Daily Ausaf:
2025-03-15@14:17:41 GMT

پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا تنازع کئی دہائیوں پر محیط ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں پانی کی قلت اس خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے نظام کی پیچیدہ نوعیت، آبادی میں تیزی سے اضافہ، موسمیاتی تبدیلی، اور سیاسی اختلافات اس تنازعے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پانی کے تنازعے کی جڑیں تقسیم ہند سے جڑی ہیں۔ 1960 ء میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں (دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس اور ستلج)دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)کا کنٹرول ہندوستان کو دیاگیا۔ مغربی دریائوں (جہلم، چناب، سندھ)پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، لیکن ہندوستان کو محدود مقدار میں ’’غیر استعمالی‘‘ مقاصد(جیسے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس) کے لئے پانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ معاہدہ عالمی سطح پر کامیاب سمجھا جاتا ہےکیونکہ اس نے 1965 ء اور 1971ء کی جنگوں کے باوجود دونوں ممالک کو پانی کے تنازعات پر بات چیت کا پلیٹ فارم فراہم کیا ۔
سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا، جس میں عالمی بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کی معاون دریائوں کے پانی کے تنازعے کو حل کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دریائوں کے پانی کی تقسیم کی گئی تھی جس کےمطابق مشرقی دریاؤں دریائےراوی، بیاس، اور ستلج ہندوستان کے حصے میں اور مغربی دریاؤں ،دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کو مکمل اختیارحاصل ہوگیااور اس طرح طاس سندھ معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ معاہدے کے مطابق، بھارت مغربی دریاؤں کے کچھ پانی کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ پاکستان کے لیے مختص پانی کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔
ہندوستان کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)پر مکمل کنٹرول دیاگیا، وہ ان دریاؤں پر بندبناسکتا ہے، پانی ذخیرہ کرسکتا ہےیازرعی استعمال کرسکتا ہے۔ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب)پر ہندوستان کو محدود استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جیسے آبپاشی، پن بجلی اور گھریلو ضروریات کےلئے،بشرطیکہ اس سے پاکستان کے حصے میں پانی کی مقدار متاثر نہ ہو، مثلا ًبجلی پیدا کرنے کےلئے ’’رن آف دی ریور‘‘ہائیڈرو پاور منصوبے، لیکن پانی کو روک کرذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ ہندوستان ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ تنازعات کو حل کرنے کے لیے سنیارٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اگر یہ کمیشن مسئلہ حل نہ کر سکے تو عالمی عدالت انصاف یا ثالثی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کے پانی کا موڑنے کے دعوے کے مطابق ہندوستان نے مشرقی دریاؤں(راوی، بیاس، ستلج)پر اپنےحقوق کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ڈیم اور نہری نظام بنائے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان تک پانی کی مقدار کم ہوئی ہے۔ تاہم، ہندوستان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہیں ۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت نے مغربی دریاؤں پر متعدد ڈیم اور بیراج تعمیر کئے ہیں، جن میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ پاکستان کو ان منصوبوں پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتا ہےکہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں اور اس سے اس کے پانی کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
موجودہ تنازعات کے محرکات میں سب سے اہم ہندوستان کے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے ہیں۔ ہندوستان دریائے چناب اور جہلم پر متعدد ڈیمز اور ہائیڈرو پاور پلانٹس بنارہا ہے، جنہیں پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ نمایاں مثالوں میں شامل ہیں۔ ہندوستان نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان نے اعتراض کیا کہ ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھارت پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ عالمی ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے لیکن اسے پاکستان کے لئے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا جس پر 2007 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو ڈیم کی اونچائی کم کرنے کاحکم دیا۔اس کے ساتھ ہی بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے نیلم (جسے بھارت میں کشن گنگا کہا جاتا ہے)پر تعمیر کیا۔ پاکستان کامؤقف ہے کہ کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ منصوبہ دریائے جہلم کے بہاؤ کو روک کر اس کے زرعی نظام کو متاثر کررہا ہے اور پاکستان نے یہ بھی اعتراض کیا کہ اس منصوبے سے دریائے نیلم کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے،جو آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاقوں کو متاثر کرے گی۔ پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا،2013 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت دی، لیکن پانی کی ایک خاص مقدار پاکستان کو فراہم کرنے کی شرط عائد کی۔ تاہم بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا اور پاکستان کو پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی کورٹ میں بھارتی رتل ہائیڈرو الیکٹرک کے خلاف بھی کیس دائر کر رکھا ہے۔یہ ڈیم دریائے چناب پر تعمیر کیا جا رہا ہے، اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس سے پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہے، جبکہ پاکستان اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔بھارت نے دریائے راوی اور بیاس کے پانی کو اندرا گاندھی نہر کے ذریعے اس کے پانی کا رخ راجستھان کی طرف موڑدیا ہے اور دریائے ستلج پربھاکڑاڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرتے ہوئے اس کی تعمیر کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی دریاؤں پر ہندوستان نے کئی متنازعہ منصوبے شروع کئے ہیں جو پاکستان کے خدشات کا باعث بنے ہیں، مثلاً ہندوستان کا مؤقف ہے کہ اس نے مشرقی دریائوں (راوی، بیاس، ستلج)کا پانی اپنی طرف موڑا ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: معاہدے کی خلاف ورزی ہائیڈرو پاور ہندوستان کے ثالثی عدالت ہندوستان کو پاکستان کے پاکستان نے پاکستان کو سے پاکستان استعمال کر معاہدے کے اس معاہدے کشن گنگا کی اجازت بھارت نے پانی کے کے بہاو سکتا ہے پانی کو پانی کی پانی کا کے پانی اور اس کے تحت

