ٹرمپ کے دور اقتدار میں کیا ہوا تھا اور انھیں کیوں ایک کے بعد فوری دوسری بار اقتدار میں آنے سے روکنا پڑا تھا اور پہلے ناکام دورکے بعد عوام نے انھیں ایک وقفے کے بعد ان کو کیسے قبول کر لیا۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کا دنیا میں مانیٹر بننے اور حکم چلانے کے عمل میں خود اس کا اور اس کے حواریوں کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
افغانستان کی جنگ میں کودنے کا عمل دراصل روس سے چلتی ایک طویل سرد جنگ کا نتیجہ تھا جس نے نہ صرف امریکا کو بلکہ دنیا بھر میں تعصب کی جنگ کو ہوا دی تھی۔ لوگوں نے افغانستان میں کی جانے والی خون ریزی کو تسلیم کیا ہو یا نہ کیا ہو، خود امریکی افواج میں اس متعصبانہ رجحان سے نفسیاتی عوارض ناپسندیدگی کی حد تک ابھرے اور یہ تاثر ابھرا کہ امریکا کا اس بڑی جنگ میں اپنا کرتب دکھانے کا عمل کس قدر نقصان کی صورت میں نکلا، جس کے اثر سے آج بھی امریکا اپنا پلو نہیں چھڑا سکا ہے۔
نہ صرف مالی دور پر بلکہ ذہنی و جسمانی کوفت اور اذیت کے نشان امریکی افواج کے اراکین پر نظر آتے ہیں، اس بڑی ناکامی کے بعد بھی یہ عمل رکا نہیں بلکہ کسی اور جانب کا رخ کرگیا۔ بڑی طاقت سے عناد اور ٹکر لینے کا جذبہ امریکا کا پرانا نفسیاتی مرض ہے، اس لیے کہ جب سے برطانیہ کی بادشاہی کا تاج کمزور پڑا، امریکا کو اس کا مقام حاصل کرنے کا چسکا لگ گیا، لیکن یہ آج کی دنیا ہے، یہاں یقینا ماضی کی طرح اب بھی بڑے مظالم قوموں پر ڈھائے گئے ہیں جس کی بڑی مثال غزہ ہے، لیکن ویت نام کی ناکام جنگ نے اسے کوئی سبق نہ دیا اور ایک کے بعد ایک وہ اس طرح کے خونی کھیل میں ڈبکیاں لگاتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان اور پھر اسامہ بن لادن کے ڈراپ سین کے بعد اسے مجبوراً اپنی جانب سے یہ سبق بند کرنا پڑا تھا۔
روس ایک بڑا بھوت بن کر اس کے حواسوں پر ایسا سوار ہوا کہ ماضی تک جو کھیل افغانستان کی آڑ میں چلتا رہا تھا، اب سے یوکرین کے چھوٹے سے پلو سے پکڑنا پڑا اور ہدف تھا روس۔ روس نے یقینا یوکرین کے ساتھ بڑا برا کیا لیکن امریکا نے ایک بار پھر مانیٹرکی ڈیوٹی انجام دینے کی سوچی اور یورپ کے بااثر ممالک کے دروازوں کو بجا کر چوکنا کیا۔
جنگ کے بلند شعلے یورپ تک محسوس کیے گئے۔ پوتن ایک انتہائی ظالم اور مکار انسان ڈکلیئر کردیا گیا جو یوکرین پر پھر سے قبضہ کر کے اپنی حدود بڑھانا چاہتا ہے وہ بھی امریکا کی ناک کے نیچے اور بھلا یہ اسے کیسے گوارا تھا۔ معاملہ بڑھتا گیا امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین کی بھرپور مدد کا اعلان کیا جس کے سہارے ولادیمیر زیلنسکی نے روس جیسے بڑے بھوت سے ٹکر لینے کا عہدکیا، پوتن نے امریکی سرکار کے بڑے دعوے مسترد کر دیے اور وہ رکا نہیں، تب ہی فلسطین کی سرد جنگ شعلوں میں لپٹ کر منظر عام پر آگئی۔
دنیا کے ناظرین کے لیے ایک اور جنگی اسٹیج سج گیا، اب یوکرین اور روس کی جنگ پس منظر میں چلی گئی۔ اس دوران زیلنسکی نے بہت دہائیاں دیں، لیکن بے سود رہیں کہ اچانک امریکی سیاست کا نقشہ بدلتا نظر آتا ہے۔ جوبائیڈن کیا بیمار ہوئے وہاں تو دنیا ہی بدل گئی۔
بدکار، بدفطرت،کرپٹ، چالاک، عیار اور پر تعصب نجانے کن کن القابات کا بوجھ اٹھائے ٹرمپ میدان میں اتر ہی آئے۔ ایک بار پھر منظرنامہ تیزی سے بدلنے لگا۔یوکرین کی حمایت کرنے والا امریکا اب روس کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوکرین پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ روس سے جنگ بندی کر لے اور بدلے میں وہ تمام کڑی شرائط قبول کر لے جو اس کی گردن میں طوق پہنانے کے مترادف ہیں۔
یہ بہت بڑی قلابازی تھی جو ٹرمپ نے آتے ہی کھائی اور دکھا دیا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں الگ سوچتے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلے حملہ روس کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس نے ہی کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ یہ اندھا قانون لاگوکرنے میں دو بڑی طاقتیں ایک ساتھ جڑگئی ہیں۔ جو کچھ جوبائیڈن کرچکے تھے اورکہہ چکے تھے، ٹرمپ اس سے ہٹ کر اپنے لیے نئی روش بنا رہے ہیں۔
