الیکٹرانک میڈیا پر شاعری اور افسانے
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
بہت دن سے یہ بازگشت سننے کو مل رہی ہے کہ سوشل میڈیا سے دلچسپی کے باعث اب علم و ادب اور شعر و سخن کے متوالے کم ہوتے جا رہے ہیں کچھ دانا و بینا نے تو اس بات کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ آیندہ بیس، پچیس برسوں میں پرنٹ میڈیا زوال کی حدوں کو چھونے لگے گا۔
کتابیں اور اخبارات و رسائل کی اشاعت محدود ہو جائے گی یا پھر بالکل ختم ہو جائے گی لیکن تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے آج بھی جونیئر و سینئر لکھاریوں کی کتب کی اشاعت باقاعدگی سے ہو رہی ہے، ہر موضوع پر کتابیں شایع ہوتی ہیں اور قاری اپنے ذوق و فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب خریدتا ہے۔
حال ہی میں حامد علی سید کا شعری مجموعہ ’’ریگزار میں دریا‘‘ اور زویا حسن کے افسانوں کا مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب ‘‘منظر عام پر آیا۔ کچھ تخلیقات نے پرنٹ میڈیا کی جگہ اپنا جلوہ دکھایا، اظہار کے ذرایع میں آج جدید کتاب کا نام ’’فیس بک‘‘ ہے گویا آپ کا چہرہ کھلی کتاب کی مانند ہے جہاں پر دل کی باتیں اور ذہانت و فطانت کے خزانے پائے جاتے ہیں۔
کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر قدغن ہو، اب بات یہ ہے کہ ہر باصلاحیت شخص اپنے مزاج اور فکر کے مطابق علم و ہنر کے دریا بہاتا ہے انھی فنکاروں میں ایک اہم ترین نام زیب اذکار حسین کا بھی جو صحافت و افسانہ نگاری اور شعر و سخن کے حوالے سے ممتاز بھی ہے اور معتبر بھی کافی طویل عرصے سے آپ شاعری کر رہے ہیں، غزلیات ان کی پسندیدہ صنف ہے ان کی غزلیں حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم پر تو سننے کو ملتی ہی ہیں جس کے وہ سیکریٹری ہیں، ہم انھیں فیس بک پر بھی پڑھتے ہیں ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ منفرد ہے لفظوں کا انتخاب قابل ستائش ہے نمونہ کلام پیش خدمت ہے، غزل مماثل سے چند اشعار:
ہمارے پاس خوشی کا جواز ہی کم ہے
تمہارے پاس شکستہ دلی کا مرہم ہے
نہ کوئی طرفہ تعلق، نہ ربطِ باہم ہے
جو دکھ اسے نہیں لاحق ہمیں وہی غم ہے
جو شعر تم نے کیا قامت غزل میں شمار
اسی کے بطن میں پوشیدہ پہلوئے دم ہے
ایک اور غزل مماثل:
دکھ کی بے چینیوں کو سر کرنا
وحشت متن سے مفر کرنا
بے خودی میں کبھی سفر کرنا
خود کو خود ہی سے در بدر کرنا
ہار دینا یوں اپنے ہونے کو
اپنے ہونے کو یوں بسر کرنا
دیکھیے غزل کے اشعار اور معنویت کو برتا گیا ہے خیال کی چاشنی اور معنویت کا حسن ان کی شاعری کا خاصا ہے۔
ہم اپنے وہم سے کوئی گماں بتا نہ سکے
وہ بے دھیانی تھی، کوئی دھیان بنا نہ سکے
سنا تو یہ تھا کہ دل کا جہاں بھی ہوتا ہے
تھے ایسے دل بھی کہ اپنے جہان بنا نہ سکے
ہر ایک چیز بنا لیتی ہے جگہ اپنی
وہ لوگ بھی تھے کہ اپنا مکاں بنا نہ سکے
تھی آگ ایسی کہ جنگل پہ ہو گئی تھی محیط
پرندے وہ تھے کہ پھر آشیاں بنا نہ سکے
جناب زیب اذکار حسین ایک ایسے قلم کار ہیں جو اپنی بصیرت و بصارت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور تخلیق کے مراحل سے گزرتے ہیں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’دور اذکار افسانے‘‘ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز انوکھا ہے، اسی فکر کے نتیجے میں ان کے افسانے بھی نرالے ہیں، فن افسانہ نگاری میں زیب اذکار نے بہترین تجربات کیے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں۔
اگر تنقید کے بارے میں بات کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے نقاد کے طور پر سامنے آئے ہیں جو بہت سی صلاحیتوں کے مالک اور ادب کے ہر شعبے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور ان کی ایک خوبی یہ بھی کہ ان کی گفتگو میں توازن برقرار رہتا ہے اسی وجہ سے شرکا محفل کو سیکھنے کو ملتا ہے۔
شاید ہی کوئی ایسا قلم کار ہوگا جو ان سے ناراض ہو، سچی بات ہے اچھا اخلاق ہی انسان کو بڑا بناتا ہے اور پھر اس کے کام جو اس نے محنت و لگن کے ساتھ انجام دیے ہیں۔ اب آتے ہیں زویا حسن کے افسانوی مجموعہ ’’گم شدہ آوازوں کا تعاقب‘‘ کی طرف۔
ان کے افسانے پڑھ کر میں یہ رائے قائم کر سکی ہوں کہ زویا حسن ایک ایسی افسانہ نگار ہیں جنھیں اپنے فن پر عبور حاصل ہے وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں نہایت سلیقے کے ساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچاتی ہیں، ان کی فکر کے زاویے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ زویا کے افسانوں میں معاشرتی جبر و قہر کی تصویریں جداگانہ انداز میں نظر آتی ہیں، ان کے افسانوں میں مرد کے ظلم و ستم سہنے والی مظلوم عورتوں کا ذکر ہے جوکہ جسمانی تشدد اور مارپیٹ برداشت کرتی ہیں، مرد سے نجات کے لیے راہ فرار تلاش نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی محرومیوں سے بچنے کے لیے تخیل کی دنیا میں آباد ہو جاتی ہیں اور اس وقت تک زندگی کی خوشیاں کشید کرتی ہیں جب تک ان کی نظروں اور دل کا فریب سامنے نہیں آ جاتا۔
