کامران اکمل کے والد کے فارم ہاؤس سے نیا سولر پینل چوری
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
لاہور: سابق کرکٹر کامران اکمل کے والد کے فارم ہاؤس سے نئے سولر پینل کی چوری کی واردات ہوئی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہیر کے علاقے میں سابق کرکٹر کامران اکمل کے والد کے فارم ہاؤس میں چوری ہوئی ہے، چوروں نے فارم ہاؤس کے مرکزی دروازے کا کنڈا توڑا، اور اندر داخل ہو کر سولر اتار کر لے گئے۔
کامران اکمل کے والد نے اپنے بیان میں بتایا کہ فارم ہاؤس میں سولر سسٹم کل ہی لگوایا گیا تھا اور آج چوری ہو گیا۔
تنازعات کا شکار رہنے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر کامران فروری 2023 میں تمام طرز کی کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تھے، انھوں نے قومی ٹیم کے لیے اپنا آخری میچ 11 اپریل 2017 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا تھا جس میں وہ بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئے تھے۔
2002 میں زمبابوے کے خلاف ہرارے میں ٹیسٹ میچ سے ڈیبیو کرنے والے کامران اکمل نے پاکستان کی جانب سے 53 ٹیسٹ، 157 ون ڈے اور 58 ٹی 20 میچز کھیلے، جس میں انھوں نے بالترتیب 2648، 3246 اور 987 رنز بنائے ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کامران اکمل کے والد فارم ہاؤس
پڑھیں:
پاکستان: ایکس پر پابندی لیکن حکومتی عہدیداروں کو استثنیٰ؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر عائد کی گئی حکومتی پابندی کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس وقت دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی جب لاہور ہائیکورٹ نے ان تمام سرکاری شخصیات اور اداروں کی تفصیلات طلب کر لیں، جو بدستور ایکس استعمال کر رہے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے ایکس کی بندش کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی وزرات داخلہ سے رپورٹ طلب کر تے ہوئے کہا کہ بتایا جائے پابندی کے باجود کون سی سرکاری شخصیات اور ادارے ایکس کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے گزشتہ سال فروری میں انتخابات کے نزدیک یہ کہہ کر ماضی میں ٹوئٹر اور اب ایکس کہلائے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ منفی خبریں پھیلانے اور پراپیگنڈا کرنے کا ایک ہتھیار بنا چکا ہے اور شر پسند عناصر اس کے ذریعے ملک میں انتشار اور فساد پھیلا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت نے عوام کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور عام شہریوں کو اس تک رسائی کے لیے وی پی این کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور اب حکومت وی پی این پر بھی پابندی عائد کرنے کی کوششوں میں ہے لیکن دوسری طرف، تمام سرکاری مشینری کھلے عام اسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے عوام سے رابطے میں نظر آتی ہے۔
حتیٰ کہ وزیر اعظم، تمام وزراء اور بیوروکریسی بھی مسلسل ایکس استعمال کر رہی ہے۔ کئی پولیس افسران بھی اپنی سوشل پروفائلز کے ذریعے اس پلیٹ فارم پر اپنی سرگرمیوں کے بارے میں پوسٹیں کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر کسی ادارے یا پلیٹ فارم پر پاکستان میں پابندی عائد کی جاتی ہے، تو اس کے استعمال کی قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا پابندی کے شکار کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال پر صارف کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے یا کوئی ایسا قانون موجود ہے جو صارفین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دیتا ہو؟
اس بارے میں قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو کسی شخص کو ایکس یا کسی اور سوشل پلیٹ فارم کے محض استعمال پر مجرم قرار دے سکے۔
تاہم، اگر کوئی شخص جعلی خبریں پھیلانے، بے بنیاد منفی پراپیگنڈہ کرنے یا قابل اعتراض مواد پوسٹ کرنے میں ملوث پایا جائے تو اسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔معروف وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ایکس جیسے پابندی کے شکار کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کس قانون کے تحت اس پلیٹ فارم پر پابندی عائد کی گئی؟ لیکن اگر ہم صرف پابندی کے پہلو پر بات کریں، تو حکومت کسی کو اسے استعمال کرنے سے روک نہیں سکتی اور نہ ہی کسی کو مجرم قرار دے سکتی ہے۔‘‘وکلاء کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر حکومتی پابندی کے نتیجے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے استعمال پر کسی شخص کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے، تو خود سرکاری افسران اور ادارے بھی اس انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
تاہم، وہ اسے ایک اخلاقی سوال قرار دیتے ہیں، جو حکومت پر اٹھایا جانا چاہیے کہ وہ خود اسی پلیٹ فارم کو کیوں استعمال کر رہی ہے، جسے عوام کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے؟لاہور سے تعلق رکھنے والی معروف وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن رابعہ باجوہ نے کہا، ''ایکس کے استعمال کو جرم قرار دینے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں، لیکن یہ ایک اخلاقی سوال ضرور ہے کہ پوری حکومتی مشینری اور بیوروکریسی وہی پلیٹ فارم استعمال کر رہی ہے جسے انہوں نے عوام کے لیے بند کر رکھا ہے۔
بار بار کہا جاتا ہے کہ یہ پلیٹ فارم منفی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے، تو پھر حکومت اور اس کے عہدیدار اسے کس مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘اس سوال کا جواب شاید لاہور ہائی کورٹ کی آئندہ یعنی بیس مارچ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر مل سکے، جب حکومتی اداروں کی جانب سے ایکس کی بندش کے باوجود سرکاری شخصیات کی جانب سے اس کا استعمال جاری رکھے جانے سے متعلق ممکنہ طور پر جوابات عدالت میں داخل کرائیں گے۔