کون سی خواتین ’فرشی شلوار‘ پہن سکتی ہیں، ماریہ بی نے بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بننے والی ’فرشی شلوار‘ کے فیشن پر وضاحتی ویڈیو جاری کرتے ہوئے خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی جسامت اور جسمانی خدوخال دیکھتے ہوئے فیشن کا انتخاب کریں۔
ماریہ بی نے مختصر ویڈیو میں پہلے سوال کیا کہ ’فرشی شلوار‘ کیا ہے اور کیا اسے ہر خاتون پہن سکتی ہیں؟
ویڈیو میں خود ہی ماریہ بی نے واضح کیا کہ ان کی نظر میں ’فرشی شلوار‘ کس طرح کی جسامت رکھنے والی خواتین کے لیے بہترین آپشن ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی عمر 45 سال سے زائد ہے، اس لیے ’فرشی شلوار‘ ان پر اچھی نہیں لگے گی، البتہ ان کی بیٹی 20 سال کی ہیں، ان پر شلوار اچھی لگے گی۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فیشن اور لباس کا انتخاب کرنے سے قبل ہر خاتون کو اپنی جسامت اور جسمانی خدوخال کو نظر میں رکھنا چاہیے۔
ان کے مطابق چھوٹے قد اور بھاری بھر کم خواتین پر بھی ’فرشی شلوار‘ اچھی نہیں لگے گی۔ ماریہ بی کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر فیشن ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا، ہر کسی کو اپنی شخصیت، اپنی جسامت،عمر اور خدوخال دیکھ کر فیشن کو اپنانا چاہیے۔
ان کی بات سے زیادہ تر افراد نے اتفاق کرتے ہوئے ان کی تعریفیں کیں اور لکھا کہ واقعی ہر لباس اور فیشن ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا۔
ان سے قبل فہد مصطفیٰ بھی اپنے رمضان شو میں ’فرشی شلوار‘ کے ٹرینڈ پر بات کر چکے تھے۔
فہد مصطفیٰ 14 مارچ کو نشر ہونے والے اپنے گیم شو ’جیتو پاکستان‘ میں فرشی شلوار پہن کر بھی آگئے اور انہوں نے گیم شو میں شریک مہمانوں اداکار اعجاز اسلم اور شعیب ملک سے بھی پوچھا کہ وہ فرشی شلوار کیوں نہیں پہن کر آئے؟
View this post on InstagramA post shared by maria b & fatima b (@_mariab_fatimab_)
فہد مصطفیٰ نے فرشی شلوار دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ شلوار سے ہوا بھی آتی ہے اور ان کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔
اس سے قبل چند دن پہلے فہد مصطفیٰ نے اسی گیم شو میں شائستہ لودھی سے پوچھا تھا کہ یہ ’فرشی شلوار‘ کیاہے؟ جس پر انہوں نے انہیں بتایا تھا کہ پرانے زمانے میں بڑے پانچوں والی جو شلواریں ہوتی تھیں، انہیں فرشی شلوار کہا جاتا تھا۔
اور اب ماریہ بی نے واضح کیا ہے کہ ’فرشی شلوار‘ ہر خاتون کے لیے مناسب نہیں، ہر خاتون کو اپنی جسامت اور جسمانی خدوخال دیکھ کر لباس پہننا چاہیے۔
View this post on InstagramA post shared by Dress decode (@dress.