پوری دنیا نے زیلنسکی اور ٹرمپ کی اس تکرار کو دیکھا جس میں ٹرمپ نے اپنے منصب سے اتر کر ایسی باتیں کیں جو ان کے امیج کو مزید داغ دار کر گئیں۔ زیلنسکی جوبائیڈن کے دور حکومت تک فارم میں نظر آتے تھے لیکن ٹرمپ کی آنکھیں بدلتے ہی انھیں اپنے ملک کا مستقبل بھی تاریک نظر آنے لگا، دراصل ٹرمپ کی نگاہ کسی اور ہدف پر ہے وہ روس جیسے طاقتور جن کا ہاتھ تھام کر ایشیا میں قدم بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک ایسے کاروباری انسان ہیں جو اپنے نفع کے آگے کچھ نہیں دیکھتا۔
اس منظر میں غزہ بھی ابھرتا ہے جہاں طویل جنگ نے آگ وخون کی ہولی کھیلی لیکن یہاں بھی ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھی بنے نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنے یہودی داماد کے زبردست بزنس پلان سے اس حد تک اتفاق ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
آج ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایسے ایسے شاہکار شامل ہیں جنھیں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا کرپٹ، داغ دارکردار والے شاید امریکا کی تاریخ میں پہلے ایسی ٹیم کبھی نہ دیکھی نہ سنی۔آخر ٹرمپ چاہتے کیا ہیں؟ ٹرمپ کی راہ ماضی کے تمام حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ الگ ہے اور یہ انھوں نے ظاہرکرنا شروع کر دیا ہے۔
وہ خود غرض ہے، انا پرست ہیں یا نہیں لیکن امریکا اور اپنی قوم کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے، وہ کسی بھی طرح اپنے ملک اور امریکی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں، انھیں فکر ہے تو اپنے ملک کے سرمائے کی جسے وہ کسی کمزور ہوتے ملک یا قوم کی بھلائی، سدھارکے لیے استعمال کرنے سے گریزکرتے ہیں۔
اس لیے کہ وہ امریکا کوگریٹر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔ وہ ایک چال باز بزنس مین کی طرح چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لادنا چاہتے ہیں، امپورٹ ڈیوٹی بڑھنے سے سستی اشیا مہنگی ہوکر عوام کو مشکلات میں ڈال دے گی، لیکن چین کو زیرکرنے کے لیے کاروباری ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے اسی طرح کی کاروباری چالیں وہ اپنی پہلی باری میں بھارت کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کر چکے ہیں۔
ٹرمپ عوام کے لیے کیسے بھی ہوں، انھیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن ان کے اپنے دماغ میں جو بات بیٹھ گئی ہے وہ اسے پورا کرنے میں مستعد ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلی بار 2017 میں کامیاب ہونے کے بعد 2021 میں وہ اس تخت سے دور ہوگئے تھے اور اس میں ان کی جو غلطیاں تھیں وہ آج بھی انھی پرکاربند ہیں کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدل سکتے۔
کاروبار چلانے کے لیے تمام حربے اختیارکرنا انھیں خوب آتا ہے لیکن ملک چلانے کے لیے وہ کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتائج دنیا پر کس طرح اپنے اثرات مرتب کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ انسانی عقل و شعور اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا دنیا ایک گریٹر امریکا کو دیکھ سکے گی یا ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث امریکا کی ریاستیں دور ہو جائیں گی اس لیے کہ فیصلہ قدرت کا ہوتا ہے لیکن وہ انسانوں سے ہی یہ فیصلے کرواتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا کو چاہتے ہیں ٹرمپ کی کے بعد کے لیے
پڑھیں:
امدادی وسائل میں کمی لیکن روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد جاری رہے گی، گوتیرش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بنگلہ دیش میں مقیم 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کی تکالیف میں کمی لانے اور انہیں خوراک سمیت ضروری امداد کی فراہمی کے لیے ہرممکن کوششیں کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
سیکرٹری جنرل مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں ان پناہ گزینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بنگلہ دیش آئے ہیں جہاں انہوں نے میانمار سے نقل مکانی کر کے آنے والے ان لوگوں کو تحفظ دینے پر بنگلہ دیش کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور عالمی برادری سے ان کی مدد کے لیے وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی۔
