش ہوں یا ادویات، کپڑے ہوں یا مشینیں، بجلی، گیس، پٹرول ہو یا ٹرانسپورٹ کے کرائے ہر چیز مہنگی ہو گی تو عوام ہی پسے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پٹرولیم مصنوعات کی پاکستان میں کے حوالے سے کہ پاکستان کی قیمتوں نئی حکومت کے علاوہ بھی عوام اور دیگر عوام کے عوام کو کے بلوں بجلی کے کے لیے رہا ہے گیس کے کی وجہ گیس کی
پڑھیں:
حکومت کی نئی سولر پالیسی: عوام کے لیے کیا خاص ہے؟
وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار اویس احمد خان لغاری کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئی سولر پینل پالیسی کی منظوری کے لیے جلد اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے ایک سمری پیش کرنے جا رہے ہیں۔ جس کے تحت چھتوں پر نصب کیے جانے والے نئے سولر پینلز سے بجلی ساڑھے 9 سے 10 روپے فی یونٹ کےریٹ پر خریدی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:سال 2025 میں سولر پینلز کی قیمتیں کیا رہنے کا امکان ہے؟
ان کی جانب سے مزید یہ بھی کہا گیا کہ حکومت اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے نصب چھتوں کے سولر پینلز کے معاہدوں کا احترام جاری رکھے گی اور ان سے بجلی 27 روپے فی یونٹ کے نرخ پر خریدتی رہے گی۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر ری انرجی سلیوشنز محمد اشفاق سرور نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزرا کے صرف سیاسی بیان ہوتے ہیں۔ 27 روپے بہت زیادہ ہے۔ جو کہ کبھی اتنے روپے میں یونٹ فروخت ہی نہیں کیا گیا۔ اور نئے سولر صارفین کے لیے 9 سے 10 روپے جو رکھا گیا ہے۔ اس میں کنزیومر کو کسی قسم کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ 10 روپے میں سولر صارفین سے فی یونٹ بجلی لے رہے ہیں۔ تو وہ وہی بجلی اسی ایریا کے صارفین کو تقریباً 41 روپے میں بیچ رہے ہیں۔ اس میں کنزیومر کو تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لوگوں کے سولر کے پیسے بھی بہت دیر سے جا کر پورے ہونگے۔ ورنہ تو چند ہی برسوں میں لوگوں کہ انوسٹمنٹ ان کو واپس مل جاتی تھی۔
سولر انرجی کمپنی کے سی ای او محمد حمزہ کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ان صارفین کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے جو نیٹ میٹرنگ کے ذریعے کچھ ریلیف حاصل کر رہے تھے۔ اب وہ صارفین جو سولر لگانے کا ارادہ کر رہے تھے ان کو نہ ہونے کے برابر فائدہ ہوگا۔ اور وہ اس خیال کو ترک ہی کر دیں گے کہ وہ سولر لگوائیں۔
یہ بھی پڑھیں:سولر صارفین سے سپلائی ہونے والی بجلی کی قیمت کم کرکے 10 روپے فی یونٹ مقرر کردی گئی
پوری دنیا میں حکومت کی جانب سے جتنا ہو سکے ریلیف دیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں چیزیں ہمیشہ الٹی سمت میں چلتی ہیں۔ حکومت آدھی سے بھی کم قیمت پر یونٹ خریدتی ہے، مگر اس کے بدلے صارفین کو تو کچھ بھی نہیں مل رہا۔
ابھی صرف ڈرافٹ بنایا گیا ہےسولر سگما کمپنی کے مالک محمد نثار کا کہنا تھا۔ کہ ابھی تو حکومت کی جانب سے صرف ڈرافٹ بنایا گیا ہے۔ لیکن کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے سولر پینل استعمال کرنے والوں سے پہلے جو وعدے کیے گئے تھے اگر نبھاتے ہیں تو وہ بہت اچھا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے سولر انرجی کو پروموٹ کرنے کے لیے ریٹس برقرار رکھے جائیں، لیکن پاکستان میں اس کی خریداری قیمت کمی ہو رہی ہے۔ جبکہ پوری دنیا میں سولر پینل کے انسینٹیو دیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی پالیسیز سے تو عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ نقصان ہوتا ہے۔ بس کنزیومرز کا پے بیک پریڈ طویل ہو جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈائریکٹر ری انرجی سلیوشنز سولر انرجی کمپنی سولر پینل نئی پالیسی سولر سگما کمپنی سی ای او محمد حمزہ محمد اشفاق سرور محمد نثا