ایسی ہی حقیقت ’’کھڑکی میں اگا وجود‘‘ میں نظر آتی ہے۔ ایک اور افسانہ ’’آسمان پر آخری دستک‘‘ نے دلخراش واقعات کو افسانے کا پیکر عطا کیا ہے۔ ’’کلاؤن اسٹیج سے اتر آیا‘‘ یہ افسانہ بھی فکر کے در وا کرتا ہے اور مذہب انسانیت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جو بنی نوع انسان کی خدمت کو بلا ذات و نسل کی تفریق کو نمایاں کرنے کا سبب ہے۔
ان کے زیادہ تر افسانے جو میں نے پڑھے ہیں زندگی کی تلخیوں اور سچائیوں کے گرد گھومتے ہیں، ان کا اسلوب بیان اور انداز تحریر ان کی شناخت ہے۔’’ریگزار میں دریا‘‘ سینئر صحافی حامد علی سید کا پانچواں شعری مجموعہ ہے اس سے قبل ان کے چار شعری مجموعے نقاد و قارئین سے داد حاصل کر چکے ہیں میں خود بھی ان کی شاعری کی قاری رہی ہوں، حامد علی سید نے کل سے آج تک جتنا بھی کلام لکھا ہے وہ سب حالات زندگی، سماجی اور معاشرتی اقدار اور رویوں کا نچوڑ ہے، جسے انھوں نے فنی باریکیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تخلیقی سانچے میں ڈھالا ہے۔ کتاب کے بیک کور پر ان کا خوبصورت کلام درج ہے۔
کل بھی خوش گمانی تھی آج بھی فسانے ہیں
میری رائیگانی کے سلسلے پرانے ہیں
ساتھ لے کے چلنا ہے ریگزار میں دریا
اور اس خرابے میں پھول بھی کھلانے ہیں
یہ اشعار ان کی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں کہ انھوں نے حیات جہد مسلسل میں بسر کی ہے۔ حامد علی کو یاسیت اور ناکامی کے دکھ نے اپنے حصار میں لے لیا اور ناکام خواہشات کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:
ہوا سے دوستانہ چاہتے تھے
چراغوں کو جلانا چاہتے تھے
لہو رسنے لگا ہے انگلیوں سے
ترا پیکر بنانا چاہتے تھے
اپنی سوچ و فکر کی رونمائی اس طرح کی ہے کہ ان پر گزرنے والے غموں نے شعر و سخن میں اپنی جگہ بنالی ہے۔
میں وحشت میں اگر دھندلا رہا ہوں
تمہیں تو روشنی دکھلا رہا ہوں
تمنا سبز ہوتی جا رہی ہے
مگر میں دن بہ دن مرجھا رہا ہوں
256 صفحات پر مشتمل کتاب دیدہ زیب سرورق اور دلکش و بامعنی شاعری سے مرصع ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے افسانوں بنا نہ سکے حامد علی ہیں اور فکر کے
پڑھیں:
’’ہولی‘‘ کے موقع پر عفت عمر کی ویڈیوز نے سوشل میڈیا صارفین کو ناراض کردیا
پاکستان کی معروف اداکارہ، ماڈل اور میزبان عفت عمر ایک بار پھر اپنے منفرد انداز کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔
ہندوؤں کے تہوار ’’ہولی‘‘ کے موقع پر عفت عمر کی سرخ ساڑھی اور سندور سے سجی مانگ کی تصاویر اور ویڈیوز نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے۔
53 سالہ عفت عمر، جو اپنے بے باک طرزِ زندگی اور بیانات کی وجہ سے اکثر تنازعات کا شکار رہتی ہیں، نے اپنی نئی ویڈیوز میں ہندوانہ حلیہ اپنایا ہے۔ ان ویڈیوز میں وہ سرخ ساڑھی میں ملبوس نظر آ رہی ہیں، جب کہ ان کی مانگ سندور سے بھری ہوئی ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Iffat Umar (@iffatomarofficial)
عفت نے اپنی اس پوسٹ کو ایک دلچسپ کیپشن بھی دیا ہے: ’’کبھی کبھار آپ لباس کسی کو مارنے کے لیے اور کبھی کبھار جیتنے کے لیے پہنتے ہیں۔‘‘
تاہم، عفت عمر کا یہ انداز سب کو پسند نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز کے کمنٹ باکس میں صارفین نے انہیں سندور لگانے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کچھ صارفین نے لکھا، ’’یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے‘‘ جب کہ کچھ نے کہا ’’عفت عمر کو اپنے لباس اور انداز پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
لیکن عفت عمر کے مداحوں نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’عفت عمر ہمیشہ اپنے انداز میں منفرد رہی ہیں۔ انہیں جو پسند ہے، وہی کرتی ہیں۔‘‘ ایک اور صارف نے کہا، ’’یہ صرف ایک تہوار کا جشن ہے، اسے اتنا سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔‘‘
عفت عمر نے اپنے کریئر میں کئی بار ثابت کیا ہے کہ وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی مرضی سے جیتی ہیں۔ ان کا یہ ہولی والا انداز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا وہ اس تنقید کے بعد اپنے انداز میں کوئی تبدیلی لائیں گی یا پھر اپنے موقف پر قائم رہیں گی۔