مزیدپڑھیں:پشاور: مسجد کی دیوار کے قریب ہونیوالےد ھماکے میں زخمی ہونیوالے مفتی منیرشاکرانتقال کرگئے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ماریہ بی نے فرشی شلوار اپنی جسامت فہد مصطفی انہوں نے ہر خاتون کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
پلاسٹک اسٹرا، کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کاغذ سے بنی اسٹراز کا استعمال ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔ اس موقع پر ٹرمپ نے اسٹراز کے استعمال سے متعلق صورتحال کو ''مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ انہوں نے کئی بار کاغذی اسٹرا استعمال کی ہیں اور وہ ''ٹوٹ جاتی ہیں اور پھٹ جاتی ہیں۔
‘‘اس سے قبل امریکی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت وفاقی دفاتر میں ان اشیا کا استعمال مرحلہ وار طریقے سے ختم کیا جا رہا تھا جو 'سنگل یوز پلاسٹک‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ پلاسٹک سی بنی وہ اشیا ہوتی ہیں جنہیں صرف ایک بار استعمال کے بعد پھینکنا پڑتا ہے۔
تاہم ٹرمپ کے اسٹرا سے متعلق تازہ اقدام کے بعد یہ واضح ہے کہ اس پالیسی کی تعمیل رک گئی ہے۔
(جاری ہے)
ساتھ ہی کچھ حلقوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ یہ صورتحال پلاسٹک کے استعمال میں دوبارہ اضافے کا اشارہ ہو سکتی ہے۔برطانیہ کے کنگز کالج سے وابستہ اربن ویسٹ کے شعبے میں ماہر اور محقق رینڈا کاشیف بھی کچھ ایسا ہی سوچتی ہیں۔ ان کے بقول کاغذی اسٹرا کی بناوٹ میں خامی کو وجہ بناتے ہوئے امریکی صدر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ماحول دوست طریقے سے رہنے میں زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پلاسٹک اسٹرا کے نقصاناتلگ بھگ ایک دہائی قبل اسٹرا کا ذکر ہونے پر عین ممکن تھا کہ ہمارے ذہنوں میں تکالیف کا شکار جانوروں کا تصور آتا نہ کہ پھٹتی ہوئی کاغذ سے بنی اسٹرا کا۔ سن 2015 میں تو ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں ایک کچھوے کے نتھنے سے ایک پلاسٹک اسٹرا نکالی جا رہی تھی۔ اس کچھوے کے نتھنے سے خون نکل رہا تھا اور وہ بہت تکلیف میں تھا۔
بعد میں یہ ویڈیو پلاسٹک ویسٹ یا پلاسٹک سے پیدا ہونے والے کچرے میں کمی کے لیے ایک مہم کے آغاز کا سبب بھی بنی۔تب ہی سے پلاسٹک اسٹرا کو پلاسٹک کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی کے عالمی مسئلے کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس آلودگی سے سب ہی متاثر ہو رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق انسانی سرگرمیاں سالانہ 380 ملین ٹن پلاسٹک ویسٹ کی وجہ بنتی ہیں اور اس میں 43 ملین ٹن سنگل یوز پلاسٹک ہوتا ہے۔
اس کچرے کا بڑا حصہ ماحول میں آلودگی کی وجہ بنتا ہے، مثلاﹰ ایک اندازہ یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے ساحلوں پر موجود کچرے میں آٹھ بلین پلاسٹک اسٹرا شامل ہیں۔اس تناظر میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پلاسٹک کبھی بھی مکمل طور پر ڈی کمپوز نہیں ہوتا۔ اس کے چھوٹے ذرات پانی، مٹی، ہوا اور یہاں تک کہ ہمارے جسموں میں بھی پائے گئے ہیں۔
متعدد تحقیقات میں پلاسٹک کو تولیدی صلاحیت میں کمی اور کینسر جیسے امراض سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ پلاسٹک سے سمندر بھی آلودہ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے رینڈا کاشیف کا کہنا تھا کہ مختلف اندازوں کے مطابق وزن کے اعتبار سے اسٹراز سمندروں کو آلودہ کرنے والے پلاسٹک کا صرف ایک فیصد ہیں لیکن کیونکہ وہ سائز میں چھوٹی اور وزن میں ہلکی ہوتی ہیں تو انہیں جمع کر کے پانی سے صاف کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پلاسٹک اسٹراز نے اس سوال کا حل پیش کیا کہ 'پلاسٹک کے بحران‘ کو ختم کرنے کا آغاز کیسے کیا جائے۔ مثلاﹰ ماحولیات سے متعلق تشویش کے باعث حالیہ برسوں میں کئی امریکی شہروں اور ریاستوں، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا اور بھارت میں پلاسٹک اسٹرا کے استعمال کو محدود کیا گیا اور اس پر پابندیاں لگائی گئیں۔
یہی اقدام میکڈونلڈز اور اسٹار بکس جیسے برانڈز کی جانب سے بھی کیے گئے۔ایسے میں پلاسٹک سے بنی اسٹرا کے مختلف متبادل سامنے آئے، جیسے کاغذ، شیشے یا اسٹیل سے بنی اسٹرا۔ کاشیف کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی متبادل ''پرفیکٹ‘‘ نہیں لیکن سنگل یوز پلاسٹک تو ''بدترین آپشن‘‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سنگل یوز اسٹرا عموماﹰ پلاسٹک کی پولی پروپلین قسم سے بنی ہوتی ہیں، جسے عام طور سے ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔
بقول کاشیف، ''ہم نے آج تک جس بھی اسٹرا کا استعمال کیا ہے وہ (کسی نا کسی شکل میں) آج تک موجود ہے، یا تو کسی کچرا کنڈی میں یا ہمارے ماحول میں۔ اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوا ہو گا کہ اسے جلا دیا گیا ہو، جس کے فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔‘‘
ہولی ینگ (م ا/اب ا)