کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستانی شہریوں کو پرکشش ملازمتوں کے جھانسے میں ایشیائی ملک کمبوڈیا بلوا کر بڑا فراڈ کیا جارہا ہے اور کئی سو پاکستانی کئی ماہ سے یرغمال اور پرتشدد کاروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی نعمان صدیقی نے اس نمائندے کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر کمبوڈیا میں آئی ٹی سیکٹر، کال سینٹرز، انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل شعبوں کی پرکشش ملازمتوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔

خاص کر امارات، سعودیہ سمیت خلیجی ممالک میں بھارتی ایجنٹ پاکستانی نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔ ایک سے دو ہزار ڈالرز میں کمبوڈیا میں اچھی ملازمتوں کا لالچ دیا جاتا ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق لاہور اور کراچی میں بھی نوجوانوں کو ورغلا کر اس روٹ پر بھیجا جارہا ہے۔ خاتون سمیت 20 سے زائد افراد گزشتہ ہفتوں میں کمبوڈیا سے ایمرجنسی دستاویزات پر ڈی رپورٹ کیے گئے۔

اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی کے ایس ایچ او سہیل محمود شیخ نے اس نمائندے کو بتایا کہ خاتون سمیت 20 افراد سے پوچھ گچھ کے بعد اب تک 14 انکوائریز اور دو مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پرکشش ملازمتوں کے لالچ میں کمبوڈیا پہنچے نوجوانوں سے پاسپورٹ ضبط کر لیے جاتے ہیں اور انہیں کمبوڈیا کے نواحی علاقوں میں جبری مشقت، غیرقانونی کاموں خاص طور پر ڈبہ کال سینٹرز میں کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کئی پاکستانی ان مشقت کی جگہوں سے فرار ہوئے اور سفارتخانے سے رابطہ کرکے ڈی پورٹ ہوئے۔

ان شکایات پر پاکستانی مشن کی شکایت پر دو ہفتے قبل مقامی انتظامیہ نے آپریشن کرکے 100 سے زائد پاکستانیوں کو ایسے سینٹرز سے بازیاب کرایا ہے تاہم شہروں سے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد مبینہ طور پر یرغمال اور مشقت پر مجبور ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد پنجاب سے تعلق رکھتی ہے۔ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ اس تمام دھندے میں کراچی یا لاہور میں موجود بعض غیرملکی بھی ملوث ہیں جن سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پرکشش ملازمتوں نے بتایا کہ

پڑھیں:

سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد طلبہ و طالبات نے بتایا کہ ان کے لیے امریکہ سے آنے والی سفری پابندیوں کی اطلاعات کافی پریشان کن ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ امریکی ویزے کے حصول میں مزید سختی ان کے تعلیمی کیرئر کو متاثر کر سکتی ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل اسما نامی ایک طالبہ کا امریکہ کی ایک ممتاز یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ہے۔

اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ اس داخلے کو کنفرم کرنے کے لیے فیس کی بھاری رقم ادا کردے اور بعد میں اسے ویزہ نہ مل سکے تو اس کے پیسے ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے۔

انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے کنسٹرکشن مینجمنٹ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان عبدالحنان کو امریکی ریاست مشی گن کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر سے پی ایچ ڈی کے لیے رضامندی مل گئی تھی اور اس کا اسکالرشپ پر امریکہ جانے کا پراسس جاری تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ اس کے منصوبے کی فنڈنگ کم ہو گئی ہے ابھی کچھ اندازہ نہیں کہ انہیں سکالرشپ مل سکتی ہے یا نہیں۔

(جاری ہے)

ہنرمند افراد کے لیے امریکی شہریت کا وعدہ

عناب نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ اس کا اعلٰی تعلیم کے لیے اس سال امریکہ جانے کا ارادہ تھا لیکن کسی بے یقینی سے بچنے کے لیے اُس نے اپنے ایڈوائزر کو دوسرے ملکوں میں اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عناب نے بتایا کہ نیویارک میں زیر تعلیم اس کے ایک جاننے والے طالب علم نے اس عید پر اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے پاکستان آ نا تھا لیکن اس کی یونیورسٹی نے ایک ای میل کے ذریعے اس پاکستان جانے سے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ ابھی امریکی حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے۔

اگر وہ پاکستان چلے گئے تو ہو سکتا ہے کہ ان کو دوبارہ واپس آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور اس کا تعلیمی ہرج ہو جائے۔ امریکہ میں موجود فاطمہ نامی ایک پاکستانی طالبہ نے بتایا کہ کئی پاکستانی طالب علم عید کے بعد شادیوں یا دیگر فیلمی فنکشنز میں شرکت کے لیے پاکستان آنا چاہتے تھے لیکن اس صورتحال میں انہوں نے اپنے ٹکٹ کینسل کروا دیے ہیں۔

