افغانستان کی عبوری حکومت میں اختلافات، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
افغانستان کی عبوری حکومت میں اختلافات سامنے آگئے ہیں، جس کی بنیاد پر وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی بم دھماکے میں مارے گئے، پاکستان کی مذمت
افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق سراج الدین حقانی کی جانب سے اپنا استعفیٰ افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ کو بھجوایا گیا جو انہوں نے منظور کرلیا۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ استعفے کی وجہ طالبان قیادت کے اندرونی اختلافات ہیں، اس کے علاوہ سراج الدین کی وزارت کی ذمہ داریوں سے طویل غیرحاضری بھی استعفے کی وجہ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق خواتین کے حقوق کے معاملے پر حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی مرکزی قیادت کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ابھی تک طالبان حکومت نے سراج الدین حقانی کے استعفے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں افغان حکومت کا خواتین کی تعلیم پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ
واضح رہے کہ سراج الدین حقانی نے گزشتہ افغانستان کے صوبہ خوست کا دورہ کیا تھا، اور نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد شہریوں سے ملاقات بھی کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اختلافات استعفی افغانستان سراج الدین حقانی عبوری حکومت مستعفی وزیر داخلہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اختلافات استعفی افغانستان سراج الدین حقانی عبوری حکومت مستعفی وزیر داخلہ وی نیوز سراج الدین حقانی میڈیا رپورٹس
پڑھیں:
قومی اسمبلی: دہشت گردی 2018ء کے بعد واپس آئی، وزیر مملکت داخلہ: افسوس حکومت ذاتیات پر اتر آئی، اپوزیشن
اسلام آباد (وقائع نگار) قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا ہے کہ 2018ء کے بعد کچھ ایسے فیصلے کیے گئے کہ دوبارہ دہشتگردی لوٹی، ان طالبان کو سیاسی فائدے کیلئے واپس لاکر بسایا گیا۔ بلوچستان میں وزیراعظم تشریف لے گئے۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے میں کوئی فرق نہیں، دونوں کے کیمپس ہمسایہ ملک میں ہیں۔ جمعہ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ فیشن بن گیا ہے کہ محسن نقوی پر تنقید کی جائے۔ پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے تنظیم سازی کی آوازیں لگائی گئیں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ تنظیم سازی کے لئے بنی گالا داخلہ لینا ہے۔ میں اس ہاؤس کا تقدس برقرار رکھنا چاہتا ہوں، ان سے پوچھ لیں تنظیم سازی پر بات کرنی ہے یا دہشت گردی پر۔ ایک بار پھر انہیں کہتا ہوں آئیں بیٹھیں بات چیت کریں۔ جبکہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر اے پی سی بلائی جائے۔ دہشت گرد اتنے طاقتور کیوں ہوگئے کہ انہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کردیا ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوگی تو سرمایہ کاری کیسے آئے گی۔ وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک منظور کرلی۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما عثمان بادینی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ کل بھی پسماندہ تھا آج بھی پسماندہ ہیں، 75سال سے مسئلے حل نہیں ہوئے۔ بلوچستان کے معاملے پر سیاست نہ کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما شیخ آفتاب نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر اے پی سی بلائی جائے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما سحر کامران نے کہا اتفاق رائے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا ہو گا۔ رکن اسمبلی زرتاج گل وزیر نے کہا خیال تھا وزراء آئیں گے، قوم کو اکٹھا کریں گے، مسافروں، سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں پر بہت دل دکھا ہے، آدھے درجن وزرائے داخلہ کے باوجود دہشتگردی تیز کیوں ہو رہی ہے، شہباز شریف منسٹر ایسے بناتے ہیں جیسے ریوڑیاں بانٹ رہے ہوں۔ جواب دینے کو تیار نہیں ہے، یہ منہ کھول کے پی ٹی آئی پر الزام لگا دیتے ہیں، افسوس بلوچستان کی بجائے ذاتیات پر بات کی گئی۔