پلاسٹک اسٹرا، کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کاغذ سے بنی اسٹراز کا استعمال ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔ اس موقع پر ٹرمپ نے اسٹراز کے استعمال سے متعلق صورتحال کو ''مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ انہوں نے کئی بار کاغذی اسٹرا استعمال کی ہیں اور وہ ''ٹوٹ جاتی ہیں اور پھٹ جاتی ہیں۔
‘‘اس سے قبل امریکی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت وفاقی دفاتر میں ان اشیا کا استعمال مرحلہ وار طریقے سے ختم کیا جا رہا تھا جو 'سنگل یوز پلاسٹک‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ پلاسٹک سی بنی وہ اشیا ہوتی ہیں جنہیں صرف ایک بار استعمال کے بعد پھینکنا پڑتا ہے۔
تاہم ٹرمپ کے اسٹرا سے متعلق تازہ اقدام کے بعد یہ واضح ہے کہ اس پالیسی کی تعمیل رک گئی ہے۔
(جاری ہے)
ساتھ ہی کچھ حلقوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ یہ صورتحال پلاسٹک کے استعمال میں دوبارہ اضافے کا اشارہ ہو سکتی ہے۔برطانیہ کے کنگز کالج سے وابستہ اربن ویسٹ کے شعبے میں ماہر اور محقق رینڈا کاشیف بھی کچھ ایسا ہی سوچتی ہیں۔ ان کے بقول کاغذی اسٹرا کی بناوٹ میں خامی کو وجہ بناتے ہوئے امریکی صدر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ماحول دوست طریقے سے رہنے میں زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پلاسٹک اسٹرا کے نقصاناتلگ بھگ ایک دہائی قبل اسٹرا کا ذکر ہونے پر عین ممکن تھا کہ ہمارے ذہنوں میں تکالیف کا شکار جانوروں کا تصور آتا نہ کہ پھٹتی ہوئی کاغذ سے بنی اسٹرا کا۔ سن 2015 میں تو ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں ایک کچھوے کے نتھنے سے ایک پلاسٹک اسٹرا نکالی جا رہی تھی۔ اس کچھوے کے نتھنے سے خون نکل رہا تھا اور وہ بہت تکلیف میں تھا۔
بعد میں یہ ویڈیو پلاسٹک ویسٹ یا پلاسٹک سے پیدا ہونے والے کچرے میں کمی کے لیے ایک مہم کے آغاز کا سبب بھی بنی۔تب ہی سے پلاسٹک اسٹرا کو پلاسٹک کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی کے عالمی مسئلے کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس آلودگی سے سب ہی متاثر ہو رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق انسانی سرگرمیاں سالانہ 380 ملین ٹن پلاسٹک ویسٹ کی وجہ بنتی ہیں اور اس میں 43 ملین ٹن سنگل یوز پلاسٹک ہوتا ہے۔
اس کچرے کا بڑا حصہ ماحول میں آلودگی کی وجہ بنتا ہے، مثلاﹰ ایک اندازہ یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے ساحلوں پر موجود کچرے میں آٹھ بلین پلاسٹک اسٹرا شامل ہیں۔اس تناظر میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پلاسٹک کبھی بھی مکمل طور پر ڈی کمپوز نہیں ہوتا۔ اس کے چھوٹے ذرات پانی، مٹی، ہوا اور یہاں تک کہ ہمارے جسموں میں بھی پائے گئے ہیں۔
متعدد تحقیقات میں پلاسٹک کو تولیدی صلاحیت میں کمی اور کینسر جیسے امراض سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ پلاسٹک سے سمندر بھی آلودہ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے رینڈا کاشیف کا کہنا تھا کہ مختلف اندازوں کے مطابق وزن کے اعتبار سے اسٹراز سمندروں کو آلودہ کرنے والے پلاسٹک کا صرف ایک فیصد ہیں لیکن کیونکہ وہ سائز میں چھوٹی اور وزن میں ہلکی ہوتی ہیں تو انہیں جمع کر کے پانی سے صاف کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پلاسٹک اسٹراز نے اس سوال کا حل پیش کیا کہ 'پلاسٹک کے بحران‘ کو ختم کرنے کا آغاز کیسے کیا جائے۔ مثلاﹰ ماحولیات سے متعلق تشویش کے باعث حالیہ برسوں میں کئی امریکی شہروں اور ریاستوں، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا اور بھارت میں پلاسٹک اسٹرا کے استعمال کو محدود کیا گیا اور اس پر پابندیاں لگائی گئیں۔
یہی اقدام میکڈونلڈز اور اسٹار بکس جیسے برانڈز کی جانب سے بھی کیے گئے۔ایسے میں پلاسٹک سے بنی اسٹرا کے مختلف متبادل سامنے آئے، جیسے کاغذ، شیشے یا اسٹیل سے بنی اسٹرا۔ کاشیف کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی متبادل ''پرفیکٹ‘‘ نہیں لیکن سنگل یوز پلاسٹک تو ''بدترین آپشن‘‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سنگل یوز اسٹرا عموماﹰ پلاسٹک کی پولی پروپلین قسم سے بنی ہوتی ہیں، جسے عام طور سے ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔
بقول کاشیف، ''ہم نے آج تک جس بھی اسٹرا کا استعمال کیا ہے وہ (کسی نا کسی شکل میں) آج تک موجود ہے، یا تو کسی کچرا کنڈی میں یا ہمارے ماحول میں۔ اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوا ہو گا کہ اسے جلا دیا گیا ہو، جس کے فضائی آلودگی پھیلتی ہے۔‘‘
ہولی ینگ (م ا/اب ا)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پلاسٹک اسٹرا سنگل یوز ا لودگی اور اس
پڑھیں:
بڑا کارنامہ ، صرف 4 گھنٹے میں 90 فیصد زخم ٹھیک کرنے والا جِلد نما جیل تیار کرلیا گیا
جدید سائنسی تحقیق نے طب کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل عبور کرلیا ہے۔ فن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی اور جرمنی کی یونیورسٹی آف بائرُتھ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا حیرت انگیز شفایاب کرنے والا ہائیڈروجیل تیار کیا ہے جو صرف چار گھنٹوں میں 90 فیصد زخم کو ٹھیک کر سکتا ہے اور 24 گھنٹوں میں مکمل بحالی ممکن بنا دیتا ہے۔
یہ نیا جیل قدرتی انسانی جلد کی خصوصیات کو نقل کرتا ہے اور زخموں کی تیز رفتار شفا، مصنوعی جلد کی ترقی اور طبِ احیاء (Regenerative Medicine) میں ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
انسانی جلد قدرتی طور پر لچکدار، مضبوط اور خود کو ٹھیک کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے، لیکن سائنسی دنیا کے لیے اب تک ایسا کوئی مصنوعی مواد تیار کرنا مشکل رہا تھا جو ان تمام خصوصیات کو یکجا کر سکے۔ تاہم، اس تحقیق میں سائنسدانوں نے نانو شیٹ سے مزین پولیمر اینٹینگلمنٹ کا استعمال کیا، جس سے ایک منظم اور مضبوط ہائیڈروجیل تیار کیا گیا۔
یہ جیل عام ہائیڈروجیلز کے برعکس نہایت مضبوط اور منظم ڈھانچے پر مشتمل ہے، جس میں انتہائی باریک اور بڑے مٹی کے نینو شیٹس (Clay Nano-sheets) کو شامل کیا گیا ہے۔ اس عمل سے جیل میں موجود پولیمر کی زنجیریں آپس میں مضبوطی سے جُڑ جاتی ہیں، جس سے یہ نہ صرف زیادہ پائیدار بن جاتا ہے بلکہ خود کو دوبارہ مرمت کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لیتا ہے۔
یہ سائنسی دریافت مشہور تحقیقی جریدے ”نیچر مٹیریلز“ میں 7 مارچ کو شائع ہوئی ہے۔ تحقیق کے مطابق، یہ نیا ہائیڈروجیل اپنے انداز و ترکیب میں منفرد ہے کیونکہ عام طور پر مصنوعی جیل یا تو سخت ہوتا ہے یا پھر خود کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس جیل کی لچک اور مضبوطی اسے دوسرے عام ہائیڈروجیلز سے منفرد بناتی ہے، جو زخم بھرنے کے عمل کو تیز رفتار اور مؤثر بناتا ہے۔
تحقیقی مقالے کے مطابق، ’قدرتی بافتیں (Biological Tissues) مکینکی طور پر مضبوط اور سخت ہوتی ہیں لیکن پھر بھی خود کو مرمت کر سکتی ہیں، جبکہ مصنوعی ہائیڈروجیلز میں یہ صلاحیت اب تک نظر نہیں آئی تھی۔ ہماری نئی دریافت نے اس چیلنج کو حل کر دیا ہے۔‘
مستقبل میں ممکنہ استعمالات کے حوالے سے یہ جلد نما ہائیڈروجیل نہ صرف زخموں کی تیز رفتاری سے شفا میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے بلکہ ادویات کی ترسیل، نرم روبوٹکس اور مصنوعی اعضا جیسے جدید سائنسی شعبوں میں بھی انقلاب لا سکتا ہے۔
خاص طور پر، جل جانے والے مریضوں، سرجری کے بعد کی بحالی اور ذیابیطس کے مریضوں میں دیر سے بھرنے والے زخموں کے لیے یہ جیل ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے طبی علاج کے دورانیے میں نمایاں کمی آ سکتی ہے اور مریضوں کو جلد صحت یابی کا موقع مل سکتا ہے۔
یہ نئی سائنسی پیش رفت طب کی دنیا میں ایک نئے دور کی شروعات ثابت ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں کی یہ ایجاد ہمیں مستقبل میں ایسے انقلابی طبی حل فراہم کر سکتی ہے جو نہ صرف علاج کو مؤثر بنائیں گے بلکہ مریضوں کی زندگی کو بہتر اور آسان بھی بنائیں گے۔ بلاشبہ یہ ایک زبردست سائنسی کامیابی ہے۔