عرفان نامی ایک پاکستانی فلوریڈا میں مقیم ہے اس کا خیال ہے کہ اب اس کے عزیزوں کے لیے امریکہ آنا آسان نہیں ہوگا۔ یاد رہے چند روز پہلے 'رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روکا جائے گا۔ اس کے بعد 'نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانیوں کے سفر پر مکمل پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن ویزوں کے لیے درخواست دیتے وقت انہیں 'مزید جانچ پڑتال‘ سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکہ میں پاکستانی سفارت خانہ اس سلسلے میں معلومات کے حصول کے لیے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے رابطے میں ہے۔

امریکی ویزہ پروگرام مزید مشکل، بھارتی کمپنیاں متاثر ہوں گی

پاکستان کے دفتر خارجہ میں امریکی ڈیسک پر کام کرنے والے ایک سینئر افسر نے اپنا نام، ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس ضمن میں حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

کیونکہ ابھی تک پاکستان کو امریکہ کی طرف سے باضابطہ طور پر اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ ان کے بقول یہ بات درست ہے کہ امریکہ کچھ ملکوں کے لیے سفری پابندیاں سخت کرنے کے لیے اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے۔

دفتر خارجہ کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد پولیس کا محکمہ اور امن و امان کا بنیادی شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے۔

اس لیے ویزے کے اجرا سے پہلے جب سفارت خانے پولیس سرٹیفکیٹ منگواتے ہیں تو ایک صوبے کی رپورٹ آ جاتی ہے کہ اس آدمی کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ہے لیکن اس بات کا امکان بھی تو ہو سکتا ہے کہ ویزے کے متمنی شخص نے کسی دوسرے صوبے میں کوئی جرم کیا ہو۔ ان کے بقول امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پولیس ریکارڈ سنٹرلائزڈ ہو جہاں سے کسی بھی شخص کی مناسب ویریفیکیشن ہو سکے۔

خطے میں امن کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری جاری رہے گی، شہباز شریف

بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لیے مختلف ملکوں میں جانے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایک سینئر کنسلٹنٹ حافظ حیدر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکہ میں پاکستانیوں کے داخلے پر عائد کی جانے والی قدغنوں کی وجہ سے صورت حال کافی غیر یقینی ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق امریکی یونیورسٹیاں پاکستان کے ہائی اچیورز کو سکالرشپ دیتی ہے۔ جس پر پاکستانی بچے امریکہ پڑھنے جاتے ہیں۔ اب حال ہی میں یہ ہو گیا ہے کہ اب کئی بچے اسکالرشپ ملنے کے باوجود بھی امریکہ جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

حافظ حیدر علی نے بتایا کہ وقتی طور پر اس صورتحال میں پاکستانی بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا لیکن اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اب ہمارے بچے جاپان اور چین سمیت نئی جگہوں پر اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کر سکیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس صورت حال میں پاکستان سے ہونے والا برین ڈرین رک جائے گا ، حافظ حیدر علی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ ذہین بچے پاکستان میں رک کر ملک کی ترقی میں حصہ لیں کیونکہ یہاں کا نظام پڑھے لکھے محنتی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا۔

یو ایس ایڈ بند ہونے سے پاکستان میں لاکھوں متاثر ہوں گے

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی چند دن پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کرنے پر پاکستان کی تعریف کی ہے لیکن اگر امریکہ پاکستانیوں کا امریکہ میں داخلہ یک طرفہ طور پر بند کر دے گا تو اس سے بہت غلط سگنل جائے گا۔

ان کے بقول پاکستان سے امریکہ جانے والے لوگوں کی تعداد پہلے ہی کم ہے اور یہاں سے جانے والوں کو کڑی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستانیوں کے لیے سخت ترین پابندیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کمبوڈیا: پرکشش ملازمتوں کا جھانسہ دیکر پاکستانیوں سے فراڈ کا انکشاف
  • کمبوڈیا میں کارروائیوں میں 100 سے زائد پاکستانی مافیاز سے بازیاب، حکام
  • برٹش پاکستانی چوہدری شفق محمد، ہاؤس آف لارڈز کے تاحیات رکن بن گئے
  • سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟
  • متحدہ عرب امارات جانے پر پاکستانیوں کو پابندی کا سامنا، اصل معاملہ کیا ہے؟
  •   یو اے ای کی پاکستانیوں کیلئے ویزا اجرا پر پابندی  کی خبروں کی حقیقت سامنے آگئی، وزارت خارجہ کی تردید
  • کراچی: کورولا کار گینگ سرگرم، پیپلزبس کو یرغمال بنا کر 11 لاکھ روپے لوٹ لیا
  • 3 سال بعد پہلا مکمل چاند گرہن،کب اور کیا پاکستانی دیکھ سکیں گے؟جانیں
  • 54کروڑ کی خورد برد کا الزام: پاکستانی ماڈل نادیہ حسین کے شوہر کے ہمراہ شریک ملزم کی ضمانت منظور​​​