پڑھیں:

وہ واحد چیز، جس میں پاکستان ہندوستان سے آگے نکل گیا! فہرست میں نمبر دیکھ کر حیران نہ ہوں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہندوستان کی ہوا ہی آلودہ ہو رہی ہے تو یہ خبر آپ کو حیران کر سکتی ہے! پاکستان اب دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک بن گیا ہے۔ سوئس ایئر ٹیکنالوجی کمپنی IQAir کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ لوگوں کے لیے سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ اس فہرست میں چاڈ ٹاپ پر ہے جبکہ بنگلہ دیش دوسرے نمبر پر ہے۔

گزشتہ سال پاکستان میں آلودگی کی سطح اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اسے ‘آفت’ قرار دینا پڑا تھا۔ خاص طور پر پنجاب میں حالات کافی سنگین ہو گئے تھے۔ اس زہریلی ہوا کی وجہ سے تقریباً 20 لاکھ لوگ بیمار ہو کر علاج کے لیے اسپتال پہنچے۔ حکومت نے آلودگی سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا اور اسکول بند کر دیے، لیکن صورتحال قابو میں نہ آ سکی تھی۔

ڈبلیو ایچ او کے معیارات سے 15 گنا زیادہ آلودہ ہے پاکستان کی ہوا
IQAir کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں PM2.5 (2.5 مائیکرون سے چھوٹے آلودگی والے ذرات) کی سطح 73.7 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک پہنچ گئی، جو کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی جانب سے مقرر کردہ محفوظ سطح سے 15 گنا زیادہ ہے۔ یہ وہی خطرناک ذرات ہیں جو سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

ہندوستان اور دیگر ممالک میں کیا حال ہے؟
IQAir کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان اس فہرست میں 5ویں نمبر پر ہے۔ نئی دہلی کو دنیا کا سب سے آلودہ دارالحکومت قرار دیا گیا، اس کے بعد چاڈ کا دارالحکومت N’Djamena اور پھر بنگلہ دیش کا دارالحکومت ڈھاکہ ہے۔ ہندوستان کے کئی شہر بھی شدید آلودگی کی لپیٹ میں ہیں۔

جنوبی ایشیا میں پاکستان کی صورتحال تشویشناک
جنوبی ایشیا میں پاکستان آلودگی کے لحاظ سے بنگلہ دیش کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق لاہور، ملتان، پشاور اور سیالکوٹ جیسے شہر سب سے زیادہ آلودہ ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں جن میں لکڑی اور کچرا جلانا، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں کا دھواں، اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والا دھواں اور تعمیراتی کام سے اڑنے والی گردوغبار شامل ہیں۔
مزیدپڑھیں:’ اسلام قبول کرنے سے جو سکون ملا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا‘

متعلقہ مضامین

  • صدر زرداری کا خطاب
  • دریاؤں اور آبی ذخائر کی صورتحال سامنے آ گئی
  • سندھ حکومت دباؤ کے آگے ڈھیڑ،دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی سے منظور
  • سندھ کو پانی کم ملے گا تو کراچی کو بھی کم ملے گا، جماعت اسلامی
  • صدر آصف زرداری نے کسی کینال کی منظوری نہیں دی، جام خان شورو
  • وہ واحد چیز، جس میں پاکستان ہندوستان سے آگے نکل گیا! فہرست میں نمبر دیکھ کر حیران نہ ہوں
  • سندھ کو پانی کم ملے گا تو کراچی کو بھی کم پانی ملے گا، محمد فاروق
  • دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش
  • دریائے سندھ سے نہریں نکالنے پر پی پی قیادت ڈرامہ کررہی ہے، آفاق احمد