Tweet URLانہوں نے بنگلہ دیش کے ساحلی شہر کاکس بازار میں قائم روہنگیا کیمپ کے دورے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر سال رمضان میں کسی بحران زدہ آبادی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
(جاری ہے)
اس مرتبہ انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا جو فیاضانہ طور سے میانمار کے ان مصیبت زدہ لوگوں کے کام آ رہے ہیں۔سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ اس دورے میں پناہ گزینوں نے انہیں بتایا کہ وہ محفوظ طور سے میانمار واپس جانے اور کیمپوں میں رہن سہن کے حالات میں بہتری کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بحرانوں کا سامنا کرنے والے جو لوگ امدادی وسائل میں کمی آنے سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ان میں کاکس بازار کے روہنگیا پناہ گزین بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ ان کی محفوظ اور باوقار وطن واپسی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔امدادی وسائل کا بحراناس موقع پر انہوں نے خبردار کیا کہ امریکہ اور یورپی ممالک سمیت بڑے عطیہ دہندگان کی جانب سے امدادی وسائل کی فراہمی بند کیے جانے یا ان میں بھاری کٹوتیوں کے باعث دنیا بھر میں انسانی امداد کی فراہمی خطرات سے دوچار ہے۔ ان حالات میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ میں مہیا کی جانے والی غذائی امداد میں بھی کمی آنے کا خدشہ ہے۔
تاہم، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ رکن ممالک سے بات کر کے اس روہنگیا آبادی کے لیے امداد کی ترسیل برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔سیکرٹری جنرل نے کہا کہ حالیہ دنوں مزید بہت سے روہنگیا میانمار سے نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش آئے ہیں جنہیں اپنے ملک میں مسلمان ہونے کی بنا پر بھی نفرت اور تشدد کا سامنا تھا۔ کل مسلمانوں سے نفرت کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر ان لوگوں کو یاد رکھنا ضروری ہے۔
میانمار ان لوگوں کا وطن ہے جہاں ان کی محفوظ، رضاکارانہ اور باوقار واپسی ہی پناہ گزینوں کے اس بحران کا حل ہے۔انہوں نے کہا کہ کاکس بازار میں رہنے والے پناہ گزین تعلیم، ہنر کی تربیت اور خوف کفالت کے مواقع چاہتے ہیں۔ جب لوگوں کو اچھے مستقبل کے امکانات دکھائی نہ دیں تو تشدد، جرائم اور سلامتی کے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کا فیاضانہ کردارسیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے لوگوں کی ان پناہ گزینوں کے لیے مدد کا اعتراف کرنا ضروری ہے جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود انہیں فیاضانہ مدد فراہم کی ہے۔
کیمپ اور اس میں رہنے والے پناہ گزینوں کو موسمیاتی بحران کے شدید اثرات کا سامنا ہے۔ موسم گرما میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور جنگلوں میں آگ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طوفانوں اور مون سون کے موسم میں سیلاب اور پہاڑی تودے لوگوں کے گھروں اور زندگی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے وہ 2018 میں کاکس بازار آئے تھے اور تب سے اب تک اس کیمپ کے حالات میں خاصی بہتری آئی ہے تاہم مسائل اب بھی باقی ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
عالمی برادری سے اپیلسیکرٹری جنرل نے میانمار میں متحارب فریقین کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ وہ تشدد کو روکیں اور بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں کو تحفظ فراہم کریں اور کشیدگی میں اضافے سے گریز کریں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ میانمار اور بالخصوص اس کی ریاست راخائن کے حالات بدستور سنگین ہیں جہاں خطرات سے دوچار آبادیوں کو مسلح تنازع اور منظم مظالم سے تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔
عالمی برادری روہنگیا بحران سے منہ نہیں موڑ سکتی اور انہیں نظرانداز کرنا قابل قبول نہیں ہو گا۔ ان لوگوں کو بنگلہ دیش میں وقار سے رہنے کے لیے مدد کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ میانمار میں امن و انصاف اور روہنگیا کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے اور ان کے خلاف امتیازی سلوک اور مظالم کا خاتمہ کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